New Age Islam
Thu Jun 19 2025, 05:57 PM

Urdu Section ( 14 Apr 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslims Resorting To Violence Is In Complete Contrast to Islamic Teachings مسلمانوں کا تشدد کا سہارا لینا اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے

مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

15 جولائی 2022

اسلام کی صحیح معنوں میں پیروی نہیں کی جا رہی ہے بلکہ اسے فرقہ وارانہ جذبات بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اہم نکات:

1. عدم تشدد اور امن اسلام کی بنیادی خوبیاں ہیں، جنہیں مسلمانوں نے اپنے بے معنیٰ تشدد کی وجہ سے ترک کر دیا ہے۔

2. مولانا وحید الدین خان کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں نظر انداز  نہیں کیا جا سکتا

3. اسلام میں پر امن فقہ کی بنیاد سے مولانا کی تحریریں

-----

Non-Violence and Peace-Building in Islam(اسلام میں عدم تشدد اور امن کی تعمیر)

مصنف: مولانا وحید الدین خان

ناشر: Goodword Books, Noida, India

صفحات: 127

  قیمت: مذکور نہیں ۔

آئی ایس بی این: 9789351791584

-----

اسلام اور تشدد کے درمیان تعلق دلچسپ رہا ہے۔ اسلام کے نام پر بعض مسلم گروہوں کی طرف سے تشدد کے استعمال نے اسلام کی ایک پرتشدد مذہب کے طور پر تصویر بنائی ہے۔ یہ پرتشدد گروہ اسلام کی طرف جو حرکتیں منسوب کرتے ہیں، ان کے نتیجے میں اسلام کو غیر مسلموں کی نظر میں ایک متشدد مذہب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ علماء اور اہل علم حضرات مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس بات کی مذمت کر رہے ہیں کہ چند مسلمانوں کے اعمال کو اسلام نہ سمجھا جائے۔ لیکن پرتشدد کارروائیاں اگر اسلام کے نام پر جائز قرار دی جائیں تو یقیناً یہ اسلام کی منفی امیج کی تعمیر کا باعث بنیں گی۔ نیز مسلمانوں کے پاس اسلام کی منفی تصویر کشی کو روکنے کے لیے طاقتور میڈیا نہیں ہے۔ عوام اس مروجہ میڈیا اور ثقافت کے ذریعے اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ اگر اسلام کی عدم تشدد کی تصویر پیش کرنی ہے تو اسلام کے نام پر ہونے والے تشدد کی شدید مذمت کی جانی چاہیے۔ مولانا وحید الدین خان زندگی بھر یہی کرتے رہے ہیں۔ ان کی کتابیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ وہ اسلام کی حقیقی تصویر اور تشدد کے بارے میں اس کے موقف کو بیان کرتے رہے ہیں۔ مولانا کتاب کے تعارف میں لکھتے ہیں، ’’مسلمانوں کے اپنے مذہب کے نام پر تشدد کا سہارا لینے کی عصری مثالیں اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس ہیں۔‘‘ (P-5)۔ پھر وہ اسلام میں امن اور جنگ کے تصور کی وضاحت کرتے ہیں.

مولانا کے نزدیک یہ دنیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں انسانوں کا امتحان لیا جانا ہے، اور اس امتحان کے ایک حصے کے طور پر انہیں آزاد مرضی سے نوازا گیا ہے۔ ان کی مرضی کے استعمال کی بنیاد پر اگر یہ اسلام کے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے تو انہیں جنت سے نوازا جائے گا اور اگر مخالف ہو تو انہیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ پس تشدد اسلام کے بنیادی اصولوں سے انحراف ہے، اور عدم تشدد اسلام کی روح ہے۔ مولانا کے الفاظ میں، ’’عدم تشدد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب تک کوئی آپ کے ساتھ پرتشدد سلوک نہ کرے تب تک آپ پرامن رہیں۔ بلکہ اس کا مطلب تشدد کے باوجود بھی تشدد سے باز رہنا ہے۔ (P-14)

مولانا کو ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں ان کے خیالات کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کو فرقہ وارانہ تشدد کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، یہ ایک ایسا موقف ہے جو پریشان کن اور بلاجواز ہے۔ یہ بات درست اور حقیقت پسندانہ ہے کہ مولانا چاہتے ہیں کہ مسلمان فرقہ وارانہ عناصر کے اصرار پر مشتعل نہ ہوں، کیونکہ ہر فرقہ وارانہ تشدد کا نشانہ مسلمان ہی بنتے ہیں۔ ریاستی مشینری اور تخریبی عناصر ساتھ ہوتے ہیں اور بالآخر ہر فرقہ وارانہ تشدد کا نشانہ مسلمان ہی بنتے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ پرتشدد اشتعال انگیزیوں کے باوجود عدم تشدد، تحمل اور صبر کا راستہ اختیار کریں۔ مسلمانوں پر ظلم نہیں بلکہ خدا کی طرف سے عذاب ہو رہا ہے، مولانا کی ایک نئی منطق ہے، جس پر بحث کی جا سکتی ہے۔ کس کو سزا دی جا رہی ہے، کس کو آزمایا جا رہا ہے یہ خدا کی قدرت ہے کہ مولانا اپنی منطق کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ظلم کس پر ہو رہا ہے اس کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد کے لیے صرف مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرانا ایک ایسا موقف ہے جو وقت کی کسوٹی پر کھڑا نہیں اترتا۔

مولانا کے نزدیک ہر صورت حال کا تدارک یا تو ردعمل کے ذریعے کیا جا سکتا ہے یا صبر سے۔ مولانا کے لیے صبر اسلام کی خوبیوں میں سے لاجواب خوبی ہے، اس لیے اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ "ایک شخص میں صبر اور عقل کی کمی اس کے دشمن کا سب سے مہلک ہتھیار ہے۔ سب سے بے وقوف وہ ہے جو یہ ہتھیار خود اپنے مخالف کو دے دے۔ یہی بات پوری قوم کے لیے بھی درست ہے۔" (P-49)

مولانا مزید لکھتے ہیں کہ "اس سلسلے میں مسلمانوں کو ان تمام عوامل کو بھی ختم کرنا ہوگا جو ان کے اور دوسروں کے درمیان تصادم کی فضا پیدا کرتے ہیں مثلاً اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا، احتجاج کی سیاست کرنا، ہنگامہ آرائی کرنا،  مسجدوں اور مندروں کے تنازعات کو بڑھانا، وغیرہ۔ (P-68) مولانا چاہتے ہیں کہ مسلمان سنگین اشتعال انگیزیوں میں مشتعل نہ ہوں۔ وہ شمالی اور جنوبی ہندوستان کے معاملے میں بھی تضاد رکھتے ہیں، جیسا کہ شمال میں فرقہ وارانہ تشدد جنوب کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

مولانا کے مطابق اسلام کی روح پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ اسے فرقہ وارانہ جذبات کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ فرقہ وارانہ جذبہ اسلام کی روح کو تباہ کر رہا ہے کیونکہ اس کا پیغام آفاقی ہے اور یہ اسے صرف قوم مسلم کے اندر ہی محدود کر دیتا ہے۔ نیز اس جذبے نے مسلمانوں کو صرف برادری کے طور پر پیش کیا ہے، نہ کہ عیسائیوں کی طرح انسانیت کی فلاح و بہبود میں کردار ادا کرنے والے لوگوں کے طور پر۔ لیکن مسلمانوں کی اس بے حسی پر فکر مند ہونے کے بجائے، وہ اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کا رونا روتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں انہوں نے اردو کو اپنی فرقہ وارانہ زبان بنالیا ہے اور اس بات پر احتجاج کررہے ہیں کہ حکومت اس زبان کے ساتھ امتیازی سلوک کررہی ہے۔ لیکن حقیقت میں اردو کسی بھی  اعلیٰ معیار کا ادب اور تحقیق کی تخلیق میں ناکام رہی ہے، اس لیے لوگ اس کے مطالعہ میں دلچسپی نہیں لیتے۔ مزید یہ کہ اردو کی تعلیم معاشی خوشحالی کے راستے نہیں کھولتی، اس لیے بہت کم لوگ اور حقیقت میں بہت کم مسلمان اردو میں تعلیم حاصل کرنے اور اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

مسلمانوں میں غرور کی نفسیات کی مذمت کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں، ''جب بھی مسلمانوں کو زوال کا سامنا ہوتا ہے تو ان میں فخر کا جھوٹا احساس پیدا ہوتا ہے۔ آج دنیا بھر میں مسلمانوں کا زوال اس لیے ہے کہ ان کے لیے مذہب کا تعلق فرض سے نہیں، بلکہ فخر سے ہے۔ قرآن (25:63) کہتا ہے: رحمٰن کے (سچے) بندے وه ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم والے ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وه کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔

لیکن جب مسلم معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے تو ایک بالکل متضاد ذہنیت پروان چڑھتی ہے۔ اس مرحلے میں مسلمان اسلام کی تعلیمات کو دوسروں پر برتری کے اپنے دعووں پر زور دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں، نہ کہ اپنی زندگی کو ان تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیے۔ اور اس طرح، قوم کے زوال کے اس مرحلے میں مسلمان فخر سے اعلان کریں گے کہ ’’ہمارا مذہب خالص توحید پر مبنی ہے!‘‘ اور ساتھ ہی ساتھ وہ مردہ اور زندہ ہستیوں کی پرستش بھی کرتے ہیں۔

وہ فخر کے ساتھ اعلان کریں گے، 'اسلام مساوات کا علمبردار ہے!' لیکن یہ دعویٰ ان کے تعلقات اور معاملات میں ظاہر نہیں ہوگا۔ وہ بڑے فخر سے دعویٰ کریں گے، ’’ہمارا مذہب ہمیں نیکی کو فروغ دینے اور برائی سے لڑنے کی تلقین کرتا ہے!‘‘ لیکن اگر آپ اس اصول کی روشنی میں ان کے اصل طرز عمل کا جائزہ لیں اور ان پر تنقید کریں تو آپ فوراً ان کے سب سے بڑے دشمن بن جائیں گے۔ (P-100-101)

یہ کتاب ہر اس شخص کو پڑھنا چایٔے جو اسلام میں عدم تشدد اور ہندوستان میں مختلف برادریوں کے درمیان امن کی تعمیر کے تصور کو سمجھنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ مولانا کے بہت سے خیالات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن یقینی طور پر امن اور عدم تشدد کے ایک مضبوط حامی کے طور پر، ان کے خیالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور اسے فوراً رد نہیں کیا جا سکتا۔

English Article: Muslims Resorting To Violence Is In Complete Contrast to Islamic Teachings

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslims-violence-islamic-teachings/d/129559

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..