طالبان کو سب سے پہلے افغان
خواتین کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے۔
اہم نکات:
1. افغانستان میں نوعمر لڑکیوں کو طالبان نے اسکول جانے سے روک دیا
ہے
2. طالبان خواتین کو ملازمتوں اور میڈیا سے ہٹا رہے ہیں
3. طالبان بندوق کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں
4. ہندوستانی مسلمان جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں
----
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
17 فروری 2022
مسکان خان نے زعفرانی پرچم
لہرانے والے طلباء کے درمیان اللہ اکبر کا نعرہ لگایا
----
ہندوستان کے صوبہ کرناٹک میں
کالج کے حجاب تنازع نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے اور خاص طور پر مسلم دنیا
کالج کی اس مسلم طالبہ مسکان خان کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے جس نے کالج کیمپس میں حجاب کی
مخالفت کرنے والی طالبات کے زعفرانی پرچم کے درمیان اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تھا۔
کالج نے مسلم طالبات کے حجاب
پر پابندی عائد کر دی تھی اور لڑکیوں نے اپنے آئینی حق کی بازیافت کے لیے قانونی طریقہ
کار کا سہارا لیا تھا جو ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 14 اور 25 میں درج ہیں۔
لیکن جلد ہی اس معاملے کو
سیاسی رنگ دے دیا گیا اور اس نے ایک بدصورت موڑ اختیار کر لیا جب حجاب کی مخالفت کرنے
والی طالبات نے ایک طالبہ کے ساتھ بدتمیزی کی جس نے فطری طور پر اللہ اکبر کا نعرہ
لگایا۔ اس کا ردعمل کسی نظریاتی جذبے سے زیادہ بھگوا جھنڈا لہرانے والے جارحانہ نوجوانوں
سے گھری ہوئی اس کے خوف اور گھبراہٹ کا نتیجہ تھا کیونکہ وہ ملک میں ہجومی تشدد کے
واقعات سے بخوبی واقف تھی۔ اس سے میڈیا میں دھوم مچ گئی اور مسکان خان راتوں رات مقبول
عام و خاص ہو گئیں۔ مسلم کمیونٹی اس میں بہت زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔
بہت سارے ہندو ایسے ہیں جنہوں
نے کالج میں مسلم لڑکیوں کے حجاب پہننے کے حق کا دفاع کیا ہے اور ایسے آزاد خیال مسلمان
بھی ہیں جن کی رائے ہے کہ لڑکیوں کو اپنے روشن تعلیمی مستقبل کو داؤ پر لگا کر حجاب
پہننے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لہٰذا، یہ مسئلہ اسلام بمقابلہ ہندو مت کا نہیں
تھا۔ لیکن جلد ہی کچھ فرقہ پرست ذہن رکھنے والے مسلم علماء اور سیاسی لیڈروں نے اس
مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا اور یہ ظاہر کر دیا کہ پوری ہندو برادری حجاب کے خلاف
ہے اور مسلمانوں کے خلاف۔
سب سے پہلے جمعیۃ علماء ہند
کے مولانا محمود مدنی نے بہادر لڑکی کو جس ہمت کا مظاہرہ کیا اس پر ایک لاکھ روپے انعام
کا اعلان کیا۔ اس کے بعد اسدالدین اویسی جن کے بھائی اور ساتھی ماضی میں ہندوؤں کو
ختم کرنے کی بات کرتے رہے ہیں، انہیں اتر پردیش کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو پولرائز
کرنے کے لیے ایک انتخابی مدعی مل گیا۔ حتیٰ کہ آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن نے بھی
اس معاملے کو اٹھایا ہے۔
لیکن بات یہیں پر نہیں رکی۔
افغانستان طالبان کی عسکریت پسند اسلامی تنظیم، پاکستان کی تحریک طالبان نے پاکستان
میں اپنی نظریاتی حامیوں کے ساتھ اس تنازعہ میں چلانگ لگا دی اور اپنی ثقافتی اور مذہبی
اقدار کے تحفظ کے لیے مسکان خان کی جدوجہد کی تعریف کر ڈالی۔ طالبان، القاعدہ اور داعش
برصغیر پاک و ہند اور بالخصوص ہندوستان کے مسلمانوں میں اخلاقی طور پر مقبولیت حاصل
کرنے کے لیے سماجی اور مذہبی مسائل کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ اپنی نظریاتی اشاعتوں
میں یہ عسکریت پسند اور دہشت گرد تنظیمیں مبینہ طور پر اپنے حامیوں کو مسلمانوں کے
سماجی اور مذہبی مسائل کو استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہیں تاکہ مسلم نوجوانوں کے اندر
باغیانہ ذہنیت کو فروغ دیا جائے اور انہیں خاموشی کے ساتھ دہشت گردانہ کارروائیاں انجام
دینے کی ترغیب دی جائے۔ وہ اپنے عملہ کو یہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ عوامی جمہوری
تحریکوں میں ایک منصفانہ مقصد کے لیے مداخلت کریں انہیں پرتشدد بغاوت میں بدل دیں۔
وہ شام کے اندر ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہوئے جب انہوں نے عرب بہاریہ کو ہائی جیک
کر کے اسے خانہ جنگی میں تبدیل کر دیا۔
لہٰذا، مسکان خان اور اس کی
ہم جماعت ساتھیوں کی حمایت کر کے طالبان نے اسی حکمت عملی پر عمل کیا ہے۔ ہندوستان
کے مسلمانوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرکے انہوں نے مسکان کے سیکولر محافظوں کو
شرمناک صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ اب ہندوستان کے سیکولر لوگوں کو ان کے سیاسی مخالفین
طالبان کا دوست کہیں گے کیونکہ دونوں مسکان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے مذہبی
حقوق کے محافظ کی حیثیت سے ہندوستانی مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے مقصد سے یہ
سوچی سمجھی سازش کی ہے۔
لیکن مسلمانوں کو یاد رکھنا
چاہیے کہ افغانستان اور پاکستان میں طالبان کا، مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی اقدار
کی عزت اور ان کے تحفظ کے حوالے سے اور خاص طور پر لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کے حوالے
سے بہت خراب ریکارڈ رہا ہے۔
طالبان ایک ہندوستانی مسلم
لڑکی کا دفاع کر رہے ہیں لیکن انہوں نے افغانستان کی لڑکیوں اور خواتین کو ان کے قانونی
اور شرعی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ 1996 سے 2001 تک اپنے دور حکومت میں انہوں نے لڑکیوں
کی تعلیم پر پابندی لگا رکھی تھی اور ان کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا تھا۔ خواتین
اور لڑکیوں کو صرف اپنے محرم کے ساتھ ہی مکمل برقعہ پہن کر باہر جانے کی اجازت تھی۔
انہیں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے یا کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
نوبل امن انعام یافتہ ملالہ
یوسفزئی
-----------
2009 میں تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان کے قبائلی علاقے سوات میں
اقتدار پر قبضہ کر لیا اور وادی میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی۔ انہوں نے علاقے
کے تمام اسکولوں کو بند کر دیا یا انہیں مکمل طور پر تباہ کر دیا۔
سوات ایک بہت آزاد خیال معاشرہ
تھا اور آزادی سے قبل اس علاقے کے حکمرانوں نے لڑکوں کی تعلیم کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم
کو بھی فروغ دیا تھا۔ وہاں لڑکوں کا پہلا پرائمری اسکول 1922 میں اور پہلا گرلز اسکول
1923 میں کھولا گیا تھا۔ بعد کے ادوار میں سوات کے مسلم حکمرانوں نے سوات کی لڑکیوں
اور لڑکوں کے لیے کالج کھولے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس علاقے نے پیشہ ور افراد پیدا کیے
اور سوات کے لوگ اپنی تعلیم کے لیے پورے پاکستان میں مشہور ہوئے۔
لیکن 2009 میں پاکستانی طالبان
نے اس رجحان کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور خواتین کو اسکول جانے سے روک دیا۔ جب ایک
نوعمر لڑکی ملالہ نے طالبان کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا
تو انہوں نے اسے بس میں بندوق سے گولی مار دی۔ خوش قسمتی سے وہ بچ گئیں اور پاکستان
کی دوسری نوبل انعام یافتہ شخص بن گئیں۔
افغان طالبان
---------
جو طالبان مسکان کی تعریف
کر رہے ہیں اگر وہ افغانستان میں ہوتی تو وہی طالبان اسے کالج میں پڑھنے کی اجازت نہی
دیتے اور نہ ہی بغیر محرم اور بغیر حجاب کے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر پر کالج جانے کی
اجازت دیتے اور نہ ہی خواتین اور مرد طالب علموں کے درمیان تقسیم کے بغیر اسے کلاس
میں بیٹھنے کی اجازت دیتے۔
ہندوستان میں اسے تعلیم حاصل
کرنے، روشن مستقبل کا خواب دیکھنے اور اپنی پسند کے لباس کے ساتھ آزادی سے گھومنے پھرنے
کی آزادی ہے۔ اس پر کسی نے زبردستی حجاب مسلط نہیں کیا اور اگر وہ کسی دن حجاب ترک
کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو کوئی اسے گولی نہیں مارنے والا۔
طالبان کے برعکس، وہ اور اس
کی ہم جماعت لڑکیاں مسائل کو حل کرنے کے پرامن اور جمہوری طریقوں پر یقین رکھتی ہیں۔
ہندوستان میں اسے عدالت جانے اور انصاف حاصل کرنے کا آئینی حق حاصل ہے۔ طالبان کے دور
میں خواتین عدالت میں جا کر انصاف حاصل نہیں کر سکتیں۔
افغانستان میں نوعمر لڑکیوں
کو اسکول جانے سے روک دیا گیا ہے اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی بہت سی
لڑکیوں نے طالبان کے خوف یا پابندیوں کی وجہ سے کالج چھوڑ دیا ہے۔
اس لیے طالبان کو مسکان یا
ہندوستانی خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے بجائے پہلے افغانستان کی خواتین
اور لڑکیوں کو ان کے حقوق دینے چاہئیں۔ ہندوستانی مسلمان انہیں کسی قابل نہیں سمجھتے۔
English
Article: Muskan, Malala and Taliban
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism