غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
13 فروری 2023
خود کش حملہ کے خلاف فتوی پر عام مسلم قارئین کی رائے
اہم نکات:
· ۲۰۰۵ ء میں پاکستان میں علمائے کرام نے اپنے ایک متفقہ فیصلے
میں خودکش حملوں کو حرام قرار دیا گیا تھا جس میں 58مختلف مکاتب فکر کے
علماءنے فتویٰ کی توثیق کی تھی۔
· اس فتوے میں اس بات کی بھی صراحت کی گئی تھی
کہ ‘‘اسلامی ملک کے اندر عوامی مقامات پر خود کش حملے کرنا حرام ہے اور اسے ثواب
سمجھ کر کرنے والا اسلام سے خارج ہے۔
· بی بی سی اردو نے اس فتوی کی اہمیت پر اپنے
قارئین سے ان کی رائے طلب کی تھی اور یہ سوال پوچھا تھا کہ کیا اس سے پاکستان میں
دہشتگردی اور ماورائےعدالت قتل کے واقعات میں کمی آئے گی؟ عالمی سطح پر پاکستان کی
شہرت پر اس کے کیااثرات ہوں گے؟
· ان سوالوں کے بعد بی بی سی اردو نے اپنے
قارئین کی رائے کو پیش کیا جسے ہم نے اس مضمون میں نقل کیا ہے ۔
· سوال یہ ہے کہ اس فتوی نے صرف اسلامی ممالک
میں خود کش حملہ کے ناجائز ہونے کی تخصیص کیوں کی ؟ آخر غیر اسلامی ممالک میں یہ
ناجائز کیوں نہیں ؟
· بعض علماء اس نظریے کی حمایت کرتے نظر آتے
ہیں کہ بعض حالات میں جنگی حربے کے طور پر خودکش بمباری جائز ہے۔ یہ نظریہ اسلام
کی روح کے انتہائی خلاف ہے۔
۔۔۔۔
۲۰۰۵ء میں
پاکستان میں علمائے کرام نے اپنے ایک متفقہ فیصلے میں خودکش حملوں کو
حرام قرار دیا گیا تھا جس میں 58مختلف مکاتب فکر کے علماءنے فتویٰ کی توثیق کی
تھی۔ علمائے کرام نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ فتویٰ دینے کا بنیادی مقصد دینی
ذمہ داری کو پورا کرنا تھا کیونکہ سرکاری طور پر کہا جاتا تھا کہ لوگوں کو دین کے
نام پر دہشتگردی اور خودکش حملوں کیلئے تیار کیا جاتا ہے جس پر قتل ناحق کے نام سے
یہ فتویٰ جاری کیا ہے کہ خودکش حملوں‘ بم دھماکوں‘ ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے معصوم
انسانوں کی جان لینا حرام ہے۔اس فتوے میں اس بات کی بھی صراحت کی گئی تھی کہ
‘‘اسلامی ملک کے اندر عوامی مقامات پر خود کش حملے کرنا حرام ہے اور اسے ثواب سمجھ
کر کرنے والا اسلام سے خارج ہے۔’’ مفتی منیب الرحمن نے اس فتوی کا اعلان کرتے ہوئے
کہا یہ فتویٰ پاکستان کے تناظر میں دیا گیا ہے جہاں گزشتہ پندرہ برسوں میں قتل
وغارت گری اور خود کش حملوں کے بہت سے واقعات ہوئے ہیں اور عوامی مقامات،
مساجد اور عبادت گاہوں میں خود کش حملوں سے ہزاروں لوگ مارے گئے۔ اس فتوی
میں اس بات کی صراحت کی گئی تھی کہ ایک اسلامی ملک میں غیر مسلم شہری کی جان
لینا بھی حرام ہے کیونکہ اسلام اس کے جان و مال کے تحفظ کا حکم دیتا ہے۔
بی بی سی اردو نے اس فتوی کی اہمیت پر اپنے قارئین سے ان کی رائے طلب کی
تھی اور یہ سوال پوچھا تھا کہ کیا اس سے پاکستان میں دہشتگردی اور ماورائےعدالت
قتل کے واقعات میں کمی آئے گی؟ عالمی سطح پر پاکستان کی شہرت پر اس کے کیااثرات
ہوں گے؟
خود کش حملہ کے خلاف فتوی پر عام مسلم قارئین کی رائے
ان سوالوں کے بعد بی بی سی اردو نے اپنے قارئین کی رائے کو پیش کیا جسے
ہم حسب ذیل نقل کر رہے ہیں:
شاہ خالد، چارسدہ، پاکستان:
یہ تمام مذاہب میں ایسا ہی ہے اور اسلام میں بھی یہ منع ہے۔ نئے فتوے کی کوئی
ضرورت نہیں تھی۔
عبدا لغفور، ٹورانٹو:
ایک عرصہ کے بعد ان مذہبی شخصیتوں نے خون خرابے کو چھوڑ کر امن پسندی کی بات
کی ہے۔ میری نظر میں یہ ایک بہت ہی مثبت اقدام ہے۔ اس فتوے سے اسلام کی امن پسندی
کا تصور اجاگر ہوگا۔
علی رضا خان بزدار، حیدر آباد:
یہ فتوٰی بالکل صحیح ہے، اسلام امن اور ہم آہنگی اور دوسروں سے محبت کرنے
کامذہب ہے۔ یہ باتیں ہمیں چودہ سو سال پہلے بتائی گئی تھیں لیکن مغربی میڈیا ہمیشہ
یہ تاثر دیتا ہے کہ مسلمانوں کو خون خرابہ پسند ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اب مغربی
میڈیا اپنے لوگوں میں اسلام کا امیج ٹھیک کرنے کی کوشش کرے گا۔
رومی اختر، ٹورینس، امریکہ:
بالکل صحیح فتوٰی ہے کیونکہ اسلام کسی بھی حالت میں بے گناہ کی جان لینے کی
اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ بےگناہ تو ایک طرف آپ اپنی جان لینے کے بھی مجاز نہیں۔ مگر
مسئلہ تو یہ ہے کہ ان کی بات کون مانےگا کیونکہ ان ہی لوگوں نے تو یہ آگ لگائی
تھی۔ ایک اور بات، یہ خبر بی بی سی کی انگریزی ویب سائٹ پر کیوں نہیں آئی؟
عمر حیات خان، ایمسٹرڈیم، ہالینڈ:
کوئی فتوٰی دے یا نہ دے اسلام تو ایک پرامن مذہب ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم میں
سے پسماندہ فلسطینی اورافغانی اپنی جہالت کی وجہ سے ملاؤں کی باتوں میں آجاتے
ہیں۔مجھے سخت مایوسی ہے کہ بی بی سی انتہائی پڑھے لکھے لوگوں سے اس فتوے پر ان کے
تاثرات پوچھ رہا ہے، یہ لوگ تو بی بی سی پر وہ خبریں پڑھنے آتے ہیں جو ملاؤں کے
غیر اہم فتؤوں سے دور ہوں۔
ایازمزاری، رحیم یار خان:
خود کشی اگرحرام ہے تو اس سپاہی کے بارے میں کیا خیال ہے جو بلوچستان اور
وزیرستان میں مسلمان کو مارنے جاتا ہے؟ اس کو پتا ہوتا ہے کہ اس میں اُس کی جان
بھی جا سکتی ہے تو کیا یہ خود کش حملہ نہیں؟ سپاہی جب جنگ پر جاتا ہے تو اسے پتا
ہوتا ہے کہ اس کی جان بھی جا سکتی ہے تو وہ کیا خود کشی نہیں؟
ابرار، واشنگٹن ڈی سی،امریکہ:
یہ فتوٰی مضحکہ خیز ہے اور سرکاری ’چمک‘ کا منہ بولا ثبوت ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے
کہ ایک چیز پاکستان میں حرام ہے اور باقی جگہ حلال؟ یہ موقع پرست سرکاری مفتیوں کا
ایک ڈرامہ ہے۔ جو لوگ اسلام کی روح کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی معصوم
اور نہتے انسان کی جان لینا گناہ کبیرہ ہے اور اس کی سزادائمی جہنم ہے۔قرآن میں اس
کا واضع حکم موجود ہے۔ ایسے میں حکومتی مفتیوں کے فتوے کی کوئی ضرورت نہیں تھئ۔ یہ
سب مشرف صاحب کا ٹوپی ڈرامہ ہے۔
مرزا اشفاق، عرب امارات:
یہ ساری آگ جنرل ضیاء صاحب کی لگائی ہوئی ہے جس کو فرقہ پرستی کی آگ کہا جاتا
ہے۔ یہی وہ مولوی حضرات تھے جہوں نے فرقہ واریت کی مہم شروع کی تھی اور اب یہی
فتوٰی دے رہے ہیں۔ مذہب نہ ہوا گھر کی لونڈی ہوگئی جو مرضی میں آیا کیا۔
احسن دانش:
خود کشی حرام ہے چاہے اس کا سبب کوئی بھی ہو۔
سعود فاروق، نیویارک، امریکہ:
میں اس فتوے سے متفق نہیں ہوں۔
فہرعلی، سرگودھا:
بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔
ڈاکٹر نصیر احمد طاہر، بدو ملی، پاکستان:
اصل بات یہ ہے کہ اسلام ازل سے ابد تک سلامتی ہے مگر افسوس جو لوگ دھماکے کرتے
ہیں وہ دشمن ممالک سے پیسے لے کر ایسا کرتے ہیں۔
عبدالحلیم صابر، مانسہرہ، پاکستان:
قابل تعریف ہیں وہ لوگ جنہوں نے یہ فتوٰی دیا ہے۔ اس فتوے سے بہت فائدہ ہوگا۔
الطاف ہدایت، مردان:
یہ فتوٰی صرف امریکہ کو خوش کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ ان نام نہاد مفتیوں نے
عراق اور افغانستان کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ انگریزی
کامحاورہ ہے کہ ’جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے‘ لیکن جنگ مسلط کرنے والوں اور
معصوم لوگوں میں فرق کرنا بہرحال ضروری ہے۔
تنویر رزاق، پاکستان:
یہ فتوٰی تواب دیا ہے مفتی صاحبان نے، ہمارے پیارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)
نے تو چودہ ہزار سال پہلے ہی فرما دیا تھا کہ مسلمان اپنے پرامن کافر ہمسایے کو
بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
تنویر کھوکھر، عرب امارات:
اس فتوٰی کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ جو لوگ ان حملوں میں جان دیتے ہیں ان کے
لیے تو یہ ثواب کا کام ہے۔
سعدطارق، رحیم یارخان:
جب برتن خالی ہوگا تو آواز تو آئےگی۔ مسلمان آج غیر مسلمانوں کے کی طرف سے دی
گئی تکلیف سے تنگ آ کر یہ قدم اٹھا رہا ہے ورنہ کس کا دل چاہتا ہے وہ اپنی جان دے۔
زید احمد، کراچی:
اس فتوٰی سے دہشت گردوں کو کوئی فرق نہیں پڑےگا۔ ان خود کش حملوں کو عملی طور
پر کیسے روکا جا سکتا ہے، اصل بات تو یہ ہے۔
ارسلان احمدرشید،گجرانوالہ، پاکستان:
پاکستان میں جتنی بھی خود کش حملے ہوتے ہیں ان کے پیچھے کسی ملک کی خفیہ
ایجنسی کا ہاتھ ہوتا ہے جو پاکستان کو بدنام کرنا چاہتا ہے کیونکہ مولوی قسم کے
لوگوں نے کبھی بھی خود کش حملہ نہیں کیا۔
محمد ظفر، ٹورانٹو، کینیڈا:
یہ فتوٰی تمام علماء کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس
فتوٰی میں کچھ مسئلہ ضرور ہے اور وہ یہ کہ اس سے امریکہ کو کھلا ہاتھ مل جائے گا
کہ اب توخود کش حملوں کو حرام قرار دے دیا گیاہے۔ اسلام میں جہاد کے بارے میں واضح
حکم موجود ہے او خود کش حملے جہاد کی ایک قسم ہیں۔ حکومت کے علماء اس کو نہیں بدل
سکتے۔
عبداللہ احمد، دبئی:
خود کش حملہ حرام ہے اس بات کا فیصلہ تو کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ اس بات کا
فیصلہ ہو چکا ہے کہ اسلام میں کیا حلال ہےاور کیاحرام۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ
خود کش حملہ کرنے والا یا والی کیا سوچ کر ایسا کرتے ہیں۔
سید رضا، ٹورانٹو، کینیڈا:
اس دور اورخاص طور پر اس وقت فتؤوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، یہ وقت کام کرنے
اور نتائج دکھانے کا ہے۔ اگر علماء اسلام اور پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں تو انہیں
چاہیے کہ اس قسم کے حملوں کو قابو کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس قسم کے واقعات کا
نشانہ زیادہ تر معصوم مذ ہبی لوگ ہیں۔ دراصل یہ لوگ خود کو مار رہے ہیں۔
رحیم دودا، انسیون سٹی، جنوبی کوریا:
شکر ہے اللہ کا آخر کارعلماء نے یہ بھی کیا۔
ثناء خان، کراچی:
دیر آید درست آید۔ یہ تو کمال کر دیا علماء نے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سارے
مولانا ایک جیسے نہیں ہوتے، امن پسند مولوی حضرات بھی زندہ ہیں۔ یہ ایک بہت اچھی
مثبت تبدیلی ہے۔
فرخ صدیقی، کراچی:
ان حالات میں ایسے فتوے کی ضرورت نہیں کیونکہ لگتا ہے کہ یہ فتوٰی سادہ لوح
مولویوں سے لیا گیا ہے۔جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہو اس کا خاتمہ ہر طریقے
سے کرنا چاہیے۔ امریکہ، برطانیہ اور ان کے اتحادی ہر طریقے سے مسلمانوں پر ظلم کر
رہے ہیں ان کو روکنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ ہے خود کش حملے۔رہی بات اسلامی
ملک کی تو آج کوئی بھی ملک اسلامی نہیں ہے۔
عمران، امریکہ:
مسئلہ یہ ہے کہ کچھ عرصے بعد، اگر مولوی حضرات کو ریموٹ کنٹرول بم بنانے آگئے
تو یہ فتوٰی خود بخود ختم ہو جائے گا۔ضرورت اس بات کی ہے انسانی جان کی حرمت کو
اجاگر کیا جائے۔
عبداللہ، عرب امارات:
صرف اسلامی ملکوں میں ہی حرام کیوں؟ ہرجگہ حرام کیوں نہیں؟ کس اسلام یا کس نبی
نے شہری آبادی پر خود کش حملوں کو حلال قرار دیا ہے؟
جبران حسنین، کراچی:
خود کش حملے حرام ہیں پر کیا معصوم پاکستانیوں کو پکڑ پکڑ کے امریکہ کے حوالے
کرنا حلال ہے؟ وہاں ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے، علماء اس کے
بارے میں فتوٰی کیوں نہیں جاری کرتے۔
حفیظ اللہ خان، بنوں، پاکستان:
علماء امبیاء کے وارث ہیں اور آج انہوں نے جو فتٰوی جاری کیا ہے ان کی مثبت
سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ بےشک جو بھی غیر مسلم کسی اسلامی ملک میں جاتا ہے وہاں کی
حکومت اس کی جان اور مال کی نگہبان ہوتی ہے۔لیکن اگر کوئی غیر مسلم طاقت کے زور پر
کسی اسلامی ملک میں آیا ہو تو اس کے بارے میں کیا فتوٰی ہوگا؟ ظالم کو ظلم سے نہ
روکنا بھی بہت بڑا جرم ہے۔اسی طرح افغاستان یا عراق میں خود کش حملوں کے بارے میں
کیا فیصلہ ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ اس فتوے سے خود کش حملے روکے جا سکیں گے کیونکہ
جب ظالم طاقتور ہو اور مظلوم بے بس تو وہ ظلم سے نجات پانے کے علاوہ اور کر بھی
کیا سکتا ہے؟
صغیر راجہ، سعودی عرب:
سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ آخر انسان اپنی جان دینے پر کیوں تیار ہوتا ہے۔ جان کس
کوپیاری نہیں۔خودکش حملوں کا سلسلہ تب شروع ہوتا جب انسان کے لیے حقوق حاصل کرنے
کے تمام جائز دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، پھر اس کے پاس جان دینے کے سوا کوئی
رستہ نہیں رہتا۔
محمد سلیم، عرب امارات:
آگر آپ کسی کو زندگی دے نہیں سکتے تو پھر آپ کو کسی کی زندگی لینے کا بھی کوئی
حق نہیں۔ اگر ہم سب یہ سوچتے تو آج علماء حضرات کو فتوٰی دینے کی ضرورت نہ پڑتی۔
جہانگیر احمد، دبئی:
ہم سب مانتے ہیں کہ خوکشی کی اجازت کسی مذہب میں نہیں ہے لیکن میرا سوال یہ کہ
کوئی شخص اپنی جان لینے پر کیوں مجبور ہو جاتا ہے، ہمیں ان وجوہات کی تہہ تک پہچنے
کی کوشش کرنا چاہیے کیونکہ بغیر کسی مقصد کے جان لٹادینا آسان نہیں ہے۔
عبدالصمد، اوسلو، ناروے:
مراعات دے کر ان علماء سے جو چاہو فتوٰی لے لو۔ خودکش حملہ آور وہی کریں گے جو
ان کے لیڈر انہیں کہیں گے۔ یہ فتوٰی اتنا ہی قیمتی ہے جتنا ایک کاغذ اور اس پر
سیاہی۔
شمیم، برطانیہ:
اس فتوٰی کی اہمیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ یہ حکومت وقت کو خوش کرنے کی ایک
ترکیب ہے۔ نہ تو یہ اسلامی عقائد میں کوئی اضافہ ہے اور نہ ہی کمی۔ ایسے فتوے پہلے
بھی موجود ہیں اور مسلمان پہلے بھی اس قسم کے معاملہ کو جائز نہیں سمجھتے اور نہ
ہی وہ ایسے حملے کرتے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر میں اس طرح کے حملوں کو جائز سمجھا
جاتا ہے اوراس فتوٰی میں بھی ان دو علاقوں کو استثناء حاصل ہے، لہٰذا یہ فتوٰی کسی
قسم کی اہمیت نہیں رکھتا۔ البتہ علماء کرام کی یہ کوشش قابل ستائش ہے۔
شہریارخان، سنگاپور:
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔
اس فتوے کے ساتھ ساتھ علماء کو قتل ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار تعزیت اور
مرنے والوں کے ایصال کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے۔ ایسے حملوں سے اسلام کا وقار بھی
خراب ہوا ہے اور لوگوں کو اپنی ملازمتوں سے بھی بے وجہ ہاتھ دھونے پڑے۔ایسے ماحول
میں جب مسلمان اپنے بنیادی فرائض سے بھی غافل ہیں اور اپنے کردار کی نہایت پستی
میں ہیں تو کیا انہیں جہاد جیسے مسائل پر اکسانا جائز ہے؟ مسلمان علماء کو چاہیے
کہ وہ اس وقت مسلمانوں کی تعلیم و تربیت جدید علوم اور رزق حلال کمانے کے ذریعے
واضع کریں۔
سہیل اقبال، جرمنی:
یہ ایک درست فیصلہ ہے، ہمیں کہنا چاہیے کہ خودکش حملے غلط ہیں۔
اختر زمان عباسی، دبئی:
میرا خیال ہے امریکہ کے خلاف خود کش حملہ کرنا جائز ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کا
دشمن ہے۔
زاہد ملک، دبئی:
یہ فتوٰی غلط ہے، غیرمسلمانوں کے خلاف خود کش حملے جائز ہیں۔
شاہد علی، ہیوسٹن، امریکہ:
دیر آید درست آید!
فہد شبیر، لاہور:
فتوے سے ظاہر ہے کہہ یہ فتوٰی کہلوایا گیا ہے، خود کش حملہ ایک بے بس آدمی کا
آخری راستہ ہوتا ہے۔پاکستان میں کتنے قتل ہیں جو خود کش حملوں سے ہوئے ہیں؟ خود کش
حملے اور بم بلاسٹ میں فرق ہے۔اس فتوے سے پاکستان میں کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ
پاکستان میں خود کش حملے نہیں ہوتے۔
محمد اعجاز کلیم گجر، فیصل آباد:
خود کش حملہ تب حرام ہے جب یہ اپنے ہی کسی مسلمان کے خلاف یا خلاف اسلام کیا
جائے، اسلام کی حفاظت کے لیے ایسا کرنا حرام نہیں ہونا چاہیے۔
مشتاق ملک، عرب امارات:
میں اس سےاتفاق کرتا ہوں کیونکہ اسلام میں اس قسم کا حملہ کرنا اور اغوا وغیرہ
کرنا جائز نہیں ہے۔
ذیشان عباسی، مونٹریال، کینیڈا:
یہ سب حکومت کا پروپیگنڈا ہے جو امریکہ کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔اگر
فتوٰی ہی دینا ہے تو ان کے بارے میں دینا چاہیے جن کے صرف ایک بم سے ہزاروں لوگ
مرتے ہیں۔ یہ ملاء حضرات کٹھ پتلیاں ہیں۔
شاہدہ اکرم، ابوظبی:
اگر یہ فتوٰی صرف پاکستان کے تناظر میں دیا گیا ہے توٹھیک ہے کیونکہ ہمارا ملک
آزادی کی جنگ نہیں لڑ رہا۔پاکستان میں مارے جانے والے لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں
یا نماز کے لیے جا رہے ہوتے ہیں۔اس خیال میں نہ رہیے کہ اس سے دہشتگردی اور
ماورائے عدالت قتل کم ہو جائیں گے کیونکہ فتوے کے ساتھ ساتھ سخت قانون بھی چاہیے۔
علی طاہر سید، کراچی:
کسی کو دھوکے سے قتل کرنا جائز نہیں، کاش یہ بات سارے مسلمانوں کو سمجھ آجائے
کہ کسی بے گناہ کافر کو بھی قتل کرکے کوئی جنت میں نہیں جا سکتا، مسلمان تو بہت
دور کی بات ہے۔
ندیم فاروق، مسی ساگا، کینیڈا:
اب خیال آیا ہے کہ ایسا کرنا حرام ہے۔ بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے۔
شہلاسہیل، ٹورانٹو:
جب تک عوام کہہ رہی تھی اس وقت تک خاموش تھے، اب جب اپنا داخلہ یورپ میں بند
ہوتا نظر آرہا ہے تو فتوے یاد آگئے۔
ڈاکٹر اسحاق سسولی، کوئٹہ:
میرے خیال میں یہ ایک بہت اچھا فتوٰی ہے۔ قرآن میں موجود ہے کہ ایک انسان کو
قتل کرنا ساری انسانیت کو قتل کرنا ہے او اسلام میں فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک مخصوص گروپ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے فرقہ واریت
کو ہوا دی اور جب ان کو الیکشن میں ووٹوں کی ضرورت پڑی ہے سب بھائی بھائی کا نعرہ
لگاتے ہیں۔
جاوید رضا، لاہور:
موجودہ صورتحال میں یہ فتوٰی دہشتگردی ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرےگا۔ میں
علماء کے اس اقدام کی تہہ دل سے قدر کرتا ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ میں ان مولوی
حضرات کی بھی مذمت کرتا ہوں جو اس فتوٰی کی مخالفت کر رہے ہیں۔
علی عمران شاہین، لاہور:
اس فتوے کا اصل فائدہ مسلمانوں کے قاتل امریکہ، انڈیا اور اسرائیل ہی اٹھائیں
گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مجاہدین کی حیثیت اور آج کے حالات کے مطابق اسلام کے
دفاع کے لیے فتوٰی دیا جائے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہی علماء جن کا روز
حکومت مذاق اڑاتی ہے، حکومت کو خوش کرنے کے لیے اس کی مرضی کا فتوٰی دے رہے ہیں۔
جاوید اقبال، جاپان:
جی ہاں یہ فتوٰی درست وقت پر دیا گیا ہے کیونکہ خود کش حملوں سے اسلام بدنام
ہورہا تھا۔
ظفر خان، ٹورانٹو:
فتوٰی بالکل بجا ہے، اس میں تھوڑی سی ترمیم ہونا چاہیے کہ اس میں عراق اور
افغانستان کو بھی شامل کرنا چاہیے جہاں غیر ملکی گھس آئے ہیں اور حکومت ان کے ہاتھ
میں چلی گئی ہے۔ صرف فتوٰی ہی نہیں اس قسم کی گفتگو پاکستان کے ہر گلی کوچے میں
ہونا چاہیے۔
اشفاق خان، کیسل، جرمنی:
یہ صحیح فیصلہ ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم دکھائیں کے اسلام امن کا مذہب
ہے۔
عمران نذیر، اورلینڈو، فلوریڈا:
یہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔ میں صرف یہ امید کرتا ہوں کہ لوگ اس فتوٰی کو سنجیدگی
سے لیں گے۔ میرا خیال ہے جب تقی الدین عثمانی اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسے بڑے عالم
یہ بات سرعام کر رہے ہیں تو یہ زیادہ موثر ہوگا کیونکہ یہ حضرات اپنے پرائیویٹ
لیکچروں میں ان خیالات کا اظہار پہلے کر چکے ہیں۔جہاں تک اس بات کے عالمی سطح پر
اثرات کا تعلق ہے توابھی تک تومیں نے یہ خبر بی بی سی کی انگریزی ویب سائٹ پر نہیں
دیکھی۔
طلعت خان، فلوریڈا، امریکہ:
میراخیال ہے یہ پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔میں اس فتوے کو خوش آمدید کہتا
ہوں۔اسلام معصوم لوگوں کی جان لینےاور مسجدوں پر حملوں کی واقعی اجازت نہیں دیتا۔
قاسم سرویا، سرگودھا، پاکستان:
جی ہاں یہ اچھی بات ہے کہ کچھ مولوی حضرات نے اسلام کے ایک اچھے تصور کو اجاگر
کیا ہے۔ اپنی یا کسی کی جان کو بلاوجہ نقصان پہنچانا اسلام میں بالکل جائز نہیں۔
دوسری قوموں کو اس سے اسلام کا مثبت پہلو لینے کا موقع ملےگا اور پاکستان کی شہرت
میں بھی اضافہ ہوگا۔
عفاف اظہر، ٹورانٹو، کینیڈا:
ان علماء کے فتوٰی کا کیا ہے۔ آج تک تو خود ہی عوام کو آپس میں لڑاتے آ رہے
ہیں۔ لگتا ہے اس سال انہیں مشرف صاحب کی طرف سے کچھ نہیں ملا اسی لیے اُن کے خلاف
فتوٰی دے دیا ہے۔
جبران خلیل، لاہور:
فتوٰی دینے والوں کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے، اس پر بھی فتوٰی مانگ لیں۔خود
ہی آگ لگاتے ہیں اور پھر چل پڑتے ہیں امن کے فرشتے بن کر۔ پاکستان میں فرقہ بندی
کی آگ بھی انہی کی لگائی ہوئی ہے۔ اب جب اس فصل پر پھل آ رہا ہے تو نئے فتوے جاری
کر رہے ہیں۔
اظہر سہیل، ٹورانٹو، کینیڈا:
انہوں نے فتوٰی دیا اور بی بی سی نے مان کیا۔ وا جی واہ۔ آپ اتنی جلدی ان
لوگوں کی تاریخ بھول گئے۔ آج اگر لوگوں میں شعور بیدار ہو رہا تو یہ لوگ فتؤوں کا
سہارا لینے چل پڑے ہیں۔
کرن احمد، واٹر لو، کینیڈا:
میری رائے میں پاکستان میں اس وقت تک سکون نہیں ہو سکتا جب تک یہ ملائیت ختم
نہیں ہوگی۔ ان کے فتؤوں کی کیا اہمیت ہے۔ قائداعظم کو کافرِ اعظم اورکا فتوٰی بھی
انہوں نے دیا تھا اور منصور کو انا الحق کہنے پر پھانسی بھی انہوں نے ہی دی
تھی۔اقبال کو شکوہ لکھنے پر جیل بھی تو انہوں نے ہی دلوائی تھی۔ ان کے فتؤوں کا
کیا اعتبار۔
اے آر قریشی، ٹورانٹو، کینیڈا:
میرے خیال میں یہ بالکل صحیح ہے۔ اسلام امن کا مذہب ہے۔اسلام خود کش حملوں کی
تبلیغ نہیں کرتا۔
احتشام فیصل چودھری، شارجہ، عرب امارات:
پہلی بات تو یہ سمجھنی چاہیےکہ خود کش حملہ آور رؤیت ہلال کمیٹی سے مشورہ کر
کے حملہ نہیں کرتے جو ان کے فتوے جاری کرنے سے وہ باز آجائیں گے۔میں اسے ایک
متنازعہ فتوٰی سمجھتا ہوں کیونکہ اس کی روسے پاکستان میں خود کش حملہ جائز نہیں
لیکن دوسری جگہوں پر جائز ہے۔ اس بات سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ مشرف صاحب کے کہنے
پر، ان کی مشکلات کم کرنے کے لیے، صرف پاکستان کے لیے حکومتی مولویوں نے یہ فتوٰی
صادر کیا ہے۔ اس کی ذرا برابر بھی اہمیت نہیں۔
مصدر: بی بی سی اردو ، لنک:
۔۔۔
خود کش حملہ کے خلاف علما کے اس فتوی پر قارئین نے جو رائے پیش کی ہے اس سے دانشور حضرات
کے لیے بہت کچھ سمجھنا آسان ہے۔ خاص طور پر یہ بات کہ کس
قدر شکوک و شبہات عوام کے دلوں میں موجود ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اس فتوی نے صرف
اسلامی ممالک میں خود کش حملہ کے ناجائز ہونے کی تخصیص کیوں کی ؟ آخر غیر اسلامی
ممالک میں یہ ناجائز کیوں نہیں ؟ فلسطین اور کشمیر میں بھی یہ کیوں نہیں ناجائز ؟
قرآن وسنت کے دلائل پر غور کرنے سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خود کش حملہ ہر
حال میں حرام ہے ، خواہ حالت جنگ میں ہو یا خارج جنگ ۔
بعض علماء اس نظریے کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں کہ بعض حالات میں جنگی حربے کے
طور پر خودکش بمباری جائز ہے۔ یہ نظریہ اسلام کی روح کے انتہائی خلاف ہے۔ قرآنی
آیت (2:195) اور حضرت سہل کی روایت کردہ حدیث کا عمومی اطلاق واضح طور پر اس
نظریہ کو رد کرتا ہے۔ قرآن مجید [2:195] کے مطابق جب خودکش حملہ ہر حال میں
حرام ہے اور اسی طرح حضرت سہل کی روایت کردہ حدیث کے مطابق جب جہاد کے
دوران بھی خودکش حملہ حرام ہے تو فتنے کی حالت میں کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ قرآن و
حدیث نے ہر حال میں خودکش حملے کی ممانعت کی ہے۔ خود کش حملے کے خلاف فتوی یقینا ایک
اہم کام ہے مگر یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ خودکش حملہ ہر حال میں حرام ہے۔
۔۔۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia
in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism