ارشد عالم،
نیو ایج اسلام
28 جولائی 2023
احمدیہ مخالف
تشدد کے درمیان، یہ سوال کافی اہمیت کا حامل ہے۔
اہم نکات:
1. آندھرا پردیش وقف بورڈ نے فروری میں احمدیوں
کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے ایک قرارداد پاس کی۔ جمعیۃ علماء ہند کی ایک قرارداد آندھرا
پردیش وقف بورڈ کی حمایت کرتی ہے۔
2. منیر کمیشن کی رپورٹ میں مختلف علماء
کے انٹرویو کیے گئے لیکن ان میں سے کوئی بھی مسلمان کی ایک واحد تعریف پر متفق تھا۔
3. تکفیریت کی تاریخ اسلام کی جڑوں میں ہے۔
یہ عہد حاضر میں بھی اسلام کا حصہ ہے۔
4. مسلمانوں کو اپنے درمیان ایسے رجحانات
کے خلاف ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، ورنہ وہ پاکستان کے راستے پر چل سکتے ہیں۔
------
اس سال فروری میں آندھرا پردیش
وقف بورڈ نے ایک قرارداد پاس کی جس میں یہ منظور کیا گیا کہ احمدیہ فرقہ دائرہ اسلام
سے باہر ہے۔ شکر ہے کہ احمدیوں کی طرف سے عدلیہ سے استدعا کے بعد ہائی کورٹ نے قرارداد
کو معطل کر دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اقلیتی امور کی وزارت بھی اب آندھرا حکومت سے یہ
کہہ کر اس تنازعہ میں کود پڑی ہے کہ اس طرح کی قراردادیں "نفرت انگیز تقریر"
کے مترادف ہیں، اور وقف بورڈ کو یہ یاد دلایا ہے کہ "اس کے پاس کسی بھی برادری
کی مذہبی شناخت کا تعین کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے"۔ میں اسے ستم ظریفی کہتا
ہوں کیونکہ یہی وہ وزارت ہے جو ہندو انتہاء پسندوں کی جانب سے ہونے والی مسلمانوں کے
خلاف نفرت انگیز تقاریر پر خاموش ہے۔ وزارت کے ارادے کچھ بھی ہوں، یہ ایک خوش آئند
قدم ہے کہ انہوں نے احمدیوں کے حق میں مداخلت کی ہے، جو ہندوستان کے اندر ایک پسماندہ
مسلمان گروہ ہیں۔ پاکستان کے برعکس جہاں انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے، ہندوستان
اب بھی انہیں ان بہت سے گروہوں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کرتا ہے جن سے ہندوستانی
مسلم معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔
لیکن یہ معاملہ ابھی تک نہیں رکا
ہے۔ ارشد مدنی کی زیرقیادت جمعیت نے آندھرا وقف بورڈ کے فیصلے کی تائید کی، اور اس
بات کی توثیق کی کہ ان کی نظر میں احمدی غیر مسلم ہیں۔ جمعیت نے دلیل دی کہ اس مسئلہ
پر امت کے اندر اجماع ہے۔ چند مہینے پہلے، بڑے مدنی نے مسلمانوں کے طبقوں میں یہ کہہ
کر نیک نامی حاصل کی تھی کہ اوم اور اللہ ایک ہیں۔ جن مسلمانوں نے ان کے بیان کو بین
المذاہب مکالمے میں ایک بڑا قدم کہا ہے، ان کے لیے اچھا ہو گا کہ وہ واپس جائیں اور
ان کی تقریر کو ایک بار پھر سنیں تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ انھوں نے واقعی کیا کہا اور
کیوں کہا۔ جو شخص احمدیوں کو برداشت نہیں کرتا اس سے ہندوؤں کے ساتھ اتحاد کی کبھی
امید نہیں کی جا سکتی۔
حالانکہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ
کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے ایک مسلمان کی تعریف متعین کی جا سکے؟ جیسا کہ احمدیہ
مخالف جنون نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، حکومت نے اس سوال سے نمٹنے کے لیے
1953 میں منیر کیانی کمیشن تشکیل دیا۔ کمیٹی نے اس وقت کے سرکردہ علمائے کرام سے کہا
کہ ’’مسلمان کی اپنی تعریف بیان کریں، نکتہ یہ تھا کہ اگر مختلف فرقوں کے علمائے کرام
احمدیوں کو کافر مانتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ ایسے عقیدے کے حوالے سے ان کا ذہن بالکل
صاف ہوگا بلکہ ایک مسلمان کی تعریف بھی ان کے ہاں بالکل واضح ہوگی۔ مختلف علماء کو
سننے کے بعد جسٹس منیر رپورٹ میں لکھتے ہیں: "لیکن ہم یہاں یہ کہنے سے گریز نہیں
کر سکتے کہ یہ ہمارے لیے بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ جن علما کا اولین فرض اس موضوع
پر اپنی رائے قائم کرنا تھا، آپس میں ہی ایک دوسرے کے ساتھ دست بہ گریباں ہیں۔"
جسٹس منیر مزید لکھتے ہیں: ’’علماء
کی طرف سے دی گئی متعدد تعریفوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، کیا ہمیں کوئی تبصرہ کرنا چاہیے
سوائے اس کے کہ اس بنیادی سوال [مسلمان کی تعریف] پر کوئی دو عالم متفق نہیں ہیں؟ اگر
ہم اپنی تعریف کی کوشش کریں جیسا کہ ہر ایک عالم نے کیا ہے اور یہ تعریف دوسروں کی
تعریف سے مختلف ہے تو ہم متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے باہر ہو جائیں گے۔ اور اگر ہم
علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اپنا لیں تو اس عالم کے قول کے مطابق ہم مسلمان رہیں
گے اور باقی سب کی تعریف کے مطابق کافر۔
مذہب اور سیاست کے امتزاج کے خطرات
کا خاکہ پیش کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے: ’’اس سب کا خالص نتیجہ یہ ہے کہ نہ شیعہ،
نہ سنی، نہ دیوبندی، نہ اہلحدیث اور نہ بریلوی مسلمان ہیں اور کسی بھی نظریہ سے اختلاف
اس اسلامی ریاست میں سزائے موت کا موجب ہو گا اگر ریاست کی حکومت اس جماعت کے ہاتھ
میں ہو جو دوسرے فریق کو کافر سمجھتی ہو۔ اور اس نظریے کے نتائج کا فیصلہ کرنے میں
زیادہ غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے جب یہ یاد رہے کہ مسلمان کی تعریف پر ہمارے سامنے
کسی دو علمائے کرام کا اتفاق نہیں ہے۔
مختصراً، جسٹس منیر نے ہمیں کہا
کہ علمائے کرام اس بات پر اتفاق رائے پر پہنچنے میں ناکام رہے کہ مسلمان کی تعریف کیا
ہو سکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر علمائے کرام کو سنجیدگی سے لیا جائے تو ملک میں خونریزی
کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مذہبی نقطہ نظر سے مسلمان کی کوئی
تعریف نہیں ہو سکتی۔ دوسرے لفظوں میں، ایک مسلمان کی واحد مذہبی تعریف تقریباً ناممکن
ہے۔ اس لیے واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کی سماجی طور پر تعریف کی جائے۔ ہمیں کسی فرد یا
برادری کی خود ساختہ تعریف لینا ہوگی اور اسے جائز قرار دینا ہوگا۔ لہٰذا، اگر کوئی
احمدی یہ سمجھتا ہے کہ وہ مسلمان ہے، تو وسیع تر سماج کو اسے مسلمان قبول کرنے میں
کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
آج جسٹس منیر کی رپورٹ کو یاد کرنا
ضروری ہے کیونکہ ہمیں تکفیری نظریات کے مہلک خطرے کا سامنا ہے۔ عام طور پر، مسلمان
تکفیریت کو اسلام کی کچھ انتہائی سنگین شکل قرار دیتے ہیں جس کی پیروی آئی ایس آئی
ایس جیسے دہشت گرد گروہ کرتے ہیں۔ لیکن اگر ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو تکفیریت ہمارے
معاشروں میں روزمرہ کی زندگی میں حاوی ہے۔ بڑے مدنی جو کچھ کر رہے ہیں وہ تکفیر میں
ملوث ہونے کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے تو احمدیوں کو ہی دائرہ اسلام سے نکال دیا۔
بریلویوں نے احمد رضا کی پیروی
کرتے ہوئے دیوبندیوں کو کافر قرار دیا۔ حتیٰ کہ انہوں نے حجاز کے علماء سے اپنی فرقہ
وارانہ رائے کی حمایت حاصل کی۔ دیوبندی بھی پیچھے نہیں رہے، بریلویوں پر الزام لگایا
کہ وہ قبر پرست ہیں اور اسلام میں توحید کے بنیادی اصول سے سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ لیکن
دیوبندیوں اور بریلویوں نے اکٹھے ہو کر اہل حدیث کو غیر مقلد کا لقب دیا تھا کیونکہ
اہل حدیث فقہ حنفی پر عمل پیرا نہیں تھے۔ مزید برآں، سنیوں کی طویل عرصے سے یہ دلیل
رہی ہے کہ شیعہ اس لیے مسلمان نہیں ہیں کہ وہ بعض خلفاء اور دیگر صحابہ کرام کی شان
میں تبرا کرتے ہیں۔ پاکستان میں شیعہ کو غیر مسلم قرار دینے کی مہم چل رہی ہے۔ شیعہ
کے نزدیک جو لوگ مولا علی کو پیغمبر کا جانشین نہیں مانتے وہ مسلمان کہلانے کے لائق
نہیں۔ اگرچہ پاکستان میں، سنی اور شیعہ احمدیوں کو اسلام سے نکالنے کا جواز پیش کرنے
کے لیے ایک ساتھ ہیں۔
ہم میں سے بہت سے لوگوں کا خیال
ہے کہ یہ مسئلہ ابھی پیدا ہوا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا بہتر ہوگا
کہ تاریخ اسلام کی پہلی خانہ جنگی "ارتداد" کے سوال پر ہوئی تھی۔ ابوبکر
نے جو جنگیں لڑیں وہ ان لوگوں کے خلاف نہیں تھیں جنہوں نے مکمل طور پر اسلام کو چھوڑ
دیا تھا، بلکہ ان لوگوں کے خلاف تھا جنہوں نے نیا ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس انکار نے خود انہیں غیر مسلم بنا دیا جن کے خلاف جنگ جائز ہو گئی۔ کچھ سالوں کے
بعد، خوارج نے علی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ علی نے معاویہ
کے ساتھ صلح کرکے غلطی کی تھی۔ خوارجوں کے مطابق اس غلطی نے علی کو کافر اور واجب القتل
بنا دیا۔
عام طور پر لوگ یہی سمجھتے ہیں
کہ کسی کو بھی مذہبی سے نکالنے کا اختیار کسی جائز اتھارٹی کے پاس ہونا چاہیے۔ عیسائی
دنیا میں کیتھولک چرچ کو یہ طاقت حاصل تھی۔ اسلام میں چرچ کاکوئی نظام نہیں ہے۔ اور اس کے باوجود مسلم معاشروں میں
اختلاف کرنے والوں کو کافر قرار دینے کا شور مچا ہوا ہے۔
ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مسلمان
اپنے ماضی سے سبق کیوں نہیں سیکھتے؟ اس پاگل پن کی وجہ سے پاکستان میں جو کچھ ہو رہا
ہے اس سے وہ سبق کیوں نہیں لیتے؟
English Article: Who Is a Muslim? Amid The Anti-Ahmadiyya Tirade, This
Question Acquires Immense Importance
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism