جاں نثار اختر
28 نومبر،2022
سید افتخار حسین مضطر اس
خاندان کے فرد تھے جس میں نہ صرف اکابر علماء اور فضلاء گزرے ہیں بلکہ بہت سے صاحب
ولایت بھی ہوئے۔ حضرت خواجہ مخدوم علاء الحق والدین سندیلوی اور شیخ المشائخ بندگی
سید حسن سے ان کا جدی تعلق تھا۔ حضرت معشوق علی شاہ قدس سرہ آپ کے پردادا سید
محفوظ علی کے حقیقی بھائی تھے۔ خود مضطر کے برادر حقیقی سید محمد حسین بسمل بڑے
صوفی منش اور صاحب طریقت بزرگ گزرہے ہیں۔
مضطر کے والد سید احمد
حسین ، سید فضل حسین کے صاحبزادے تھے جن کاتذکرہ غالب کے خطوط میں اکثر آیا ہے۔
سید احمد حسین کی شادی بی بی سعیدۃ النساء سے ہوئی جو علامہ زماں مولانا فضل حق کی
صاحبزادی اور مولانا عبدالحق خیر آبادی کی ہمشیرہ تھیں۔ انہی کے بطن سے 1869 ء میں
خیر آباد ضلع سیتا پور ، اودھ میں مضطر کی پیدائش ہوئی۔ مضطر کی تمام تر تعلیم و
تربیت ان کی والدہ نے کی جو خود عربی، فارسی او راردو زبان کی بڑی عالمہ تھیں ۔
مولانا عبدالحق خیر آبادی اپنی بہن سے کہا کرتے تھے کہ تو لڑکا ہوتی تو خیر آباد
کا اور زیادہ نام روشن ہوتا۔ سعیدۃ النساء فارسی، اردو اور ہندی زبانوں میں شاعری
بھی کرتی تھیں او رحرماں تخلص فرماتی تھیں۔ مضطر نے اپنی ابتدائی غزلیں اپنی والدہ
ہی کو دکھائیں لیکن زمانے کے رواج کے پیش نظر حضرت امیر مینائی کی شاگردی اختیار
کرلی۔ یہ شاگردی صرف ایک غزل کی اصلاح تک تھی ۔مضطر نے جو پہلی اور آخری غزل امیر
مینائی کو بھیجی تھی اس کامطلع تھا:
داغ ہیں سیکڑوں پنہاں دل
میں
طرفہ پھولا ہے گلستاں دل
میں
امیر مینائی نے صرف اس
مطلع کے مصرع اول میں الفاظ کو مقدم ومؤخر کرکے غزل واپس بھیج دی اور ساتھ ہی بغیر
اصلاح غزل پڑھنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔ اصلاح تھی:
داغ ہیں سیکڑوں پنہاں دل
میں
طرفہ پھولا ہے گلستاں دل
میں
مضطر نے دوبارہ کوئی غزل
اصلاح کے لئے نہیں بھیجی ۔ ان کا شاگرد ہونا محض رسما تھا ورنہ دراصل ان کاکلام
اپنی والدہ ہی کی اصلاح سے بنا سنورا ۔ پھر بھی مضطر نے امیر کا شاگرد ہونے سے
کبھی انکار نہیں کیا جیسا ثاقب لکھنوی نے ظاہر کیا ہے بلکہ تادم مرگ امیر کو اپنا
استاد مانتے رہے۔
مضطر خیر آبادی
----------
اخلاق کردار
مضطر ایک جامع شخصیت کے
مالک تھے۔ ان کی ذاتی و جاہت ، ان کی اعلیٰ قابلیت اور لیاقت اور ان کے اخلاق کی
دلکشی اور وسعت نے ان میں بلا کی کشش و جاذبیت پیدا کردی ۔ دنیوی مراتب انسان کو
بالعموم خود پرست بنا دیتے ہیں لیکن مضطر میں ان تمام اعزازات کے باوجود، جو ان کو
زندگی بھر حاصل رہے، نخوست و تکبر کا شائبہ تک نہ تھا۔ لوگ انہیں ہر وقت گھیرے
رہتے ، خود ان کے حکام اعلیٰ ملاقات کے لئے ان کے گھر آتے او ران سے دوستانہ مراسم
روا رکھتے ۔ طبیعت میں رکھ رکھاؤ کا مادہ تھا۔ ہر ایک سے علی المراتب برتاؤ رکھتے اور
نہایت خوشگوار طریق سے ملتے جلتے تھے۔ مضطر فطرتاً بہت حساس تھے اور اتنے ہی صاف
گو بھی ، جو بات ہوتی منہ پر کہتے ۔ لوگ ان کی صاف گوئی سے واقف تھے اور اس لئے اس
کا برا بھی نہ مانتے تھے۔ ان کی اس صاف گوئی میں کسی کا وش یا کدورت کا پرتو نہیں
