نیو ایج اسلام اسٹاف
رائیٹر
25 جنوری، 2024
رام مندر کا افتتاح 22
جنوری کو اجودھیا میں طئے شدہ پروگرام کے تحت ہوا۔ اس پروگرام کو لے کر ملک میں
کسی قسم کی کشیدگی نہیں تھی اس لئے کہ رام جنم بھومی بابری مسجد کا تنازع 2019ءکے
سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا تھا اور مسلمانوں نے عدالت عظمی کے
فیصلے کو قبول کر لیا تھا۔ اس لئے عدالت کے فیصلے کے بعد ملک میں کوئی کشیدگی پیدا
نہیں ہوئی اور رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا تھا۔ لہذا، رام مندر کے افتتاح
کو لیکر ملک میں کوئی کشیدگی نہیں تھی۔ ہندوؤں کی طرف سے بھی مسلمانوں کے خلاف
کوئی منفی تبصرہ نہیں کیا گیا تھا جس سے مسلمانوں کو خدشہ ہوتا کہ اس دن مسلمانوں
کے خلاف ملک میں کسی قسم کا حملہ ہو سکتا ہے۔ عام مسلمانوں میں بھی مندر افتتاح کے
روز کسی قسم کے عدم تحفظ کا احساس نہیں تھا۔
اس کے باوجود مسلمانوں کے
کچھ قائدین نے اپنے بیانات سے مسلمانوں کے درمیان عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کی
کوشش کی۔ انہوں نے مسلمانوں کے لئے ایڈوائزری جاری کی ۔ انہیں اس دن سفر نہ کرنے
کی صلاح دی۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہر انسان کا فرض ہے اور ایسا مشورہ دینا
برا نہیں ہے لیکن ایسا مشورہ ایک خاص فرقے کے مذہبی تقریب سے پہلے ایک سیاسی پلیٹ
فارم سے دینا ایک فرقے کے دل میں غیر ضروری طور پر عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتا
ہے۔
ایک ممتاز عالم دین نے
مندرافتتاح سے ایک دن قبل یوٹیوب پر بیان جاری کرکے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ
رات کو اور صبح کو سورہء مزمل سات بار پڑھ لیں اور انہوں نے اس بیان کو وائرل کرنے
کی تلقین کی تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان اس پر عمل کریں ۔ لیکن سات آٹھ گھنٹوں میں
صرف ہزار ڈیڑھ ہزار مسلمانوں نے ہی اس ویڈیو کو دیکھا اور جتنے لوگوں نے دیکھا ان
میں کتنے مسلمانوں نے اس پر عمل کیا اس کا حساب دستیاب نہیں ہے ۔ غالباً اس عالم
دین کا اشارہ یہ تھا کہ اس سورہ کی تلاوت کرنے سے افتتاح کے روز مسلمان دنگے فساد
سے محفوظ رہینگے۔ افتتاح کا پروگرام بخیروخوبی گزر گیا اور ملک میں امن وامان قائم
رہا۔ کچھ شہروں میں شرپسندوں نے حسب معمول شرانگیزی کی جو کہ وہ عام دنوں میں بھی
کرتے ہیں ۔ اس کا رام مندر افتتاح سے یا کسی ہندو تنظیم کے طئے شدہ پروگرام۔سے
کوئی تعلق نییں تھا۔لہذا، اس عالم دین نے مسلمانوں کو افتتاح سے ایک روز قبل سورہ
مزمل پڑھنے کامشورہ دے کر مسلمانوں میں بلا وجہ عدم تحفظ کا احساس اور خوف پیدا
کرنے کی کوشش کی جبکہ افتتاح کا پروگرام بخیروعافیت گزر گیا۔ ان کے اس مشورے سے یہ
اندازہ ہوا کہ مسلمانوں کے ملی قائدین خوف کی نفسیات میں مبتلا ہیں اور اس خوف کا
علاج وہ وظائف میں ڈھونڈتے ہیں۔2019ء کے لوک سبھا الیکشن سے قبل بھی اسی طرح کے
وظائف کا ورد کرنے کی تلقین کسی عالم نے کی تھی کیونکہ ان کا یقین تھا کہ اس وظیفے
کا اجتماعی طور پر ورد کرنے سے مسلم دشمن پارٹی اور لیڈران الیکشن ہار جائینگے۔
لیکن ہوا اس کے برعکس۔
کسی عالم دین نے سات بار
سورہ مزمل کی تلاوت کی تلقین پر تنقید کرتے ہوئے اس کے شرعی جواز پر سوال اٹھایا
ہے۔ اس عالم دین کا کہنا ہے کہ عہد نبوی یا دور صحابہ میں مصیبتوں یا دشمن کے
حملوں سے بچنے کے لئے سورتوں یا وظائف کا ورد کرنے کی نظیر نہیں ملتی بلکہ اس دور
میں مسلمان دشمن کے حملوں یا ان کی سازشوں سے بچنے کے لئے عملی اقدامات کرتے تھے۔
حضور پاک ﷺ نے بھی کبھی کسی جنگ کے دوران یا دشمن کے حملے کو ٹالنے کے لئے گھر میں
بیٹھ کر اوراد ووظائف میں مشغول رہنے کا مشورہ نہیں دیا بلکہ صحابہ کے ساتھ ملکر
منصوبے اور حکمت عملی ترتیب دی۔ لیکن آج کے علماء مسلمانوں کو دنگوں سے بچنے یا
فتنہ فساد سے محفوظ رہنے کے لئے وظائف کا ورد کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔یہ ایک شکست
خوردہ قوم کا طرز عمل اور طرز فکر ہے۔ مسلمان اپنے سیاسی اور مذہبی قائدین کی
تاریخی غلطیوں اور جذباتی طرز عمل کی سزا بھگت رہے ہیں۔ 1992ء میں ملک گیر فسادات
سے بچنے کے لئے ان کے پاس کوئی وظیفہ نہیں تھا۔ آزادی کے بعد ملک میں لاکھوں چھوٹے
بڑے فسادات ہوئے ۔ان فسادات کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے انہوں نے کوئی وظیفہ
تجویز نہیں کیا تھا۔اچانک آج ایک عالم دین کو یہ الہام ہوا کہ قرآن کی ایک سورہ کی
صرف سات بار کی تلاوت سے ہر بلا ٹل جائے گی۔
مولانا وحیدالدین خان نے
الرسالہ کے ایک مضمون میں شکست خوردہ قوموں کے اورادو وظائف میں یقین کی دو مثالیں
پیش کی تھیں۔ ایک مثال عیسائیوں کی اور دوسری مثال مسلمانوں کی۔جب عیسائی مسلمانوں
سے شکست کھارہے تھے تو ایک جنگ سے ہہلے ان کے علماء نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ جنگ
سے پہلے وہ اپنے مذہبی کتاب کو پہلے صف میں رکھ لیں تو انہیں فتح حاصل ہوگی۔اسی
طرح جب مسلمانوں کو زوال ہونے لگا اور شکست پر شکست ہونے لگی تو ایک جنگ سے پہلے
ان کے مذہبی قائدین نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ جنگ سے پہلے مخصوص اوراد لاکھوں
بار پڑھ لیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نہ عیسائیوں کو مقدس کتابوں کو آگے رکھنے
سے فتح ہوئی اور نہ مسلمانوں کو لاکھوں بار وظائف پڑھنے سے۔
لہذا، ہاتھ پر ہاتھ دھرے
بیٹھے رہنا اور کسی مسیحا یا کسی معجزے کا انتظار کرنا یا پھر اوراد ووظائف کو
سیاسی اور سماجی مسائل کا حل سمجھنا صرف شکست خوردہ قوموں کا طرز فکر ہے۔آج جو
قومیں مسلمانوں پر حاوی یا مسلط ہیں وہ اس لئے طاقتور ہیں کہ انہوں نے طویل مدتی
منصوبوں پر کام کیا ہے اور تعلیمی ، سیاسی اور فوجی شعبوں میں جہد مسلسل کو اپنا
شعار بنایا ہے۔
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism