New Age Islam
Sun Jun 15 2025, 08:12 PM

Urdu Section ( 26 Nov 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Naath Panth and Islamic Mysticism اسلامی تصوف پر ناتھ پنتھ کا اثر

سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام

26 نومبر 2022

ہندوستان میں علم باطن کی روایت بہت قدیم ہے۔ ییی علم باطن مسلمانوں میں تصوف ہے, بنگالیوں میں مرمیاواد ہے, ہندوؤں میں بھکتی واد ہے اور عیسائیوں میں رہبانیت ہے۔ علم باطن یا روحانی علم کا سر چشمہ ویدانت ہے جس میں انسان کو وجود حقیقی کا عرفان اہنے اندر حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ بودھ دھرم میں بھی اپنی انا کو آفاقی انا میں تحلیل کر کے وجود حقیقی کاعرفان حاصل کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ ان سبھی مذہبی دبستانوں نے دنیا کو فانی، غیر مستقل اور بے بضاعت قرار دیا ہے اور اس سے جذباتی وابستگی اور محبت کو جہل کا نتیجہ کہا گیا ہے۔

وجود حقیقی سے اتصال اور دنیا کی محبت دل سے نکالنے کے لئے بعد کے سادھوؤں اور مرتاضوں نے مختلف جسمانی اعمال کا سہارا لیا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جسم کو صحت مند اور مضبوط بنائے بغیر ذہن کو صحت مند نہیں بنایا جاسکتا اور کمزور ذہن حقیقت کے عرفان کے قابل نہیں ہوتا۔ لہذا انہوں نے یوگ اور تنتر کے اعمال کو ترقی دی۔ یوگ سے جسم کو مضبوط اور متوازن بنایا جاسکتا تھا اور تنتر ذہن اور شعور کو ترقی دے سکتا تھا۔

تنتر کا معنی لغت میں دھاگہ، کپڑا اور جال وغیرہ دیا ہوا ہے۔ تن کا معنی تاننا یا کھینچنا بھی ہوتا ہے۔ فارسی اور سنسکرت میں تن کا معنی جسم بھی ہے۔ لہذا تنتر وہ علم ہے جس کی مدد سے ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو توسیع و ترقی دیکر اسے شعور آفاقی سے ہم آہنگ کردیا جاتا ہے جیسے جلاہا تانا بانا کو ایک خوبصورت ترتیب میں بن کر ایک خوبصورت کپڑے کا ٹکڑا تیار کردیتا ہے۔

ہندوستان میں تنتر کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس کی تاریخ ویدانت سے بھی پرانی ہے۔کہا جاتا ہے کہ آریوں کی ہندوستانی خطے میں آمد سے قبل غیر,آریوں میں بھی تنتر رائج تھا۔ بلکہ کچھ اسکالرس یہ بھی کہتے ہیں کہ تنتر کی جڑیں چین اور بابل میں ہیں۔

بہر حال سانسوں کو قابو میں کرنے اور جسمانی اعمال کےروحانی ریاضت کے لئے استعمال کی روایت دنیا کے بہت سے حصوں میں پائی جاتی ہے اور مختلف مذاہب نے اپنی روحانی اور مذہبی ضرورتوں اور عقائد کے دائرے میں رہ کر اپنا مخصوص تنتر وضع کیا۔ لہذا ہندو تنتر,، بودھ تنتر، وغیرہ وجود میں آئے۔

بودھ مت سے مختلف ادوار میں مختلف فرقے وجود میں آئے ۔ انہی میں سے ایک فرقہ ناتھ پنتھ کہلاتا ہے۔ ناتھ پنتھ بودھوں کے برعکس شیو کو وجود حقیقی کی علامت سمجھتا ہے ۔ یہ فرقہ وحدت پسند ہے لیکن شیو کی تخلیقی قوت کو شکتی کا نام دیتا ہے۔ اس طرح یہ بودھ مت سے الگ ایک مذہبی فرقہ ہے۔اس فرقے نے ہٹھ یوگا کو ترقی دی اور ریاضت کے ذریعہ سے مکتی حاصل کرنے کا طریقہ بتایا۔ متسیندر ناتھ اس ناتھ پنتھ کے بانی ہیں جنہیں بودھ مت میں بھی ایک سدھا یعنی عارف یا صوفی کامل تسلیم کیا جاتا ہے۔ بودھ مت میں انہیں لوئی پاد کہا جاتا ہے۔ ان کے شاگرد گو رکھ ناتھ نے ناتھ پنتھ کو نظریاتی طور پر منظم کیا اور یوگ کو ترقی دیکر اسے مقبول بنایا۔ ناتھ پنتھ کی بارہ شاخیں ہیں جن میں پران ناتھی اور پاگل پنتھی شاخیں اہم ہیں۔ ان شاخوں کے پیروکار اسلامی صوفیانہ روایتوں کو بھی مانتے ہیں۔ گجرات میں پران ناتھیوں کے قدیم مندر کی دیواروں پر قرآن کی آیتیں بھی کندہ ہیں۔ مہاتما گاندھی کی والدہ اسی پران ناتھی فرقے سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ میرے ایک ہاتھ میں گیتا اور ایک ہاتھ میں قرآن ہے۔

پاگل پنتھی فرقے سے بھی مسلم صوفیہ وابستہ تھے۔اس فرقے کے ایک صوفی کریم شاہ آٹھارہویں صدی میں مشرقی ہند کے موجودہ بنگلہ دیش کے علاقے میمن سنگھ میں آکر بس گئے اور قبائلی مسلمانوں میں اصلاحی تحریک چلائی۔ ان کی اس تحریک میں پچھڑی ذات کے ہندو مسلمان سبھی شامل ہو گئے۔ انہوں نے اس فرقے کے لئے کچھ مشترکہ مذہبی اخلاقی اور سماجی اصول بنائے۔ بعد میں یہی فرقہ باؤل فرقے میں تبدیل ہوگیا۔ اس فرقے کے سب سے بڑے شاعر لالن فقیر ہوئے جنہوں نے کبیر کی طرح اپنا حسب نسب چھپالیا اور آج تک ان کے خاندانی پس منظر پر پردہ پڑا ہوا ہے اگرچہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سرکاری طور پر لالن فقیر کو مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔

باؤل فرقہ ایک ایسا فرقہ ہے جس میں ہندو اور مسلم دونوں فرقوں کے سادھو اور فقیر شامل ہیں اور اس فرقے میں ہندو سادھو کا شاگرد مسلمان اور مسلمان فقیر کا شاگرد ہندو ہو سکتا ہے۔ اس فرقے پر ناتھ پنتھ کا اثر گہرا ہے۔

کبیر بھی ناتھ پنتھ سے کافی متاثر تھے۔ ان کی روحانی تربیت ناتھ پنتھیوں کی صحبت میں ہوئی تھی۔ ناتھ پنتھ کے لوگ ظاہری مذہبی رسوم اور پوجا پاٹ صحیفوں وغیرہ میں یقین نہیں رکھتے۔ یہ لوگ باطن کے تزکیہ کی ریاضت کرتے ہیں۔ ان کے ییاں تنتر بہت ترقی یافتہ ہے۔ کبیر نے ناتھ پنتھیوں سے تنتر اور بھکتی وادیوں سے عشق یعنی بھکتی لیکر ایک نیی راہ نکالی ۔اس لئے ان کے دوہوں اور شبدوں میں تنتر کے ساتھ بھکتی یعنی عشق الہی کا امتزاج ملتا ہے۔

کبیر ہی کی طرح دوسرے اسلامی صوفیوں نے بھی ناتھ پنتھ سے گہرا اثر قبول کیا۔ اپنی روحانی ریاضت کے طریقوں میں انہوں نے بودھ اور ناتھ تنتر کے اعمال شامل کرکے اسلامی تصوف کے اصول و اصطلاحات وضع کیں۔ لیکن اسلامی تنتر کی اصطلاح کو انہوں نے بوجوہ استعمال نہیں کیا۔ ناتھ پنتھیوں کی ہی تنتر کی کتاب امرت کنڈ کا ترجمہ بنگال کے ایک عالم اور امام قاضی رکن الدین نے عربی میں کیا اور پھر اس کا فارسی میں بھی ترجمہ کیا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کو پڑھ کر ہی ابن عربی متاثر ہوئے اور اسلامی تصوف مں وحدت الوجود کا نظریہ داخل کیا۔ لہذا اس امر سے اسلامی تصوف پر ناتھ پنتھ کے اثر کی گہرائی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کے دیگر صوفیہ بابا فرید اور حضرت گیسو دراز بندہ نواز نے بھی ناتھ پنتھیوں سے یوگ اعمال اور نفس پر قابو پانے کے یوگ اور تنتر اعمال سیکھے شطاری سلسلے کے صوفی شاہ محمد غوث گوالیاری نے یوگ کے اعمال پر ایک کتاب تصنیف کی۔ ناتھ پنتھیوں اور بودھ دھرم کے تنتر سے اسلامی صوفیوں نے متوازی صوفیانہ اصطلاحات وضع کیں جیسے پرانایام کے لئے پاس انفاس, ریچک کمبھک اور پورک کے لئے حصر نفس، حبس دم تری ودیا کے لئے علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین ، توریا کے لئے لاہوت ۔ لاہوت بودھ دھرم کی اصطاح لہوتا سے مشابہ ہے ۔ لہوتا کا معنی بودھ دھرم میں لطیف کیفیت یا مقام اور اسلامی تصوف میں بھی لاہوت وجود حقیقی کا اعلی مقام ہے جہاں صفات نہیں صرف اشرہ ہے۔ ہندو ، ناتھ اور بودھ دھرم۔مہں عرفان کے ایک اعلی مقام پر باطن سے لطیف آوازیں سنائی دیتی ہیں اس لطیف آواز کو انہد یا اناہت نادکہتے ہیں۔ یہ آوازیں چھ طرح کی ہوتی ہیں۔ اسلامی تصوف میں اس آواز کو لطیفہ کہتے ہیں جو قلب سے جاری ہوتا ہے۔ یہآوازیں بھی چھ طرح کی ہوری ہیں انہیں لطائف ستہ کہتے ہیں۔ بودھ اور ہندو تنتر میں اور ناتھ تنتر میں بھی کچھ چکر ہوتے ہیں ان چکروں کی تعداد چار، چھ اور نو ہوتی ہے۔ اسلامی تصوف میں بھی دائروں یا لطائف کا ذکر ہے جو دس ہیں۔

انسانی انا کے آفاقی انا میں تحلیل کرکے فنا کا مقان حاصل کر لینا بھی بودھ اور ناتھ پنتھ سے مستعار لیا گیا فلسفہ ہے۔ ذات کو آفاق میں گم کرکے بقا یعنی حیات ابدی اور موت سے نجات حاصل کرنے کا نظریہ بھی بودھ اور ناتھ پنتھ سے ہی اسلامی تصوف میں آیا ہے۔

لہذا، یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اسلامی تصوف نے جہاں عیسائی رہبانیت، ویدانتی ادویت واد اور بودھ تنتر کے اثرات قبول کئے وہیں اس نے ناتھ پنتھیوں سے جسمانی اور باطنی اعمال و طریقے بھی مستعار لیکر انہیں شرعی حدود کے اندر قبول۔کرلیا۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/naath-panth-islamic-mysticism/d/128492

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..