ہوتا تھا بلکہ نیک دلی اور پاک باطنی جھلکتی تھی۔ اگر کسی سے کسی بات پر بگڑے بھی
تو تھوڑی دیر میں دل آئینے کی طرح صاف ہوجاتا جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی تھی۔
یہ سب کچھ تھا لیکن مضطر
نے کبھی اپنی خودداری کو ٹھیس نہ پہنچنے دی۔ اس معاملے میں مضطر بڑی آن بان والے
تھے۔ جب رامپور کی ملازمت چھوڑکر گوالیار چلے آئے او رنواب رامپور نے اپنے سوتیلے
بھائی کو مضطر کے واپس لانے کے لئے گوالیار بھیجا تو انہوں نے ایک مرتبہ رامپور
آنے کا وعدہ کیا تھا ۔ چنانچہ مضطر گوالیار سے ایک دفعہ رامپور گئے، اپنے پہنچنے
کی اطلاع جناب مصطفی علی خان شرر، ہوم منسٹر کو تار سے دی ۔ شرر صاحب کا آپریشن
ہوا تھا، مضطر کو لینے کے لئے کوئی رامپور اسٹیشن پر نہ پہنچا ۔مضطر اسٹیشن پر ہی
رہے اور دوسری ٹرین سے گوالیار لوٹ آئے۔ پھر اگرچہ رامپور آنے کے لئے بے حد اصرار
کیا گیا اور ہر طرح معذرت چاہی گئی لیکن وہ تادم مرگ رامپور نہ گئے۔
مضطر کی طبیعت خوشامد
پسند نہ تھی او رنہ انہوں نے کسی کی خوشامد پسند کی۔ ممکن ہے ان کی قصیدہ گوئی کو
خوشامد پر محمول کیا جائے مگر واقعہ یہ ہے کہ مضطر کے لئے قصیدہ گوئی رسمی صنف
شاعری سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ فرائض کا احساس ان میں بدرجہ کمال تھا۔ کیا مجال کوئی
کوتاہی یا فرد گزاشت ہوجائے۔ وہ فرائض کی انجام دہی کو ہر بات پر مقدم سمجھتے تھے
۔ عدالتی کام میں بھی ذاتی مفاد کو دخل نہیں دیا۔ کسی قسم کی نا انصافی کی شکایت
ان کے خلاف کبھی او رکسی کو نہیں ہوئی۔ اخلاقی فرائض کے اعتبار سے بھی مضطر ایک
اعلیٰ شخصیت رکھتے تھے ۔عزیزوں کی ہر طور پر امدادان کا شیوہ رہا،غیروں کے ساتھ
بھی ہر طرح کی ہمدردی روا رکھتے تھے ۔ اپنے آداب و اطوار میں اپنی خاندانی روایتوں
کو کبھی نہیں بھولے۔ اپنے بزرگوں کے ساتھ انہی قصباتی آداب کو ملحوظ رکھتے تھے جو
ان کا خاندانی ورثہ تھا ۔بڑوں کے سامنے کیا مجال جو پان کھائیں یا ننگے سر جائیں،
یہاں تک کہ بہن بھائیوں سے بھی با ت چیت نہ کرتے تھے۔ برابر والوں کے ساتھ برابر
کاسلوک رکھتے اور چھوٹوں سے بے انتہا محبت سے پیش آتے تھے۔
مضطر سخی کادل لے کر پیدا
ہوئے تھے۔ کسی کے سوال کو رد کرنا تو کیا جہاں تک ہوسکتا تھا سوال کی نوبت نہ آنے
دیتے ۔ ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے والوں میں بہت سے حاجت مند بھی ہوتے تھے۔ مضطر ان
کی ضروریات کااحساس کرتے اور ان کو ہر چیز دوستانہ طریق پر عطا کردیتے تھے۔ مضطر
کی ابتدائی زندگی میں یہ فیاضی حدود سے تجاوز کرکے فضول خرچی تک پہنچ گئی تھی لیکن
جب ان کی تیسری شادی ہوئی تب تک وہ کافی مقروض بھی ہوگئے تھے۔ ان کی یہ بیویاں ان
کے بے جا اسراف کو خوشگوار حدود میں لے آئیں اور قرضے کی وہ پریشانیا ں جو وقتی
طور پر مضطر کو پیدا ہوگئی تھیں، دور ہوگئیں۔
یوں تو مضطر بہت خوش مزاج
تھے لیکن ساتھ ساتھ طبیعت میں غصہ بھی تھا۔ اگر ان کی مرضی کے خلاف کوئی بات ہوتی
تو برا فروختہ ہوجاتے لیکن وہ غصہ ان کی طبیعت کے اعتبار سے دیر پا نہ ہوتا۔ ان
میں ایک اضطراری کیفیت بھی تھی۔ اکثر اوقات اس کیفیت کے تحت اپنے ارادے تبدیل
کردیا کرتے تھے۔ ایک جگہ اعتراف کرتے ہیں:
اس تخلص نے مجھے مضطر ہی
رکھا عمر بھر
مضطر آداب مجلس میں ڈوبے
ہوئے تھے ۔ ان کی موجودگی ہر بزم میں رنگ پیدا کردیتی تھی۔ طبیعت میں ظرافت او
ربذلہ سنجی بھی تھی۔ احباب کی صحبت میں مضطر کے لطائف و ظرائف دیکھنے اور سننے کے
قابل ہوتے تھے۔ انہوں نے کئی مزاحیہ قطعات بھی کہے ہیں۔ ایک مرتبہ مضطر مار ہرہ
تشریف لے گئے ۔دلیر مار ہروی نے ان کی دعوت کی۔ دو پہر کے کھانے پر مدعو تھے۔ شدید
گرمی کا زمانہ تھا ۔ انہوں نے ایک قطعہ لکھ کر دلیر صاحب کو بھیج دیا اور دلیر
صاحب مع کھانے کے ان کی جائے قیام پر تشریف لے آئے:
آپ نے کیا دھوپ بھی کھانے
میں کرلی ہے شریک
آتے جاتے راہ میں مضطر کو
جو کھانی پڑے
گرم کھانا، گرم موسم، گرم
وقت اور گرم دھوپ
آپ ٹھنڈک دیں تو چاروں پر
ابھی پانی پڑے
اور وہ یوں ممکن ہے،
کھانا آپ ہم کو بھیج دیں
تاکہ ہم کو آپ کو دونوں
کو آسانی پڑے
مضطر جب ابتداء رامپور
گئے تھے اس وقت نواب حامد علی خان کیمپ پر تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے مضطر کو وہیں
بلا بھیجا تو شرر صاحب ہو م منسٹررامپور ، نے مضطر کے لئے سرکاری ہاتھی بھجوا دیا۔
مضطر نے تین شعر کاایک قطعہ کہہ کر ہاتھی واپس کردیا:
آپ نے بندہ نوازی جوبڑی
فرمائی
تو سواری کو مری بھیج دیا
ایک ہاتھی
جس کے نظارے میں مصروف
ہیں باصد حیرت
ایک میں او رمیرے ساتھ کے
چاروں ساتھی
مجھ کو سب کیمپ کی نظروں
سے گرانے کے لئے
اتنے اونچے پہ چڑھانے کی
ضرورت کیا تھی
گوالیارکے دوران قیام میں
مضطر کے بائیں ہاتھ پر فالج کا اثر ہوا۔ مولوی اخلاق الحسن خیر آبادی نے آپ کی
خیرت دریافت کی تو مضطر نے ان کی عیادت کے جواب میں یہ مطلع لکھ بھیجا:
بازو پہ رکھ کے سر جو وہ
کل ساتھ سوگیا
آرام یہ ملا کہ مرا ہاتھ
سوگیا
بھوپال میں نواب نصراللہ
خان نے شوکت محل مضطر کو رہنے کے لئے دے دیا تھا ۔ انہوں نے آسائش کی خاطر ایک حصے
میں کچھ تبدیلیاں کروائیں اور حسب الحکم اجرت کا بل سرکاری دفتر کے نام بھیج دیا۔
جب بہت دن گزر گئے اور رقم دستیاب نہ ہوئی تو مضطر نے چار شعر کا ایک قطعہ لکھا او
رنواب صاحب کو لے جاکر سنایا، فوراً رقم کے اجراء کا حکم جاری ہوگیا۔ قطعہ یہ تھا:
ٹھیکیدار اب تو بہت سخت
ستاتا ہے مجھے
زر نہیں پاس جو دے کر اسے
رخصت کردو
او رپلّے میں تحمل بھی
نہیں ہے اتنا
کہ تقاضے پہ اسے وقف مروت
کردو
یا تو سرکار کے اجلاس سے
منظوری ہو
تاکہ بلوا کے حوالے اسے
قیمت کردوں
یا یہ صورت ہے کہ اس نے
جو مرمت کی ہے
اس کے بدلے میں، میں اس
کی بھی مرمت کردو
مضطر خیر آبادی مجموعی
حیثیت سے ایک ایسے کردار کے مالک تھے جس نے ان کو عوام اور خواص کی نگاہوں میں
دلکش او رہر دلعزیز بنا رکھا تھا اور یہی کردار آپ کی زندگی کی کامیابی او
رکامرانی کا ضامن رہا ۔
28 نومبر،2022 ،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
------------
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism