مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام
4
اپریل 2023
"اسلامی فلسفہ کو تہذیبی اور عالمی دونوں
طرح کے بحرانوں کا متبادل اور حل پیش کرنے کی ضرورت ہے اور انسانی تہذیب اور کرہ
ارض کو بچانے میں فلسفے کا کردار بہت اہم ہے۔"
-----
عہد
حاضر جس میں ہم رہ رہے ہیں، اس نے انسانوں کو فضول کاموں میں جکڑ رکھا ہے۔ سوشل
میڈیا، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، فوری میسجنگ ایپس اور OTT پلیٹ فارموں کی آمد کے ساتھ، انسانوں نے اپنے آئیڈیل کے حصول سے
توجہ، ارتکاز اور طاقت ہٹا دی ہے۔ نئی ترجیحات نے انسانی وجود کا رخ لغویات کی طرف
موڑ دیا ہے۔ ایک نظم و ضبط کے طور پر فلسفہ زوال پذیر ہے، اور یہ ایک ایسا رجحان
ہے جس کا عالمی سطح پر مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر ہندوستان کی زیادہ تر
یونیورسٹیوں نے فلسفے کے شعبے شروع کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ مسلم معاشروں کے
تناظر میں، بہت سے علماء فلسفے کے مخالف ہیں اور اسے مذہب مخالف قرار دیتے ہیں۔ یہ
فلسفہ مخالف یہ عصبیت زیادہ تر مسلم معاشروں اور مسلم ممالک میں ایک معمول رہا ہے۔
تاہم مسلمانوں کے عروج کے دور میں یہ رجحان اتنا تیز نہیں تھا۔ فاضل، تجربہ کار
اور قابل مصنف ڈاکٹر حامد نسیم رفیع آبادی نے اپنی کتاب، Muslim
Philosophy: Before & After Al Ghazzali
میں اسی موضوع کا تحقیق اور تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر رفیع آبادی عصر حاضر کے ان
چند ادیبوں میں سے ہیں جو سنجیدہ فلسفیانہ مسائل اور موضوعات پر تقابلی تناظر میں
لکھتے ہیں۔
اپنی
کتاب کے دیباچے میں، پروفیسر عبدالعزیز برگہوت، ڈین انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف
اسلامک تھاٹ اینڈ سیولائزیشن (ISTAC-IIUM) لکھتے ہیں، "اسلامی فلسفہ کو تہذیبی اور عالمی دونوں طرح کے
بحرانوں کا متبادل اور حل پیش کرنے کی ضرورت ہے اور انسانی تہذیب اور کرہ ارض کو
بچانے میں فلسفے کا کردار بہت اہم ہے۔ اسی طرح داتوک پروفیسر عثمان بکر، قارئین کے
سامنے اس اہم تصنیف کا تعارف کرواتے ہوئے مسلمانوں میں اس مروجہ بیانیہ کو رد کرتے
ہیں، جو مسلمانوں میں فلسفے کے زوال کا ذمہ دار امام غزالی کو ٹھہراتا ہے۔ ان کا
کہنا ہے کہ غزالی نے فلسفہ میں ایک روحانیت پیدا کی کیونکہ انہوں نے اسلامی فلسفے
کو ایک نیا رخ دیا۔
کتاب
کو منظم اور باریک بینی سے ترتیب دیا گیا ہے، جس کے ہر باب میں مسلم فلسفیوں کی
سوانح، سیاق و سباق کی تفصیلات اور پھر ان کے نظریات اور مختلف پہلوؤں پر ان کی
تعلیمات کا تنقیدی تجزیہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس کے کا مطالعہ کرتے ہوئے قارئین
الکندی کے وسیع ترین علم، اور موسیقی میں ان کی خدمات کا علم ہوگا، جبکہ مذہب اور
فلسفے کے درمیان مفاہمت لانے کی ان کی کوششوں سے بھی انہیں آگاہی ہو گی۔ یونانی
فلسفے کے اثرات سے آگاہ ہوئے بغیر مسلم فلسفہ کے ارتقاء کو نہیں سمجھا جا سکتا۔
یونانی فلسفے کا عربی اور دیگر مقامی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جس کی سرپرستی
المامون، ہارون رشید اور دیگر بادشاہوں نے کی، جنہوں نے بیت الحکمہ قائم کیا اور
مسلم علماء میں ترجمہ کی حوصلہ افزائی کی۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم
الفارابی کو ایک منظم انداز میں مسلم دنیا میں یونانی فلسفے کو متعارف کراتے ہوئے
دیکھتے ہیں۔
اسلام کے ابتدائی ایام میں علم کلام کے بارے میں
فکری بحث اس حقیقت کا علمی مظہر ہے کہ کس طرح یونانی، لاطینی اور دیگر متون کا
عربی میں ترجمہ کیا گیا اور اس کے علاوہ یونانیوں کے ان بھولے ہوئے مضامین اور علم
کے احیاء کے علاوہ جس میں مسلمانوں کی خدمات رہی ہیں، اور اس میں مزید مختلف نئے
شعبوں اور علوم و فنون کو بھی شامل کیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں باطینہ،
معتزلی اور اشعری جیسے مختلف فرقے وجود میں آئے۔ مسلمانوں میں یونانی فلسفے کے
آغاز نے الفارابی، ابن سینا، ابن رشد جیسے فلسفیوں کو جنم دیا جنہوں نے فلسفہ اور
مذہب کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی اور اس عمل میں بعض اسلامی اصولوں کے ساتھ
زبردست سمجھوتہ کیا جس نے بالآخر امام غزالی کو چیلنج کیا، اور انہوں نے انہیں منطقی
دلائل کا استعمال کرتے ہوئے اس کی تردید کی۔
ان
مسلم فلسفیوں کے فلسفہ، فکر اور طرز زندگی سے متعلق علمی ابواب بذات خود ایک منفرد
کارنامہ ہیں لیکن ڈاکٹر رفیع آبادی اس بات پر حیران ہیں کہ: ’’ان زبردست مسلم
فلسفیوں کی ان تمام کوششوں کے باوجود، یہ افسوس کی بات ہے کہ مغربی مصنفین اس
تاریک دَور میں مردی علمی اور سائنسی روح کو دوبارہ زندہ کرنے میں مسلمانوں کی
خدمات کو کھلے دل سے تسلیم نہ کر سکے، جس سے عالم مغرب گزر رہا تھا اور انقلاب
برپا کر رہا تھا۔ غزالی کی زبردست خدمات اور اثر و رسوخ پر بحث کرتے ہوئے، ڈاکٹر رفیع
آبادی نے ان کی وضاحت کے لیے بہت سے ابواب قائم کیے ہیں مثلاً، غزالی اور ابن رشد-
تنازعہ اور اتفاق۔ اور ان دونوں فلسفیوں کے درمیان خلیج کو کم کرنے کی کوشش کی؛
کیونکہ غزالی نے تہافۃ الفلاسفہ لکھی جسے ابن رشد نے تہافۃ التہافت لکھ کر رد کیا،
کیونکہ انہیں عام طور پر ایک دوسرے کا مخالف سمجھا جاتا ہے لیکن رفیع آبادی ثبوت
کے ساتھ یہ رائے پیش کرتے ہیں کہ، "غزالی اور ابن رشد کے درمیان مباحثہ فقہ
اور فلسفے کے درمیان سب سے گہرا مقابلہ ہے۔ غزالی کی دلچسپی مذہب میں تھی اور ابن
رشد کی فلسفہ میں، لیکن دونوں نے فلسفہ کے ہی میدان میں کام کیا اور دونوں نے
فلسفہ اور مذہب پر ایک متفقہ نقطہ نظر کو برقرار رکھا۔ غزالی کے نزدیک عقیدہ اور
علم کے درمیان کوئی تضاد نہیں تھا، سوائے تفصیلات کے اور ہر مکتب فکر کے پیروکاروں
کی کج روی کے۔ ابن رشد کے لیے فلسفہ ایمان کو مضبوط کرنے اور حق کی پہچان کو مضبوط
کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ یہ دونوں مفکرین ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کیونکہ بحث
فلسفیوں کے عقائد کے گرد ہوتی ہے۔" یہ کتاب کا سب سے مضبوط باب ہے جہاں مصنف
مزید تحقیق، بحث اور تنقید کا رجحان اور گنجائش متعین کرتے ہیں۔
ڈاکٹر رفیع آبادی نے “Ghazali
& Revival of Islamic Sciences.” کے باب میں اس افسانے کا بھی پردہ فاش کیا
ہے جسے مستشرقین نے پھیلایا ہے اور کچھ مسلمان دانشوروں نے اسے تقویت دی ہے کہ
غزالی کی طلسماتی اور شدید تنقید مسلمانوں میں فلسفہ، سائنس اور عقلیت کے زوال کا
ذمہ دار ہے۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ غزالی فلسفے کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے
تھے، رفیع آبادی انہیں چیلنج کرتے ہوئے کہتے ہیں: "غزالی نے یونانی فلسفے کے
انتہا پسندانہ رجحان کی تردید کی جو پورے مسلم معاشرے کو متاثر کر رہا تھا، غزالی
نے فلسفے میں اپنے طریقے اور روایات تیار کیں۔ غزالی کا یہ طریقہ فلسفیانہ اور
مذہبی انتہا پسندی کے درمیان اعتدال پسند تھا۔ ان کی دوسری مخصوص جہتیں شکوک و
شبہات اور تصوف اور استدلال، منطق اور فقہ کے تئیں ایک مستقل اور منظم انداز نظر
تھا۔
غزالی کی ایک اور انوکھی خدمت جو فراموش کر دی
جاتی ہے لیکن ڈاکٹر رفیع آبادی کی تنقیدی نظروں سے نہیں بچ سکی وہ نفسیات میں
غزالی کی منفرد خدمت ہے جس میں وہ فرائیڈ اور ایڈلر کو بھی کچھ معاملات میں مات
دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ غزالی کی تصوف سے وابستگی انسانی نفسیات کے بارے میں ان کی
گہری سمجھ کا نتیجہ ہے۔ اس میدان میں صوفیائے کرام کی خدمات کو سنجیدگی سے سامنے
نہیں لایا گیا اور نہ ہی اس پر غور کیا گیا ہے، جبکہ اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی
ہے، تاکہ یہ اس روحانی بیماری کا علاج بن سکیں جس میں بنی نوع انسان ابھی تک مبتلا
ہے اور اس کے علاج کی اشد ضرورت ہے۔ غزالی کے حوالے سے ایک پہلو جسے ڈاکٹر رفیع
آبادی نے چھوڑ دیا وہ سیاست کے بارے میں ان کا نظریہ ہے۔ غزالی کی اصلاحات کی
عملییت اس وقت سامنے آئی جب ان کے طالب علم محمد بن عبداللہ تومراتھ نے ریاستی
اصولوں کے حوالے سے غزالی کے نظریہ کی بنیاد پر سپین میں موحدین خاندان کی بنیاد
رکھی۔ انہوں نے امام غزالی کے تمام نظریات کو عملی جامہ پہنایا۔ لہٰذا، سیاسی
نظریہ میں بھی غزالی نہ صرف ایک مثالی ریاست کی تبلیغ میں کامیاب رہے بلکہ اسے ایک
نمونہ کے طور پر قائم کرنے میں بھی مدد کی۔
غزالی کو یونانی فلسفے کے انتہا پسند رجحان کی
تردید کا سہرا دیا جانا چاہیے جو پورے مسلم معاشرے کو متاثر کر رہا تھا۔ غزالی نے
فلسفے میں اپنے طریقے اور روایات قائم کیں۔ غزالی کا یہ طریقہ فلسفیانہ اور مذہبی
انتہا پسندی کے درمیان اعتدال پسند تھا۔ غزالی کے اس وسیع مطالعہ کے ذریعے مصنف
اسلام کے ایک اور مجدد شاہ ولی اللہ دہلی کے مذہبی فلسفے پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ کا اہم کردار یہ ہے کہ انہوں نے تصوف کو غیر اسلامی اختراعات سے نجات
دلانے کی کوشش کی، اسے اسلام کے ابتدائی مصادر کے قریب لانے اور تصوف میں وحدت
الوجود اور وحدت الشہود کے رجحانات کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے قرآن کا
فارسی میں ترجمہ بھی کیا، یہ ایک انقلابی قدم تھا جو اس سے پہلے کسی صوفی یا
مسلمان فلسفی نے نہیں اٹھایا تھا۔ تمام صوفیاء اور فلسفی مذہبی تصورات سے جڑے ہوئے
تھے، اور ان کی مختلف انداز میں تشریح بھی کر رہے تھے، لیکن وہ اسلامی تعلیمات کی
قیمت پر، یونانی فلسفے کے بنیادی اصولوں کے ساتھ اسلامی اصولوں کی مصالحت، تردید
از سر نو تشریح میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ شاہ ولی اللہ کو پہلا مذہبی اور صوفی
فلسفی قرار دیا جا سکتا ہے جنہوں نے جنوبی ایشیا میں قرآن مجید کے ترجمے کا رجحان
شروع کیا، تاکہ اس کی تعلیمات کو عام لوگ سمجھ سکیں۔
پروفیسر رفیع آبادی نے اپنی پچھلی تصانیف میں
فلسفے کی اپنی دریافت اور تنقید کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے، ’’پہلے میں ابن
سینا، الفارابی، ابن رشد اور یہاں تک کہ الغزالی جیسے مسلم فلسفیوں کی عظیم خدمات
سے متاثر تھا اور مجھے اسی میں زیادہ دلچسپی تھی۔ اور غزالی میں میری دلچسپی بطور
ایک فلسفی کے تھی، نہ کہ ایک فقیہ یا صوفی کے طور پر۔ لیکن یونانی، مسلم اور مغربی
فلسفوں کی گہرائی میں جانے کے بعد اور فلسفیانہ قیاس آرائیوں کی بے ضابطگیوں،
کوتاہیوں اور تضادات کو سمجھنے کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام کو اس معاملے میں
فلسفہ یا سائنس کے تعاون کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ اپنے عقائد کو پھیلانے اور ان
کی تائید و توثیق کے لیے اپنی منطق اور اپنا استدلال رکھتا ہے۔ اب میں سمجھ سکتا
تھا کہ کیوں بڑے بڑے علماءِ اسلام مثلاً ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن صلاح اور یہاں تک
کہ غزالی بھی اسلامی تعلیمات کے دفاع کے معاملے میں فلسفیانہ قیاس آرائیوں کی
مخالفت کر رہے تھے۔" بہر حال، رفیع آبادی عقل یا استدلال کو مذہب سے ہٹانے پر
یقین نہیں رکھتے کیونکہ قرآن کبھی بھی عقل (عقل) کو رد نہیں کرتا۔ وحی عقل کو غفلت
(خواہش) سے پاک کرتی ہے۔ عقل (عقل) اس طرح علم کا ایک قابل اعتماد ذریعہ بن جاتی
ہے، یہ رفیع آبادی کی رائے ہے، وہ جو کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلامی عقائد کو
ثابت کرنے کے لیے جہنمی یا قیاس پر مبنی دلیل شرط نہیں ہے، بلکہ اس میں خالص عقل
کا کردار ہی کافی ہے۔
کتاب
آخر میں نبوت کے بارے میں علامہ سر محمد اقبال کے نظریات کے ساتھ ساتھ ان کے
لیکچرز کا تنقیدی جائزہ پیش کرتی ہے جو اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیل نو کے طور پر
مرتب کی گئی ہے۔ انہوں نے تعمیر نو کے بارے میں اردو میں شائع ہونے والی تخلیقات
کا ایک منظم ادبی جائزہ لیا ہے اور اس سے اقبال کی فکر کے بہت مختلف پہلو سامنے
آتے ہیں۔
اس
کتاب کا مطالعہ یقینی طور پر مذہب کے کے اصل جوہر پر زور دیتا ہے اور کس طرح مختلف
فلسفیوں نے اپنے دور میں مذہبی احکام، پیغامات، بنیادی باتوں کو مختلف پہلوؤں اور
تناظر میں سمجھا، یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے۔ ہمارے عصری جمہوری دور میں وہ ماحول
موجود نہیں ہے کہ اس قسم کی فکر پروان چڑھے۔ مسلم معاشروں کو سب سے زیادہ عدم عدم
روادار معاشرتی قرار دیا جاتا ہے، جہاں علماء دانشور، فلسفی اور آزاد عالم کو جہنم
اور سیاستدان کو جیل کی دھمکی دیتے ہیں۔ مسلم فلسفیوں کی بات نہ کریں، جاوید احمد
غامدی اور مرحوم فضل الرحمان جیسے علماء کو مغرب میں پناہ لینی پڑی۔ اگر غزالی اور
ابن رشد ہمارے عہد میں موجود ہوتے تو انہیں مرتد قرار دیا جاتا اور کوئی کسی بھی
ہجومی تشدد میں انہیں قتل کر دیا جاتا۔
اس
کتاب کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں ہمارے موجودہ بیانیہ اور ہم عصر فلسفیوں
پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ اس میں ابن عربی، ابن خلدون، ملک بینابی، سید نورسی،
فتح اللہ گولن، سید نقیب العطاس اور چندر مظفر جیسے اہم فلسفی کو نظر انداز کر دیا
گیا ہے۔ مسلم دنیا میں فلسفہ صرف اقبال کے ساتھ ہی رکا یا ختم نہیں ہوا، جسے جنوبی
ایشیا کے زیادہ تر مسلمان بڑی عزت و عظمت سے نوازتے ہیں۔ ان کی اس کتاب کی اہمیت و
افادیت کا ابھی تک تنقیدی جائزہ لینا باقی ہے۔ فی الحال بڑے بڑے مسائل جو مسلمانوں
کو پریشان کرتے ہیں مثلاً تشدد، سابق مسلمان، مذہب کے نام پر دہشت گردی، آمریت،
بادشاہت، پدرسرانہ نظام، صنفی عدم مساوات، اظہار رائے کی آزادی کا فقدان، عدم
رواداری نو استعماریت اور کرونی سرمایہ داری کو سنجیدگی کے ساتھ ایک نئے ارتقا
پذیر اسلامی فلسفے کی علمیات کا استعمال کرتے ہوئے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سوالات
کے حل کے لیے ایک نئے فلسفے کی تشکیل اور تعمیر کی بھی ضرورت ہے۔ نیز کتاب میں
استعمال شدہ حوالہ جات کے اندراج کا انداز ایسی کتاب سے وابستہ تعلیمی معیارات سے
بالکل میل نہیں کھاتا۔ گرامر اور املا کی غلطیاں بھی متعدد مقامات پر کتاب کا
ذائقہ خراب کرتی ہیں۔
تاہم
یہ کتاب مسلم فلسفے کے کسی بھی سنجیدہ طالب علم کے لیے ضروری ہے اور اسے ضرور
پڑھنا چاہیے جو یہ یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ یونانی فلسفے نے مسلمانوں میں فلسفے کی
ترقی میں کس طرح کردار ادا کیا، اسے مسلمانوں نے کیسے دریافت کیا اور اس میں کیا
اضافہ کیا اور مسلمانوں میں اس فلسفے کی اشاعت کے ساتھ فکری مباحثوں کی کیا
خصوصیات تھیں۔ اس سلسلے میں کتاب مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہے، اور قرون وسطیٰ اور
جنوبی ایشیائی مسلم فلسفہ کو سمجھنے کے لیے اسے نصابی کتب میں شمار کیا جا سکتا
ہے۔ یہ کتاب مسلم فلسفہ اور فلسفیوں پر پہلے سے موجود نایاب لٹریچر میں ایک اضافہ
ہے اور ایک تازگی بخش مطالعہ ہے۔ ڈاکٹر رفیع آبادی اس نئی کوشش کے لیے مبارکباد کے
مستحق ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ مستقبل میں بھی کچھ نئی روشنیاں سامنے لائیں
گے۔
English
Article: Muslim Philosophy Before and After Ghazali
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism