New Age Islam
Tue May 13 2025, 10:06 PM

Urdu Section ( 24 Nov 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslims Need Redemption, Not Reforms مسلمانوں کو اصلاح کی نہیں بلکہ نجات کی ضرورت ہے

 معین قاضی، نیو ایج اسلام

 4 اکتوبر 2023

 ہندوستان میں ان دنوں بہت سی باتیں رونماء ہو رہی ہیں، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کی قدامت پسند ہندو قوم پرست حکومت کی بڑھتی ہوئی آمریت ان میں سے ایک نہیں ہے۔ ہندوستان کے مسلمان اس کہانی کا آسان سا حصہ ہیں۔ اس کہانی کا مشکل حصہ وہ ہے جو ہماری قوم کے ساتھ ہوا ہے۔ ہر ہندوستانی مسلمان اس خاموشی کے بارے میں جانتا ہے: جب کوئی دوسرا ہندوستانی، بالعموم ایک ہندو، آپ کا نام سنتا ہے، چند لمحے انتظار کرتا ہے، اور پھر، جھکی ہوئی پیشانی کے ساتھ ایک قدم پیچھے ہٹتا ہے، اور حیرانی اور الجھن کے عالم میں پوچھتا ہے کہ آپ بھی ہندوستانی ہیں۔ یہ رویہ شک کو جنم دیتا ہے، گویا ہماری ہندوستانیت مشکوک ہے— یا اس سے بھی بدتر، گو کہ ہم ہندوستانی ہی نہیں ہیں۔

 جب 1947 میں برصغیر پاک و ہند سے انگریزوں کا انخلا ہوا، جس کے بطن سے ہندوستان اور پاکستان نام کے دو ملک معرض وجود میں آئے، تو اس خطے کے مسلمانوں کے پاس ایک موقع تھا۔ وہ پاکستان میں آباد ہو سکتے تھے، جہاں وہ مسلم اکثریت کا حصہ ہوتے، یا اپنے اصل وطن ہندوستان میں رہ سکتے تھے جہاں وہ ایک ہندو اکثریتی لیکن آئینی طور پر سیکولر ریاست میں بطور اقلیت کے رہتے۔

 ہندوستان مذہبی، نسلی اور لسانی اعتبار سے ایک کثیر جہتی ملک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں 200 ملین مسلمان بستے ہیں جن میں سے اکثر سنی ہیں، جو کہ کل آبادی کا تقریباً 15 فیصد بنتے ہیں، اور اب تک کی سب سے بڑی اقلیت ہے۔ ہندوؤں کی آبادی تقریباً 80 فیصد ہے۔ ہمارے ملک کی مسلم آبادی متنوع ہے، جس کی زبان، ذات، نسل بھی الگ الگ ہے اور جو سیاسی اور اقتصادی طاقت کے اعتبار سے بھی ایک نہیں ہے۔

 ہندوستان میں اقلیتوں کی معاشی پسماندگی

جب ملک تقسیم ہوا تو جو لوگ پیچھے رہ گئے وہ روایتی طور پر کاریگر تھے، اور زیادہ تر دستکاری مہارتوں کو مشینی انقلاب نے دبا دیا، جس سے اکثر کاریگر مروجہ سیاسی معیشت کے تحت بے روزگار ہو گئے۔ یہ لوگ اپنا روایتی ذریعہ معاش کھو چکے ہیں جنہیں وہ اب حکومت اور کاروباری تعاون کے بغیر دوبارہ حاصل نہیں کر سکتے۔ اس کے برعکس ہندو تاجر اور کاروباری لوگ ملک کی تیز معاشی ترقی سے خوشحال ہوئے ہیں۔

 ملک کے حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ اگر یہاں کے شہریوں کا ایک بڑا حصہ نفرت اور بے اعتنائی کا نشانہ بنا رہتا ہے تو ہندوستان بہت زیادہ ترقی نہیں کر جاسکتا۔ جب کسی قوم کو بار بار کہا جاتا ہے کہ اس کے بڑے بزرگ لوٹ مار کرنے والے تھے اور ملک کے لیے خطرہ تھے، تو در اصل اسے ملک سے محبت اور اس کے لیے قربانی کے گہرے تاریخی رشتوں سے کاٹ دیا جاتا ہے، جس سے ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت اور ملک میں ان کی حیثیت کا تعین ہوتا ہے۔ بی جے پی ہندوستانی معاشرے کے کسی بھی طبقے میں کوئی حقیقی پہچان بنانے کی امید نہیں کر سکتی اگر اس کی پالیسیاں ان محب وطن مسلمانوں کو دیوار سے لگانے والی ہیں جو اپنی ہندوستانیت پر فخر کرتے ہیں۔

 حکومت نے اقلیتوں کی ترقی کے لیے متعدد پالیسیاں بنائی ہیں۔ پھر بھی، اکثر مسلمانوں کا بالعموم یہی ماننا ہے کہ یہ سب محض دکھاوے کے لیے ہے۔ تیز رفتار ترقی کے باوجود ان کے اور دوسروں کے درمیان ترقیاتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔ بہت سے مسلمانوں کا بالعموم یہ خیال ہے کہ سماج کے مختلف طبقات میں کچھ لوگوں کو خوف ہے کہ مسلمانوں کو انوکھے فائدے دے کر بااختیار بنانے سے ملک میں فرقہ وارانہ سیاست کو تقویت ملے گی۔ اس عنصر اور ووٹ بینک کی سیاست کی وجہ سے مرکزی اور ریاستی حکومتوں میں قوت ارادی کی کمی نے ہی ملک میں اقلیتوں کے درمیان ترقی کے عمل کو متاثر کیا ہے۔ حال ہی میں، مرکزی حکومت نے کئی ایسے قوانین منظور کیے ہیں جن سے مذہبی اقلیتوں کی زندگی مزید مشکل ہو گئی ہے۔ اسے بی جے پی کے اکثریت پسند بیانیے اور اس کی جبلی فرقہ واریت سے فروغ حاصل ہو رہا ہے جس کی بنیاد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک دائمی اور تفرقہ انگیز سماجی تصادم پر ہے۔ کئی ریاستی حکومتوں نے انسداد تبدیلی مذہب قوانین بھی باس کیے ہیں جس سے لوگوں کا کسی نئے مذہب میں داخل کرنا غیر قانونی عمل بن جاتا ہے۔ ان اقدامات کا ظاہری مقصد عیسائیوں کی طرف سے مذہب کی تبدیلی کو روکنا ہے، جو کہ ان کا آئینی حق ہے، یا ہندوؤں کو اسلام سے بچانا ہے۔ لیکن تاریخی طور پر اپنا مذہب تبدیل کرنے سے اس مظلوم نچلی ذات کے لوگوں کو ذات پات پر مبنی سماجی سختیوں اور آزمائشوں سے بچنے کا راستہ ملا ہے۔ یہ سب اقلیتوں کو ڈرانے اور ان کی زندگی اجیرن کرنے کی کوششیں ہیں۔

سماجی گروہوں کی شبیہ مسخ کرنا

 متعصبانہ پالیسیوں کے ذریعے اقلیتوں کی شبیہ مسخ کرنا اور انہیں ملک کی تمام برائیوں کا ذمہ دار ٹھہرانا ایک پسندیدہ بیانیہ بن چکا ہے۔ اور یہی بیانیہ بار بار تاریخ میں دہرایا جاتا رہا ہے جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر، حکومت ہندوستانیت کے تصور کو از سرِ نو تشکیل دینے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اسے ہندو ہونے کا مترادف بنایا جا سکے۔ قدامت پسند بھارت کی سیکولر روایات کو ختم کرنے اور ملک کو ہندوؤں کے وطن اور ایک مذہبی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلمان اپنے اوپر ایک سایہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ خطرناک کھیل متنوع اور نازک سماجی تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دے گا جس کی روایت ہندوستان میں صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ ہندوستان کے بانیوں نے اس ملک کے لیے سیکولرازم کی وکالت کی تھی جس کا مقصد ملک کی مختلف برادریوں کو ایک چھت کے نیچے اکٹھا کرنا تھا۔ درحقیقت، جواہر لال نہرو نے ہندوستان کی جامع ثقافت کو اس کی سب سے بڑی طاقت قرار دیا تھا۔

 ہندوستانی سیکولرازم ایک پوری تہذیب کا بائی پروڈکٹ ہے۔ مشہور ناول نگار اور نہرو خاندان کی رکن نینتارا سہگل کے مطابق،

 "ہم اس دنیا میں منفرد ہیں کہ ہم بہت ساری ثقافتوں اور مذاہب سے مالا مال ہیں۔ اب وہ ہم پر صرف ایک ثقافت تھوپنا چاہتے ہیں۔ اس لیے یہ ایک مشکل وقت ہے۔ ہم اپنی ورثہ کھونا نہیں چاہتے۔ جو کچھ بھی اسلام نے ہمیں دیا ہے، جو عیسائیت نے دیا ہے، جو سکھ مذہب نے دیا ہے، انہیں ہم کھونا نہیں چاہتے۔ ہم یہ سب کیوں کھوئیں؟ ہم سب ہندو نہیں ہیں، لیکن ہم سب ہندوستانی ضرور ہیں۔"

مثبت کارروائی سے مراد سماجی طور پر پسماندہ افراد کی مدد کے لیے کم از کم تین اقدامات ہیں: مثبت اقدامات، تعمیری امتیاز، اسکول/کالج میں داخلہ اور ملازمت کا زبردست کوٹہ۔ مخصوص اسکولوں یا پیشہ ورانہ رہنمائی کی سہولیات کی فراہمی سے لے کر یہ اعلان کرنے تک کہ حکومت مخصوص طبقوں کو ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کی ٹریننگ دے گی، اس کی کئی شکلیں ہوسکتی ہیں۔ تعلیمی اداروں، قانون ساز اداروں اور سرکاری دفاتر میں پچھڑے اور پسماندہ لوگوں کے لیے کوٹہ پر مبنی نشستوں کو ان لوگوں کے لیے مساوی مواقع کو یقینی بنانے کا طریقے سمجھا جاتا تھا جو سماجی اور اقتصادی وسائل سے محروم تھے۔ ذات پات پر مبنی امتیازات اور خاص طور پر چھوا چھوت اور جبری علیحدگی کو امتیازی سلوک مانا جاتا تھا جس سے یہ پچھڑے لوگ پسماندگی کا شکار ہو گئے تھے۔ ان سب سے بڑھ کر ریزرویشن کو اس ناانصافی کا اعتراف اور اب تک ان محروم طبقات کو سماجی اور سیاسی مین اسٹریم میں لانے کا ذریعہ مانا گیا تھا۔ ان پچھڑے اور پسماندہ طبقوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کی پالیسی نے کسی حد تک سرکاری ملازمتوں میں ان کی شرکت کو یقینی بنایا ہے۔

 اگرچہ "پسماندہ" طبقات کے انتخاب میں مذہب کو بطور معیار استعمال کرنے کی آئینی حیثیت کو کھل کر چیلنج نہیں کیا گیا، لیکن حکومت اور عدالتوں نے عملی طور پر اس کے نفاذ کو مسترد کر دیا ہے؛ لہذا، اقلیتی گروہوں کو "پسماندہ" نہیں مانا گیا تاکہ پسماندگی کی بنا پر انہیں خصوصی تحفظات فراہم کیا جا سکے۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں: (i) یہ سیکولرازم سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ (ii) مسلمانوں میں ذات پات کے نظام کی عدم موجودگی کی بنا پر، خصوصی مراعات کے جواز کے لیے ان میں سماجی سطح پر کوئی امتیاز سلوک نہیں پایا گیا؛ اور (iii) اس سے قومی اتحاد کو نقصان پہنچتا۔

 ہندوستان میں ریزرویشن کا نظام، آئین میں درج سماجی انصاف کے اصولوں پر وضع کیا گیا ہے۔ آئین تاریخی طور پر پسماندہ برادریوں کے لیے ریزرویشن فراہم کرتا ہے جنہیں اب پسماندہ ذاتوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لیکن آئین ریزرویشن کا فائدہ اٹھانے والے طبقوں میں سے کسی کی بھی نشاہدہی نہیں کرتا ہے۔ ریزرویشن کے لیے مطلوبہ بنیادوں میں سے ایک لفظ "کلاس" کی تشریح کرنا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سماجی پسماندگی ایک متحرک اور ارتقا پذیر طبقہ ہے، جس میں ذات پات پر مبنی امتیازی سلوک صرف ایک علامت ہے۔ صنف، ثقافت، معاشی حالات، تعلیمی پسماندگی اور سرکاری پالیسیاں وغیرہ، سماجی حالات پر اثر انداز ہو سکتی ہیں اور محرومی اور سماجی پسماندگی کا سبب بن سکتی ہیں۔ سماجی پسماندگی کا تصور اس وقت تبدیل ہو سکتا ہے جب سیاسی معیشت ذات پات مبنی مقفل نظام سے ازاد، عالمی سطح پر مربوط اور بازار پر منحصر نظام میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کی علامات نقل و حرکت کے عمدہ انتظامات اور شہر کاری ہیں۔ ہم اس تبدیلی کا مشاہدہ اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ کر رہے ہیں جتنا ہمارے آئین سازوں نے تصور کیا ہوگا۔

 اپنے ایک مشہور فیصلے میں، سپریم کورٹ نے ہندوستان میں مثبت امتیاز کے بارے میں ایک ضروری نکتہ بیان کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس رنجن گوگوئی اور روہنٹن ایف نریمن نے کہا، "ایک تعمیری اقدام کی پالیسی جو صرف تاریخی ناانصافی کو ذہن میں رکھ کر بنائی گئی ہو، یقینی طور پر سب سے زیادہ مستحق پسماندہ طبقے کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے گی، جو آئینی طور پر لازمی بھی ہے۔ یہ ان نئے ابھرتے ہوئے گروہوں کی پہچان کرنا ہے جن پر ریاست کو توجہ دینا چاہیے۔"

 ہمیں پسماندگی کا اندازہ لگانے اور ذات پر مبنی پہچان پر انحصار کو کم کرنے کے لیے نئے معیارات تیار کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ صرف یہی اقدام آج کے دور میں زیادہ سے زیادہ طبقات کو اجتماعی تخمینے کے ذریعے مثبت اقدامات کے فوائد حاصل کرنے کے قابل بنا سکتا ہے، ورنہ، مثبت کارروائی کا آلہ کار نئے سرے سے ناانصافی کو جنم دے گا۔ مسلمان نئے "پسماندہ" گروہوں میں مثبت امتیاز کی کچھ شکلوں کے اہل بن سکتے ہیں۔

 ہندوستان میں 3,743 پسماندہ ذاتیں اور ذیلی ذاتیں ہیں، جو یہاں کی آبادی کا نصف ہیں۔ لہذا، یہاں ذات پات کی جنگ کی کوئی انتہاء نہیں ہے۔ جیسا کہ برطانوی صحافی ایڈورڈ لوس نے اپنی کتاب (Despite the Gods) میں لکھا ہے، نتیجہ "جمہوری دنیا میں سرپرستی کا سب سے وسیع نظام" ہے۔

استحصال کے امکانات سے پھر پور اس طرح کے حالات میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مقابلہ جان لیوا ثابت ہو۔ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک کے پیش نظر ہمیں تاریخی طور پر غلط یا فرسودہ زمرے بندی سے پیدا ہونے والی سماجی پسماندگی کے حوالے سے بے بنیاد مفروضوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔ بڑھتے ہوئے ذرائع مواصلات کے وسیع تناظر میں، حکومت کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو معاشی اور سماجی طور پر بااختیار بنائے تاکہ وہ مجموعی سماجی اصلاحات کے لیے مناسب حل نکال سکیں۔

 ہندو قدامت پسند نظریہ 1920 کی دہائی سے موجود ہے۔ آج سے پہلے کبھی بھی یہ بطور سیاسی نظریے کے اس قدر غالب نہیں رہا۔ ایودھیا تحریک بی جے پی کی ترقی اور مرکزی دھارے کی جماعتوں کے ٹھوس متبادل کے طور پر ابھرنے کا نقطہ آغاز تھی۔ اس سے قبل کہ مسلم لیگ [جس نے پاکستان کے قیام پر زور دیا] دو قومی نظریے کی ترجمانی کرتی، تیس کی دہائی میں، ونائک دامودر ساورکر [ہندو-قوم پرست تحریک کے ایک رہنما] نے دو قومی نظریہ - کہ ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں - پیش کیا۔ آج، ہر کوئی دو قومی نظریہ کو [پاکستان کے بانی] محمد علی جناح کے ساتھ جوڑ کر دیکھتا ہے، لیکن سب سے پہلے ساورکر نے دو قومی نظریہ پیش کیا تھا۔

 لائنڈن بی جانسن کے مشورے کو یاد رکھنا دانشمندی ہو گی،

 "آپ قانون کو ان فوائد کی روشنی میں نہیں جانچتے جو اس کے صحیح نفاذ سے حاصل ہونے والے ہیں، بلکہ ان خساروں اور نقصانات کی روشنی جانچتے ہیں جو اس کے غلط طریقے سے نفاذ کی صورت میں ہونے والے ہیں۔"

 اس طرزِ عمل کی نتائج کا خلاصہ مشہور مصنف خوشونت سنگھ نے اپنی کتاب دی اینڈ آف انڈیا میں پیش کیا ہے:

 "ہر فسطائی حکومت کو ایسے لوگوں اور گروہوں کی ضرورت ہوتی ہے جنہیں وہ اپنے عروج کے لیے بدنام کر سکے۔ اس کی شروعات ایک یا دو گروہوں سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ اسی پر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ نفرت پر کھڑی کی گئی تحریک مسلسل خوف اور فتنہ و فساد پیدا کر کے ہی خود کو زندہ رکھ سکتی ہے۔ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ اگر ہم ہندوستان کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ اچھی طرح سمجھنا ہوگا۔"

 نسلی کشیدگی کی آگ بھڑکانے کے بجائے، عقلمندی سوامی وویکانند کے فلسفے کو اپنانے میں ہے، جنہوں نے برملا اقرار کیا کہ مجھے "ایک ایسے ملک سے ہونے پر فخر ہے جس نے تمام مذاہب اور روئے زمین کی تمام خطوں کے مظلوموں اور پناہ گزینوں کو پناہ دی ہے"۔

ہماری زندگی کے عظیم تنوعات کو ایک ہی شناخت کے حوالے کرنے کی کوشش کرنا مضحکہ خیز ہے۔ ایک یکساں اور معیاری ثقافت کی تلاش میں سرگرداں ہونے کے بجائے، جو پوری آبادی میں یکسانیت پیدا کر دے، ہمیں ایک مستحکم اور ماڈل جمہوریت کے لیے کوشش کرنی چاہیے جہاں تمام شہریوں کے تمدن اور ثقافت کی قدر کی جاتی ہو۔ اسی میں تہذیب کی رونق اور ہمارے آئین کے تکثیریت کے وعدوں کی تکمیل ہے۔

 مسلمانوں اور غیر مسلموں کی عینک استعمال کرنے کے بجائے، حکومت کو اپنا نظریہ بدلنا چاہیے اور مسلمانوں کے معاشی مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ دوسرے ہندوستانیوں کے مقابلے مسلمانوں میں تشدد یا ملک مخالف جذبات کا کوئی رجحان نہیں ہے۔ ان کا مذہب پرامن بقائے باہمی اور اخوت و مساوات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے؛ لبرل مسلمان پہلے ہی اس کا کافی ثبوت پیش کر چکے ہیں۔ مسلمانوں اور دوسروں کے درمیان اس عدم توازن کو تسلیم کیا جانا چاہیے اور اس کا ازالہ کرنا چاہیے تاکہ ہمارا ملک ہندوستان ایک تکثیری معاشرے اور ایک متحرک تہذیب کے طور پر اپنی طاقت کو برقرار رکھ سکے۔

 English Article: Muslims Need Redemption, Not Reforms

URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslims-redemption-reforms/d/131169

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..