ارشد عالم، نیو ایج اسلام
31 اگست 2022
اس کا واحد جواب سر تن سے
جدا کرکے نعرے سے لوگوں کو خاموش کرنا ہے
اہم نکات:
1. جو بھی نبی کی توہین
کرے اسے قتل کر دیا جائے، یہ اسلامی فقہ کا ایک مضبوط موقف ہے۔
2. حدیث اور سیرت نبوی کی
کتابیں ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ عہد نبوی میں ایسا ہی کیا جاتا تھا۔
3. معاملے کو الجھانے سے
مسلمانوں کا کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا، بلکہ انہیں اس معاملے کو مزید معقول انداز
میں نمٹنا چاہیے۔
4. اس سلسلے میں پہلا کام
اسلامی صحیفے کے ان حصوں پر سوال اٹھانا ہونا چاہیے جو اس طرح کے قتل کی اجازت
دیتا ہے۔
5. لیکن ایسا کرنے کے لیے
مسلمانوں کو سب سے پہلے اس غلط تصور سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا کہ ان کے صحیفے
آسمانی اور معصوم ہیں۔
------
جب بھی پیغمبر اسلام کی
توہین کی جاتی ہے، ہندوستان اور دیگر جگہوں کے مسلمان سر تن سے جدا جیسے نعروں کے
ساتھ اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ شکر ہے کہ، زیادہ تر معاملات میں، نعرے کے
پیچھے کا مطالبہ نافذ العمل نہیں ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات اس نعرے کے پیچھے کی
نیت، جو کہ پیغمبر اسلام کی توہین کرنے والے کا سر قلم کرنا ہوتا ہے، پوری ہولناکی
سے انجام پاتا ہے۔ ادے پور اور مہاراشٹر کا قتل اس روایت کا حصہ ہے جس کی ایک طویل
تاریخ رہی ہے۔ سلمان رشدی خوش قسمت تھے لیکن ان پر حملہ کرنے والے مسلم نوجوان کا
محرک کی بنیاد بھی یہی تھی: اپنے پیارے نبی کی توہین کا بدلہ۔
اس طرح کے کسی بھی حملے کے
بعد، مسلمان روایتی طور پر یہی بیان دیتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات میں ایسی
کارروائیوں کی کوئی اجازت نہیں ہے اور اسلام محبت اور رواداری کا درس دیتا ہے اور
مختلف برادریوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کو فروغ دیتا ہے۔ کچھ لوگ نبی کی سیرت
کی روشنی میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان لوگوں کو بھی معاف
کر دیا جنہوں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کو اذیت دیا کرتے تھے۔ لیکن کیا اسلامی
نظریہ واقعی ایسا ہی جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں؟ یا کیا اسلامی فقہ کے کسی حصے میں
پیغمبر کی توہین کرنے والے کے خلاف اس طرح کے تشدد کی اجازت ہے؟
احادیث اور سیرت نبوی میں
ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ لوگوں کو محض نبی کی توہین کرنے پر قتل کر دیا گیا تھا۔
وہ شاعر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت کی ہجو میں اشعار لکھ کر آپ صلی
اللّٰہ علیہ وسلّم کی ’توہین‘ کرتے تھے، انہیں سرعام قتل کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ
ایک لونڈی کو اس کے اپنے مالک، ایک نابینا مسلمان نے صرف اس وجہ سے قتل کر دیا کہ
وہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی توہین سے باز نہیں آئی۔ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا گیا اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اس قتل پر اپنی
رضا مندی کا اظہار کیا۔ یہ حدیث ابن عباس کی سند سے مروی ہے اس لیے اکثر علماء نے
اسے صحیح مانا ہے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس وقت تک مدینہ کی ریاست بن چکی تھی لیکن
وہ نابینا مسلمان اس معاملے کو نوزائیدہ ریاست تک نہیں لے گیا۔ اس مسلمان نے اس
عورت کو خود قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور پیغمبر نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں
کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی مسلمان نبی کی توہین کا بدلہ لے سکتا ہے اور
اس کے لیے ریاست کی منظوری ضروری نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں کا ماننا ہے۔ اس عورت
نے اس مسلمان مرد کے لیے دو بیٹے پیدا کیے تھے۔ لیکن پھر بات یہ ہے کہ محمد سے
عقیدت ہی ایسی ہے کہ یہ سب سے فطری رشتے کو بھی توڑ دیتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ قرآن توہین
رسالت کے لیے موت کی سزا کا تعین نہیں کرتا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن
پیغمبر کی توہین کرنے والے کو قابل مذمت قرار دیتا ہے۔ اس میں ایسے لوگوں کے لیے
دنیا اور آخرت دونوں میں ابدی سزائیں بیان کی گئی ہیں۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ
ایسے لوگ زیادہ دیر تک مسلمانوں کے پڑوسی نہیں رہ سکتے، اور اس طرح قرآن نے انہیں
نکال باہر کرنے کی تعلیم دی ہے۔ قرآن اسی آیت میں یہ کہتا ہے کہ ایسے لوگوں کو پکڑ
کر قتل کیا جائے گا [33:59]۔ 627 میں نازل ہونے والی آیات، جو کہ فتح مکہ سے پہلے
کی ہے، یہ پیشنگوئی کی گئی ہے کہ 630 میں فتح کے بعد کیا ہونے والا ہے۔ درحقیقت،
ہجویہ شاعروں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا، یہاں تک کہ وہ اس مقدس مقام پر بھی
قتل ہوئے جہاں خون بہانا حرام ہے۔ نبوت کے بارے میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کو
کبھی قتل کیا گیا، کبھی جلاوطن کیا گیا۔
یہ کہنا سراسر بے ایمانی
ہے کہ یہ لوگ مذہبی کی بجائے سیاسی وجوہات کی بنا پر مارے گئے۔ ابن اسحاق جیسے
نامور سوانح نگار ایسی کوئی وجہ بیان نہیں کرتے اور نہ ہی بخاری جیسے ممتاز
محدثین۔ وہ سب اس روایت کو درج کرتے ہیں جس میں نبی کی عزت داؤ پر لگی تھی۔ لیکن
مسلمانوں کے کچھ طبقے اسلام پر عدم روادار کا لیبل منطبق ہونے سے بچانے کے خواہاں
ہیں اسی لیے وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں کہ اس طرح کے قتل
اسلام کا حصہ نہیں ہیں اور یہ ان وجوہات کی بنا پر کیے گئے جن کا مذہب سے کوئی
تعلق نہیں تھا۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں مختلف رائے رکھنے والوں کو کچلنے کا رواج
نہیں ہے، یہ بات قابل فہم ہے کہ کچھ مسلمان توہین مذہب سے متعلق قتل پر شرمندگی
محسوس کریں گے۔ لیکن اسلام کی ایسی تصویر پیش کرنے کی کوشش میں جو جدیدیت سے ہم
آہنگ ہو، وہ خود اپنا دامن پھنسا لیتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ
ہمارے مذہبی کتابوں میں لکھی ہوئی چیزوں کو چھپاتے ہیں۔ یہ فکری بددیانتی مسلمانوں
کے اندر اس طرح کے موضوعات پر وسیع پیمانے پر بحث نہیں ہونے دیتی۔
یا یہ کہ مسلمان اپنی فقہ
میں بالخصوص اپنے نبی کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے اس پر مثبت طور پر شرمندہ ہیں؟
قطعی طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اس کا علم ہے اور وہ اس کے کچھ مشمولات سے
بہت شرمندہ ہیں، اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ دوسرے، خاص کر غیر مسلموں کو اس کا علم
نہ ہو یا وہ اس پر بحث نہ کریں۔ جو کوئی بھی اس مسلم قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے
اسے یا تو ستایا جاتا ہے، خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے یا
آخرکار مار دیا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ حکمت عملی واقعی کارگر ہے؟ آج کے دور اور
زمانے میں، کیا واقعی کسی کو کسی بھی تحریری متن تک رسائی حاصل کرنے سے روکنا ممکن
ہے؟ آج یہ وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں، اکثر مفت، انٹرنیٹ اور دیگر وسائل کے ذریعے۔
لہٰذا، اگر مسلمان اپنے مذہبی لٹریچر کو چھپانا چاہتے ہیں تو وہ کبھی کامیاب نہیں
ہوں گے۔ مسلم اور غیر مسلم دونوں، انہیں پڑھ سکیں گے اور اسلام کے بارے میں اپنی
ایک رائے قائم کر سکیں گے، جن میں سے کچھ مسلمانوں کے ساتھ مہربان نہیں ہوسکتے
ہیں۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے
کہ نبی کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس پر مسلمان شرمندہ کیوں ہیں؟ بہت سے
معاملوں میں، یہ یہودی اور عیسائی مذہبی لٹریچر سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اگر وہ
اپنے لٹریچر میں تعدد ازدواج اور غلامی کی مثالوں پر شرمندہ نہیں ہیں تو مسلمان اس
سے مختلف کیوں محسوس کرتے ہیں؟ شاید اس کا جواب ان مذہبی لٹریچر کو دی گئی حیثیت
میں پوشیدہ ہے۔ یہودی یا عیسائی برادری میں سے کوئی بھی اس بات پر بحث نہیں کرتا
کہ ان کی مقدس کتاب خود خدا کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ اسے انسانوں نے لکھا ہے اسی
لیے وہ اس وقت اور زمانے کے مطابق ہے جس میں اس کی تدوین ہوئی ہے۔ لیکن قرآن کا
دعویٰ خود اپنے بارے میں کافی مختلف ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ خدا کا کلام
ہے۔ اور اس لیے یہ نسلوں کے لیے ہے۔ لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ
مسلمان حدیث کو بھی قرآن کے مساوی ہی سمجھتے ہیں حالانکہ اسے پیغمبر اسلام صلی
اللّٰہ علیہ وسلّم کی وفات کے دو سو سال بعد انسانوں نے مرتب کی تھی۔ اور ہاں، یہ
کتابوں میں واضح طور پر مردوں اور عورتوں کی غلامی، قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا
ذکر ہے، جس میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حصہ لیا تھا۔ ہم خود کو نبی کے ایسے
کردار سے کیسے بری الذمہ کر سکتے ہیں جو ہماری اپنی کتابوں میں درج ہے؟
مسلمانوں کے پاس اس سوال
کا کوئی جواب نہیں ہے۔ پرتشدد ردعمل اور سر تن سے جدا کا نعرہ قطعی طور پر اس لیے
ہے کہ جب ان سے ناگوار سوالات کیے جاتے ہیں تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں
ہوتا۔ وہ صرف ایک ہی جواب جانتے ہیں کہ اس طرح کے سوالات پوچھنے والوں کو چپ کیا
جائے۔ لیکن کیا کوئی اور جواب ہو سکتا ہے؟
مسلمانوں کے لیے، اس صورت
حال میں ایک منطقی نقطہ نظر یہ ہو سکتا ہے کہ موجودہ تناظر میں ان کے مذہبی لٹریچر
کے کچھ حصے کو ناقابل عمل قرار دیا جائے۔ آخر جہاد اور غلامی کے بارے میں پڑھنے کا
کیا فائدہ جب مسلمانوں کی اکثریت خود اس قسم کے خیالات میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
ہمارے مدارس کیوں ہمیں کیوں سکھائیں کہ غلاموں کو کیسے خریدا اور بیچا جائے جب کہ
زیادہ تر مسلمان اس طرح کے عمل میں ملوث نہیں ہیں؟ لیکن ایسا ہو اس کے لیے ہمیں سب
سے پہلے یہ اعلان کرنا ہوگا کہ ہماری مذہبی کتابیں بے عیب نہیں ہیں اور وہ خود
الوہیت سے تقابل کے قابل نہیں ہیں۔ کیا ہم یہ فیصلہ لینے کے لیے تیار ہیں؟
-----
English
Article: Muslims Have No Answers to the Diatribe against the
Prophet
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism