New Age Islam
Thu Jan 16 2025, 07:09 AM

Urdu Section ( 1 Feb 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslims are On The Road to Save Constitution, Not Islam 'مسلمان اسلام بچانے نہیں ، بلکہ آئین بچانے سڑک پر اترا ہے'


جاوید آنند

23 جنوری ، 2020

آج سے چند ہفتوں پہلے تک  ایسا لگتا تھا کہ سیکولرزم ، انصاف ، آزادی ، مساوات اور آپسی بھائی چارگی کچھ  ایسے بے جان الفاظ ہیں جن کا کوئی خاص معنی نہیں ہے ، جو ایک ایسی  کتاب کے صفحوں میں بند ہیں جسے کم ہی لوگوں نے پڑھی ہے ۔ لیکن آج ان سارے الفاظ میں  جیسے کسی نے نئی جان پھونک دی ہے ، جو ملک کے کونے کونے سے گرج رہے ہیں ، جو کروڑوں کی زبان پر بھی ہے اور دلوں میں بھی دھڑک رہے ہیں۔ "ہم بھارت کے لوگ" ، جو مختلف  مذہب ، ذات ، جنس اور زبان سے تعلق رکھنے والے ہیں ، وہ ایک ساتھ  بلند آواز میں بھارت کے آئین کی "پریایمبل" پڑھ رہے ہیں اور یہ حلف اٹھا رہے ہیں کہ آئین کے بنیادی اقدار ہمارے اقدار ہیں غرض یہ کہ ہندوستان کا آئین آج لوگوں کی کتاب بن گیا ہے۔

اگر آپ آزاد بھارت  کے تین مختلف تصاویر کو دیکھیں تو ہندوستانی مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قافلے کی ایک دلچسپ جھلک نمودار ہوتی ہے۔

پہلی تصویر (1985): علمائے کرام کے حکم پر  لاکھوں افراد - تمام مسلمان ، تمام مرد - نعرے لگاتے ہوئے سڑک پر آگئے۔ وجہ؟ سپریم کورٹ نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو برقرار رکھا  جس کے تحت یہ حکم دیا گیا ہے کہ ایک بوڑھی طلاق شدہ مسلمان خاتون ، شاہ بانو ، کو اپنے شوہر کو زندہ رہنے کے لئے ہر ماہ 179.20 روپے ادا کرنا ہوگا۔  ہر طرف "اسلام خطرے میں ہے" کا نعرہ گونج رہا ہے ، مطالبہ کیا جا رہا ہے  کہ مسلمان کو نکاح و طلاق جیسے گھریلو معاملات میں ملک میں لاگو قانون نہیں  بلکہ  شریعہ قانون۔ اس وقت  کی راجیو گاندھی کی سربراہی میں چل رہی  کانگریس حکومت ہتھیار ڈال دیتی ہے اور پھر یہیں سے جنم لیتا ہے دھرم پر آدھارت  (مسلم وومین ( پروٹیکشن آف رائٹس آن ڈایوورس) ایکٹ 1986 کا۔

دوسری تصویر (2018): ایک بار پھر علمائے کرام کے کہنے پر ہزاروں افراد شہر وں کی سڑک پر نکل آئے ہیں۔ اس بار بھی سب مسلمان ہیں ، لیکن تمام برقع پوش خواتین ہیں۔ یہ تحریک نریندر مودی حکومت کے اس نئے قانون کے خلاف ہے جو ٹرپل طلاق کو جرم قرار دیتا ہے اور مجرم شوہر کے لئے سخت سزا کا تعین کرتا ہے۔ یاد رہے ، علمائے کرام کا یہ فرمان کہ مسلم خواتین  کا عوام میں دکھنا  اور منھ کھولنا دونوں حرام ہیں۔ لہذا ، کوئی نعرہ سنائی نہیں دیتا۔ ہاں ، پوسٹرز موجود ہیں اور ان پر لکھا ہے ، "ٹرپل طلاق بل واپس لو ، شریعت ہماری جان سے  زیادہ عزیز ہے"۔ یعنی بیوی اپنے شوہر کے اس حق کے لئے سڑک پر آئی ہے ، جس کے رہتے ہوئے شوہر جب چاہے ایک پل میں بیوی سے چھٹکارا پا لے۔

تیسری تصویر (۱۹۱۹، ۱۹۲۰): پچھلے کئی ہفتوں میں ، ایک بار پھر مسلمان لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس بار فرق یہ ہے کہ مرد وخواتین ایک ساتھ میدان میں ہیں اور ان کے ساتھ بڑی تعداد میں ان کے دین کے ماننے والے اور نہ ماننے والے بھی ہیں۔ سب کا نعرہ ہے ، "سی اے اے کو واپس لے لو ، این پی آر-این آر سی نہیں چاہیے ، نہیں چاہیے"! تب اور اب میں بہت اور گہرا فرق ہے۔

پہلا: 1985 اور 2018 میں ،  اوپر سے علمائے کرام کا حکم آیا تھا۔ لیکن اس بار عام مسلمان علمائے کرام کے حکم کی تردید کرتے ہوئے آگے آئے ہیں۔ مودی شاہ کے کہنے پر ، مسلمانوں کے مشہور مذہبی لیڈران (شاہی جامع مسجد ، دہلی کے امام احمد بخاری ، مولانا محمود مدنی ، جمعیۃ علمائے ہند  کے جنرل سکریٹری ، اجمیر شریف درگاہ کے دیوان سید زین الحسین چشتی او رشیعوں کے بڑے رہنما کلب  جواد شامل ہیں) نے آواز  لگائی تھی کہ سی اے اے - این پی آر-این آر سی کے عمل سے ہندوستانی مسلمانوں کو کوئی  پریشانی نہیں اور انہیں  چاہیے کہ وہ خاموشی سے گھر بیٹھے رہیں۔   لیکن  کون سنتا ہے ان کی اس بات؟ آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں کل کے ہجوم نے قیادت کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور علمائے کرام اب ان کی پیروی کرنے پر مجبور ہیں۔

دوسرا : اس بار کا احتجاج مذہب پر مبنی نہیں ہے اور کسی طرح کے بھید بھاو سے پرے ہے۔مسلم مرد وخواتین باقی دیگر ہندوستانیوں کے ساتھ میدان میں اتر پڑے ہیں۔ ہاں کئی عورتیں برقع پوش ہیں یا حجاب میں ہیں مگر ان کے بیچ ایسی بہت ساری مسلم عورتیں بھی ہیں جنہیں دیکھ کر  فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ تو  "مسلمانوں جیسی دیکھتی ہی  نہیں"۔

تیسرا: اس تحریک کے اصل ہیرو مسلم خواتین ہیں ، جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وہ نوجوان خواتین  ہیں جن کی تصویر وائرل ہوچکی ہے ، جس میں وہ  ایک لڑکے کو پولیس سے ڈنڈوں سے بچاتے انگلی کے اشارے سے ‘‘خبردار ’’ کہہ رہی ہیں۔ اور ہیروئین وہ  "دبنگ دادی مائیں" اور وہ نوجوان خواتین بھی ہیں  جو اپنے بیس دن کی عمر کا بچہ گود میں لیے ہفتوں سے  نئی دہلی کے شاہین باغ  میں پڑاو ڈال رکھا ہے۔

آخری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس بار مسلمان  کوئی "اسلام  یا  شریعت خطرے میں  ہے" جیسا  نعرہ سن کر گھروں سے باہر نہیں نکلے  ہیں۔ وہ اچھی طرح سے سمجھتا ہے  کہ اس کی شہریت خطرے میں ہے۔ دین اور دستور (آئین) کے مابین آج اس کے ذہن میں کوئی تناؤ نہیں ہے۔ عام مسلمان یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ آئین اسے شہریت کا حق دیتا ہے اور یہ وہ حق ہے جس کے ملنے پر ہی باقی  دوسرے تمام آئینی حقوق مل سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم مرد و خواتین دونوں ملک کے تمام لوگوں کے ساتھ ساتھ "آئین بچاو" کی تحریک کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکے ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں میں ، بہت سارے سیکولر لوگوں نے یہ بھی کہنا شروع کیا کہ سیکولرازم ایک بے جان سا  لفظ بن گیا ہے ، اس میں کوئی جذباتی اپیل باقی نہیں ہے۔ آج منائے جشن کی  ہندوستانیوں نے اس میں نئی جان ڈال دی ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ مسلمان اور ان کے خیر خواہ  ہوشیار رہیں کچھ ایسے  "اسلامسٹ" تنظیموں سے  جو اس تحریک کی وجہ سے اپنے نظریے کے لئے کارکنوں کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلم معاشرے میں "اسلامسٹ" ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو جمہوری سیاست میں یقین نہیں رکھتے اور جو ہندوستان اور پوری دنیا میں اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی ، جہاں آر ایس ایس ہندراشٹر کو ملک میں لانے پر تلی ہوئی ہے ، وہیں  "اسلامسٹ" خلافت کے خواب دیکھتے ہیں۔

مثلا اردو زبان میں جماعت اسلامی کا ‘‘دعوت’’ نامی ایک رسالہ چھپتا ہے۔ 2014 میں جب ابوبکر البغدادی نے شام اور بغداد میں اسلامی خلافت (داعش) کا اعلان کیا تو اس کے خیر مقدم میں  ماہ اگست میں 'دعوت' نے دو ایڈیٹوریل شائع کیا تھا جن کا اردو ترجمہ کرکے نیو ایج اسلام نامی معروف پورٹل  نے شائع کیا تھا۔ اس ایڈیٹوریل میں لکھا تھا: ‘‘یہ بہت ضروری ہے کہ اس خلافت کے اعلان کا خیر مقدم کیا جائے کیونکہ ہر مسلمان کا خواب ہے کہ ‘اسلامک خلافت’ قائم ہو ۔اس موضوع پر تاریخ میں کبھی بھی مسلم سماج میں کوئی مت بھید نہیں رہا’’۔ یہ بھی دھیان میں رہے کہ اس وقت جماعت اسلامی کے سوا اور بھی تنظیمیں اور علما تھے جنہوں نے بھی داعش کا خیر مقدم کیا تھا ، لیکن بعد میں جب داعش کی بربرتا کی خبریں عام ہو گئیں تو بغدادی کے حمایتیوں کو خاموشی توڑنی پڑی۔   

  آج بھی  آپ چاہیں تو کسی جماعت اسلامی ، ہندوستان کی ویلفیئر پارٹی (جماعت کا انتخابی ونگ) یا اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (جماعت کی اسٹوڈنٹ ونگ) کے فل ٹائمر سے  پوچھ سکتے ہیں  کہ وہ خلوص کے ساتھ کس وچار دھارا کو مانتے ہیں ۔ یا آپ خود گوگل سرچ کرکے جماعت کی آئین پڑھ سکتے ہیں۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا (PFI) اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI جو PFI کی انتخابی ونگ بھی ہے) بھی اسی نظریہ سے وابستہ ہیں۔

اگر عدم تشدد کی راہ پر چلتے ہوئے اسلامسٹ  تنظیم بھی  CAA-NPR-NRC عمل کے خلاف اپنا محاذ بلند کرتے ہیں  تو یہ ان کا بنیادی حق ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن لبرل بائیں بازوؤں کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو  کہ مسلمانوں کی  بنیادی اور شہری حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ، وہ  ایسی اسلامی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کر بیٹھے جن کے افکار ونظریات لوکشاہی کے اصولوں کے خلاف ہے۔خاص کر آج کی صورتحال میں جب کہ آندولن کے مسلمان ہر دن یہ سیکھ لے رہا ہے کہ اسلام اور سیکولرزم میں کوئی تنازعہ ضروری نہیں ہے۔

(یہ انگریزی دینک انڈین ایکسپریس میں شائع  مضمون کا اردو ترجمہ ہے)

Source: https://hindi.sabrangindia.in/article/muslims-come-on-the-road-not-to-save-islam-but-to-save-the-constitution

URL for Hindi article: https://www.newageislam.com/hindi-section/muslims-road-save-constitution-islam/d/120882

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslims-road-save-constitution-islam/d/120946

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism



Loading..

Loading..