New Age Islam
Sun May 18 2025, 07:14 PM

Urdu Section ( 5 Jan 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Nation and Nationalism in India بھارت میں راشٹر واد اور راشٹرواد میں بھارت

مولانا عبدالحمید نعمانی

2 جنوری،2023

راشٹرواد (قومیت و وطنیت) کامسئلہ ایک عالمی مسئلہ ہے ، جغرافیائی عدود کے خطہ ارضی سے وابستگی کو نظر انداز کرناکوئی فطری و دانشمندانہ عمل نہیں ہے، بھارت جیسے ملک میں راشٹر واد کی نوعیت کئی معنوں میں مختلف ہے،اس کے باشندوں کے درمیان اتحاد و یگانگت کیلئے ، کسی مشترک بنیاد کی تلاش و نشاندہی ایک ضرورت اور وقت کا تقاضہ ہے۔ یورپی ہندوتووادی ، اسلام پسند اور محب وطن افراد کے حوالے سے راشٹرواد کے الگ الگ معانی و نقطہ نظر ہیں، تمام نقطہ نظر میں سے ایسے نقطہ نظر اور تصور قومیت کو سامنے لاکر اس سے ملک کے تمام باشندوں کو جوڑ نا، بھارت جیسے تنوع مذاہب وروایات والے میں اس کے استحکام و ترقی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ایک بڑی ضرورت ہے جو بھارت کے تنوعات اور تکثیری معاشرے سے ہم آہنگ او رمعقول وقابل قبول ہو جب معقول او رملک کی روایات وتہذیب سے ہم آہنگ راشٹر واد کو فروغ ملے گا تو اس کے تمام باشندوں کے لیے ایک قوم او رمتحد ہ قومیت کی راہ خود بہ خود ہموار ہوتی چلی جائے گی، یہ کوئی نئی اجنبی روایت نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ماضی میں ملک کی آزادی سے پہلے او ربعد وطنی حیثیت سے ایک ہندوستانی قوم کی تشکیل کے لئے سنجیدہ کوشش ہوچکی ہے۔

آزادی سے پہلے ایک تیسری اجنبی غاصب و قابض طاقت، برٹش سامراج کے چنگل سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے ہندوستانیوں میں ایک ہندوستانی قوم ہونے کا شعور جذبہ پیدا کرنا جہاں ایک ضروری عمل تھا، وہیں آج کی تاریخ میں مذکورہ شعور و جذبہ پیدا کرکے اسے پروان چڑھانا پہلے سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔ راشٹرواد کے نام پر گزشتہ کچھ دہائیوں خصوصا 2014 ء سے جس طرح کا فرقہ وارانہ ماحول بنایا جارہا ہے اس کے تناظر میں یہ سوال او ربھی زیادہ قابل توجہ ہوگیا کہ راشٹر واد کا کون سا ماڈل اور قسم بھارت کے تکثیری سماج کے لیے بہتر معقول ومقبول ہے،ملت اسلامیہ ہندیہ اس تعلق سے تہی دست نہیں ہے۔

اس پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ مثبت قومیت و وطنیت ،اسلام سے متصادم نہیں ہے، او رنہ ہی کوئی باشعور سنجیدہ مسلمان مثبت راشٹرواد کے خلاف ہے، مسلم سماج میں حب الوطنی ایک فطری رویہ ہے یقینی طور پر اسلام زمینی جغرافیائی حدود میں بند او رمحدود ومنحصر نہیں ہے، لیکن وہ اپنے ماننے والوں کی وطنی حدود ووابستگی کا انکار بھی نہیں کرتا ہے، دین، الہ اور رسالت کا تصور آفاقی ہے ، وہ کسی ایک ملک میں محدود و منحصر نہیں ہے، تاہم دوعالمی انسانی رشتوں پر مبنی مثبت تصور قومیت کا مخالف بھی نہیں ہے، بلا شبہ اسلام ہندوتو وادی اور یورپی جارحانہ اور دیگر سے نفرت وتفریق پر مبنی تصور قومیت کے خلاف ہے اور ہونابھی چاہئے ، اس کے شدید مخالف تو گاندھی جی ، ٹیگور اور منشی پریم چندوغیرہ بھی تھے ، خلق خدا کو غلط طور پر تقسیم کرنے والا تباہ کن تصور قومیت ، انسانی برادری کی تشکیل او روشوگرو بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

ملک و ملت کے سلسلے میں اکابر سے ہمیں روشنی ورہنمائی ملی ہے اس میں متحدہ بھارت او را س کے باشندے سے متحدہ قومیت کے تحت ایک قوم کی شکل میں نظر آتے ہیں۔

خود کو تفوق پر مبنی جرمن ماڈل تصور قومیت اور ہندوتو پرمبنی راشٹر واد تقدس کے جذبے کو فروغ دینے کے ساتھ دیگر کے صفایا او رمحکوم بنانے کی راہ پر ملک کو ڈال دیتاہے او ربالآخر سماج انتشار وانارکی میں مبتلا ہوکر برباد ہوجاتاہے، ہندومہاسبھا او رسنگھ کانظریہ قومیت او رمسلم لیگ کا دوقومی نظریہ دونوں ملک او راس کے باہر فرقہ وارانہ ہم آہنگی واتحاد کے سلسلے میں ناکام ہیں،یورپی جارحانہ و خود غرضی پر مبنی تصور قومیت ،بہتر رشتوں کے حوالے سے عالمی اور وطنی برادری قائم کرنے میں اپنی افادیت کھو چکا ہے ، ساورکر او رگروگولولکر کا راشٹر واد وشوگرو بننے کی راہ میں قطعی طور سے رکاوٹ ہے،نظریہ ، دعوی اور عمل کے درمیان کھلا تصادم ہے، یہ راشٹر واد و وشوگروتو کیا، بھارت کابھی گرو بننے میں پوری طرح ناکام ہے۔

دوسری طرف سرسید ، اقبال ، مولانا مودودی کے حوالے سے اصل سوال کا جواب فراہم کیے اور مشترک سماجوں کے ملک میں مختلف مذاہب و روایات کی موجودگی کے مسائل و مشکلات کا حل پیش کیے بغیر دانشورانہ اظہار خیالات سے کئی طرح کے کنفیوژن پیدا ہوتے رہے ہیں، سرسید وغیرہ کے بعد او رواضح تفصیلی بیانات کو نظر انداز کر کے پہلے کی کچھ مبہم باتوں سے وطنی قومیت کی تردید و تغلیط کی کوشش ہوتی رہتی ہے ، جس سے ملت میں یکسوئی کا ذہن پروان نہیں چڑھ پاتا ہے، باور یہ کرایا جاتاہے کہ ابتداء میں سرسید نے بعض مصالح کے تحت قومیت کو بالکل سادہ معنی میں لے کر ایک علاقہ وملک کے اندر رہنے والے لوگوں کو خواہ ان کامذہب ایک نہ ہو، ایک قوم قرار دیا تھا اسی لحاظ سے ہندو او رمسلمان کو ایک قوم بتا یا تھا، لیکن حقیقت کا زیادہ عمیق مطالعہ کرنے کے بعد قومیت کی منگنائے سے باہر آگئے تھے اور اقرار کیا کہ ہندو مسلمان دوقومیں ہیں اور ان میں اتحاد ویگانگت ممکن نہیں ہے، ثبوت میں حالی کی کتاب حیات جاوید (ص 123 اور 241 ،جلد اوّل)سے سرسیدکا یہ تبصرہ پیش کیا جاتا ہے کہ اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ دونوں قومیں دل سے کسی کام میں شریک نہ ہوں گی، ایسامولانا مدنی ومولانا آزاد کے تصور قومیت کی تردید وتغلیط کے مقصد سے لکھا کہا جاتا ہے ،( دیکھیں، پروفیسر الطاف احمد کی کتاب ، احیائے ملت اور دینی جماعتیں صفحہ 473 تا 474 )حالانکہ سرسید کا مذکورہ تبصرہ ہندی اردو کی تنازع کے پس منظر میں 1867 کا ہے، جب ایک ملک میں رہنے والے ہندومسلم کو ایک قوم قرار دینے کی بات 1884کی ہے اس سلسلے کے کئی بیانات سفرنامہ پنجاب ، مجموعہ لیکچر اور آخری مضامین سرسید میں موجود ہیں،سرسید کودوقومی نظریے کا قائل قرار دینے سے ان ہندوتووادی کے کار کو تقویت ملتی ہے جن کی طرف سے بار بار کہا جاتاہے کہ سرسید نے ہندو مسلم میں علیحدگی کو بڑھاوا دے کر تقسیم وطن کی راہ ہموار کی ہے، پڑوسی ملک کے کئی سارے دانشور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دوقومی نظریہ کے اصلا بانی سرسید ہیں، وہاں تو یہ تک بندی سمجھ میں آتی ہے لیکن بھارت میں سرسید کو الگ رنگ و شکل میں پیش کر کے یہ باور کراناکہ وہ ہندو مسلم میں اتحاد ویگانگت کو ناممکن سمجھتے تھے، قطعی ناقابل فہم ہے، سرسید کے حوالے سے دو قومی نظریہ کی ڈاکٹر سید عابد حسین اورپروفیسر خلیق احمد نظامی وغیرہ تردید کرتے ہیں، اب تو دو قومی نظریہ پر بننے والے ملک میں بھی مولانا مدنی ومولانا آزادؒ کے نظریہ قومیت کی صحت کو تسلیم کیا جانے لگا ہے۔

بھارت میں بھی ہندوتوپر مبنی راشٹر واد اور اسلام پسندی کے نام پر اسلامی قومیت کے حوالے سے ہندو مسلم میں اتحاد ویگانگت کو ناممکن قرار دینے کی ذہنیت کی تصویب نہیں کی جاسکتی ہے، آج کے بھارت میں راشٹراور رراشٹر واد میں بھارت کی بہتر ومعقول تعبیر وتفہیم ، وقت کا تقاضا ہے، اس کی ایک بہتر کوشش جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سید سعادت اللہ حسینی نے اپنی حالیہ کتاب ‘‘ ہندوتو انتہا پسندی’’ میں کی ہے۔

2 جنوری،2023 ،بشکریہ:انقلاب ،نئی دہلی

------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/nation-nationalism-india/d/128803

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..