2021 میں 685 میں سے صرف
21 امیدواروں نے UPSC امتحانات میں کامیابی حاصل کی ہے
اہم نکات:
1. اس سال مسلمانوں کی
کارکردگی ایک دہائی میں سب سے بدترین ہے
2. مسلم امیدواروں کا ٹاپر
109 نمبر پر ہے
3. 21 مسلمانوں میں سے صرف
تین خواتین نے ہی امتحان پاس کیا ہے
4. مسلمانوں کی بہترین
کارکردگی 2016 اور 2017 میں تھی جب بالترتیب 52 اور 50 مسلم امیدواروں نے امتحان
پاس کیے تھے
5. خراب کارکردگی کی وجہ ملک میں مسلمانوں کی
معاشی اور تعلیمی پسماندگی ہے
-----
نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
31 مئی 2022
یونین پبلک سروس کمیشن کے
امتحانات 2021 کے نتائج منظر عام پر آ چکے ہیں جس کے ساتھ مسلمانوں کی کارکردگی کا
بھی حسب معمول تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ اس سال 685 امیدواروں میں سے صرف 21 مسلم
امیدواروں نے ہی امتحان پاس کیے ہیں۔ کامیاب مسلم امیدوار صرف 3 فیصد ہیں۔ یہ بہت
مایوس کن ہے کیونکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی کل آبادی
14.2 فیصد ہے۔ اس سے بھی بدتر ان کی رینکنگ ہے۔ مسلم امیدواروں کی ٹاپر ایک لڑکی
ہے جسکا رینک 109 ہے۔ صرف تین مسلم لڑکیاں --- اریب نعمان، شمیلہ چودھری اور مسکان
ڈاگر نے سول سروسز کے امتحانات پاس کیے ہیں جبکہ اس سال تین غیر مسلم لڑکیاں --
شروتی شرما، انکیتا اگروال اور گامنی سنگلا -- بالترتیب پہلی، دوسری اور تیسری
پوزیشن حاصل کرنے والی امیدوار ہیں۔
اگر ہم گزشتہ دس سالوں میں
مسلم امیدواروں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ پاتے ہیں کہ ان کی کارکردگی بہت ہی
بے ترتیب ہے۔ 2009 میں، 791 امیدواروں میں سے 31 کامیاب امیدواروں کے ساتھ ان کا
تناسب تقریباً 4 فیصد تھا۔ 2016 اور 2017 میں، 5 فیصد مسلم امیدواروں نے UPSC کا امتحان پاس کیا۔
2014 میں 1236 امیدواروں میں سے صرف 38 مسلم امیدواروں نے امتحان پاس کیا جو کہ 3
فیصد تھا۔ 2009 سے لیکر اب تک کامیاب امیدواروں کی فہرست ذیل میں دی جا رہی ہے۔
2009 ------ 791 میں سے 31
2010 ------ 875 میں سے 21
2011 ------ 920 میں سے 31
2012 ------ 998 میں سے 30
2013 ------ 1122 میں سے
34
2014 ------ 1236 میں سے
38
2015 ------ 1078 میں سے
34
2016 ------ 1099 میں سے
52
2017 ------ 1058 میں سے
50
2018 ------ 759 میں سے 27
2019 ------ 829 میں سے 42
2020 ------ 767 میں سے 31
2021 ------- 685 میں سے
21
گزشتہ سال 685 امیدواروں
میں سے 568 مرد جبکہ 117 خواتین تھیں۔ 117 خواتین میں سے 3 خواتین نے ٹاپ تھری
پوزیشن حاصل کی تھی جو کہ قومی سطح پر خواتین کی اچھی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت
ہے۔ تاہم، 2021 میں خواتین کی تعداد 2020 کے مقابلے میں کم یعنی 216 تھی۔ اس کی
وجہ وبائی بیماری ہو سکتی ہے۔ 2020 اور 2021 میں مسلمانوں کی خراب کارکردگی کو بھی
وبائی مرض کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ 2019 میں کامیاب مسلم امیدواروں کی
تعداد 42 تھی جو کہ تقریباً 4 فیصد تھی۔
سول سروسز میں مسلمانوں کی
مجموعی کارکردگی خراب رہی ہے اور اس کی مختلف وجوہات بھی بتائی جاتی ہیں۔ سب سے
بڑی وجہ مسلمانوں کی خراب معاشی اور تعلیمی حالت ہے جو سول سروسز میں ان کی
کامیابی کی راہ میں ایک بڑی روکاوٹ ہے۔ اگرچہ، مسلمان ہندوستان کی کل آبادی کا
تقریباً 15 فیصد ہیں، لیکن وہ تمام مذہبی برادریوں میں تعلیم کے اعتبار سے سب سے
پسماندہ ہیں۔ مسلمانوں کی شرح خواندگی 68 فیصد ہے جو کہ سب سے کم ہے کیونکہ قومی
سطح پر اس کی اوسط 74 فیصد ہے۔ سب سے زیادہ شرح خواندگی جین برادری میں ہے، یعنی
ان کی شرح خواندگی 84 فیصد ہے۔ صرف 17 فیصد مسلمان ہی میٹرک پاس ہیں۔ سول سروسز کے
اہل گریجویٹ مسلمانوں کا فیصد اس سے بھی کم ہو سکتا ہے۔
2006 میں ایس ایم آئی اے زیدی کی طرف سے کئے گئے ایک سروے کے مطابق
مسلمانوں کی سب سے زیادہ خواندگی کی شرح انڈمان اور نکوبار میں ہے کیونکہ وہاں 89
فیصد مسلمان خوانندہ ہیں۔ ہریانہ اور بہار میں بالترتیب 40 اور 42 فیصد کے ساتھ
شرح خواندگی سب سے کم ہیں۔ اتر پردیش، بہار، ہریانہ اور مغربی بنگال ایسی ریاستیں
ہیں جہاں مسلمان دیگر مذہبی برادریوں سے کہیں زیادہ پسماندہ ہیں۔ بنگال کے
مسلمانوں کی پسماندگی حیران کن ہے کیونکہ وہاں کمیونسٹوں نے مسلمانوں کی مکمل
حمایت کے ساتھ 34 سال حکومت کی ہے۔
مسلمانوں کی ناقص شرح
خواندگی کی وجہ ان کی معاشی اور تعلیمی حالات کی خرابی ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے
مطابق وہ شیڈیول کاسٹ اور شیڈیول ٹرائب سے بھی زیادہ پسماندہ ہیں۔ یہ بھی واضح ہے
کہ ریاستی اور مرکزی حکومتوں نے ان کی معاشی اور تعلیمی ترقی کے لیے کمیٹی کی
سفارشات پر خلوص نیت کے ساتھ اب تک کوئی کام نہیں کیا ہے۔
مسلم امیدواروں کی خراب
کارکردگی کی ایک وجہ مالی طور پر کمزور امیدواروں کے لیے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ تک عدم
رسائی بھی ہے۔ اگرچہ دہلی اور کچھ دوسرے میٹروپولیٹن شہروں میں کوچنگ انسٹی ٹیوٹ
ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے اور اس وجہ سے وہ چھوٹے شہروں کے مسلم امیدواروں
کی پہنچ سے باہر ہیں۔ وہ لوگ جو مالی طور پر مضبوط ہیں وہ کوچنگ سینٹر میں تعلیم
حاصل کرنے کے لیے دہلی میں ہی قیام اختیار کر لیتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے چلائے
جانے والے کوچنگ سینٹرز پرائیویٹ کوچنگ سینٹرز کے برابر نہیں ہیں جو لاکھوں میں
فیس وصول کرتے ہیں۔
پچھلے دو سالوں میں مسلم
امیدواروں کی کمزور کارکردگی دیکھ کر ہمیں وہ دن بھی یاد آتا ہے جب 2020 میں 42 مسلمانوں نے UPSC کا امتحان پاس کیا
تھا جس پر ہندوستان کے اسلامو فوبیائی میڈیا کے ایک طبقے نے سول سروسز جہاد یا
بیوروکریسی جہاد کا پروپیگنڈہ خوب چلایا تھا۔ اگرچہ مسلمانوں کی کامیابی کی شرح
صرف 4 فیصد تھی لیکن میڈیا اور بالخصوص سدرشن ٹی وی نے اسے مسلمانوں کے بیوروکریسی
جہاد کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ مسلمانوں نے بیوروکریسی
میں گھسنے کی سازش رچی ہے اور یہ کہ بیوروکریسی میں داخل ہوکر مسلمان ملک پر حکومت
کرنے لگیں گے۔ تاہم، چینل نے اپنے نظریہ کی تائید کے لیے کوئی اعداد و شمار پیش
نہیں کیے تھے۔ مسلمانوں کی کامیابی کا فیصد دراصل ان کی آبادی سے بہت کم ہے جس سے
یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی اور انہیں اسمبلیوں، پارلیمنٹ اور
بیوروکریسی میں متناسب نمائندگی دینے کے لیے حکومت پر عزم نہیں ہے۔ لگاتار دو سالوں
میں UPSC امتحانات میں کامیاب مسلم امیدواروں کی گرتی ہوئی فیصد، اس کے پس
پشت وجوہات اور عوامل کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کا مطالبہ کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
English
Article: Muslims Continue to Perform Poorly In Civil Services
Exams
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism