New Age Islam
Fri May 23 2025, 05:17 PM

Urdu Section ( 22 Jun 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Mushtaq Ahmed Yusufi, A Great Starist and Humourist صاحب طرز ظرافت نگار مشتاق احمد یوسفی

ڈاکٹر محمد احسن فاروقی

20جون،2024

تعارف: مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1923 ء کو راجستھان کے شہرجے پور میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ 1945 ء میں انہو ں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا۔ 1946 ء میں پی سی ایس کرکے وہ ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے۔اگلے ہی برس یعنی 1947 ء میں ہندوستان تقسیم ہوگیا اور ان کے خاندان کے افراد ایک ایک کرکے پاکستان ہجرت کرنے لگے۔یکم جنوری 1950 ء کو مشتاق احمد نے بھی اپنا بوریا بستر باندھا اور کراچی آ بسے۔کراچی آکر انہوں نے اپنا شعبہ بدل لیا اور سول سروس کے بجائے بینکنگ سے وابستہ ہوگئے۔ اس شعبہ میں ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے 1974 ء میں وہ ایک بینک کے صدر مقرر ہوئے اور بعد میں بینکنگ کونسل آف پاکستان کے چیئر مین بھی رہے۔ 1979ء میں انہوں نے لندن میں بی سی سی آئی کے مشیر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں، او ربالآخر 1990ء میں ریٹائر ہوکر مستقل کراچی آبسے اور تادم مرگ وہیں مقیم رہے۔ بینکنگ کے شعبے میں ان کی غیر معمولی خدمات پر انہیں قائد اعظم میڈل سے نوازا گیا۔ یوسفی نے لکھنے لکھانے کاباقاعدہ آغاز 1955 ء میں کیا اور پہلا مضمون ”صنف لاغر“ کے نام سے لکھا جو ترقی پسند رسالے ”سویرا“ میں شائع ہوا۔ ان کے ادبی شہ پارے اردو کے لئے ایک نایاب تحفہ ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ”چراغ تلے“ 1941ء میں چھپی جب کہ ”خاکم بدہن“ 1949ء میں، ”زرگرشت“ 1974، ”آب گم“ 1990، اور آخری کتاب ”شام شعر یاراں“ 2014ء، میں چھپی۔ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے صدر پاکستان نے 1999 ء میں ”ستارہ امتیاز“ اور 2002ء میں ”ہلال امتیاز“ سے نوازا۔ 20جون 2018ء کو وہ کراچی میں انتقال کرگئے۔یہ اردو زبان وادب کی خوش قسمتی ہے کہ مشتاق احمد یوسفی صاحب ادیب اور دانشور اسے میسر آیا۔ تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ ناقدین کا اس امر پر اتفاق بھی ہے کہ مشتاق احمد یوسفی اردو زبان و ادب کے بے مثال ادیب ہیں۔ کسی ادیب کی اس سے بڑی خوش قسمتی او رکیا ہوسکتی ہے کہ اس کا اسے محبت اور اخلاص سے اپنائے اور اپنا سرمایہ تسلیم کرے۔ مشتاق احمد یوسفی کومحض اس وجہ سے میں اردو کے ان چند مزاح نگاروں میں شمار کرنے لگا جو مزاح کو محض حماقت نہیں سمجھتے او رنہ محض حماقت ہی سمجھ کر پیش کرتے ہیں بلکہ اسے زندگی کی اہم حقیقت شمار کرتے ہیں۔ اور اس طرح انگریزی کے اعلیٰ ترین مزاح نگاروں میں سے ایک یعنی ولیم میک پیش تھیکرے (William Makepeace thackery) کے اس ڈفنیشن پر پورے اترتے ہیں جس سے بہتر مزاح کی تعریف میری نظر میں نہیں ہے۔ یوسفی صاحب خو د اپنے مضمون ”کرکٹ“ میں انگریزوں کی بابت کہتے ہیں: ”ان کی قومی خصلت ہے کہ وہ تفریح کے معاملے میں انتہائی جذباتی او رمعاملات محبت میں پہلے درجے کے کاروباری ہوجاتے ہیں۔ اس خوشگوار تضاد کا نتیجہ ہے کہ ان کا فلسفہ حددرجہ سطحی ہے او ر مزاح نہایت گہرا“۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مزاح کو تھیکر ے کی ڈفنیشن سے میرے ناپنے پر وہ کسی طرح ناراض نہ ہوں گے۔

مشتاق احمد یوسفی

----------

اصلیت یہ ہے کہ ہمارے زیادہ مزاح نگار او ران کے سراہنے والے محض حماقت ہی کو مزاح گنتے ہیں اور اس پر ہنس کر یہ نہیں سوچتے کہ کاہے پرہنسے، مجھے ان حماقت نگاروں پر اگر بھولے سے ہنسی آجاتی ہے تو پھر اپنی ہنسی پر غصہ آتاہے۔ ہنسانے والی باتیں بنالینا، کچھ فقیروں کااُلٹ پلٹ کر دینا، کچھ فرضی احمقوں کا ذکر کرنا اور ایک ایسا تار باندھ دینا کہ ہنستے ہنستے پڑھنے والارونے لگے،ہمار ے یہاں بڑاعام ہے بلکہ تقاد تو لڑجانے پر تیار ہیں کہ یہی ہمارا قومی مزاح ہے۔ ہم ان کی بات مان کر اردو مزاح نگاری کو سلام کرلیتے اگر یوسفی صاحب سا منے آکر رشید احمد صدیقی کی طرح یہ ثابت نہ کردیتے کہ مزاح ہمارے یہاں بھی علمیت، سنجیدگی، ذہانت اور سچی ذکاوت سے تعلق رکھتاہے۔ محض پھکڑ بازی نہیں ہے بلکہ ایسی ہنسی یا مسکراہٹ ہے جس کا اثر جس قدر سوچتے جاؤ اتناہی بڑھتا جاتاہے۔ یوسفی صاحب ادب اور فلسفے اور دوسرے ضروری علوم سے صحیح طریقہ پر واقف ہیں اور اس علم نے ان کوایک نظردی ہے جس کی بنا پرو ہ واقعیت کے صحیح نفاد ہیں یعنی Truth کو دیکھنے کا علم رکھنے کاعلم ہیں۔ اس کے بعد ان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ان کی نظر اس ”حق“ کے Turvy-Topsy پہلو پرجاتی ہے۔ اس معاملے میں پیدائشی صلاحیت کے ساتھ ساتھ انہوں نے انگریزی مزاح نگاروں کا اثر بھی قبول کیا۔

بہر حال انکے مضامین پڑھ کر مجھ پر وہ دورہ نہیں پڑا جو عظیم بیگ چغتائی، شوکت تھانوی اورشفیق الرحمان کو پڑھنے پر پڑا تھا اورجس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ میں ان کے مضمون کو (وہ رسالے میں ہو یا کتاب میں) اٹھا کر پھینکا او رمیرے سر پر غصہ سوار ہوا او رزبان سے لفظ Absurd نکلا۔ یوسفی صاحب کے مضامین میں ان کی روایت کاکچھ اثر ضرور ہے اور ان کے مضامین اکثر تھکادینے کی حد تک لمبے ہیں مگر مزاح کی صحیح راہ سے وہ شاذ ونادر ہی بھٹکتے ہیں او راگر کسی کا اثربھی قبول کرتے ہیں تو اس کو اس قدر اپنابنالیتے ہیں کہ وہ اثر معلوم ہی نہیں ہوتا۔مثلاً جیسے پی جی وڈہاؤس کے مضامین اور افسانوں میں جیولیس کا ساکردار ضرور آتا ہے۔ ویسے ان کے مضامین میں ایک مرزاعہد الودود بیگ بھی کسی مضمون میں جیسے ”یادش بخیریا“ یا ”موذی“ میں سارے کے سارے مضمون کی جان ہے یا کہیں کہیں آٹپکتا ہے مگر یہ کردار بالکل ہماری روایت اور یوسفی صاحب کے تجربے کی چیزہے۔وہ حماقتیں جو ہمارے معاشرے کی حقیقتیں ہیں اس کے اندر اسی زور اور استقلال سے موجود ہیں۔ یوسفی صاحب ہر آدمی اور ہر جانور کاایک موثر او رمضحک کردار بنا لیتے ہیں۔”او رآنا مرغیوں کا“ میں مرغے اور ”سیر زماتا ہری اور مرزا“ یں کتازندہ ہوکر ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ ”جنون لطیفہ“میں مختلف باورچی پی بی وڈ ہاؤس کے بٹلروں کی یاد تازہ کرتے ہیں مگر ان کی نقل نہیں ہیں بلکہ ان کی سی ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ان سب مثالوں میں وہ تخلیقی قوت کا ثبوت دیتے ہیں او رمزاح کے ان درجے پر پہنچ جاتے ہیں جس کو سچا ہیومر کہا جاتاہے۔ زیادہ تر مضامین میں یوسفی صاحب ہمارے معاشرے کی مضحکہ خیز غلطیوں کے پر مزاح نقاد ہیں۔”پڑئیے گر بیمار“ میں ہماری تیمارداری کے عام طریقے اور ”کاغذی ہے پیرہن‘؎‘ میں ننگی مصوری کے ذوق کو انہوں نے بے نقاب کیاہے۔

یہاں ہمیں انسان کی  وہ حماقتیں دکھائی دیتی ہیں جن میں وہ نہایت خلوص اور سنجیدگی سے مصروف ہیں اس سلسلے میں ”موسموں کا شہر“ بہت ہی دلچسپ ہے۔ کراچی میں آبسنے والے مہاجرین کو جو یہ عادت پڑ گئی ہے کہ ہر بات پر کراچی کے موسم کو برا کہتے ہیں۔ اس کا یوسفی صاحب نے بے لاگ جائزہ لیا ہے اور اس کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتاہے کہ کراچی کی آب وہوا کی شکایت کرنا کتنی بڑی حقیقت اور کس حد تک حماقت ہے۔ اس ضمن کے تمام مضامین میں ”چار پائی اور کلچر“ مجھے سب سے اچھا لگا۔ چار پائی کاہماری کلچر میں سچ مچ وہ مقام ہے کہ ہم اسے اپنی کلچر کااشارہ یہ کہہ سکتے ہیں اور اس کے اس مقام او راس کے ہزاروں طریقوں کے اس مقام او راسکے ہزاروں طریقوں پر مضحک استعمال کے جو تاثر وہ سامنے لاتے ہیں وہ دل پر بڑا لطیف اثرکرتے ہیں۔ یہاں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ چار پائی کو حد سے زیادہ مضحک بنا نے کے لئے وہ کیسے پرمزاج قصے تخلیق کردیتے ہیں۔ ان کے جتنے بھی مضامین ہیں ان میں ان کا رجحان بالکل قدرتی اور فطری ہے، جس میں بناوٹ کا شائبہ بھی نہیں آیا۔

20جون،2024،بشکریہ: روز نامہ آگ، لکھنؤ

--------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/mushtaq-ahmed-yusufi-great-humourist/d/132549

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..