ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
8 ستمبر،2023
کئی لوگوں نے کہا او رکئی
نے لکھا کہ میری تحریریں مسلمانوں کو یکطرفہ حالات کے لئے مورد الزام ٹھہرارہی
ہیں۔ کچھ نے کہا کہ میری تحریر یں حوصلوں کو پست کرنے کا باعث ہیں۔ کچھ نے یہاں تک
کہا کہ میں آر ایس ایس کے لئے کام کررہا ہوں، مجھے کچھ چاہئے۔کوئی مسئلہ نہیں! رائے
زنی کااختیار ہر شخص کو ہے، مگر اگر کسی چیز کی تصدیق نہ ہوتو یہ امر شرعی طور پر
غلط اور گمراہ کن ہے! خدا کا شکر ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد نے فون پر بھی،مل کر بھی
او رلکھ کر میری رائے سے بالکلیہ اتفاق کیا۔میرا اثاثہ یہی ہے۔
آج مسلمانان ہند جس کیفیت
سے گزررہے ہیں اس سے پہلے کہ میں اس پر اظہار خیال کروں چند گزارشات ہیں، ان کو
سمجھ لیجئے۔ اصل میں ہمارے یہاں یکطرفہ سوچ کا مزاج پایا جاتاہے، جو ہماری سو چ
میں ہے ہم اسی کا اعادہ چاہتے ہیں، اس مفروضے پر ہماری فکری جہت قائم ہے کہ ہم
کہیں غلط ہوہی نہیں سکتے۔ ہمیں کسی اصلاح کی ضرورت ہی نہیں جرم او رمجرم دوسری طرف
ہے‘ ہم من حیث القوم معصوم ومظلوم ہیں سب کچھ دوسرے کوکرنا ہے،اسی کی ذمہ داری ہے!
یہ آسانی سے ذہن قبول بھی نہیں کرتا کہ کوئی واقعی غیر جماعتی او رغیر جانبداری
بھی ہوسکتاہے کوئی کسی کا آلہ کار نہ ہو ایسا شاید ممکن ہی نہیں۔ جب تک ان روایتی
خیالات سے آپ باہر نہیں آئیں گے آپ مجھے سمجھ ہی نہیں پائیں گے۔ سابقہ 33 سالہ
پبلک لائف میں میری قریب ترین روابط کانگریس او راین ڈی اے کے وزرائے اعظم سے رہے،
میں ریکارڈ پرلا رہاہوں کہ میں، میری اولاد یا میرا کوئی عزیز واقارب اس پورے دور
میں کسی سرکاری سہولت سے فیض اٹھانے میں شامل نہیں رہا!۔ ایک سرکاری حج سن دوہزار
میں ضرور کیا ہے۔زندگی میں مواقع لائزننگ کے ہمیشہ رہے،کبھی ایک قدم بھی اس طرف
بڑھایا ہوں، سوال ہی نہیں۔اپنی اصل اور اساس سے سمجھوتہ دنیا پرست او رکم ظرف کیا
کرتے ہیں۔ہاں ایسے ’ملت پرستوں‘ کی ان گنت یادیں میرے ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں جو
گاہے بگاہے میرے حوالے سے کچھ فرماتے رہے ہیں۔
میں 25 کروڑ کی مسلم
آبادی میں وہ واحد مسلمان ہوں جس کا برابری سے کانگریس اور بی جے پی سے تعلق رکھنے
والے دووزرائے اعظم کی سطح پر دیرینہ تعلق رہاہے۔ میں کسی سیاسی جماعت کاکبھی نہ
رکن رہا اورنہ کسی کے نظریے کا پابند! آج بھی میرا تعلق تمام حلقوں سے ہے جس میں
آر ایس ایس کی قیادت سے براہ راست تعلق بھی شامل ہے، میں ان سے ملتا ہوں اور ان کے
رابطے میں رہتا ہوں۔لگ بھگ تمام مسلم تنظیموں، جماعتوں کے ذمہ داران سے بیشتر جگہ
براہ راست او ربالواسطہ تو شاید ہی کوئی ہو جہاں میرا رابطہ نہیں۔ میں فکر کا آدمی
ہوں سیاست اور اقتدار کا کبھی رہا نہیں۔
مسلمانان ہند او ران کی
قیادت کو مستقل حالات کے تیزی سے بدلتے رخ سے آگاہ کرتا رہاہوں۔ یہ عمل 1996 ء سے
جاری ہے، میری تحریریں موجود ہیں، عمل نہ کیا گیا’سنی کو ان سنی کیا جاتا رہا۔اور
حالات یہاں تک آگئے۔ یہ فرض کفایہ ہے جس کا کل بھی ادا کیا او رآج بھی ہر سطح پر
الحمداللہ ادا کر رہاں ہوں۔ میں نے پست پردہ حکمت عملی کبھی اختیار نہیں کی جس سے
ملا کھل کر ملا! کون ہے جو آج آر ایس ایس کی قیادت سے نہیں ملا یا نہیں مل رہا
ہوں،وزیر اعظم کے دفتر میں ملاقات کی درخواست کسی کی نہیں پہنچی! میں نے کبھی کوئی
عہدہ، مرتبہ،سہولت یا رعایت کسی سے لی نہیں! میں یہ مضمون آپ سب کے سامنے اللہ رب
العزت کو گواہ او راللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنا کر لکھ رہا ہوں۔
حق کا اظہار برملا ہونا چاہئے!
یہ سب لکھنا نہیں چاہتا
تھامگر لگا کہ شاید میرا قاری کچھ وضاحتیں چاہتا ہے۔کتنے لوگ جو حکومت وقت کے
ناقدین ہیں اگر ان میں سے کسی کو وزیراعظم بلالیں تو کوئی انکار کرنے والا نہیں۔
کچھ پیش کردیں تو ٹھکرانے والا بھی کوئی نہیں۔
مسلمانان ہند آج احساس
محرومی، احساس عدم شرکت برائے فیصلہ سازی، نفسیاتی بے بسی اور دادرسی سے محروم اس
وحدت کے طو رپر اپنی شناخت او روجود رکھتے ہیں جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔لنچنگ کے
کھلے واقعات،گاڑی میں پولیس اہلکار کا چند بے قصور مسلمانوں کا قتل، علماء اور
ائمہ مساجد کی داڑھی نوچیجانے کے واقعات،مساجد کا شہید کیا جانا، کئی مساجد کے
اماموں کا بے رحمی سے ہلاک کیاجانا، ٹی وی چینلوں پر قرآن کریم اور اس کی آیات
مقدسہ کی توہین، توہین رسالت کا عام ہوجانا، اسلام،مسلمان، مسلم تاریخ،ثقافت،
لباس،کھانا پینا، اقدار وروایات کو ہدف تنقید و تنقیص بنانا، یکطرفہ قانونی شکنجہ
اور سماج وامن دشمن عناصر کو کھلی چھوٹ،بے لگا م بلڈوزنگ،پوری کی پوری بستیوں کا
زمین دوز کیا جانا، عوامی نمائندگی کے ایوانوں میں ہر جگہ ہم سے خالی، مرکز کے
وزیر کا گولی ماروسالوں کو کہنا،دوسرے وزیر کا آئے دن پاکستان جانے کے لئے کہنا،
دوخواتین اراکین پارلیمنٹ کا ایک کو حرام زادہ کہنا اور دوسرے کا اس سے بھی دوقدم
آگے کے بیانات، ایک وزیراعلیٰ کا کھل کر مدارس کے خلاف توڑ پھوڑ او رزہریلے بیانات
کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ او را س پر کسی جانب سے گرفت کا نہ ہونا، گویا وہ سب
کچھ جو نفس نفسیات کو توڑ دے اس کو دانستہ کیا جانا اتنا ہی نہیں مساجد پر بڑھتے
ہوئے دعوے، تاریخی عمارات کی تاریخ کو بدل کر اس کی ہیئت کو تبدیل کرنا، مساجد میں
موجود فواروں کو شیولنگ قرار دینا، ہتھیار وں کو رکھنے اور ان کا عوامی طور پر
نمائش کرتے ہوئے مسلم نسل کشی کا اعلان اور اپیل کرنا، سادھوؤں کا اجتماعی طور پر
ایسا اعلان او را س سے پیچھے نہ ہٹنے کا عزم، نہ جانے کتنے یوٹیوب چینل پر اسلام
او رمسلمانوں کے تعلق سے نہایت بیہودہ بحث ومباحثے گویا ہم او رہماری ہر چیز اب
معتوب ہے۔ میں اس میں سے کسی کا انکار ی نہیں ہوں۔ میں کسی کے دفاع وجواز تلاش
کرنے کی مذموم فکر و عمل کا حصہ بھی نہیں ہوں۔ ہر گز نہیں ہوں، نہ ہوسکتا ہوں۔
سوال ہی نہیں۔
مجھ میں آپ میں ایک فرق ہے۔آپ
گھر میں بیٹھے نجی محفلوں میں صرف باتیں کررہے ہیں۔ نہ پہلے کسی حکمت عملی کے
متحمل ہوئے او رنہ آج دکھائی دیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں تو برا لگتا ہے۔سابقہ سات
دہائیوں میں اگر دیوار پر لکھا پڑھا گیا ہوتا، کچھ بروقت اقدامات کئے ہوئے تو شاید
بات یہاں نہ آئی۔ بہر حال میں ہر ایسے وقت کسی ایسی حکمت عملی کے ساتھ آتا رہاہوں
جو حالات اورحالت غیر میں کسی مثبت تبدیلی کا باعث ہو اور آج بھی ایسا ہی کررہا
ہوں۔ جب قوم نرسمہاراؤ کو شکست دینے میں لگی تھی تب میں ان کے ساتھ تھا او رکہہ
رہا تھا فرد آج ہے کل نہیں ہوگا۔ آج تمام شکایتوں کے باوجود کانگریس کو بچاؤ ورنہ
تم جسے ہرا رہے ہو اس کی جگہ وہ آجائیں گے، جنہیں تم کسی قیمت پرنہیں چاہتے، یعنی
بی جے پی۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ایک بار بی جے پی آگئی تو پھر یہ آئیں گے
او رایک وقت ہوگا کہ آجائیں گے، مگر نہ سنی او رویسا ہی ہوا۔ پھر واجپئی جی کے
تعلق سے بہت سمجھایا، ان کے ساتھ مل کر بہت کوشش کی، مگر کسی کی سمجھ میں بات نہیں
آئی۔ آج سب ان کو یاد کرتے ہیں۔ آج مودی جی ہیں۔ پھر سمجھا رہا ہوں۔ بی جے پی اور
سنگھ کی قیادت آج جہاں کھڑی ہے وہ انتخابات میں ہار اورجیت سے بہت آگے نکل چکی ہے۔
میں آج آپ کو حق، حقیقت
وزمینی حقائق سے آگاہ کررہاہوں۔ کچھ اپنی فکر پر غور وفکر کی دعوت تو دے رہاہوں۔
نہ کل کہا اور نہ آج کہتا ہوں کہ کس کے حامی بنواور کس کے مخالف! مجھے معاشرت کے
خدوخال بے چین کررہے ہیں۔ ربڑ ٹوٹنے کا خطرہ لگ رہا ہے۔ چنانچہ میں نے سب سے پہلے
ذہنی وفکری ہم آہنگی کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی۔ تمام ہی موضوعات پر ایک پانچ
سو صفحات پر مشتمل کتا ب لکھ کر ایک حکمت عملی او رمسائل کے حل کے لئے درمیانی
راستہ پیش کیا۔ سنگھ او رمسلمانان ہند کے درمیان مفاہمت و مصالحت کی پہلی منظم
کوشش۔ آر ایس ایس کی قیادت تک رسائی حاصل کی۔ کتاب کے اجرا کے کیلئے درخواست کی جو
قبول ہوئی اور آر ایس ایس کی 95/سالہ تاریخ میں ایک خالص مسلم موقف پر مبنی تصنیف
کا اس کے چیف نے نہ صرف اجرا کیا، بلکہ بڑ ی حد تک اتفاق بھی کیا۔ اکابرین کو
چاہئے تھا کہ اس کو پڑھتے، اس کا م کو لے کر آگے چلتے۔ لیکن میرا سفر جاری ہے۔آر
ایس ایس سے وہ سب کچھ کہہ رہاہوں جو آپ گھر وں میں بیٹھ کے کہتے ہیں، مگر میرا
اپنا ایک طریقہ ہے، ان سے بھی کہتا ہوں کہ جب تک ہماری کچھ اچھائیوں، قربانیوں،
قومی تعمیر وترقی و دفاع وطن میں کردار او رحب الوطنی کے حوالے سے ان مٹ چھاپ کا
ذکر برملا نہ کریں گے‘ بات آگے نہیں بڑھے گی۔ میں چار جولائی 2021 / کو کتاب کے
اجرا ء کے موقع پرکہہ چکا ہوں، کتاب میں لکھ چکا ہوں کہ جب تک ہندو مذہبی شناخت ہے
مسلم، بودھ،جین،مسیحی، یہودی، پارسی، سکھ اور بہائی کیسے اپنے کو ہندومان سکتے ہیں
یہ قابل قبول نہیں۔
8 ستمبر،2023، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism