New Age Islam
Sat May 17 2025, 04:41 AM

Urdu Section ( 31 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Impending Demise Of Myanmar Military Junta: Democratic Transition Can Be Resumed میانمار کی ملٹری جنتا کا جلد خاتمہ: اب جمہوریت کی بحالی ہو سکتی ہے

 نوا ٹھاکریا، نیو ایج اسلام

 18 جنوری 2024

 میانمار کی فوجی حکومت اور شہری مسلح افواج کی حمایت یافتہ، نسلی باغیوں کے درمیان جاری تصادم میں ایشیا کے اس جنوبی مشرقی ملک کی سیاسی تاریخ کو ہمیشہ ہمیش کے لیے بدل دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں مختلف نسلوں کے 55 ملین لوگ بستے ہیں، وہاں گزشتہ چند مہینوں سے خانہ جنگی کا ماحول بنا ہوا ہے، جس میں فوجی حکمرانوں نے جمہوریت کے حامیوں کے خلاف وحشیانہ کارروائیاں کی ہیں، اور جنہیں عوام نے مختلف شکلوں میں اور مختلف سطحوں پر جواب دیا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد موت کے منھ میں چلے گئے، اور مختلف علاقوں میں پھوٹنے والے تشدد سے بچنے کے فراق میں لاکھوں خاندان بے گھر ہو گئے۔

Prime Minister Senior General Min Aung Hliang and National League for Democracy leader Aung San Suu Kyi before the February 2021 coup in Myanmar.

------

 ابھی ایک طاقتور نسلی باغی گروپ، اراکان آرمی (AA)، جو مغربی میانمار میں سرگرم رہی ہے، اس نے چن ریاست کے دارالحکومت پالیتوا پر اپنے قبضے کا دعوی کر دیا ہے، جو ہندوستان کی شمال مشرقی ریاست میزورم سے ملحق ہے۔ اراکان آرمی کے ذمہ دار رہنماؤں کے حوالے سے میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ اراکان آرمی کے جنگجوؤں نے بھارت اور بنگلہ دیش سے ملحق بین الاقوامی سرحد کے قریب، دریائے کالادن کے کنارے واقع ایک اہمیت کے حامل بندرگاہی شہر پر قبضہ کر لیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پالیتوا ہندوستان کے کالادان ملٹی ماڈل ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ پروجیکٹ کا ایک اہم حصہ ہے، جس کا مقصد (بنگال کی کھاڑی میں) اراکان کی سیٹوے بندرگاہ کو خشکی سے گھرے شمال مشرقی علاقے سے جوڑنا ہے۔

 1 فروری 2021 کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے لیکر اب تک کم از کم 29,440 مسلح جھڑپیں اور عام شہریوں کے خلاف حملے دیکھنے کو ملے ہیں۔ برما (میانمار) میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد 2.6 ملین تک پہنچ گئی ہے جن میں سے صرف 660,000 افراد 27 اکتوبر سے (جس دن تھری برادرہڈ الائنس نے نیپیداو میں فوجی حکومت کے خلاف اپنی مشترکہ کارروائیوں کا آغاز کیا تھا) لیکر اب تک بے گھر ہو چکے ہیں، کیونکہ ملٹری جنتا نے اپنی پرتشدد کارروائیاں جاری رکھی ہوئی تھی۔ جیسا کہ مزاحمتی قوتیں مزید علاقے قبضہ کرتی جا رہی ہیں، مایوس جنتا کی انتقامی کارروائیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، یہ باتیں ایک آزاد اور جمہوری میانمار کے قیام کے لیے مہم سازی میں مصروف ایک علاقائی فورم، (Alternative ASEAN Network on Burma الٹرنیٹیو اے ایس ائی اے این نیورک آن برما) نے اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہی ہے۔

 اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین نسلی مسلح گروہوں (اراکان آرمی، میانمار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس آرمی اور تاانگ نیشنل لبریشن آرمی) کے اتحاد نے 27 اکتوبر 2023 کو آپریشن 1027 شروع کرنے کے بعد سے اب تک (پانچ ریاستوں اور خطوں کے 30 قصبوں میں پھیلے ہوئے) 400 سے زیادہ جنتا اڈوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ فورم نے کہا کہ من آنگ ہلینگ کی قیادت والی فوجی حکومت نے گزشتہ سال بڑے پیمانے پر قتل کے 86 واقعات انجام دیے (جس کی تعداد 2022 میں 44 تھی) جن کے نتیجے میں 1,342 جنتا مخالف کارکنوں کی موت ہوئی ہے، نیز جنتا ملٹری نے شہری آبادی پر فضائی اور توپ کے حملے شروع کر کے، تھری برادر ہڈ الائنس کے اراکین کے ساتھ (23 دسمبر کنمنگ معاہدے کے بعد) کیے گئے چین کے زیر اہتمام عارضی جنگ بندی کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ یہاں تک کہ جنتا فوجیوں نے اراکان (راخین) کے علاقے کی ایک میوزیم (جو یونیسکو کے ورلڈ ہیریٹج سائٹ کے تحت آتی ہے) پر بھی بمباری کی ہے۔

 شراکتی حقوق پر مبنی پالیسی ریسرچ اور وکالت کی ایک تنظیم پروگریسو وائس کا کہنا ہے کہ، "نئے سال کی شروعات کے ساتھ عوام نواز مسلح افواج کی فتوحات کی مزید خبریں آنے لگی ہیں، کیونکہ جنتا ملٹری تیزی سے اپنا قبضہ کھوتی جا رہی ہے اور اب فوج بڑے پیمانے پر اندھا دھند فضائی حملوں، قتل عام اور میانمار کے عوام پر ڈھائے جانے والے دیگر مظالم کا منھ توڑ جواب دے رہی ہے۔ نیز، میانمار کے لوگوں پر، پرتشدد اور ناجائز ملٹری جنتا کے ظلم کی انتہا ہو گئی ہے، اور فوج کو شکست دینے اور ایک نئی وفاقی جمہوریت قائم کرنے والی ناکام بغاوت کے بعد سے لیکر اب تک وہ تقریباً تین سالوں میں بے پناہ قربانیاں دے چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے ہفتہ وار بیان میں یہ بھی کہا، "لیکن، 2024 میں، آپریشن 1027 کی کامیابیوں اور دیگر سرگرمیوں کی بدولت میانمار کے عوام میں امید کی ایک کرن جاگی ہے۔

گزشتہ سال، میانمار میں ایک نئی نوعیت کی سیاسی اور عسکری ہم آہنگی دیکھی گئی، جو اس فوجی حکومت کے خلاف مشترکہ کارروائی سے عیاں ہے، جس نے آنگ سان سوچی کی قیادت والی منتخب حکومت کا تختہ پلٹا تھا۔ علاقے کے لحاظ سے بڑے پیمانے پر کامیابیاں، فوجی جنتا کے اڈوں کا انکے ہاتھوں سے نکلنا اور اہم تجارتی راستوں اور قصبوں پر قبضہ حاصل ہونا، ان سب سے عوامی انقلاب کی ایک بڑی کامیابی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ تاہم، یہ صرف فوجی فتوحات نہیں، بلکہ سیاسی فتوحات بھی ہیں، کیونکہ مختلف گروہوں بشمول ایتھنک ریزسٹنس آرگنائزیشنز (ERO)، پیپلز ڈیفنس فورسز (PDF)، اور نیشنل یونٹی گورنمنٹ (NUG) کے درمیان تعامل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا، اور اس سے ایک قسم کے سیاسی تعامل اور حکمت عملی کا بھی اندازہ ہوتا ہے، جسے بین الاقوامی برادری میں بہتوں نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔

جمہوریت کے حامی ایک برمی سیاسی کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ، اس نئے سال میں داخل ہوتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ میانمار کے لوگوں نے تقریباً تین برسوں کی بہادری اور جوانمردی، عزم و حوصلے اور ایک باوقار جدوجہد سے جو فضا قائم کی ہے وہ عالمی سطح پر نظر آئے گی۔ ینگون سے راقم سے بات کرتے ہوئے، انہوں نے امید ظاہر کی کہ، بین الاقوامی برادری جمہوریت کے لیے میانمار کے عوام کی اس جدوجہد کی حمایت میں آگے آئے گی۔

مذکورہ کارکن نے یہ بھی کہا کہ، بین الاقوامی عناصر کی زیادہ بامعنی اور ٹھوس حمایت اور انقلابی تنظیموں کے درمیان باہمی تعاون اور تعامل سے، نہ صرف اس ظالم و جابر فوجی حکومت کو اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے، بلکہ حقیقی وفاقی جمہوریت کے اپنے مشترکہ سیاسی ایجنڈے کے لیے عبوری انتظامات کی تیاری بھی مکمل کی جا سکتی ہے، نیز یہ ماحول آزادی، نظام کی تبدیلی، اور حقیقی اور پائیدار امن کے ساتھ ایک جامع وفاقی جمہوریت کے قیام کا عندیہ بھی بن سکتا ہے۔

English Article: Impending Demise Of Myanmar Military Junta: Democratic Transition Can Be Resumed

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/myanmar-military-junta-democratic-transition/d/131623

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..