New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 10:21 PM

Urdu Section ( 23 Nov 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslim Dilemma in Independent India - Part One آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کا بحران

 نریش چندر سکسینا، نیو ایج اسلام

(پہلا حصہ)

 9 نومبر 2023

خلاصہ

 آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو ہندوؤں کی جانب سے زبردست تعصب منافرت کی وجہ سے بے حد نقصان اٹھانا پڑا ہے، جو نسبتاً 'سیکولر' کانگریس کے دور حکومت میں بھی فسادات کے دوران پولیس کے ہاتھوں بے انتہا تشدد کا شکار ہوئے۔ 1980 کی دہائی سے کانگریس حکومت کی خوشامدآنہ پالیسیوں اور ان برسوں میں مسلم سیاسی رہنماؤں اور علماء کے کردار کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف تعصب اور شکوک شبہات مزید گہرے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی پالیسیوں نے بی جے پی کو موقع فراہم کیا کہ وہ ہندوؤں کے خدشات کا سیاسی فائدہ اٹھائے، اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف کھل کر نفرت کی آگ بھڑکائی، جس سے ان کی حیثیت دوسرے درجے کے شہریوں کی سی ہو کر رہ گئی ہے۔ بی جے پی کے لیے مسلمانوں کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں، لہذا، ان کے خدشات کو نہ صرف نظر انداز کیا جا سکتا ہے بلکہ جان بوجھ کر ان کے مفادات پر کبھی کبھار ضرب بھی لگائی جا سکتی ہے (اور آرٹیکل 370، سی اے اے، تین طلاق، تبدیلی مذہب مخالف قوانین) کا انتخابات میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

مسلمان اس ظلم کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ اشتعال انگیز سیاست کا راستہ، جو کہ لبرل جمہوریت میں کافی موثر ہے، مسلمانوں کو اس وقت تک فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک ان کے خلاف نفرت ہندوؤں کے ذہن و دماغ میں بھرا ہوا ہے۔ دونوں طبقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے درمیان، مسلمانوں کی طرف سے اس امتیازی سلوک کے خلاف کوئی بھی تحریک ہندوؤں کے درمیان ان جذبات کو مزید ابھار سکتی ہے کہ جن سے امتیازی سلوک کو تقویت حاصل ہو، اور مسلمانوں کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے، مسلم آبادی کی جغرافیائی صورتحال ان کے لیے اس بات کو ناممکن بنا دیتی ہے کہ وہ اپنی ثقافتی شناخت کا استعمال کسی بھی قسم کے سیاسی دباؤ بنانے کے لیے کر سکیں۔ مزید برآں، بی جے پی کے عروج نے انتخابات میں مسلمانوں کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے۔ اور ہندو انتہا پسند انتقامی جذبے سے لیس ہیں۔ جب تک ہندوؤں کے ذہنوں میں تعصب برقرار رہے گا، تب تک ایک 'سیکولر' حکومتیں بھی ایسی پالیسیاں بنانے میں ناکام رہیں گی جن سے مسلمانوں کا بھلا ہو۔

 اس سے مسلمانوں کے سامنے اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرنے کے بجائے اپنی لیاقت اور قابلیت کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔ اچھی بات یہ ہے کہ تعلیم اور سرکاری ملازمتوں کی بھرتی میں مسلمانوں کے ساتھ کھل کر امتیازی سلوک کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا، لہٰذا، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اعلی عہدوں کی نوکریوں میں اپنی حصے داری بڑھائیں بلکہ اپنی شبیہ کو بھی بہتر بنانے کی کوشش کریں، جو تبھی ممکن ہو گا جب آئندہ بیس سالوں میں ملک کے بہترین ڈاکٹر، بہترین ٹیچر اور بہترین ایڈمنسٹریٹر (انتظامی عہدوں پر فائز) مسلمانوں میں سے ہوں۔ انہیں ایک ایسی عوامی تحریک کی ضرورت ہے جس کا نصب العین بہترین تعلیم کی فراہمی ہو۔

-----

مصنف کا یہ مضمون 'Citizenship: Context and Challenges' میں شائع ہو چکا ہے اور اب دوبارہ نظر ثانی کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے، جسے امیر اللہ خان اور ریاض ایف شیخ، سنٹر فار ڈویلپمنٹ پالیسی اینڈ پریکٹس، حیدرآباد، 2021 نے ایڈٹ کیا ہے۔

 تعارف

 باوجود اس کے کہ آئین میں سب کے لیے انصاف اور مساوات کی ضمانت دی گئی ہے، ہندوستانی مسلمانوں کو بدقسمتی سے آزادی کے بعد بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے، جیسے تشدد، سالمیت اور امتیازی سلوک۔ کانگریس کے دور حکومت میں بھی، پولیس نے اکثر مسلمانوں کے ہی خلاف زبردست تعصب کا مظاہرہ کیا اور فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ہندوؤں فسادی ہجوم کا ساتھ دیا۔ 2014 میں جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے مسلمانوں کی حالت مزید خراب ہوئی ہے، کیونکہ اس کے قائدین نے کھلے عام مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیا ہے اور انہیں اورنگ زیب، پاکستانیوں، غداروں اور دہشت گردوں کی اولاد قرار دیا ہے۔ ہندوؤں کے ذہنوں میں جو یہ زہر گھولا گیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بسا اوقات مسلمانوں کو بغیر کسی اشتعال کے ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا، جس سے مسلمانوں کی حیثیت دوسرے درجے کے شہریوں کی سی ہو کر رہ گئی، جن کی جان و مال کے تحفظ کی ضمانت بر قرار نہیں رہی۔ (18-2010) تک ان آٹھ سالوں میں کل 87 لنچنگ کے واقعات ہوئے جن میں سے 97 فیصد 2014 میں مودی حکومت آنے کے بعد وقوع پذیر ہوئے، جس کے 289 متاثرین میں سے 88 فیصد صرف مسلمان تھے (Teltumbde، 2018)۔ مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر بی جے پی کا یہ زوردار حملہ اکثریت پرست حکومت کے تصور کو مسلط کرنے کی ایک ٹھوس کوشش کی نشاندہی کرتا ہے - جو آئینی جمہوریت اور مشترکہ شہریت کے تصور سے ایک کھلی بغاوت ہے (حسن، 2014)۔

سنگھ پریوار مسلم شناخت کو قومی مفادات کے خلاف ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے (سنگھ، 2016)۔ مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلانے کی اس حکمت عملی سے بی جے پی کو زبردست سیاسی فائدہ پہنچا کیونکہ بدقسمتی سے ایک بڑی تعداد میں ہندوؤں کے درمیان مسلمانوں کے بارے میں منفی تاثر پایا جاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ آسانی سے بی جے پی کے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بی جے پی ہندوؤں کے تعصبات اور مسلمانوں کے خلاف ان کی نفرت سے سیاسی فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی ہے، کیونکہ مذہبی خطوط پر ہندوؤں کو پولرائز کرنے سے معاشی محاذوں پر حکومت کی ناکامیوں کی پردہ پوشی ہو جاتی ہے۔ اور جب ایسا ہوتا تو رائے دہندگان حکومت کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے نہیں لگاتے کہ ہم معاشی طور پر خوشحال ہوئے یا نہیں، بلکہ ان کا معیار یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو مناسب سزا دی گئی یا نہیں اور انہیں ان کی اوقات دکھائی گئی یا نہیں۔ لہٰذا بی جے پی کی 'ہندوستان کے لیے مسلم مخالف مہلک' شبیہ فروغ دینے سے کافی حوصلہ افزائی ہوئی ہے(جنگید، 2019)، اور اس میں بی جے پی کی کامیابی نے کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ہوش اڑا دیے ہیں، جو اکثریت پرستی کے خلاف کھل کر سامنے آنے کے بجائے خود 'نرم ہندوتوا' کی پالیسی کی پیروی کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں، تاکہ اکثریتی طبقے کے ووٹ ان کے ہاتھوں سے نکل نہ جائیں۔

 بدقسمتی کی بات ہے کہ پچھلے ستر سالوں میں مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی توجہ اختصاص اور ریزرویشن کے ذریعے سماجی انصاف کی تلاش پر رہی ہے، جس سے ان کے خلاف ہندوؤں کا خوف مزید گہرا ہوا ہے۔ اس لیے اس مضمون میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ علیحدہ پرسنل لاء اور ملازمتوں میں ریزرویشن کے لیے سیاسی طور پر منظم ہونے کے بجائے مسلم قیادت کو اپنے خلاف ہندوؤں کے تعصب کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، کیونکہ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جس سے بی جے پی مسلمانوں کے خلاف اپنے سیاسی پروپیگنڈے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ یہ مسئلہ سیاسی سے زیادہ سماجی ہے۔

 آزادی کے بعد کا ابتدائی دور

 جواہر لعل نہرو کو چھوڑ کر، کانگریس پارٹی کے بیشتر دیگر ہندو وزراء، بالخصوص ریاستی سطح پر، ذہنی اعتبار سے اور پالیسی سازی میں مسلمانوں کے خلاف سخت تعصب و تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے رہے۔ جہاں تک 1936 تک کی بات ہے نہرو نے مایوسی کے ساتھ یہ لکھا کہ 'کئی کانگریسی میرے قومی لبادے میں فرقہ پرست ہیں' (حسن، 1980)۔ انہوں 'اپنی مادر وطن' کی بربادی کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا، اور انگریزوں نے انھیں جو بھی مراعات دیے تھے یکلخت چھین لیے۔ نومبر 1947 میں، یوپی کے وزیر برائے لوکل سیلف گورنمنٹ نے دو بل متعارف کرائے جس میں ڈسٹرکٹ بورڈوں اور ٹاؤن کونسلوں کے لیے علیحدہ انتخابی حلقوں کو ختم کر دیا گیا۔ ہندوؤں کے درمیان اس احساس کی موجودگی نے کہ مسلمان بے وفا ہیں اور کبھی بھی پاکستان بھاگ سکتے ہیں، مسلمانوں کی کلیدی عہدوں پر ملازمت یا پولیس میں بھرتی کے امکانات کو مزید کم کر دیا۔ جب یوپی پولیس کے وزیر (اور کانگریس کے مستقبل کے وزیر اعظم) لال بہادر شاستری نے اکتوبر 1947 میں یہ اعلان کیا کہ وہ حکومت مخالف سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے ایک '"absolutely loyal" (بالکل وفادار)' تفتیشی فورس تشکیل دے رہے ہیں، تو انھیں یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ نسلی اعتبار سے 'بالکل وفادار' سے کیا مراد ہے۔ یوپی میں سینئر پولیس فورس اور سول سروس افسران میں مسلمانوں کا تناسب 1947 میں 40 فیصد تھا جو کہ 1958 گھٹ کر 7 فیصد رہ گیا۔ حکومت نے آزادی سے قبل کانگریس پارٹی کے مسلمانوں سے کیے گئے اس وعدے کو برطرف کر دیا کہ ہم ہندی اور اردو دونوں زبانوں کو بطور ہندوستانی زبان کے فروغ دینگے، حالانکہ جولائی 1947 کے آخر تک، یوپی میں پولیس اہلکار ہر 10 میں سے نو مقدمات اردو میں ہی لکھا کرتے تھے۔ (ولکنسن، 2004)۔

 [1] اروندھتی رائے: 'https://www.dailyo.in/politics/indian-muslims-islam-hindutva-rss-congress-bjp-secularism-amu-jamia-millia-islamia/story/1/9000.html

اگرچہ انڈین نیشنل کانگریس نے آزادی کی پوری جدوجہد کے دوران مسلمانوں سے مشترکہ رائے دہندگی کے ذریعے متناسب نمائندگی کا وعدہ کیا تھا، اور اس تحفظ کو دستور ساز اسمبلی کے پہلے مسودے میں شامل بھی کیا گیا، لیکن 1949 میں سردار پٹیل نے ایک ترمیم پیش کی جس کے بعد اسے مسودے کے حتمی مرحلے میں ترک کر دیا گیا۔ اور مقننہ میں مسلمانوں کے لیے مخصوص نشستوں کا اہتمام ختم کر دیا گیا (پٹیل، 1989)۔

کئی مواقع پر، 1946 سے 1954 تک یوپی کے وزیر اعلیٰ رہے گوبند بلبھ پنت نے مسلمانوں کے خلاف زبردست تعصب و تنگ نظری کا مظاہرہ کیا۔ 1947 میں یوپی کے اس وقت کے ہوم سکریٹری راجیشور دیال اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے پنت کو صوبے کے مغربی اضلاع میں مسلمانون کے خلاف فرقہ وارانہ تشدد کی آر ایس ایس کی گھناؤنی سازش سے آگاہ کیا تھا، لیکن سی ایم نے خاموشی اختیار کی اور پولیس کو ایکشن لینے کی ہدایت نہیں دی۔ وزیر اعلیٰ اور یوپی کابینہ کی چشم پوشی اور بے توجہی کے سنگین نتائج برآمد ہوئے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔

 مسٹر دیال لکھتے ہیں کہ آر ایس ایس کی جڑیں یوپی کی سیاست میں گہرائی تک پھیلی ہوئی تھیں، اور آر ایس ایس کے ہمدرد، چھپے اور کھلے طور پر، خود کانگریس پارٹی اور کابینہ میں بھی پائے جاتے تھے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی کہ ایوان بالا کے پریذائیڈنگ آفیسر آتما گووند کھیر خود آر ایس ایس سے وابستہ تھے اور ان کے بیٹے بھی آر ایس ایس کے رکن تھے (دیال، 1999)۔

 پنت 1949 میں بابری مسجد کے معاملے میں بھی انتظامیہ کی ناکامی کے لیے بھی ذمہ دار تھے۔ ان کی خاموش حمایت سے ہی حوصلہ پاکر ضلع کلکٹر نیئر نے 23-22 دسمبر 1949 کی درمیانی شب بابری مسجد میں مورتیوں کو خفیہ طور پر نصب کر دیا۔ وزیر اعظم نہرو غصے میں تھے اور انہوں نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ آپ فورا اس غلطی کی اصلاح کریں، لیکن پنت نے ان کی ہدایات کو بھی نظر انداز کر دیا۔ مورتیوں کو ہٹانے کے لیے چیف سکریٹری بھگوان سہائے کے پرجوش بیانات پر کلکٹر نیر نے یہ کہہ کر عمل نہیں کیا کہ 'اس سے بہت سے بے گناہوں کی جان چلی جائے گی'۔ نیر نے بعد میں استعفا دے کر جن سنگھ میں شمولیت اختیار کر لی اور پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو گئے۔

 اس طرح، اقلیتوں کے حقوق سے متعلق نہرو کے وعدوں اور کانگریس کی ریاستی حکومتوں کی حقیقی کارکردگی کے درمیان کافی زیادہ فرق تھا۔ مئی 1958 میں آل انڈین کانگریس کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے، نہرو نے کہا تھا کہ اگرچہ 'کانگریس ایک سیکولر معاشرے کے لیے پرعزم ہے لیکن اس کے کارکن سیکولرازم کے اصولوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور فرقہ وارانہ سوچ کے حامل ہوتے جا رہے ہیں' (ولکنسن، 2004)۔

پولیس کے ذریعہ فرقہ وارانہ فسادات سے نمٹنا

 1948 میں مہاتما گاندھی کے قتل سے فرقہ واریت کے سوال پر لوگوں کے رویہ میں تبدیلی آئی۔ آر ایس ایس پر پابندی لگا دی گئی اور ہندو فرقہ پرست عناصر بہت کمزور ہو گئے۔ 1950 سے 1960 کے درمیانی عرصے کو فرقہ وارانہ طور پر امن کی دہائی کہا جا سکتا ہے۔ ملک میں عمومی سیاسی استحکام اور معاشی ترقی نے بھی فرقہ وارانہ صورتحال کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں 1964 سے مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔

 [1] کے کے نیئر کا وزیر اعلیٰ کو ریڈیو پیغام، 'رات کو چند ہندو بابری مسجد میں داخل ہوئے جب مسجد ویران تھی، اور وہاں مورتی نصب کر دی گئی۔ ڈی ایم اور ایس پی اور پولیس فورس موقع پر موجود تھی۔ حالات قابو میں تھے۔ رات کے وقت 15 افراد پولیس کی ڈیوٹی پر تھے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔'

 [1] حکومتی رپورٹوں اور جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات پر مبنی۔ یہ زیادہ تر سرکاری اعداد و شمار ہیں، مسلمانوں کا جانی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے، جیسا کہ آزاد تحقیقات سے پتہ چلتا ہے۔

 مشرقی ہندوستان کے مختلف حصوں مثلا کلکتہ، جمشید پور، راؤرکیلا اور رانچی میں شدید فسادات پھوٹ پڑے کیونکہ کشمیر میں حضرت بل مسجد سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس آثار و تبرکات چوری ہونے سے کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ اگرچہ یہ تبرکات ایک ہفتے کے اندر دریافت کر لیے گئے، لیکن اس واقعے سے مشرقی پاکستان کے کھلنا جیسے دور دراز علاقوں میں شدید فسادات پھوٹ پڑے، جس سے اس علاقے کے ہندوؤں میں خوف و ہراس کا ماحول قائم ہو گیا اور انہوں نے ہندوستان کی طرف ہجرت کرنا شروع کر دیا۔

 یہ مہاجرین اپنے ساتھ مشرقی پاکستان سے اپنی مصیبتوں کی دلخراش داستانیں لے کر آئے، اور اس کے ردعمل میں کلکتہ، جمشید پور، راؤرکیلا اور رانچی میں مسلمانوں کے خلاف مظالم ڈھائے گئے۔ مسٹر ایس کے گھوش کے مطابق، جو اڑیسہ میں ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس تھے، راؤرکیلا کے فسادات میں تقریباً دو ہزار لوگ مارے گئے تھے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔(سکسینا، 1984)

 سرکاری ریکارڈ کے مطابق، کچھ اہم فسادات میں ہونے والی ہلاکتوں کو جدول 1 میں دکھایا گیا ہے:

 جدول 1: فرقہ وارانہ تشدد میں مارے گئے لوگ

(سکسینا، 2019)

 [1] حکومتی رپورٹوں اور جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات پر مبنی۔ یہ زیادہ تر سرکاری اعداد و شمار ہیں، مسلمانوں کا جانی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے، جیسا کہ آزاد تحقیقات سے پتہ چلتا ہے۔

 بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان فسادات سے نمٹنے میں انتظامیہ نے مسلمانوں کے ساتھ سراسر ناانصافی کی ہے، حالانکہ تقریباً ایسے تمام معاملات میں کانگریس ہی ریاستی اور مرکزی سطح پر اقتدار میں تھی۔ مختلف کمیشنوں کی انکوائری رپورٹوں میں اس پر کافی بحث کی گئی ہے۔

 مثال کے طور پر، بھیونڈی (مہاراشٹرا) فسادات پر میڈون کمیشن، 1970 نے یہ رپورٹ پیش کیا:

ـ گرفتاریوں میں امتیازی سلوک روا رکھا گیا، اور مسلم فسادیوں کو بڑی تعداد میں گرفتار کیا گیا، جبکہ پولیس نے ہندو فسادیوں سے صرف نظر کیا۔

ـ کچھ بے گناہ مسلمانوں کو یہ جانتے ہوئے گرفتار کیا گیا کہ وہ بے گناہ ہیں۔

ـ کچھ مسلمانوں کو گرفتاری کے وقت اور پولیس حراست میں مارا پیٹا گیا۔

ـ مسلم قیدیوں کو تالوکا پولیس اسٹیشن کے احاطے میں کھڑا کر کے رکھا گیا، جن میں سے صرف چند ایک کو ہی درختوں کا سایہ نصیب تھا، جب کہ ہندو قیدیوں کو برآمدہ میں ٹھہرایا گیا۔

ـ ہندو قیدیوں اور مسلمان قیدیوں کے درمیان کھانے اور پانی کی تقسیم میں بھید بھاؤ کیا گیا۔

 بھاگلپور انکوائری کمیشن کی 1995 کی رپورٹ میں کہا گیا، 'ہم دویدی، اس وقت کے پولیس سپرنٹنڈنٹ بھاگلپور، کو 24 اکتوبر 1989 سے پہلے، 24 تاریخ کو اور 24 کے بعد جو کچھ بھی ہوا، اس کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ جس طرح انہوں نے مسلمانوں کو گرفتار کیا اور انہیں جس انداز میں تحفظ سے محروم رکھا اس سے ان کی فرقہ وارانہ ذہنیت پوری طرح اجاگر ہو گئی۔ جس طرح سے مسلمانوں کی تلاشی لی گئی اس سے مقبوضہ یورپ میں نازیوں کی تلاشی کی یاد تازہ ہو گئی۔' بدقسمتی کی بات ہے کہ مسٹر دویدی اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوئے اور 2019 میں لاء اینڈ آرڈر کے انچارج، بہار کے ڈی جی پی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے!

 رجت شرما، جنہیں بی جے پی کا قریبی سمجھا جاتا ہے، 1982 کے میرٹھ فسادات کے حوالے سے آنلوکر میں لکھتے ہیں:'اسٹیل ہیلمٹ والے رائفل بردار جوان مسلمانوں کے گھروں میں زبردستی داخل ہوئے اور جو دروازے نہیں کھلتے تھے انہیں توڑ ڈالا۔ انہوں نے سول افسران کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور گھروں میں بے دریغ توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ انہوں نے گھروں میں موجود ہر شخص کو زیر کر دیا اور رائفل کے بٹوں سے انہیں زدوکوب کیا۔ پھر اچانک، جوانوں نے عام رہائشیوں پر اوپن فائرنگ شروع کر دی۔ ان حالات میں سول اہلکار موقع سے فرار ہوگئے۔ پی اے سی نے 100 سے زائد لاشیں نکالیں۔ کہا جاتا ہے کہ پی اے سی نے 450 مکانات پر چھاپے مارے اور ہر گھر میں اب کم از کم ایک فرد ایسا پایا جاتا ہے جو اب پوری زندگی کرب والم میں گزارے گا۔

کوتوالی کے علاقے میں ایک مسلم انجینئر کو قتل کر دیا گیا، اور اس کے 16 سالہ بیٹے کو بھومیہ پل میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس کی والدہ پر بھی حملہ کیا گیا جو ایک کانونٹ اسکول میں ٹیچر تھیں۔ اس صدمے سے وہ پاگل ہو گئیں۔ ایک موٹر مکینک استاد، اور ان کے معاون کو شاہ گھاس میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، ان کی جھونپڑی نذر آتش کر دی گئی۔ پوروا فیاض علی میں رکشہ چلانے والے سخاول کو قتل کر دیا گیا۔

 اس فساد کی سرکاری طور پر 1983 میں بطور جوائنٹ سکریٹری اقلیتی کمیشن کے، راقم نے تحقیقات کی تھی۔ اس کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں:

 'فیروز بلڈنگ کے اندر، میری ایک 11 سالہ لڑکی شبانہ سے ملاقات ہوئی، جس کے جسم پر اب بھی چاقو کے بے شمار نشانات ہیں۔ میں نے یکم اکتوبر کو پولیس کی ظالمانہ کارروائی میں جاں بحق ہونے والے عبدالرشید، شیرو، انور، شیردین، ظفر علی، عبدالعزیز، ارشاد، کلوا، معین، سلیم اقبال، عبدالزیام اور ولی محمد کے گھروں کا دورہ کیا۔ دیواروں پر گولیوں کے نشانات، مقتولین کے خون آلود کپڑے اور مکانات کی بہت سی تصاویر جو اس اندوہناک واقعے کے فوراً بعد لی گئی تھیں، جن سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ پولیس فورس نے ان گھروں میں دراندازی کی بلکہ اس بات کا بھی منھ بولتا ثبوت ہیں کہ ان میں پولیس نے لوٹ مار کی اور بے دریغ ان کی جائیدادوں کو تباہ و برباد کیا۔ تفصیلی پوچھ گچھ کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ پی اے سی کے ہاتھوں کم از کم اسی بے گناہ لوگوں کے قتل کا پولیس ریکارڈ میں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔'

 بدقسمتی سے، جی او آئی کو میرا پولیس کی بربریت کو بے نقاب کرنا پسند نہیں آیا، اور مجھے اس وقت کے ہوم سکریٹری، ایم ایم کے والی، جو 1953 بیچ کے کشمیری برہمن آئی اے ایس افسر تھے، کا ایک تحریری انتباہ موصول ہوا۔ مجھے زبانی طور پر بتایا گیا کہ اب میں جی او آئی میں اپنی خدمات جاری نہیں رکھ سکتا (میں صرف چھ ماہ پہلے دہلی آیا تھا)، اب یا تو میں دوبارہ یوپی واپس جاتا یا افغانستان میں کالاپانی (پنشنمٹ پوسٹنگ) کی سزا کاٹتا، جو اس وقت روسیوں کنٹرول میں تھا۔ میں نے افغانستان جانے کا فیصلہ کیا۔ میں معصوم خواتین اور بچوں پر اس ظالمانہ فائرنگ سے بہت پریشان تھا اور میں نے اپنا مقالہ شائع کروا کر اس کا بدلہ لیا، حالانکہ سروس کے اصول و ضوابط کے تحت کسی بھی سرکاری ملازم کو سرکار کی منظوری کے بغیر کچھ بھی چھپوانے اور اسے شائع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اچھی بات ہے کہ سینئر آئی اے ایس افسران کو سنجیدہ باتیں پڑھنے کی عادت نہیں، اس لیے میری تحریروں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور میں انتقامی کاروائی سے بچ گیا۔

اگر حکومت میری رپورٹ پر عمل کرتی اور مجرموں کے خلاف کارروائی کرتی، تو شاید اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ہولناک مظالم مسلمانوں کے خلاف اسی شہر میں پانچ سال بعد 1987 میں دیکھنےکونہیں ملتے، جسے اس وقت کے ایس ایس پی غازی آباد، وبھوتی نارائن رائے نے اپنی کتاب 'ہاشم پورہ' (2016) میں بجا طور پر بیان کیا ہے۔

 یہ خوفناک قتل عام اس طرح انجام دیا گیا کہ، پولیس میرٹھ ضلع کے ہاشم پورہ محلے سے تقریباً چالیس بے گناہ مسلم نوجوانوں کو اٹھاتی ہے، جہاں فسادات کا کوئی نام و نشان نہیں تھا، انہیں ایک سرکاری ٹرک پر لاد کر پڑوسی غازی آباد ضلع میں ایک نہر پر لے جاتی ہے، ایک ایک کر کے انہیں گولی مار کر ہلاک کرتی ہے اور پھر انہیں پانی میں پھینک دیتی ہے، اور پھر معمول کے مطابق اپنے کیمپوں میں واپس آ جاتی ہے، گویا کہ انہوں نے کوئی معمول کا کام انجام دیا ہو۔ میں ذیل میں ان کی کتاب سے ایک اقتباس نقل کرتا ہوں:

 22 مئی 1987 کی رات صرف ٹارچ کی ایک مدھم روشنی کے سہارے، نہر کے ارد گرد اور مکن پور گاؤں کے قریب کھائیوں کے درمیان بکھری ہوئی خون سے بھیگی لاشوں کے درمیان زندہ بچ جانے والوں کی تلاش - یہ یادیں ابھی تک وبھوتی نارائن رائے کے دماغ میں ترو تازہ ہیں۔ اس خوفناک رات کو، جب رائے نے پہلی بار قتل کے بارے میں سنا، تو انہیں اس خبر کے سچ ہونے پر یقین ہی نہیں ہوا جب تک کہ بشمول ضلع مجسٹریٹ اور چند دیگر اہلکاروں کے، ہندن نہر پر نہیں پہنچ گئے۔

 انہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ سب سیکولر بھارت کے سب سے شرمناک اور ہولناک واقعے کی نذر ہو چکے ہیں - پرونشیل آرمڈ کانسٹیبلری (PAC) کے اہلکاروں نے فساد زدہ میرٹھ سے درجنوں مسلمانوں کو پکڑ کر رائے کے علاقے میں بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا تھا۔ ہاشم پورہ قتل عام اور اس کے بعد کے واقعات کا ایک تفصیلی بیان، آزاد ہندوستان میں ریاستی طاقت کے وحشیانہ استعمال اور کائرانہ سیاست کی ایک جیتی جاگتی داستان ہے۔'

 اٹھائیس سال بعد 21 مارچ 2015 کو جرم کا فیصلہ سنایا گیا اور تمام ملزمان کو رہا کر دیا گیا۔ اچھی بات یہ رہی کہ دہلی ہائی کورٹ نے اس میں ملوث پولیس اہلکاروں کی برأت پر روک لگا دیا۔ فیصلے میں جو بات سامنے نہیں آئی وہ ہے ایس ایس پی غازی آباد کے طور پر وی این رائے اور بطور ایڈیشنل ایس پی کے کملیندو پرساد کا کردار، جو دیانتداری اور غیر جانبداری کی روشن مثالیں ہیں جس کی توقع قائدین سے کی جاتی ہے۔ تربیتی اکادمیوں میں ان مقدمات کو زیر بحث لانے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان افسران متعصب اعلی افسران کی غیر قانونی ہدایات پر عمل کرنے سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ ہوں۔

 [1] ریاستی کیڈر میں قبل از وقت وطن واپسی کو آئی اے ایس میں سزا سمجھا جاتا ہے۔

 [1] یہ مقالہ دو کتابوں میں شامل کیا گیا ہے، شکلا، کے ایس ایڈ۔ (1988)۔ Collective Violence: Genesis and Response۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن، دہلی؛ اور اقبال اے انصاری (ایڈ)، 1997:Communal  Riots: The State and Law in India، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی

 [1] پسماندہ ذات کے ہندو رہنما مثلا ونے کٹیار، اوما بھارتی، اور پروین توگڑیا سب سے مضبوط احیاء پسند ہیں۔

 2014 کے بعد سے پولیس کتنی فرقہ پرست اور کس قدر اپنے سیاسی آقاؤں کی تابع ہو گئی ہے اس پر میڈیا میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ 2019 کے دہلی تشدد میں پولیس کے کردار پر رام چندر گوہا کی باتیں (2020) قابل غور ہیں:

 دہلی پولیس کی حالیہ تنزلی، سچائی، انصاف اور مناسب کاروائی سے ان کی چشم پوشی، کچھ اور ہی کہتی ہے۔ یہی کہ آج ملک کے دارالحکومت میں ایک غیر متشدد، امن پسند شہری محض اپنی مذہبی یا سیاسی وابستگی کی بنیاد پر قانون کے نام نہاد محافظوں سے منصفانہ کاروائی کی توقع نہیں رکھ سکتا، اور یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ ہماری جمہوریت کس قدر تنزلی اور پستی کا شکار ہو چکی ہے۔'

 آخر میں، 2013 میں کسی وقت لکھی گئی ایک داخلی رپورٹ میں انتظامیہ کے کردار پر وزارت داخلہ جس نتیجے پر پہنچی ہے، میں اس کا حوالہ پیش کرتا ہوں:

 "کچھ استثناء کے ساتھ، تقریبا تمام تحقیقاتی کمیشنوں نے یہی پایا کہ پولیس اقلیتوں یا ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مخلص نہیں تھی، جو کمزور پوزیشن میں تھے یا فرقہ وارانہ کشیدگی کے اس ماحول میں قتل کیے جانے کے خطرے سے دوچار تھے۔ ایسے سنگین الزامات تھے کہ پولیس کئی نازک ترین مواقع پر خاموش تماشائی بنی رہی۔ بہت سے مواقع پر پولیس خاموش رہی جبکہ ان کی موجودگی میں لوٹ مار، آتش زنی اور قتل و غارت گری کی وارداتیں انجام دی گئیں۔ کئی دفعہ پولیس خود پرتشدد ہجوم کا حصہ تھی۔' (سکسینا، 2019)۔

 اوپر بیان کیے گئے تقریباً تمام واقعات میں کانگریس ریاستی اور مرکزی دونوں سطحوں پر اقتدار میں تھی۔ بی جے پی یقینی طور پر اس کا استحصال کر رہی ہے اور اس عمل میں وہ تعصب کے جذبات کو ہوا دے رہی ہے، جو بدقسمتی سے ہندوؤں کے ذہن و دماغ میں ایک طویل عرصے سے موجود ہے، لیکن خود بی جے پی نے تعصب کی اس ذہنیت کو جنم دیا ہے یہ کہنا غلط ہوگا۔ ہندو بنیاد پرستی کا عروج کئی مقاصد کو پورا کرتا ہے۔ اس سے ہندوؤں کے اندر نچلی ذاتوں کی قبولیت میں مدد ملتی ہے، لیکن صرف اس وقت تک جب تک کہ وہ اعلیٰ ذاتوں کی جانب سے اقلیتوں کے ساتھ وحشیانہ تصادم کا گھناؤنا کام انجام دیتے رہیں۔ یہ حکمرانوں کو شفاف، مساویانہ اور انسانیت پسند انتظامیہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سے بھی بری الذمہ کر دیتا ہے (سکسینا 2002)۔

 مسلمانوں کے خلاف تعصب

 تعصب ایک ایسی ذہنیت ہے جو ایک شخص کو سوچنے سمجھنے سے مجبور کر دیتی ہے اور کسی جماعت اور اس کے افراد کے خلاف ظلم و نا انصافی کا ارتکاب کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ایک متعصب فرد کسی دوسرے طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد کو بطور فرد نہیں بلکہ اس طبقے کے ایک فرد ہونے کی بنیاد پر جانچتا اور پرکھتا ہے۔ جب شرما گپتا کو دھوکہ دیتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ شرما دھوکے باز ہے، لیکن جب بشیر گپتا کو دھوکہ دیتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ تمام مسلمان دھوکے باز ہیں۔ پہلے کچھ منفی خصلتوں کو دوسرے گروپ کے ممبروں سے جوڑ دیا جاتا ہے اور پھر اس گروپ کے تمام افراد کو اس قابل اعتراض خصلت کا حامل مان لیا جاتا ہے۔ تعصب کا نتیجہ پانچ قسم کے معاندانہ رویے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے؛ دوستوں کے درمیان دوسرے طبقے کے بارے میں غلط باتیں کرنا، ان سے دوری بنانا، ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنا، انہیں جسمانی طور پر ایذا دینا، اور اس کی انتہائی شکل دوسرے گروہ کا خاتمہ چاہنا ہے (آلپورٹ، 1954)۔

 ایک اوسط ہندو کے دل و دماغ میں مسلمانوں کے تئیں نفرت اور تعصب کی بنیاد چند غلط فہمیاں ہیں، اول، قرون وسطیٰ میں مسلم حکمرانوں کا ہندوؤں کی ثقافت و تہذیب کو تباہ کرنے کی خفیہ کوششیں؛ دوم، جنگ آزادی میں مسلمانوں کا علیحدگی پسندانہ کردار؛ سوم، خود کو جدیدیت سے ہم آہنگ کرنے اور یکساں سول کوڈ اور خاندانی منصوبہ بندی کو قبول کرنے میں ان کی مبینہ ہچکچاہٹ؛ چہارم، 1980 کی دہائی میں کانگریس پارٹی کی خوشامدانہ پالیسیوں نے ہندوؤں کے خوف میں مزید شدت پیدا کر دی کہ مسلمانوں کو فائدہ ان کی قیمت پر پہنچایا جا رہا ہے؛ اور آخری، ان پر اس ملک کا غدار اور دوسرے کا وفادار ہونے کا الزام۔ پوری دنیا میں اسلامی بنیاد پرستی کے عروج نے ان دونوں برادریوں کو ایک دوسرے سے مزید دور کر دیا ہے۔ زیادہ تر ہندو اب مسلمانوں کو دہشت گردی، جدیدیت مخالف اور مذہبی ہسٹیریا کہتے ہیں (رؤف، 2011)۔

 [1] پسماندہ ذات کے ہندو رہنما مثلا ونے کٹیار، اوما بھارتی، اور پروین توگڑیا سب سے مضبوط احیاء پسند ہیں۔

 [1] یوپی کے ہندوؤں میں ایک جملہ بہت مشہور ہے 'مکھی، مچھر، مسلمان'، مسلمانوں کو مکھیوں اور مچھروں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

 [1] قرون وسطی کے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی لیکن مسلمانوں نے ہندوستان پر حکومت نہیں کی۔ کیونکہ زیادہ تر مسلمان عام کسان یا کاریگر تھے، اور ظالم مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں ہندوؤں کی طرح وہ بھی دبائے اور ستائے گئے۔ چونکہ ہندو رسومات میں کسی ہندو کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی مسلمان کو چھوئے، اس لیے شمالی ہندوستان کے تقریباً تمام بُنکر، درزی، حجام اور چوڑیاں بیچنے والے جنھیں اپنی خدمات فراہم کرنے کے لیے انسانی جسم کو چھونا پڑتا تھا، انھوں نے مجبوراً اسلام قبول کر لیا۔

ہو سکتا ہے کہ تعصب و تنگ نظری دونوں طرف پائی جائے، لیکن ہندوستانی تناظر میں، برابر کے تعصب میں نقصان برابر کا نہیں پہنچاتا، اور اس صورت میں زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچے گا، کیونکہ ہندو سیاسی اور اقتصادی دونوں لحاظ سے ایک مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ 1969 میں احمد آباد کے فسادات کے بعد، کہ جس میں 24 ہندو اور 430 مسلمان مارے گئے تھے، بہت سے پڑھے لکھے ہندو فسادیوں کو یہ محسوس ہو رہا تھا انہوں نے غزنی کے ہاتھوں سومناتھ مندر پر لوٹ مار کا بدلہ لے لیا ہے۔ ایک واقعہ جو دس صدیوں پہلے پیش آیا تھا ہندوؤں کے ذہنوں میں ابھی تک تازہ ہے اور ان کا ماننا ہے کہ اج کے دن بھی مسلمانوں پر حملہ غزنی کے مظالم بدلہ ہے، جبکہ غزنی کے ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں کا سوائے مذہب کے اور کسی قسم کا کوئی رشتہ نہیں ہے، نہ خون کا اور نہ ہی نسب حسب کا۔

 ہندوؤں کی دشمنی نہ صرف فسادات کے دوران مسلمانوں کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ روزمرہ کے انتظامی فیصلوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مراد آباد (یوپی) میں، جہاں دونوں برادریوں کی آبادی تقریبا برابر ہے، تمام تعلیمی ادارے ہندو اکثریتی علاقوں میں واقع ہیں، لیکن زیادہ تر پولیس اسٹیشن اور چوکیاں مسلم اکثریتی علاقوں میں واقع ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہندوؤں کو تعلیم کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کو پولیس کے ڈنڈے کی! مسلم اکثریتی علاقوں کے سرکاری اسکولوں میں کم صلاحیت مند عملہ ہے، اور ان کی کارکردگی کیسی ہے اس کی نگرانی بھی نہیں کی جاتی ہے۔ بلدیہ کا عملہ بھی ایسے علاقوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ بھینس گوشت کی تجارت کرنے والے مسلمانوں کو، اگرچہ یہ مکمل طور پر قانونی ہے، بہت زیادہ ہراساں کیا جاتا ہے اور مشق ستم بنایا جاتا ہے۔ کانپور میں چمڑے کے زیادہ تر کارخانے 2018 سے بند ہیں، جس کے نتیجے میں تقریباً 6 لاکھ مسلمان اور دلت کاروبار سے محروم کر دیے گئے ہیں۔

 مسوری میں آئی اے ایس ٹرینگ لینے والوں کو پڑھاتے ہوئے، میں نے مندرجہ بالا سلائیڈ میں دیے گئے پالیسی سازی کے حوالے سے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی:

سیکولر ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس ہونا چاہیے۔

 1.   انفرادی مساوات، مگر اجتماعی حقوق نہیں۔

 2.   انفرادی مساوات + ثقافتی حقوق (اے ایم یو، علیحدہ پرسنل لاء)، مگر کوئی تعمی کارروائی نہیں۔

 3.   انفرادی مساوات + ثقافتی حقوق (ای ایم یو، علیحدہ پرسنل لاء) + سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن

 [1] ہندوستان کو انفرادی پرسنل لاء میں اصلاح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ واحد، آفاقی طور پر قابل اطلاق یکساں کوڈ میں پھنسنے رہنے کے بجائے، صنفی طور پر مزید انصاف پسند بن سکیں۔

 [1] ہندوستان کی آبادی میں مسلمانوں کا حصہ 1951 میں 9.8 فیصد تھا جو اب 2011 میں بڑھ کر 14.2 فیصد ہو گیا ہے، لیکن 2050 تک یہ تقریباً 17-18 فیصد ہو تک بڑھ سکتا ہے۔

 [1] بدلے میں، مسلمان یہ مانتے ہیں کہ ہندو بزدل، ذات پرست، توہم پرست اور اس سے بھی بدتر بت پرست ہیں۔

 [1] مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کی بہت سی دوسری جہتیں ہیں جو آئندہ اس مقالے میں زیر بحث لائیں جائے گی۔

 [1] کیا اس موضوع پر آئی اے ایس اور آئی پی ایس ٹرینیوں کے لیے میرے لیکچر سے مسلمانوں کے خلاف ان کے تعصب کو کم کرنے کا مقصد حاصل ہوا؟ مجھے لگتا ہے نہیں۔ شاید صرف گرم ہوا اور بجرنگی بھائی جان جیسی فلمیں دکھا کر ہی ایسے منتظمین کو حساس بنایا جا سکتا ہے۔

 4.   انفرادی مساوات + ثقافتی حقوق (اے ایم یو، علیحدہ پرسنل لاء) + سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن + پارلیمنٹ/ اسمبلیوں میں متناسب نمائندگی۔

بہت کم ٹرینی پہلے آپشن سے آگے نکل پائے، اور کوئی بھی تیسرے اور چوتھے آپشن سے متفق نہیں تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ امید تھی کہ ہندو تقسیم کے زخم کو بھول جائیں گے اور مسلمانوں کو برابر کا شہری تسلیم کر لیں گے۔ گزشتہ 30 سالوں سے تیز رفتار اقتصادی ترقی کے پیش نظر بھی مذہب کی بنیاد پر نسلی بھید بھاؤ کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ جیسے جیسے ہندوستان کی عمر بڑھ رہی ہے ویسے ویسے آپسی مخاصمت بڑھتی جا رہی ہے۔ بھائی چارگی کی فضا کیا قائم ہونی تھی، رفتہ رفتہ دشمنی اور گہری ہوتی چلی گئی (بنرجی، 2020)۔ یہ بنیادی طور پر ان خوشامدآنہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے جن پر مرکز کی کانگریس حکومت 1980 کی دہائی کے اوائل سے عمل پیرا تھی، اور ان سالوں میں مسلم سیاسی رہنماؤں اور علماء نے جو کردار ادا کیا اس کا شاخسانہ ہے۔

کانگریس اور مسلمان

1952، 1957 اور 1962 کے انتخابات میں مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر کانگریس پارٹی کو ہی ووٹ دیا، لیکن ان میں یہ احساس بڑھتا جا رہا تھا کہ ان کے ووٹ کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے اور 1967 کے انتخابات میں کانگریس پارٹی کو مسلمانوں کا اتنا ووٹ اور ان کی وہ حمایت نہیں ملی جو اسے ماضی میں ملتی رہی تھی۔ برسراقتدار کانگریس پارٹی 1971 میں مسلمانوں کا ووٹ دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب تو رہی لیکن 1977 کے انتخابات میں دوبارہ مسلمانوں کا ووٹ کانگریس کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ جب کئی دیگر 'سیکولر' سیاسی جماعتوں کا عروج ہوا اور انہیں مقبولیت حاصل ہوئی، خاص طور پر یوپی، بہار اور مغربی بنگال میں، مثلا سماج وادی پارٹی، بی ایس پی، جنتا دل، سی پی ایم اور ٹی ایم سی وغیرہ، تو مسلمانوں کا ووٹ کانگریس سے ان پارٹیوں کو جانے لگا۔ ان کا ووٹ دوبارہ حاصل کرنے کی کانگریس پارٹی کی بے چینی نے پارٹی کو خوشامدآنہ پالیسیاں وضع کرنے پر مجبور کر دیا۔ انہیں لگا کہ مسلمانوں کے مطالبات کو معتدل انداز میں ماننے سے ہندو ووٹ ضائع نہیں ہوگا، لیکن بدقسمتی سے اس کا فائدہ بی جے پی کو زبردست انداز میں ہوا۔ اگرچہ ہندوتوا کی جڑیں نظریاتی طور پر آزادی سے قبل ساورکر اور آر ایس ایس کے نظریہ سازوں کی تحریروں میں پائی جاتی تھیں، اگر چہ یہ 1950سے80 کے دوران سیاسی طور پر منجمد رہا، لیکن کانگریس کی جانب سے خوشامدآنہ حکمت عملی شروع کیے جانے کے بعد اسے بڑا فروغ ملا۔

اس طرح کی پالیسیوں کا آغاز اقلیتی کمیشن کے قیام سے ہوا جس کے بعد 1981 میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا جائزہ لینے کے لیے گوپال سنگھ کمیٹی کی تقرری ہوئی۔ اگرچہ عزیز باشا کیس میں، سپریم کورٹ نے 1967 میں کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہے کیونکہ اسے نہ تو مسلمانوں نے قائم کیا ہے اور نہ ہی ان کے زیر انتظام ہے، لیکن اندرا گاندھی نے عدالت کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا اور ملت کو خوش رکھنے کے لیے 1981 میں نیا قانون بنا دیا۔ اسی طرح 1985 میں ایک بار پھر، جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ طلاق یافتہ شاہ بانو، کسی بھی دوسری عورت کی طرح سی آر پی سی (کرمینل پروسیجر کوڈ) کے تحت اپنے شوہر سے نان و نفقہ کی حقدار ہے، تو راجیو گاندھی نے فورا مسلم ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے سی آر پی سی کو ہی تبدیل کر دیا، جن کے بارے میں کانگریس کا گمان تھا کہ وہ مسلم بنیاد پرستوں سے پوری طرح متاثر ہیں۔ میں اس موضوع پر زویا حسن (1989) کا حوالہ پیش کرتا ہوں:

'مسلم پرسنل لاء خواتین پر براہ راست منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کے دفعات کے تحت ان کی حیثیت غیر مساوی ہے: ایک مسلمان مرد چار بیویوں سے شادی کر سکتا ہے۔ یکطرفہ طور پر تین طلاق کہہ کر عورت کو طلاق دی جا سکتی ہے، مسلم بیٹیوں کو مال وراثت میں بیٹوں کا صرف نصف حصہ ملتا ہے اور طلاق یافتہ مسلم بیوی کو شوہر سے نان و نفقہ حاصل کرنے کا حق نہیں ہے۔ شرعی قوانین کے بڑے بڑے ماہرین مثلا، ایم ایچ بیگ، مرتضیٰ فضل علی، بہار الاسلام، ایس اے مسعود، دانیال لطیفی اور اے جی نورانی نے مسلم خواتین کے حقوق کا دفاع کیا ہے۔

[1] اسے مرکزی حکومت نے 1920 اور 1951 میں منظور کیے گئے قوانین کے ذریعے رائج کیا تھا، اور یہ حکومت کے زیر انتظام تھا۔

 حکومت نے بنیاد پرستوں کے دباؤ کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے؟ سب سے اہم ضرورت شاہ بانو فیصلے پر مسلمانوں کا غصہ کرنا تھی، کیونکہ کانگریس مسلمانوں کا ووٹ کھو رہی تھی۔ آسام، بجنور، کشن گنج، بولا پور، کیدرپا اور بڑودہ کے ضمنی انتخابات میں کانگریس کی شکست کے بعد جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ ہر جگہ مسلمانوں کا ووٹ اپوزیشن جماعتوں کو چلا گیا ہے، تو کانگریس کے بڑے بڑے رہنماؤں نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ وہ بنیاد پرستوں سے ٹکرانے کی غلطی نہ کریں۔ قابل ذکر ہے کہ مسلم ویمن بل کے نفاذ نے اے آئی ایم پی ایل بی اور ملاؤں کو قوم کے واحد ترجمان ہونے کی قانونی حیثیت فراہم کر دی۔

 ہمارے جیسے زبردست منقسم معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے پالیسیوں کا استحکام ضروری ہے۔ کسی ایک بھی گروہ کے حق میں پالیسیوں کو چھیڑ چھاڑ کرنے سے فرقہ وارانہ انتشار بڑھتا ہے اور لوگوں کو فرقہ وارانہ خطوط پر منظم ہونے پر آمادہ کرتا ہے تاکہ حکومت سے مزید رعایتیں حاصل کی جا سکیں یا دوسرے طبقے کو ان کی قیمت پر فائدہ حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔ 1967 سے 1981 کے درمیان 14 سال تک اے ایم یو کے کردار کو تبدیل کیے جانے پر اندرا گاندھی کی مزاحمت کو شاہ بانو کیس میں راجیو گاندھی کی فوری کارروائی سے موازنہ کرنا دلچسپ ہوگا۔ 1985 تک، بالعموم یہی مانا جاتا تھا کہ اگرچہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے دیوانی قوانین میں فرق ہو سکتا ہے، لیکن فوجداری قوانین ایک جیسے ہوں گے۔ اس فرق کو بدقسمتی سے راجیو گاندھی نے سی آر پی سی میں ترمیم کرکے اور مسلمانوں کو اس کے دائرے سے باہر نکال کر ختم کردیا۔ اس کے بعد، مسلمانوں میں توازن قائم کرنے کے لیے انہوں نے بابری مسجد کے دروازوں کے تالے کھول دئیے۔ راجیو گاندھی نے بابری مسجد کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو قانونی حیثیت فراہم کرتے ہوئے رام جنم بھومی مندر کا سنگ بنیاد بھی رکھا (انجینئر، 1989)۔ مادھو گوڈبولے، جنہوں نے 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد احتجاجاً مرکزی ہوم سکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، اپنی نئی کتاب (2019) میں راجیو گاندھی کو آر ایس ایس کا نیئر کے بعد دوسرا سب سے زیادہ مؤثر پرچارک قرار دیا، جنہوں نے فیض آباد میں کلکٹر کے عہدے پر رہتے ہوئے مسجد میں مورتیاں نصب کیں۔

 جب سید شہاب الدین نے سلمان رشدی کے ناول Satanic Verses پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تو راجیو گاندھی نے فوری طور پر اس پر پابندی لگا دی، اس سے پہلے کہ پاکستان ایسا کرتا جس کے قیام کا مقصد ہی مسلم مفادات کا تحفظ تھا۔ اس طرح کی خوشامدآنہ پالیسیوں نے نہ صرف ہندوؤں کے غصے میں اضافہ کیا بلکہ بی جے پی کو ہندوؤں کا ووٹ اکٹھا کرنے میں بھی مدد کی جس کا نتیجہ تھا کہ جس پارٹی کو 1984 میں لوک سبھا میں صرف دو سیٹ ملی تھی، بڑھ کر 1989 میں 85 اور 1991 میں 120 سیٹیں حاصل ہوئیں۔

تعلیمی پسماندگی

 دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طبقے کی حیثیت سے مسلمانوں سے دشمنی کے باوجود، ہندو ان انفرادی مسلمانوں کی تعریف کرتے ہیں جو اپنی اہلیت کے بل بوتے اچھا کام کرتے ہیں، جیسے بالی ووڈ کے تین چہیتے خان، موسیقار بسم اللہ خان اور نوشاد، پٹودی اور اظہر الدین جیسے کرکٹر۔ بالی ووڈ پروڈیوسر، ڈائریکٹر، اداکار، اور گلوکاروں کی شکل میں کامیاب مسلمانوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن کسی نے بھی عوام یا انڈسٹری پر ان کے مذہب کی بنیاد پر ان کی منفی تشہیر کا الزام نہیں لگایا۔

 ساتھ ہی ساتھ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی کے اندر ایک فراد کے لیے تو ہمدردی پائی جائے لیکن اس کی قوم کے لیے اس کے دل میں نفرت ہو۔ بہت سے ہندو جنہوں نے فسادات کے دوران اپنے مسلمان دوستوں کی جان بچائی تھی، مسلمانوں کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں اور بطور ایک قوم کے مسلمانوں کے درمیان فرق کرتے ہیں۔

 ایک نوجوان گجراتی ڈاکٹر جس نے فسادات کے متاثرین کی شاندار خدمت کی، کا کہنا ہے کہ مسلمان زیادہ تر پرتشدد ہوتے ہیں کیونکہ وہ گوشت کھاتے ہیں اور قصائی جیسے پیشوں کو اپناتے ہیں۔

 [1] آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ہمیشہ مسلمانوں کے لیے تعمیری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے، لیکن بورڈ کے اندر کل 39 اراکین میں سے صرف 3 او بی سی مسلم رکن ہیں۔

 تعلیم اور سرکاری ملازمت میں مسلمانوں کی ناقص کارکردگی کے لیے مسلمانوں کے خلاف تعصب و تنگ نظری کس حد تک ذمہ دار ہے؟ سچر کمیٹی کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں میں خواندگی کی شرح قومی اوسط سے بہت کم ہے، اور یہ فرق شہری علاقوں اور خواتین میں زیادہ ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں اور دوسروں کے درمیان فرق اور بھی نمایا ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لینے والے طلباء میں مسلمان صرف 4.4 فیصد ہیں (Mander et al., 2019)۔ ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجوں تک بہت سے مسلم طلباء تعلیمی سلسلہ منقطع کر دیتے ہیں اور تکنیکی کام جیسے کہ موٹر مکینک، موٹر وائنڈنگ، گاڑیوں کی مرمت، ریفریجریشن وغیرہ سیکھنے میں لگ جاتے ہیں تاکہ وہ اپنے خاندان اور اہل خانہ کی کفالت کر سکیں۔ چونکہ زیادہ تر مسلمان پیشہ ور ہنر سے جڑے ہوئے ہیں اس لیے وہ جدید تعلیم سے لاتعلق ہیں کیونکہ اس سے انھیں کوئی معاشی فائدہ نہیں ہوتا۔ وہ اعلی تعلیم میں اس لیے دلچسپی نہیں لیتے کیونکہ جدید تعلیم سے ان کے پیشہ پر کوئی خاص فرق مرتب نہیں ہوتا، لہذا، والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم میں اپنے وسائل کو ضائع نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات کے بعد، جس سے قبل مسلمانوں کے خلاف شیطانی مہمات چلائی جاتی ہیں، وہ اپنے بچوں کو اچھے پبلک اسکولوں سے نکال کر مسلم علاقوں میں اپنے گھروں کے قریب غیر معیار کے اسکولوں میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

 حالیہ اعداد و شمار (جافریلوٹ اور کلیاراسن، 2019) سے پتہ چلتا ہے کہ 18-2017 میں 15 سے 24 سال کی عمر کے صرف 39 فیصد مسلم طلباء ہی اسکولوں میں داخل ہوئے جب کہ ایس سی کے 44 فیصد، ہندو او بی سی کے 51 فیصد اور ہندو اعلیٰ ذاتوں کے 59 فیصد طلباء نے اسکولوں میں داخلہ لیا۔ گریجویشن مکمل کرنے والے نوجوانوں کا تناسب - جسے مصنفین '(educational attainment) تعلیمی حصولیابی' کہتے ہیں - 18-2017 میں مسلمانوں میں 14 فیصد رہا، جبکہ دلتوں میں 18 فیصد، ہندو او بی سی میں 25 فیصد، اور ہندو اعلیٰ ذاتوں میں 37 فیصد رہا۔ ہندی زبان والے علاقوں میں مسلم نوجوان سب سے زیادہ خراب حالت میں ہیں۔ ان کی تعلیمی حصولیابی ہریانہ میں سب سے کم 3 فیصد ہے؛ راجستھان میں یہ تعداد 7 فیصد ہے؛ اور اتر پردیش میں 11 فیصد ہے۔

 اس تفاوت کی وجہ صرف غربت ہی نہیں ہے، جیسا کہ جدول 2 میں دکھایا گیا ہے کیونکہ مسلمانوں میں غربت کافی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

 جدول 2: بڑے مذاہب کے ماننے والوں کی غربت میں کمی

 2004-05 اور 12-2011 کے درمیان سات سالوں میں، مسلمانوں کی غربت کا تناسب 18.2 فیصد کم ہوا، جو کہ ہندوؤں کے 15.6 فیصد سے کہیں زیادہ ہے (ایئر 2016)۔ اگرچہ مطلقا مسلمانوں میں غربت کی سطح ہندوؤں سے زیادہ ہے، لیکن یہ فرق تقریباً آدھا رہ گیا ہے، اور 5-2004 میں 6.1 سے گھٹ کر 12-2011 میں 3.5 فیصد تک آ گیا ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ فرق تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ لیکن شہری علاقوں میں یہ تفاوت زیادہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ سات ریاستوں میں، مسلمان ہندوؤں سے کم غریب ہیں (پانگڑیا اور مزید، 2014)۔ کیرالہ میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، جہاں مسلمان خلیج مملک کو ہجرت اور وہاں سے ترسیلات زر سے بڑے مستفید ہوئے ہیں۔

 لہذا، یہ تاثر کہ مسلمانوں میں غربت کی شرح ہندوؤں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے، بڑی حد تک شہری علاقوں کے مشاہدات پر مبنی ہے۔ یہاں تک کہ اچھی خبر یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت میں 19.1 فیصد تک کی کمی اس تیز رفتار ترقی کے دور میں ہندوؤں کے مقابلے میں تقریباً دوگنی ہے۔ مسلمانوں میں شیر خوار بچوں کی شرح اموات بھی اوسط سے کم ہے اور یقینی طور پر یہ ہندوؤں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

 یہ اعداد و شمار معاشی پسماندگی اور مسلمانوں میں خواتین کی تعلیم کی کمی کے باوجود برقرار ہیں۔ رشتہ داری میں شادی اور کم جہیز کے امکان سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ مسلم گھرانوں میں لڑکیوں کو کیوں اتنا بوجھ نہیں سمجھا جاتا (رابنسن، 2007)۔

غربت کے علاوہ، اور کون سے عوامل تعلیم میں مسلمانوں کی خراب کارکردگی کا باعث بن سکتے ہیں؟ رام پور قصبے کے نو انٹر کالجوں کے سروے سے، جہاں کی آبادی 72 فیصد مسلم اور 28 فیصد غیر مسلم ہے، 1982 میں انٹرمیڈیٹ (12ویں کلاس) کے امتحان میں شامل ہونے والے طلباء کی کارکردگی کچھ یوں معلوم ہوتی ہے:

 جدول 3: رام پور میں مسلم طلباء کی کارکردگی

اے آر شیروانی، ایک ماہر تعلیم اور سابق چیئرمین اقلیتی کمیشن، جنہوں نے یہ تحقیق (1983) کی تھی، یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:

 اور اس سب کے دوران، مسلم لیڈر اور ہندو سیکولر لیڈر مسلمانوں کو بتاتے رہے ہیں کہ انہیں امتیازی سلوک کی وجہ سے نوکریاں نہیں مل رہی ہیں۔ میں امتیازی سلوک سے انکار نہیں کرتا۔ ہم ہندوستانی لوگ روئے زمین پر سب سے زیادہ امتیازی سلوک کرنے والے ہیں۔ اگروال بنیا ایک گپتا بنیا کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے، سرجوپاری برہمن کنیاکوبجا برہمن کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن حالت یہ ہے کہ مسلمان قابل قدر خدمات میں کسی کو اپنے ساتھ امتیازی سلوک کا موقع بھی نہیں دے رہے۔ کوئی بھی مسلمانوں کے ساتھ تب ہی امتیازی سلوک کر سکتا ہے جب وہ اہل ہوں اور مقابلہ کریں۔ کتنے مسلمان مقابلے میں ہیں؟ یہ کوئی نہیں بتاتا، نہ مسلم لیڈر اور نہ ہی سیکولر ہندو لیڈر جو مسلمانوں کے بہترین دوست بنے پھرتے ہیں۔'

 اگرچہ مندرجہ بالا مطالعہ زیادہ تر سرکاری یا امداد یافتہ اسکولوں کے بارے میں ہے، لیکن مسٹر شیروانی مسلم تعلیمی اداروں پر بھی زور دے رہے ہیں کہ وہ وہی کریں جو انہیں کرنا چاہیے: کہ معقول تعلیم فراہم کریں۔ تاہم، اسکولوں کے تدریسی عملہ اور نگران بورڈ کو، ہندو حکام کی جانب سے کسی بھی مبینہ امتیازی سلوک سے زیادہ، ان کی صریح ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے (نعیم، 1995)۔

 دہلی میں سرکاری امداد یافتہ اردو میڈیم اسکولوں کے ایک حالیہ مطالعے سے پتا چلا ہے کہ طالب علموں اور اساتذہ دونوں ہی اسکول سے غائب پائے جاتے ہیں۔ بہت سے بچے چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث پائے گئے اور اساتذہ اسکول کے اوقات کے بعد پرائیویٹ ٹیوشن کلاسز کو زیادہ ترجیح دیتے ہوئے پائے گئے۔ بطور اساتذہ کے ان کی تعلیمی کارکردگی نہ تو اسکول انتظامیہ کے لیے اور نہ ہی مسلمانوں لیے تشویش کا باعث تھی (رزاق، 2019)۔

سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی حصے داری کا کیا؟

 1983 میں گوپال سنگھ کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مرکزی حکومت کی نوکریوں میں مسلمانوں کی حصے داری 3.04 فیصد ہے، اور 15 سال تک پسماندہ طبقے کے زمرے کے ذریعے دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھانے کے بعد، سچر کمیٹی کی رپورٹ نے مرکزی حکومت کی نوکریوں میں ان کی نمائندگی پر کم و بیش وہی بات کہی۔ (بدر، 2019)۔

 مسلمانوں کا ماننا ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں ان کی کم نمائندگی بنیادی طور پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہ سے ہے۔ اگرچہ ہندوؤں کی منافرت کی وجہ سے مسلمانوں کو نجی ملازمتوں اور گھر کرائے ہر لینے میں بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن سرکاری ملازمتوں میں ان کی ناقص نمائندگی کی وجوہات زیادہ پیچیدہ ہیں اور ان پر غیر جانبدارانہ تجزیہ کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ کیرلا، کہ جہاں مسلمانوں کی سیاست میں اچھی نمائندگی ہے اور ہجرت اور ترسیلات زر کی وجہ سے مالی طور پر انہیں کافی فائدہ ہوا ہے، ریاست میں سب سے سینئر کلاس I کی سرکاری ملازمتوں میں صرف 2 فیصد اور کلاس II کی ملازمتوں میں 3 سے 4 فیصد عہدوں پر ہی مسلمان فائز ہیں۔ کیرلا کی انڈین پولیس سروس کیڈر میں مسلمانوں کا حصہ محض 1 فیصد ہے جو اور بھی زیادہ بدتر ہے (ولکنسن، 2004؛ محمد، 1995)۔

 ہندوستان میں مسلمانوں نے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں ان کی حصے داری اتنی کم ہے، اور اس میں امتیازی سلوک تو ایک معمولی وجہ ہے؛ لیکن اس کی دیگر وجوہات میں تیاری اور قوۃ ارادی کی کمی نمایاں ہیں۔ اس سے ان کی مایوسی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً 14 فیصد آبادی کے مقابلے میں درجہ سوم اور درجہ چہارم کی ملازمتوں میں مسلمانوں کی حصے داری 5 فیصد سے 9 فیصد کے درمیان ہے۔ تاہم، درجہ اول اور درجہ دوم کے عہدوں پر بھی، جہاں بھرتیاں بالکل تعصب سے پاک ہے اور تحریری امتحانات کے بعد پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو کی بنیاد پر کی جاتی ہے، ان کی حصے داری 3 فیصد سے 4 فیصد کے درمیان ہے جو کہ کافی کم ہے، (سکسینا، 1989)۔

 مقابلہ جاتی امتحانات میں مسلم امیدواروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے، گوپال سنگھ کمیٹی نے کچھ ریاستی پبلک سروس کمیشن سے ڈیٹا اکٹھا کیا، جسے درج ذیل جدول میں دیکھا جا سکتا ہے:

 جدول 4: 1978 سے 1980 کے دوران منعقد ہونے والے مقابلہ جاتی امتحانات میں مسلمانوں کی کارکردگی

(سکسینا، 1989)

 یہ اعداد و شمار واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ تحریری امتحان میں مسلمانوں کی حصے داری ان کی آبادی کے لحاظ سے نہ صرف کم ہے (جنوبی ریاستوں میں بھی جہاں وہ باقیوں سے کم غریب ہیں) بلکہ تحریری امتحان میں جنہوں نے حصہ لیا ان کی کارکردگی بھی بڑی مایوس کن ہے، خاص طور پر یوپی میں۔ دوسری طرف، فائنل منتخب امیدواروں کی تعداد ان لوگوں کے برابر تھی جنہیں انٹرویو کے لیے بلایا گیا تھا جس سے انٹرویو بورڈ کا غیر جانب دار ہونا ثابت ہوتا ہے۔

 یہ ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی کے پچھلے چھ سالوں کے راج میں یو پی ایس سی کے ذریعے سول سروسز کی بھرتی (آئی اے ایس وغیرہ) میں مسلمانوں کی حصہ داری 3.5 سے بڑھ کر 5 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کا انتخاب خالصتاً قابلیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور کسی بھی جانب سے کسی تعصب و تنگ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا ہے۔

 کئی ریاستوں میں درجہ III کی ملازمتوں میں بھرتی خالصتاً تحریری امتحان کی بنیاد پر ہوتی ہے، جہاں کسی قسم کے تعصب کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ دہلی کے اندر 1979 میں جہاں مسلمانوں کی آبادی 11.2 فیصد تھی، درجہ III کی ملازمتوں کے لیے امتحان دینے والے کل امیدواروں میں ان کی تعداد صرف 2.6 فیصد تھی، جب کہ تحریری امتحان کے بعد کامیاب امیدواروں میں ان کی تعداد اس سے بھی کم یعنی صرف 1.6 فیصد تھی۔ (گوپال سنگھ کمیٹی)۔

 اتر پردیش میں کی گئی ایک حالیہ تحقیق (عالم اور کمار 2019)، جہاں 20 فیصد مسلمان ہیں، اور جن میں سے تقریباً 60 فیصد پسماندہ (او بی سی) کی فہرست میں شامل ہیں، یہ بتاتی ہے کہ تعلیم اور سرکاری ملازمتوں دونوں میں مسلمانوں کی حصے داری بدستور مایوس کن ہے۔ 15-2012 کے دوران ماتحت خدمات کے لیے یوپی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کی گئی بھرتیوں میں مسلمانوں کی حصے داری صرف 2.3 فیصد تھی، جب کہ منتخب او بی سی امیدواروں میں میں سے مسلم او بی سی کی حصے داری 4.1 فیصد تھی (ٹیبل 5) جبکہ ریاست کی او بی سی آبادی میں ان کی حصے داری تقریباً 25 فیصد ہے۔ واضح رہے کہ یوپی میں 2002 سے 2017 تک مسلم نواز سماج وادی پارٹی کی حکومت تھی۔

 مسلمانوں کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ سب سے پہلی وجہ، مسلمانوں کی تعلیم اور روزگار کے حوالے سے قابل اعتماد اعداد و شمار کی عدم موجودگی نے بے شمار قسم کے افسانوں کو جنم دیا ہے۔ دوسری وجہ، مسلمان اس نفرت اور دشمنی کے احساس سے بخوبی واقف ہیں جو ان کے خلاف اکثریتی طبقے میں پایا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ بات فطری معلوم ہوتی ہے کہ اکثریتی طبقہ اپنی ذہنیت کی وجہ سے جہاں بھی ایسا موقع میسر ہو گا امتیازی سلوک کرے گا۔ چونکہ نوکری دینے والے زیادہ تر لوگ ہندو ہیں، اس لیے مسترد کیے جانے کو تعصب اور منافرت کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ تیسری وجہ، پرائیویٹ سیکٹر کی لیبر مارکیٹ میں امتیازی سلوک، اجرت پر مکان لینے، مساجد کی تعمیر اور اردو کے ساتھ حشر وغیرہ جیسے ذاتی تجربات میں تعمیم پیدا کر دی جاتی اور انہیں امتیازی سلوک کے تمام واقعات کو جانچنے کا ایک مشترکہ پیمانہ بنا دیا جاتا ہے۔ چوتھی وجہ، بہت سے مسلمانوں کے مطابق، ایک مثالی معاشرہ وہ کہلائے گا جس میں تمام طبقوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے اہم عہدوں میں نمائندگی دی جائے۔ اشرافیہ کے پیشوں میں اپنی ناقص نمائندگی کو مسلمان غیر اخلاقی امتیاز سلوک کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مساوات اور انصاف کا مطلب آبادی میں حصے داری کی بنیاد پر اجتماعی مساوات ہے نہ کہ قابلیت کی بنیاد پر انفرادی مساوات۔ لہٰذا، موٹی تنخواہ والے عہدوں پر مسلمانوں کا مناسب تعداد میں نہ ہونا بذات خود ان کی نظر میں ایک ظالمانہ نظام کا بین ثبوت ہے۔ اور آخری بات یہ کہ مسلم قیادت مسلمانوں کو قانون سازی اور انتظامی عہدوں پر باضابطہ ریزرویشن کے ساتھ ایک محفوظ اقلیت کا درجہ دلانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس لیے ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ حکومت کی توجہ اس طرف تبھی مبذول ہو گی جب بار بار امتیازی سلوک کے الزامات لگائے جائیں گے۔ ہم اس مضمون کے اگلے حصے میں ان رہنماؤں کے کردار کا جائزہ لیں گے۔

 اس مقالے میں پیش کیے گئے تجرباتی اعداد و شمار بدقسمتی سے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے افسانے کو غلط ثابت کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی ناقص حصے داری کی وجہ بنیادی طور پر ان کی تعلیمی پسماندگی، حوصلہ افزائی اور خاندانی قوۃ ارادی کی کمی، ناکام ہونے کا خوف، امتحانات سے غفلت، مسابقتی جذبے اور مناسب رہنمائی کی کمی، نچلے درجوں میں ہی بڑے پیمانے پر سلسلہ تعلیم کا منقطع ہو جانا، محنت و جانفشانی سے جی چرانا، کتابوں اور لائبریریوں تک رسائی سے محرومی اور سب سے بڑھ کر امتیازی سلوک کا تصور ہے، جو مسابقے اور مقابلہ سے دستبرداری کا باعث بنتا ہے۔

مسلمان، خاص طور پر شمالی ہندوستان میں تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ہیں، اور خود کو سیاسی طور پر بے بس، شکست خوردہ اور غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ مایوسی اور بے حسی کی یہ ذہنیت اعلیٰ تعلیم میں سرمایہ کاری کو فروغ نہیں دیتی۔ مسابقتی صورتحال میں صرف پراعتماد اور ثابت قدم طبقے ہی کچھ اچھا کر سکتے ہیں۔ چونکہ مسلمان اپنے آپ کو ایک غیر مسلم اور حوصلہ شکن ماحول میں پاتے ہیں، اس لیے وہ یہ تصور کرنا پسند کرتے ہیں کہ انہیں روزگار کی منڈی میں مذہب کی بنیاد پر مسترد کر دیا جائے گا، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے پر توجہ نہیں دیتے۔ اس طرح مسلمان خوش گمانی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ وہ پہلے مسترد ہونے کی پیش گوئی کرتے ہیں اور مقابلے سے دستبردار ہو کر اپنی ہی پیشین گوئی کو سچ ثابت کر دیتے ہیں۔

 نسیم زیدی (2014) نے بجا طور پر کہا ہے:

 'غربت، ناخواندگی اور سچر کمیٹی کی رپورٹ کی سفارشات پر عمل نہ کرنے پر واویلا بڑی حد تک تعلیم اور ملازمت میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کے مطالبے سے جڑا ہوا ہے۔ تاہم، ملازمت اور تعلیم میں مسلمانوں کی پسماندگی کی اصل وجہ ہے ان میں مسلمانوں کا کم تعداد میں شامل ہونا، نہ کہ مسلم امیدواروں کی کم تعداد میں کامیابی۔ مسلمانوں کی سیاسی قیادت تعلیم اور عوامی خدمات کی ملازمت میں طبقاتی بنیاد پر ریزرویشن کا مطالبہ کرنے کے موقع کی تلاش میں رہتی ہے۔

 [1] گوہا (2018) مسلمانوں کو نہ صرف مظلوم مانتے ہیں، بلکہ ایک الگ تھلگ فرسودہ خیالات کا حامل سماجی و سیاسی طبقہ بھی مانتے ہیں۔ مسلمانوں کے الگ تھلگ پڑ جانے کی وجہ کرائے پر مکانات دیے جانے اور زمین وغیرہ فروخت کیے جانے میں ان کے خلاف وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک کا رویہ ہے۔

 تمام قسم کی بدگمانیوں کے باوجود، دو عوامل ایسے ہیں کہ جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اول، حقائق اور اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے سے گریز، اور دوم، اس شعبے کے حوالے سے مسلمانوں کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا غداری کا کام سمجھا جاتا ہے۔ مسلم قیادت کا طبقاتی بنیاد پر ریزرویشن کا مطالبہ کرنا، آئینی اور قانونی رکاوٹوں اور خاص طور پر برسراقتدار سیاسی پارٹی کی سیاسی مجبوریوں کے پیش نظر بے معنی معلوم ہوتا ہے۔ مسلم سیاسی قیادت کے لیے یہ مطالبہ ایک دلکش نعرہ ہے جس سے بھرپور منافع حاصل ہوتا ہے۔'

 تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی ناقص کارکردگی کے حوالے سے اوپر جو دلائل پیش کیے گئے ہیں وہی دلائل غریبوں کی بھی تعلیمی پسماندگی کے تناظر میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ تو کیا ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم سے محرومی کے ذمہ دار غریب خود ہیں؟ کیا وہ اشرافیہ کے پیشوں سے خود دستبردار ہو گئے ہیں؟ اسی طرح سرکاری ملازمتوں میں بھی خواتین کی نمائندگی ناکافی ہے۔ کیا مسابقتی امتحانات میں اچھی کارکردگی نہ کرنے کا الزام انہیں کے سر ڈالنا مناسب ہوگا؟ یا ہمارے سماجی نظام نے انہیں گھر کی چہار دیواروں بند ہونے پر مجبور کر دیا ہے، اور انہیں جدید معاشی سرگرمیوں سے الگ تھلگ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے آج یہ ان کی حالت زار بنی ہوئی ہے؟ انصاف کا تقاضا ہے کہ برابری کے افراد کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے۔ لیکن وہ پیمانہ متعین کون کرے جس پر اس نام نہاد برابری کو جانچا اور پرکھا جا سکے؟ اگر امتحانات انگریزی میں منعقد کیے جاتے ہیں یا اگر بین الاقوامی امور پر انٹرویو بورڈ میں سوالات پوچھے جاتے ہیں تو، غیر انگریزی میڈیم اسکولوں سے آنے والے یا اخبارات یا ٹی وی تک رسائی محروم غریب گھروں سے آنے والے طلباء خود بخود مسترد کر دیے جائیں گے۔ تو کیا اس صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نظام 'منصفانہ' تھا؟

لہٰذا، ناکام ہونے والوں کی مذمت کرنے اور ان کے کردار پر گفتگو کرنے کے بجائے، ضروری ہے کہ پورے نظام کا جائزہ لیا جائے۔ حکومت مسلمانوں کے ساتھ کھل کر امتیازی سلوک نہیں کر سکتی، لیکن ریاست بلاشبہ کھل کر امتیازی سلوک کرتی ہے، جیسا کہ وہ خواتین، غریبوں اور دیگر پسماندہ طبقوں کے ساتھ کرتی ہے۔ بدقسمتی سے، قدامت پسند مسلم قیادت صنفی حقوق کے لیے کھڑے ہونے کے بجائے تین طلاق وغیرہ جیسے مسائل پر حکومتی کارروائی کی مذمت کرتی رہی ہے، جیسا کہ زویا حسن نے مذکورہ بالا میں کہا ہے۔

English Article: Muslim Dilemma in Independent India - Part One

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslim-dilemma-independent-india-part-one/d/131163

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..