گریس مبشر، نیو ایج اسلام
22 مئی 2024
فورم فار مسلم ویمنز جینڈر
جسٹس نے، مسلم خواتین کے حق میں، ہندوستان کے مسلم وراثت قانون میں بروقت اصلاح کے
مطالبے کی شکل میں، ایک پمفلٹ شائع کیا گیا ہے۔ فورم فار مسلم ویمنز جینڈر جسٹس، کیرلا
میں قائم ایک ایڈوکیسی گروپ ہے، جس کا مقصد
صنفی انصاف کے ذریعہ، مسلم خواتین کے حقوق اور حیثیت کے لیےآواز اٹھانا ہے۔ اس تنظیم
کا مقصد، اسلامی اصولوں اور وسیع تر انسانی حقوق کے فریم ورک کے تناظر میں، مساوات،
خودکفالت اور سماجی انصاف کو فروغ دے کر، مسلم خواتین کو درپیش انوکھے چیلنجوں سے نمٹنا
ہے۔
فورم فار مسلم ویمنز جینڈر
جسٹس - تعارفی پمفلٹ
یہ اجازت کے ساتھ، اصل ملیالم
کے انگریزی ترجمے کا اردو ترجمہ ہے۔
(https://www.sanghaditha.com/indian-muslim/)
-----
Photo: https://www.sanghaditha.com/indian-muslim/
---------------
پیارے شہریوں،
آپ اس بات سے بخوبی واقف ہوں
گے، کہ قدیم زمانے سے خاندانی جائیداد کی تقسیم میں، مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک
کیا جاتا رہا ہے۔ کبھی کبھی اس سے آپ کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، اس لیے آپ اس کے بارے
میں زیادہ نہیں سوچتے ۔ صرف اس لیے، کہ آپ ابھی تک اس کا شکار نہیں ہوئے ، اس کا مطلب
یہ نہیں ہے، کہ آپ یا آپ کے بچے مستقبل میں اس کا شکار نہیں بنیں گے۔ زندگی حادثات
سے بھری پڑی ہے۔ اگر ہم اس بات کو فراموش کر دیں،
تو اس کی وجہ سے ہماری زندگی میں بڑے بحران آ سکتے ہیں۔
شاید آپ نے سوشل میڈیا کے
ذریعے، ملاپورم کی ماں کی دکھ درد بھری داستان سنی ہوگی۔ اس کے شوہر خلیجی ملک میں
برسوں سے محنت مزدوری کر رہے تھے، اور ان کے پاس ایک مکان اور ایک زمین کا ٹکڑا ہے۔
اس کے علاوہ ان کی کمائی کا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا، شاید اس لیے کہ ان کی تین بیٹیاں
تھیں۔ ان میں سے ایک کا طلاق ہوگیا، اور بدقسمت باپ اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں رہتے
ہوئے فوت ہوگیا۔ اس ماں اور اس کے خاندان کی حالت زار ناقابل بیان ہے۔ موت کسی کو بھی
کسی وقت بھی آسکتی ہے۔ لیکن جب موت کسی خاندان کے سربراہ کی ہوتی ہے، تو اس کی موت
خاندان کے افراد کو عدم تحفظ کا شکار بنا دیتی ہے۔ اس نازک صورت حال میں، جن رشتہ داروں کو ان کے ساتھ کھڑے
رہنا چاہیے تھا، کیا ہو، اگر وہ اس کا فائدہ
اٹھائیں، اور مرد نواز قوانین کا استعمال کر
کے ان کی زندگی کو جہنم بنا دیں؟
چچا کے بھائیوں نے یہ کہا،
کہ گھر اور زمین بیچ کر قرض کی ادائیگی اور زندگی کی چھوٹی سی شروعات کرنے سے، چھوٹی
سی زندگی شروع کرنے کی، ان کی خواہش میں رکاوٹ پیدا ہو جائے گی۔ جیسے جیسے سال گزرتے
گئے قرضے کا بوجھ بڑھتا گیا، اور وہ غریب لوگ
بے بسی کے عالم میں تھے۔ کیونکہ ان کی صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں، اس لیے ماں کو یہ
دکھ اکیلے ہی سہنے پڑتے تھے۔ درحقیقت، صرف ان لڑکیوں اور باپوں کی مایوسی ہی زندہ ہے۔
اس خوف سے، کہ ان کی محنت سے کمائی گئی دولت کا ایک تہائی حصہ، وہ لوگ چھین لیں گے،
جنہوں نے اب تک ان کی کوئی پرواہ نہیں کی، یا جو ان سے زیادہ امیر ہیں۔ قرآن رشتہ داروں
کو صرف یتیموں کے مال کی دیکھ بھال کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ان کے بالغ ہونے تک، یتیموں
کے مال کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری ان کے
سر ہے۔ قرآن کہتا ہے، کہ بھائی صرف اس وقت وارث بن سکتے ہیں، جب اولاد نہ ہو (4:12,176)۔ بعض علماء، اگرچہ
یہ اسلام میں نایاب ہیں، کہتے ہیں کہ اس لفظ کو توڑ مروڑ کر، اس سے اولاد نہ ہونے کی حالت مراد لی گئی ہے۔ قرآن ہمیں
تنبیہ کرتا ہے، کہ یتیموں کا مال ناحق نہ کھایا جائے، کیونکہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھرنے کے مترادف ہے۔
تو کیا انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی، جو رشتہ دار خلیجی ملک میں مرنے والے باپ کی
جائیداد پر اپنا دعویٰ کر رہے ہیں، کہ وہ قرآن کے خلاف جا کر ناحق کام کر رہے ہیں؟
افسوس کی بات ہے، کہ جب حادثے میں جاں بحق ہونے والے باپ کی بیمہ کی رقم آجاتی ہے،
اور والد کا سایہ سر سے اٹھ جانے والے خاندان
کو، نیشنل روڈ ڈیولپمنٹ کو دی گئی زمین کا
معاوضہ بھی مل جاتا ہے، تو اس بگاڑ کی وجہ سے، لواحقین کو ایک ایک کا حصہ ادا کرنا
پڑتا ہے۔ !
یہاں تک کہ ججوں کے فیصلے
بھی، مسلم پرسنل لا کے واضح نہ ہونے کی وجہ سے، غیر منصفانہ ہو جاتے ہیں، جو ہندوستان
کی آزادی سے قبل 1937 میں برطانوی سامراج کا بنایا ہوا ہے ۔ کیا اس قانون پر نظر ثانی
اور اس میں ترمیم نہیں کی جانی چاہیے، اور مسلمانوں کے تمام طبقات پر یکساں اس کا اطلاق
نہیں ہونا چاہیے؟ اس کی ضابطہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے، ہر بار قرآن، فقہ کی کتابوں اور سابقہ عدالتی فیصلوں کا
سہارا لینا پڑتا ہے، اور اکثر غیر مسلم ججوں کو اپنے فیصلے دینے پڑتے ہیں۔ فیصلوں میں
پیدا ہونے والی ان خرابیوں کا ذمہ دار کون ہے؟ وقتاً فوقتاً یہ دلیل دے کر، کہ پرسنل
لاء کو ہاتھ لگانا قرآن سے کھیلنے کے مترادف ہے، مردانہ بالادستی والے قوانین کا دفاع
کرنے کا کیا فائدہ؟ تقریباً ہر کوئی جانتا ہے، کہ اسلام میں، خاندانی جائیداد کی تقسیم
کے معاملے میں، جائیداد میں مرد کے کے حقوق،
عورت کے حقوق سے دوگنا ہیں۔ جب حق وراثت کی بات کی جائے، تو عموماً صرف ایک چیز کا
ذکر کیا جاتا ہے، کہ جس دور میں عورتوں کو
جائیداد پر کوئی حق نہیں تھا، اسلام ہی جائداد میں انہیں حق دینے کا انقلابی قانون لے کر آیا تھا۔
قرآن کے بنیادی تصورات کی
روشنی میں، یہ سمجھا جا سکتا ہے، کہ اسلامی
قوانین میں زمانے کے مطابق ترمیم کی جانی چاہیے۔ یہ قانون اس دور میں اسلام نے پیش
کیا، جب مرد خود خاندان کے اخراجات اٹھایا کرتے تھے۔ (قرآن کی نظر میں 'کیونکہ وہ خاندان کا سرپرست ہے')۔ آج زمانہ بدل
گیا ہے۔ خواتین بھی تعلیم حاصل کرتی ہیں، ملازمتیں کرتی ہیں، اور خود اسلامی اصلاحات
کی بدولت، شادی کے بعد خاندانی اخراجات میں
حصہ لیتی ہیں۔ اور کچھ خاندانوں میں تو، مرد
کا غیر ذمہ دارانہ رویہ، خواتین کو گھر کے سارے اخراجات خود برداشت کرنے پر مجبور کر
دیتا ہے۔
تب بھی وہ آدھی بہو ہے! اور
وہ اپنے باپ کی نصف جائیداد کی مالک ہے، اگر اس کا شوہر فوت ہو جائے تو شوہر کی جائیداد
میں اس کا حق ہے، اور اگر بیوی مر جائے تو اس کے شوہر کا صرف آدھا حق ہے! جب بیٹا غیر
شادی شدہ مر جاتا ہے، تو اس کی جائیداد کا خمس اس کے باپ کو ملتا ہے، اور ماں کو صبر
سے اس کی پرورش کے لیے صرف ساتواں حصہ ہی ملتا ہے۔ اگر ایک سے زیادہ بیویاں اور بچے
ہوں، تو تمام بیویاں مرد کی جائیداد میں سے، ایک بیوی کے لیے مقرر کردہ، آٹھویں حصے
میں برابر کی حصہ دار ہوں گی۔ کیا یہ ایک ایسی
عورت کے ساتھ بہت بڑا ظلم نہیں ہے، کہ جس نے زندگی کی خوشیوں اور غموں کو ایک ساتھ
مل کر بانٹا ہے، حالانکہ دونوں کی حالت ایک جیسی ہو سکتی ہے، اس ایک اکیلی بیوی کو
جس کی کوئی اولاد نہ ہو، اس کے شوہر کی جائیداد
کا ایک چوتھائی حصہ ملے گا، باقی تین چوتھائی
اس کے رشتہ داروں کے پاس چلی جائے گی؟ مہر، جسے قرآن نے نکاح کے وقت عورت کا حق قرار
دیا تھا، آج اس کی اہمیت ختم ہو چکی ہے۔ اور جہیز کے بھاری بوجھ کے ساتھ، عقد نکاح
میں داخل ہونے کا نیا رواج، مسلم عوام میں
رائج ہو گیا ہے۔
کیا عورتوں کی جائیداد کو
ناجائز طور پر غصب کرنے کے قانون کو برقرار رکھنے کے لیے، قرآن کو ان لوگوں کے ساتھ
جوڑنا غیر اسلامی نہیں ہے، جو ان میں سے کسی بھی چیز کو قرآن کے خلاف نہیں سمجھتے؟
کیا آپ نہیں سوچتے، کیا آپ ذہانت کا استعمال نہیں کرتے، یہ سوال قرآن میں کئی بار آیا
ہے؟ اب بات کرتے ہیں ایک اور انصاف کی، جو پرسنل لاء کے نام پر انجام پاتا ہے۔ آپ میں
سے بہت سے لوگ اس صورتحال سے گزر چکے ہوں گے۔ ان بچوں کی حالت زار کا خیال کریں، جن
کے والد فوت ہو گئے ہوں، جب کہ ان کے دادا یا والدہ زندہ ہیں، اور ان کی والدہ کا ان
بچوں کے دادا کی جائیداد پر کوئی حق نہیں ہوتا!
اس موروثی جائیداد کے حق سے محروم ہونا تب وبالِ جان بن جاتا ہے، جب مرنے والے کی بیوی کو، چھوٹے چھوٹے
بچوں کی پرورش کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ علماء کو بیان کرنا چاہیے کہ اس ظلم کی بنیاد
قرآن کی کون سی آیت ہے؟
کئی مسلم اکثریتی ممالک نے
گزشتہ برسوں میں ایسے معاملات پر شرعی قوانین بنائے ہیں اور ان میں ترمیم کی ہے۔ مراکش
(1958 میں)، تیونس (1957 میں)، اردن (1951 میں)، پاکستان (1961 میں)، شام (1953 میں)،
عراق (1959 میں) اور ترکی، مصر اور بنگلہ دیش جیسے 20 سے زائد مسلم ممالک نے اپنے پرسنل لاء میں اصلاحات کیں ہیں۔ ان کے ہاں کوئی
شرعی قانون نہیں ہے: کیا اللہ نے شریعت کی حفاظت کی ذمہ داری صرف ہندوستانی مسلمانوں
پر عائد کی ہے؟ اگر ہاں! تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ کون سا ماڈل شریعت کہلائے
گا؟ اب تو، مین ٹیننس اینڈ ویلفیئر آف پیرنٹس اینڈ سینئر سٹیزن ایکٹ 2007، ہندوستان میں تمام ذاتوں اور مذاہب کے لوگوں پر
نافظ کر دیا گیا ہے۔ اس قانون کے مطابق، اب اس ذمہ داری کو نبھانے میں، مرد اور عورت
کی کوئی تفریق باقی نہیں بچی۔ یہ قانون، ان کی جائیداد کا صرف نصف حصہ پانے والی خواتین،
اور مسلم وراثت قانون کے تحت، وراثت سے محروم ہونے والے نواسوں کو، اس بات کی اجازت
نہیں دیتا کہ وہ اس ذمہ داری سے بچ سکیں۔ تو کس قانون میں اصلاح کی ضرورت ہے؟ بزرگوں
کے تحفظ کا قانون نہیں بن سکتا!
ہندوستان کا آئین ایک انوکھا
اور خوبصورت آئین ہے۔ آزادی، مساوات اور بھائی چارے جیسے تصورات، اس کی تمہید میں ہی
شامل ہیں۔ یہ ذات، مذہب، جنس اور زبان سے قطع نظر، تمام شہریوں پر لاگو ہوتا ہے۔ درحقیقت
یہ نظریات اسلام کے بنیادی اصولوں سے قریب ہیں۔ آئین بنانے والوں نے اس میں لکھا ہے،
کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے، اگر شکوک پیدا ہوں، تو دیکھ لیا جائے، کہ آیا یہ ان
بنیادی اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ نیز، آئین ہند میں، مذہب کی کثرت کو پوری
طرح سے تسلیم کرتے ہوئے، آرٹیکل 25 میں، مذہب پر عمل کرنے اور مذہبی طریقوں کے مطابق
زندگی گزارنے کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مذہبی مراسم، عوامی اخلاقیات،
صحت عامہ یا امن و امان کی بحالی کے حق میں نقصاندہ نہ ہوں۔ ہندو اور کرسچن لیبر قوانین
میں وقت کے ساتھ ترمیم کی گئی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں، کہ اب ان میں کوئی کمی
نہیں۔ لیکن مسلم پرسنل لا میں ایسی کوئی اصلاح یا ضابطہ بندی نہیں ہوئی ہے۔
مسلم قانون میں برائے نام
ہی کوئی ترمیم ہوئی ہے۔ ان میں سے کچھ کا ذکر، میں یہاں مناسب سمجھتا ہوں۔ ان میں سے
ایک قانون تب بنا، جب مردانہ اسلام نے اس عدالتی حکم کے خلاف احتجاج کیا، اور اسے قرآن
کے خلاف قرار دیا، کہ ایک امیر شوہر، جو کہ
وکالت کے پیشے سے لگا ہوا ہے، اپنی غریب مطلقہ بیوی (شاہ بانو کو) ماہانہ گزربسر کے
نام پر انتہائی معمولی رقم ادا کرے۔ لہٰذا، شاہ بانوں کو صرف اتنا ہی کرنا تھا، کہ
وہ ایک بار میں ہی کوئی متعین رقم کا مطالبہ کرے، جسے عدالت نے مقرر کیا ہو۔ آپ چاہیں،
تو اس پر بھی قرآن کے خلاف ہونے کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔ اسے مان لیا گیا ہوگا کیونکہ
یہ مرد کا مطالبہ تھا۔ جہاں ایک ساتھ تین طلاق دینے والی مسلم خواتین کے لیے یہ تسلی
بخش ہے، وہیں بی جے پی حکومت کی طرف سے متعارف کرایا گیا، تین طلاق پر پابندی کا قانون
، ایسے شخص کو مجرم قرار دیتا ہے، جو اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاق دیتا ہے۔ یہ بات
بھی قابل ذکر ہے، کہ قوم مسلم میں اس کے خلاف بھی آواز اٹھانے کی ہمت نہیں تھی، حالانکہ
یہ ایک انتہائی غیر انسانی فعل تھا۔
جمہوریت پسندوں کی طرف سے
بھی اس کے خلاف آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ اگرچہ، کیرلا میں طلاق کے غلط استعمال سے، ہونے
والے نقصانات کی بات اتنی عام نہیں ہے، کیونکہ، مسلم لیڈرشپ نے اگرچہ پرسنل لاء میں
اصلاحات کے عمل کو بروقت انجام پانے نہیں دیا، لیکن اس نے شمالی ہندوستان میں مسلم
مردوں کو بطور مجرم قید کرنے کی ایک اور وجہ تلاش کر لی ہے۔ مسلم خواتین کے حق میں،
وراثت کے قوانین میں اصلاح کا مطالبہ، اس نازک دور میں بھی معاشرے میں زور پکڑ رہا
ہے، کیونکہ اس معاملے پر ایک کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ سے جلد ہی آنے والا ہے۔ ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے
خاندان ہیں، جو ہندوستان میں مسلم سکسیشن ایکٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ ذیل میں کچھ ایسے
امتیازی پہلوؤں کا ذکر کیا جا رہا ہے، جن کا سامنا اس دورِ جدید میں بھی مسلم خواتین
کو، اس تصور پر بنائے گئے قوانین کی وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے، کہ خاندانوں کا مالک صرف مردوں کو ہی ہونا چاہیے۔
کیا اس دورِ جدید میں، کہ
جب قبائلی سماجی نظام اور مشترکہ خاندانی نظام کی جگہ، نیوکلیائی خاندانی نظام نے لے
لیا ہے، اور خاندانی ذمہ داریاں، یکساں طور پر مرد و عورت کے درمیان بانٹ دی گئی ہیں،
ان امتیازی پہلوؤں کو ختم نہیں کر دیا جانا چاہیے؟
1. اگر فوت ہونے والے کا ایک بیٹا یا بیٹی زندہ ہے، تو جائیداد کا صرف
3/1 حصہ بیٹی کو اور 3/2 حصہ بیٹے کو دیا جائے گا۔
2۔ اگر فوت ہونے والے کی صرف ایک بیٹی ہے تو اسے کل جائیداد کا نصف
حصہ دیا جائے گا ۔ باقی، رشتہ داروں کے لیے۔ اگر ایک سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو دو تہائی
حصہ بیٹیوں کو اور باقی رشتہ داروں کے لیے۔
3۔ اگر کسی کا بیٹا اور بیٹی فوت ہو جائے، اور وہ خود زندہ ہو، اور فوت ہونے والے کے بچے زندہ ہوں، تو
اگر اور کوئی وارث نہ ہو، تو صرف بیٹوں کی اولاد کو جائیداد میں حق ملتا ہے، اور بیٹیوں
کے بچوں کو کوئی حق نہیں ملتا۔
4. اگر شوہر بے اولاد ہی مر جائے تو بیوی کو شوہر کی جائیداد کا صرف
4/1 حصہ ملتا ہے۔ اور اگر بیوی مر جاتی ہے، تو بیوی کی جائیداد کا آدھا حصہ شوہر کو
ملتا ہے۔
5. بچوں والی عورت کے لیے اپنے شوہر کی جائیداد کا صرف 8/1 حصہ ہے۔
لیکن شوہر کو بیوی کی جائیداد کا 4 /1حصہ ملے گا۔
6. اگر غیر شادی شدہ بیٹا فوت ہو جائے تو بیٹے کی جائیداد کا 6/5 حصہ
باپ کی ملکیت ہے۔ ماں کا صرف 6/ 1حصہ ہے۔
7۔ اگر کوئی شخص اس وقت فوت ہو جائے جب اس کے والدین زندہ ہوں، اور
اس کے دوسرے وارث بھی ہوں، تو مرنے والے کے یتیم بچوں کو اس جائیداد کا ایک حصہ بھی
نہیں ملے گا، جو کہ باپ کو ملتا اگر وہ زندہ
ہوتا۔ جن عورتوں کے مرد، خاندانی ذمہ داریاں
نہیں نبھاتے، اور وہ عورتیں جنہیں اپنے شوہروں کے مرنے پر اپنا گھر چھوڑنا پڑتا ہے،
وہ ان قوانین کی زد میں آتی ہیں۔ اگرچہ، قدامت
پسند مذہبی علماءیہ کہتے ہیں، کہ وراثت کے قوانین کسی بھی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے،
لیکن مسلمان اسی قانون کی ناانصافیوں سے بچنے کے لیے بہت سے راستے تلاش کر لیتے ہیں۔
اور اب، مذہبی طور پر شادی شدہ جوڑے، جن کی صرف بیٹیاں ہیں، اپنی کمائی کو اپنے بچوں
تک منتقل کرنے کے لیے، اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت دوبارہ شادی کر رہے ہیں۔ شرعی قانون
(محمڈن لاء سیکشن 117، 118) میں ایک شق ہے، کہ وارثوں کے حق میں وصیت نہیں کرنی چاہیے۔
اس سے بچنے کے لیے، ایسے بھی مذہبی لوگ ہیں،
جو ایسے دستاویز بنا لاتے ہیں کہ جائیداد ورثاء کو بیچ دی گئی ہے۔
اگر مسلم خواتین کو وہ شہری
حقوق اور صنفی انصاف کی ضمانت دی جانی ہے، جس کی آئین ہند میں ضمانت دی گئی ہے، تو
ملک میں ایک کوڈیفائیڈ مسلم سکسیشن ایکٹ نافذ کرنا ضروری ہے۔ کیرلا میں، فورم فار مسلم
ویمنز جینڈر جسٹس (FMWGJ) مطالبہ کرتا ہے، کہ ہندوستان کی موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے،
وراثت کے قانون میں ترمیم اور اصلاح کی جائے۔ ہم مسلمانوں کے ان خدشات کو بھی سمجھتے
ہیں، کہ مرکزی حکومت کے نافذ کردہ، یکساں شہری قانون میں، ان کے روایتی اور مذہبی حقوق
پر ضرب لگے گی۔ فورم فار مسلم ویمنز جینڈر جسٹس، اس بات پر بھی بضد ہے، کہ ہماری مداخلتیں
کسی بھی حالت میں، اقلیت مخالف حکومتوں کے لیے،
مسلم مخالف قوانین کے نفاظ میں معاون نہ بنیں، یا حکومت ایسا کوئی یکساں سول کوڈ متعارف نہ کرا
دے، جس سے شہری زندگی میں جمہوری تنوعات مجروح ہو کر رہ جائیں۔
11 اپریل 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں پیش کیے گئے ہندو کوڈ بل کی،
ہندو قوم پرستوں، ہندو مہاسبھا اور قدامت پسند ہندو مذہبی رہنماؤں نے شدید مخالفت کی،
بالکل اسی طرح جیسے قدامت پسند مسلم علما نے، 1937 کے مسلم سکسیشن ایکٹ کے صنفی جواز
کے مطالبے کی مخالفت کی۔ 1951 میں وزیر قانون کے عہدے سے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو، ہندو
کوڈ بل کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ وراث کے عیسائی قانون میں بھی، ایک طویل قانونی
لڑائی کے بعد تبدیلی کر دی گئی۔
2008 میں، مسلم خواتین کے حقوق کے لیے کوزی کوڈ کی 'نیسا' سمیت کئی
تنظیموں اور افراد نے مل کر، کیرالہ ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی۔جس میں،
مسلم خواتین کی وراثت کے قانون سے متعلق آئین کے آرٹیکل 13 کے تحت، مسلم پرسنل لاء
1937 کو، آئین کے آرٹیکل 14، 15، 19، 21 اور 25 کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے، اسے کالعدم
قرار دیے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن ہائی کورٹ نے 2 جولائی 2015 کو اس پٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا، کہ مقننہ کو ہی
اس پر غور کرنا چاہیے، اور قانون سازی کرنی چاہیے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ میں اسپیشل
لیو پٹیشن (SLP 9546/2016) دائر کی گئی۔ سپریم کورٹ نے کیرلا حکومت سے کہا ہے، کہ وہ اس معاملے
پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے حلف نامہ داخل کرے۔ لیکن معلوم یہ ہوا، کہ کیرلا حکومت
نے کچھ مرد مسلم مذہبی اسکالروں کی میٹنگ بلائی، جس میں انہوں نے، یہ کہا کہ نہ تو عدالت اور نہ ہی حکومت کو، پرسنل
لاء میں مداخلت کرنے کا اختیار ہے۔
اسی پس منظر میں، فورم فار
مسلم ویمنز جینڈر جسٹس، کو تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ تنظیم اس مطالبہ کے ساتھ تشکیل دی
گئی ہے، کہ حکومت کو مسلم خواتین کے مفادات کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے، جنہیں جائیداد
کے حقوق میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اس تنظیم کا مطالبہ یہ ہے، کہ 1937 کے مسلم
پرسنل ایکٹ میں، وراثت کے حقوق میں، خواتین اور مرد، دونوں کے لیے مساوی حقوق کو یقینی بنایا جائے۔ زن بیزاری
اب بھی مختلف مذہبی فرقوں کے ذاتی قوانین میں، کئی اعتبارات سے موجود ہے۔ اس لیے اب
مختلف مذہبی جماعتوں کے شہری قوانین میں، خواتین کے حقوق کی برابری کے لیے آواز اٹھائی
جانی چاہیے۔ تاریخ گواہ ہے، کہ خواتین اب بھی مساوی حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں، یہاں تک
کہ مغربی معاشروں میں بھی، جو کہ آج ترقی یافتہ نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ 20 ویں صدی
کے ابتدائی ادوار میں، انہیں ووٹ کے حق سمیت دیگر شہری حقوق کے لیے لڑنا پڑا۔ اس لیے ہمارا یہ ماننا ہے، کہ کسی بھی مذہبی گروہ کو پسماندہ یا غیر مہذب قرار
دینا درست نہیں۔ اسلام ہمیشہ ہی خواتین کے تشخص کو تسلیم کرنے، اور انہیں کچھ حقوق
دینے پر آمادہ رہا ہے، اگرچہ محدود ہی سہی، لیکن اسلام نے اس دور میں خواتین کو حقوق
عطاء کیے، جب ان کے پاس کوئی حقوق نہیں تھے۔ تاہم، قبائلی طرز زندگی اور خاندانی ڈھانچے
میں جو جدیدیت آئی ہے، اسلام اسے قبول کرنے سے اب بھی گریزاں ہے۔ یہ 1937 کے مسلم پرسنل
لا پر نظر ثانی کے مطالبے کا پس منظر ہے، تاکہ اسلام کے ماننے والوں کے حق میں، مساوی شہری حقوق کو یقینی بنایا جا سکے۔ مسلم پرسنل
لاء (شریعت) امپلی مین ٹیشن ایکٹ 1937، روایتی
اور مروجہ قوانین کی اصلاح کا آغاز تھا، جو محدود پیمانے پر ہی سہی، مسلمانوں میں شریعت
کی بنیاد پر موجود تھے۔ جمہوریت کی سمت میں ایک اور قدم، مسلم میرج ڈسسولیوشن ایکٹ
1939 تھا۔
واضح قوانین نہ ہونے، اور مختلف علماء کی کتابوں کی روشنی میں، بہت سی
عدالتوں کے فیصلوں کے تناظر میں، یہ ضروری
ہو چکا ہے، کہ اب ان قوانین میں ترمیم کی جائے۔ آئینی اصولوں اور دفعات کے لحاظ سے،
ہندو عیسائی عائلی قوانین میں، جو کہ اسلام سے
بھی زیادہ پسماندہ تھے، اصلاح کی جا چکی ہے۔ لہٰذا، خواتین کے مساوی حقوق کو
یقینی بناتے ہوئے، مسلم پرسنل لاء میں بھی اصلاحات کی جائے، تاکہ آئین ہند کے فراہم
کردہ بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔ یہ ہم
سب کی ذمہ داری ہے، کہ ہم ایسے قوانین نافذ کرنے کی کوشش کریں، جن سے خواتین اور مردوں
کے درمیان مساوات قائم ہو سکے، جس کی بنیاد
1979 کے اقوام متحدہ کے خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے اعلامیے
پر ہو، جسے ہندوستان نے، آئین ہند کے صنفی مساوات اور انصاف کے اصولوں کے مدنظر، 1993 میں اپنایا تھا ، اور انسانی اقدار،
اصولوں اور قرآن کے احکامات کو زندہ کیا تھا۔لیکن اس اصلاح اور ضابطہ سازی سے، مختلف
مذاہب کے ماننے والے مذہبی فرقوں کے حقوق پر ضرب نہیں لگنا چاہیے۔ یہ تنظیم ایسے لوگوں
پر مشتمل ہے، جو اسلام پر پختہ یقین رکھتے ہیں، اور جو ذات پات اور مذہب سے قطع نظر،
سماجی بہبود اور انصاف کے لیے کھڑے ہیں۔ ایک بار پھر یہ عرض کرتا چلوں، کہ تنظیم کی
یہ پالیسی مذہبی فرقہ واریت نہیں، بلکہ ایک ایسے ہندوستان کا خواب ہے، جہاں انصاف اور
آئینی حقوق کی بالادستی ہو۔
مخلص،
ڈاکٹر خدیجہ ممتاز (وائس چیئرپرسن)
نیجو اسماعیل (خزانچی)
ایم سلفت (کنوینر)،
ایڈوکیٹ. رملت پیڈوچیری (جوائنٹ
کنوینر)
English
Article: Muslim Women Manifesto for Reform of Inheritance
Distribution
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism