New Age Islam
Sat May 17 2025, 04:29 AM

Urdu Section ( 21 Aug 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A National Unity without Leadership قیادت سے محروم ایک قومی وحدت

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

18 اگست،2023

ہندوستان کے سابقہ ۷۵ ؍سالوں کو پیش نظر رکھ کرآپ میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک مکالمے کا آغاز کر رہا ہوں۔ اگر جڑ کو چھوڑ کر تنوں اور شاخوں میں الجھے رہیں گے تو سرا کبھی ہاتھ ہی نہیں آئے گا۔متعدد حلقوں میں یہ گفتگو اب عام ہے کہ ہمارا  ایک قائد ہو، اپنی سیاسی جماعت ہو، اس کا اپنا ایک منشور ہو، پوری قوم اس کے ساتھ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوتوہم میدان مار لیں گے۔

 وہ میدان کیا ہے؟ اس میں پوشیدہ مقصد و مقصدیت کیا ہے؟ کیا اس  وطن عزیز میں ترقی کے مواقع کی فراہمی سے فائدہ اٹھانے میں جو دقتیں آرہی ہیں ان کا تدارک درکار ہے؟ کسی مخصوص سیاسی، سماجی و ثقافتی تبدیلی نے پریشان کر رکھا ہے؟ قانون ساز اداروں میں نمائندگی کا برائے نام اور بے اثر ہونا پریشان کر رہا ہے؟ معاشرے و معاشرت کا گدلا پن اور اس میں بڑھتی فرقہ واریت یا منافرت کسی ذہنی اضطراب میں مبتلا کر رہی ہے ؟ ماحول میں آئی تنگ دامنی معمولات زندگی کےعمل کو مشکل بنا رہی ہے؟ کیا نفس و نفسیات میں خوف و ہراس گھر کر رہا ہے؟ یا پھر کسی ایسی ہیجانی کیفیت نے آپ کو مخصوص نفسیاتی کرب میں مبتلا کر رکھا ہے؟ ان چند سوالات کی روشنی میں‘ میں آگے بڑھوںگا۔اندرون ملت ذمہ داران، ادارے، تحریکیں ، شخصیات اور اہل نظر زندگی کےکسی بھی میدان میں فیصلہ کن و نتیجہ خیز قیادت کے متحمل دکھائی دے رہے ہیں؟ بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ چند افراد اور ان کے گرد کچھ تنظیمیں و ادارے ہیں جن کا مخصوص شعبہ زندگی میں محدود اثر و رسوخ ہے۔ البتہ سرکاری امور، فیصلہ سازی اور مہذب معاشرے پر ان کا اپنا اثر یا کوئی خاطر خواہ دبائو کہیں دکھتا ہو ایسا بھی نہیں ہے۔ کسی کے پاس کوئی وژن ہو جس میں قومی و ملی مفادات میں اشتراک و ترجیحات کی کوئی واضح شکل موجود ہو، ایسا بھی کہیں کچھ نہیں ہے؟ ۷۵ ؍برس میں مسلمانان ہند یا ان کی انفرادی، اجتماعی ،ادارہ جاتی دینی و عصری قیادت ۲۵؍ کروڑ کی زبردست وحدت کو ایک وژ ن نہیں دے پائی ہے Trial and error کی بنیاد پر معذرت کے ساتھ  ہاتھ پیر مارے اور چلائے جا رہے ہیں۔

 کچھ بےلوث ملک و ملت کے دیوانے رضاکارانہ طور پر کہیں مستقل بنیادوں پر اپنا فرض ادا کر رہے ہیں اور فعال بھی ہیں ‘ان کو سلام تحسین! ایک تھنک ٹینک کی شکل میں کوئی منظم و مربوط تسلسل کے ساتھ کوئی نظم و نظام ہم قائم کر پائے ہوں یا رکھتے ہوں ایسا بھی کہیں نہیں ہے۔ جب کچھ طبیعت پر گراں گزرنے جیسا ماحول بنتا دکھائی دیتا ہے یا بن جاتا ہے توکچھ لوگ دوسروں کےسہارے اور ان ہی کےوسائل سے’’ملت کے جذبے‘‘سے سرشار ہوکر’’ میدان عمل‘‘ میں ابلتے پانی کی طرح جو چند لمحات میں جھاگ بن کر فضا میں ضم اور غائب ہوجاتا ہے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے عارضی قائدین ملت کا ایک جم غفیر ہے جو ارباب اقتدار کو ہر دور میں ہمیشہ دستیاب رہتا ہے ،اس کی کبھی کوئی کمی نہیں! کچھ خالص مسلم سیاسی جماعتیں ہیں جن کااپنا حلقہ اثر ہے، عوام میں بھی پکڑ ہے، ان کا مقامی و علاقائی سیاست میں کچھ عمل دخل بھی دکھائی دیتا ہے، کچھ تجربے ہیں جن کے مثبت و منفی پہلوؤں پر گفتگو ہو سکتی ہے۔

بھارت کی کل آبادی کا ۸۰؍ فیصد سناتن اور دراوڑین ہندو اکثریت پر مبنی ہے‘اس کی اپنی سات ہزار سالہ تاریخ، تہذیب، اقدارو روایات ہیں، اس مدت میں لگ بھگ آٹھ سو برس کئی بیرونی وحدتوں نے اس ملک پر قبضہ کیا اور اپنے مذہب، ترجیحات و توجیہات کے مطابق یہاں حکو مت کی، معاملات و معاشرت کو چلایا۔ مسلم حکمرانوں کا دور طویل ترین ہے بقیہ کا نسبتاً” کم! تاریخ جہاں پیچھے چند خوبصورت تاریخی عمارات، باغات، تعمیر و تفریح کی کچھ یادیں اور کچھ دیگر کھٹی میٹھی کہانیاں چھوڑ جاتی ہے ،وہیں ایسا بھی کچھ رہ جاتا ہے جو سابقہ محکوم اور آج کے حاکم کے نفس و نفسیات میں چبھتا رہتا ہے اور وہ آپسی رشتوں میں باہمی اعتماد و بھروسے کو مربوط و مضبوط بنیادوں پر کبھی استوار ہی نہیں ہونے دیتا۔

مسلمانان ہند ایک منفرد تاریخ کے حامل ہیں۔ انھوں نے خود تو اس ملک پر ایک دن بھی حکومت نہیں کی مگر جنھوں نے کی ان کا مذہب وہی تھا جو مسلمانان ہند کا ہے۔ سوال آج ۲۵ ؍کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کا ہے جن کے متعلق اکثریت میں ایک مخصوص ذہن بن چکا ہے جس سے ایک فطری تعصب جنم لے رہا ہے اور وہ اب پروان چڑھ گیا ہے۔ اگر اس کو حکمت سے ڈیل نہ کیا گیا تو فرقہ واریت اور منافرت کا زہر کہاں لے جا کر چھوڑے گا میرے سامنے وہ کرب بھی ہے اور منظر بھی!

مذہب کی بنیاد پر ملک تقسیم ہوا مگر زمین پر جو تبدیلی وجود میں آئی اس نے فضا کو اور مکدر کردیا جس کو حل بتایا گیا وہ فتنہ ثابت ہوا اور آج تک ڈنک مار رہا ہے اور ڈس رہا ہے۔ سابقہ سات سے زیادہ دہائیوں میں باہم تعلقات میں حلاوت کے لئے تو کچھ خاص دکھتا نہیں البتہ نفرت اور خلیج کے اضافے کے لئے زمین روز بروزبڑھتی ہی جا رہی ہے۔ یہ نکتہ قابل غور و فکر نہیں ہے کیا؟

ایسے میں اب ان سوالوں کے جواب جو میں نے اوپر اٹھائے ہیں میری بنا کسی تفسیر یاتشریح کے آپ کو سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ مجھے بتائیں کہ کیا کہیں کوئی منظم، معتبر شخصیت جس میں مطلوبہ استقلال، استقامت، بردباری اور علم و ادراک کا اجماع ہو ایسا کوئی چہرہ آپ کو اپنے ما بین دکھائی دیتا ہے؟ مجھے تو نہیں نظر آتا جو اس مشکل وقت میں آپ کی رہنمائی کا متحمل ہو؟ شعلہ بیانی، دھواں دار تقریریں، بیانات، کچھ عارضی نوعیت کی پہلیں اور بڑی بڑی باتیں اوربس۔

قائد کیسا ہونا چاہئے؟ اکثر یت و اقلیت کی نفسیا ت کو سمجھتا ہو، تاریخ ، تہذیب و تمدن، اقدارو روایات پر اس کی گہری نظر ہو، عوام و خواص کی توقعات، فکری جہت سے وہ بخوبی واقف ہو، مسلم اقلیت کے حوالے سے دین اور اسوۂ حسنہ کی اس کو پوری سمجھ ہو، مطالعے و مشاہدے کا عادی ہو، تجزئے کی صلاحیت اس میں بدرجہ اتم موجود ہو، قومی، علاقائی و بین الاقومی امور، سیاست، سفارت کاری، تبدیلیوں کو پڑھ سکنے، ان کی باریکیوں کو اپنے مفادات میں تبدیل کرنے کا متحمل ہو، اردو، ہندی اورانگریزی تینوں زبانوں پر اسے عبور ہو، صاحب رائے ہو اور بر وقت فیصلہ لینے کی صلاحیت و مہارت رکھتا ہو، عوام کو جس کی نیت و اخلاص پر بھروسہ ہو اور اس کی آواز پہ پوری قوم کھڑی ہوتی ہو ایسا کہیں کوئی ہے۔ قومی مفادات، ترجیحات و توجیہات کے معاملے میں اسکے موقف صاف اور شفاف ہی نہ ہوں بلکہ ہر طرح کے ابہام سےپاک ہوں۔ ایسا کہیں کوئی ہے؟ یہ نکتہ قابل غور ہے۔ ملت فروشی اور ضمیر فروشی کےجو فتوے ہمارے یہاں بڑی فراخی سے جاری ہوتے ہیں کیا ہندوستان کی کسی دیگر وحدت میں ایسا کہیں دیکھا یا سنا؟ ایسے احساس کمتری کے مارے ہوئے، علم اور علمیت، سیاسی پیچ و خم کی سمجھ نہ رکھنے والے تو بس کچھ زیبائشی و نمائشی کام ہی کر سکتے ہیں۔ کتنے تو لا ئزننگ کا کام پوری تندہی سے کرتے ہیں اور کر رہے ہیں کل، آج اور کل کی سمجھ سے غافل ملت کے نام پر یہ نجی فائدہ اٹھانے والے سیاست دان سیاسی جماعتوں کو بھی’ سوٹ‘ کرتے ہیں۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو کیا سچر کمیٹی ہوتی، آپ قومی معاشرے میں سب سے پچھڑے ہوئے تو نہ ہوتے، جیلوں میں آبادی سے کہیں زیادہ نمائندگی اور ملک کی ترقی اور ترقی کے عمل میں ماشاءاللہ! ہر وقت مطالبہ، رعایت، وظائف، شکایت، تنقید و تنقیص یا سازش کا رونا! یہاں تک کہ ہر معاملے میں پھیلا ہوا ہاتھ یہ سب بہت تلخ ہے مگر حقیقت و حقائق پر مبنی ہے۔ منطق اور حالات کا تقاضہ ہے کہ ہر وقت مسلمان بن کر سوچنا بند کرنا ہوگا۔ جتنا ضروری ہے بس اتنا! قومی مسائل اور امور میں دلچسپی بڑھانی ہوگی، اپنی صفوں، تنظیموں ، تحریکوں کو قومی مزاج سے ہم آہنگ کرنا ہوگا ۔اکثریت اور اپنے مزاج و نفسیات کےبیچ میں پل بنانے ہوں گے۔ سیاست کو کچھ وقت کے لئے پیچھے کرنا ہوگا اور معمولات زندگی میں اشتراک عمل کو جگہ دینے کے لئے اندرون و بیرون ملت زمین بڑھانی ہوگی ۔اپنی ہرشناخت کو اگر ہم اسلام اور مسلمان سے جوڑ کر چلیں گے تو پھر اکثریت اگر اس راستے پر چل پڑے تب ہم کہاں کھڑے ہونگے؟

وطن عزیز بھارت کی ایک وحدت کےطور پر ہم کو اپنا وجود تراشنا ہوگا جس سے ہم ابھی تک غافل رہے ہیں۔ سیاستداں آپ کے کندھوں پر ایک بار پھر لڑنے کی تیاری میں ہیں۔ بکرے کی قربانی سے پہلے پھر اسے پانی پلایا جا رہا ہے۔ اس بار تو ذرا ہوشیار رہئے! ہر چیز کا شور اور پبلسٹی بند کرئیے۔ ملک میں رہ رہی تمام وحدتوں کےطرز عمل، طرز تکلم اور طرز ترقی پر نظر رکھئے ۔بالکل اس طرح جس طرح پورے مسلم دور اقتدار میں ہمارے برادران وطن نے اپنی زبان، عقیدے، تہذیب و تمدن، عبادات و اخلاقیات کو بچایا۔تعداد بھیڑ کی طرح ہوتی ہے اور چھوٹی معیاری اقلیت دنیا کی سپر پاور کو بھی اپنے اشاروں پر گھما لیتی ہے۔ تنقید بڑی آسان ہے صفوں کو درست کریں بیماری بھی یہیں ہے اور اس کا علاج بھی!

18اگست،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/national-unity-leadership/d/130487

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..