New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 10:56 PM

Urdu Section ( 30 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The First Step for Muslim Leadership Is Correcting Your Ranks لائحہ عمل : پہلا مرحلہ اپنی صفوں کی درستگی

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

27اکتوبر،2023

مجھے انقلاب میں لکھتے ہوئے کئی ماہ گذر چکے ہیں۔متعدد مضامین کے ذریعے میں مختلف قومی وملی حوالوں سے اپنے افکار رکھ چکا ہوں ، ہزاروں لوگ مجھ سے براہ راست رابطہ کررہے ہیں، میری فکر سے اتفاق کررہے ہیں اور معدود ے چند روایتی اختلاف بھی رکھتے ہیں جو اپنی جگہ شاید ٹھیک ہوں۔ اختلاف رائے کسی بھی جمہوری عمل کی ہمہ جہت تقویت پہنچاتا ہے۔آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم سب کو اپنی بات عوام وخواص کے درمیان رکھنے کا حق ہے،اختلاف رائے کواظہار رائے حق کا استعمال مانتاہوں او راسی زمرے میں اس کو رکھتا ہوں۔ میں مکالمے کا آدمی ہوں اور اسی کا قائل بھی ،مباحثے سے مجھے عار نہیں، تکرار برائے تکرار بے معنی !

قیادت کے حوالے سے کئی بار اپنے خیالات کا اظہار کرچکاہوں۔ اول کسی پر کسی بھی طرح کی کوئی تنقید ، تنقیص و الزام تراشی نہیں جو زمین پر ہے وہ قابل قدر ہے ،محترم ہے اور غنیمت ہے۔

دینی قیادت: مسلم معاشرے کا سب سے بڑاطبقہ اہلسنت والجماعت کاہے، جو روایتی طور پر بریلوی کہلاتاہے ۔ اس کے یہاں متعدد ادارے اور شخصیات ہیں مگر کسی ایک کو سب ہی حلقوں میں معتبرت یا مرکزیت حاصل ہو ایسا نہیں ہے۔ البتہ امام احمدرضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی امامت، مرکزیت اور شرعی معتبریت کے سب قائل ہیں اور اس حوالے سے الحمد اللہ اجماع موجود ہے۔ بریلوی، کچھوچھہ، مارہرہ، مبارکپور ،کالی کٹ بڑے مراکز میں شمار ہوتے ہیں، مدرارس کا یہاں کوئی مرکزی نظم ونظام نہیں۔ جنوبی ہندستان میں صورتحال قدرے بہتر ہے۔

دوسرا بڑا طبقہ عملاً ہے تو یہ بھی اہل سنت والجماعت مگر روایتی طور پر یہ دیوبندی کہلاتا ہے ۔یہاں ادارے اور قیادت قدرے مستحکم ہے مگر مرکزیت یہاں بھی بدقسمتی سے تقسیم ہے۔ جمعیت العلماء دوحصوں میں تقسیم ہے۔ دارالعلوم بھی دوحصوں میں تقسیم ہے مگرمسلکی اعتبار سے بڑا طبقہ دارالعلوم دیوبند او راسکی ہدایات سے جڑا ہوا ہے۔ مساجد، مدارس وفلاحی اداروں کا ملک گیر جال ہے الحمداللہ ! فرنگی محل لکھنؤ اور ندوۃ العلما ء لکھنؤ بھی مسلکی اعتبار سے دنیاے سنیت کا ہی حصہ ہیں۔ دیوبند سے کوئی بنیادی اختلاف نہیں رکھتے البتہ ترجیحات میں فرق ہوسکتاہے جس کی منطق اجازت دیتی ہے۔

تیسرا طبقہ اہل تشیع کاہے جس کی تعداد بھی ملک گیر سطح پر خاصی ہے۔ یہاں جمعیت کی کیفیت قدرے بہتر ہے قیادت پر بھی کوئی بنیادی تقسیم یا اختلاف نہیں ۔ایسا ہی کچھ اہلحدیث یا سلفی حلقے کے ساتھ ہے ۔ وہاں بھی جمعیت کی شکل وصورت قدرے اطمینان بخش ہے۔ چوتھا خانقاہوں کا بھی ایک وسیع سلسلہ ہے مگر یہاں کا اپنانظم وترجیحات ہیں۔

جماعت اسلامی ایک جماعت کی حیثیت سے مسلم معاشرے کی نہایت منظم تنظیم وتحریک ہے او رملک گیر سطح پر جمعیت کی طرح انکا بھی دائرہ کار پھیلا ہوا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ حلقہ جہاں مکالمے کی مناسب زمین ہے ۔موجود ہ ومستقبل کے چیلنجز کے حوالے سے سرگرم رہنے والی ایک ایسی جماعت جس کا تصنیف وتالیف ودعوت دین کے میدان میں اپنا ایک مقام ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے بعد اس زمرے میں جماعت اسلامی ،ندوۃ العلما ء ،مبارکپور ،مرکز ثقافت السنیہ کالی کٹ وغیرہ نسبتاً زیادہ نمایاں ہیں۔

مساجد کی سطح پر جو مرکزیت ومعتبریت شاہی امام جامع مسجد دہلی کو ہر دور میں حاصل رہی ہے اس کا کوئی ثانی نہیں رہا عوام نے خواص تک سرکاری وغیر سرکاری حلقوں میں اور رسائی وپہنچ کے اعتبار سے جو مقام اس کے پاس رہا ہے وہ آج بھی منفرد ہے۔مرحوم مولانا جمیل احمد الیاسی دامت برکاتہم نے ائمہ کے مشاہرہ جات کے حق کے حصول کے حوالے سے جو جدوجہد کی اس کی اپنی زمین ائمہ مساجد کے درمیان ہی رہی، آج بھی ایسا ہی ہے۔

مختلف ملی تنظیمیں ہیں جن میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سب سیبڑی او رنمائندہ رضاکارانہ مسلم تنظیم ہے جس کا اپنا مینڈیٹ ہے، حلقہ اثر ہے۔نمائندگی سب ہی مسالک ومکتبہ فکر کی ہے ۔البتہ ندوۃ العلما ء اور اس کی قیادت کا اس میں مرکزی کردار رہتاہے ۔دیگر بہت سارے او رنام لئے جاسکتے ہیں مگر کوئی اس پائے کی بڑی وحدت مجھے نظر نہیں آتی، ہمارے یہاں یوں تو گلی گلی آل انڈیا تنظیموں کا جم غفیر ہے۔

شعبہ تعلیم و شعبہ قانون میں آج بڑی شخصیات سرگرم عمل ہیں اور سب ہی قابل قدر اور محترم ہیں۔ مت بھولیں کہ تمام تعلیمی ادارے، ان کے بنانے او رچلانے والے ، ان کی معاونت کرنے والے ،بحیثیت اساتذہ اپنی خدمات انجام دینے والے او ران میں پڑھنے والے طلبا یہاں اس زمرے میں تمام مدارس اسلامیہ، ان کے منتظمین ،اساتذہ وطلباء کو بھی شامل کر رہاہوں۔ یہ وہ تربیت گاہیں ہیں جہاں نسل سازی کا کلیدی کام چلتا ہے۔

سیاست کے میدان میں ریاستی سطح پر کئی تجربے ہمارے سامنے ہیں۔پہلا کیرالہ میں انڈین یونین مسلم لیگ اور انڈین نیشنل لیگ کا ہے جو اقتدار میں سیدھے حصے داری لینے کی مثال ہیں۔اس پر کسی سوال کی گنجائش نہیں، کیرالہ میں ہر شعبے میں نمایاں کارکردگی منہ سے بول رہی ہے۔مگر اب ابراہیم سلیمان سیٹھ او رغلام محمود بنات والا جیسے کرشمائی نام وہاں موجود نہیں ۔دوسرا مجلس اتحاد المسلمین ہے جس کی قیادت اسدالدین اویسی صاحب کررہے ہیں ،مطالعے کے آدمی ہیں، قومی وبین الاقوامی معاملات پر ان کی گہر ی نظر ہے، اپنے موقف کو پوری شدت او رمنطق سے رکھنے میں مہارت رکھتے ہیں دلیل او رحوالوں سے گفتگو کرنے والے فی الوقت واحد مسلم سیاستداں تلنگانہ ریاست میں اپنا ایک حلقہ اثررکھتے ہیں ۔ملک کے دیگر حصوں میں بھی کوشاں ہیں۔ یہ بھی کیرالہ جیسی ہی دوسری مثال ہے۔

تیسرے آسام میں قبلہ بدرالدین اجمل صاحب اور ان کی علاقائی سیاسی جماعت آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ ہے۔ جو آسام میں اچھے بھلے حلقے پر اپنا اثر رکھتی ہے۔خاصی تعداد میں اس کے امیدوار اسمبلی میں چن کر آتے ہیں مگر ابھی تنائج کے اعتبار سے اس کے سامنے کئی بڑے پریکٹیکل مسائل ہیں۔ یہ تیسری بڑی مسلم جماعت ہے۔پیس پارٹی اتر پردیش میں کوشش کررہی ہے، اتحاد ملت کونسل ہے، ویلفیئرر پارٹی آف انڈیا ہے مگر ان کا انتخابی عمل میں خاطر خواہ ابھی کوئی کردار بن نہیں پایا ہے ۔کئی دیگر مخلص اراکین لوک سبھا ہیں مگر قانون سازی اور دلائل کے میدان میں ان کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ یہ علم اور علمیت کا دور ہے اس میں چہرے نہیں لیاقت درکار ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جماعتی نمائندگی ہوتی ہے ملتی نہیں ۔

گزارشات: میرا یہ پختہ ماننا ہے کہ بات وہاں سے شروع کریں جہاں امکانات ہوں او رنتائج کی طرف بڑھا جاسکتا ہو۔ بیجا آئیڈیل ہوکر تقریر تو کی جاسکتی ہے مگر اس کے آگے؟

(1) تمام مسالک اپنی اپنی سطح پر مرکزی قیادت کا ایسا نظم قائم کریں جو اصولاً گروشی ہو او رجس میں ایک مقررہ مدت کے بعد پر امن منتقلی کا اندرونی نظم قائم رہے۔مسلک کے اندر موجودہ تمام مستند وحدتیں اس کا براہ راست حصہ ہوں او رایک مدت خاص کے بعد قیادت کی منتقلی کا عمل ہروحدت تک پہنچے اس کو یقینی بنایا جائے۔ اس کامنطقی انجام مسلکی سطح پر گاؤں ،قصبات ،اضلاع ،ریاستی ومرکزی قیادت کی تشکیل ہے۔

(2) اس کے بعد تمام بڑی سماجی وملی وحدتیں مندرجہ بالااصول وضابطے کے تحت اپنی تشکیل کرلیں اور اس میں نمائندہ قیادت کا گروشی طریقہ کار وضع کرلیں جو فطری ومنطقی طو رپر ایک نمائندہ مرکزی قیادت کو ضلعی ،ریاستی و مرکزی سطح پر وجود میں لے آئے گا۔

(3) اسی طرز پر اس عمل کو شعبہ تعلیم، تجارت وصنعت ،صحت ،قانون اور فلاحی اداروں تک لے جائیں۔

(4) سیاسی سطح پر تین بڑی مسلم سیاسی جماعتیں ایک قومی مشاورتی کونسل قائم کریں جس کا مندرجہ بالا ریاستی ومرکزی نمائندہ قیادت حصہ ہو تاکہ پورا معاشرہ مشاورت کے عمل میں اپنی نمائندگی وشرکت کو محسوس کرے ، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور فرائض منصبی سمجھ کر انہیں ادا کرے۔

عوام اور خاص اس سازش کا حصہ نہ بنیں جس میں جن جماعتوں او ران کی قیادت کے الف یا ب کا ایجنٹ کہاجاتا ہے۔ضمیر فروشی او رموقع پرستی سے کون سا حلقہ آج فارغ ہے؟ سیاست میں جو فراہم ہے اس کے اچک لینے کا نام سیاست ہے۔اپنے فائدے سے پہلے جس سے بات کرتے ہوں اس کا فائدہ دیکھو۔ اقلیت اکثریت کے فائدے میں اپنا حصہ تلاش کرکے سب نے یہ سیکھ لیا آپ ابھی تک دشمنیاں ہی باندھ اور نبھال رہے ہیں وہ بھی لاحاصل !

آخری بات سیاست میں کوئی دوست نہیں کوئی دشمن نہیں ۔آج کادوست کل کا حریف اور آج کا حریف کل کا حلیف ۔ یہ سیاست کا اصول ہے قومی سیاست کا حصہ بنیں او را س میں اپناحصہ تلاش کریں، راستہ صرف ایک ہے کہ جس نظم کی تشکیل کا میں نے مشورہ دیا ہے اگر اس کی آراء کا خود کو پابند بنالیں گے تو تقسیم اور تفرقے سے جو نقصان آپ خود کو پہنچارہے ہیں اس کی زمین ختم ہوجائے گی۔

27 اکتوبر، 2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslim-leadership-correcting-ranks/d/131005

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..