ثاقب سلیم،
نیو ایج اسلام
29 جولائی 2023
‘‘محرم کی آمد کا خیال ہی مجھے
جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ جب یہ دہشت گرد تنظیمیں دوسرے مہینوں میں اپنے مخالفین (شیعوں)
کی مساجد اور علاقوں پر حملے کرتی رہتی ہیں تو محرم کے مہینے میں ان کی دہشت گردی کیسی
ہوگی کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ اردو کے مشہور پاکستانی شاعر جون ایلیا نے یہ الفاظ مئی
1999 میں لکھے تھے۔’’
Shia
Muslims protesting in Karachi, Pakistan
------
بطور ایک مہاجر کے، جون ایلیا (جو تقسیم کے بعد ہندوستان سے پاکستان ہجرت کر گئے
تھے) کا خوف بے بنیاد نہیں تھا۔ پاکستان کے شیعہ اس وقت سے ہی مسلسل فرقہ وارانہ حملوں
کا سامنا کر رہے ہیں جب اس ملک کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ 1963 میں یوم عاشورہ (10 محرم) کو پاکستان کے کئی شہروں اور قصبوں میں
تعزیہ کے جلوسوں پر شدت پسندوں نے حملہ کیا۔ ضلع خیرپور میں ایک ہجوم نے ایک امام بارگاہ
پر حملہ کر کے اسے آگ لگا دی جس کے اندر موجود درجنوں شیعہ ہلاک ہو گئے۔ حکومت نے اعتراف
کیا کہ اس دن سو سے زیادہ شیعہ مارے گئے تھے، جب کہ غیر سرکاری ذرائع نے ہلاکتوں کی
تعداد اس سے بھی زیادہ بتائی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس معاملے میں کبھی
کسی ایک شخص کو بھی سزا نہیں دی گئی۔
عبدالنیشاپوری نے پاکستان میں فرقہ
وارانہ تشدد میں ہلاک ہونے والے شیعوں کی تعداد کو جمع کیا ہے اور لکھا ہے کہ
"عسکریت پسندوں نے 1963 اور جون 2021 کے درمیان 23,500 سے زیادہ شیعہ مسلمانوں
کو قتل کیا ہے۔ کوئی سمجھ سکتا ہے کہ جون ایلیا پاکستان میں شیعوں کی حفاظت کے لیے
کیوں اتنا زیادہ فکر مند تھے اور کیوں کئی علماء نے اس شیعہ مخالف تشدد کو: ایک آہستہ
'شیعوں کی نسل کشی' قرار دیا ہے۔
شیعوں کے لیے صرف انتہا پسند ہی
خطرہ نہیں ہیں۔ 1969 میں، جھنگ میں عاشورہ کے جلوس کے دوران پولیس کی گولیوں سے کم
از کم 7 شیعہ مارے گئے۔ کئی ایسے واقعات ہوئے جب پولیس یا مسلح افواج نے محرم کے مہینے
میں شیعہ مخالف تشدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ 1985 میں پولیس نے کوئٹہ میں کم از
کم 35 شیعوں کو قتل کیا۔ اسی شہر میں شیعوں پر پولیس کی فائرنگ کے کئی اور واقعات رپورٹ
ہوئے ہیں۔
Juan
Elia
-----
میں پورے احتیاط کے ساتھ یہ کہہ
سکتا ہوں کہ پاکستان میں محرم کے مہینے میں شیعہ مساجد اور امام بارگاہوں میں نماز
ادا کرنا دنیا کی سب سے مہلک مذہبی رسم ہے۔ اکیسویں صدی میں دہشت گردوں نے سب سے زیادہ
شیعہ مساجد کو نشانہ بنایا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں 10,000 سے زیادہ شیعہ نماز کے
دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
4 مارچ 2022 کے دن کم از کم
63 شیعہ اس وقت خودکش بمباری میں ہلاک ہو گئے جب وہ پشاور کی ایک مسجد میں نماز جمعہ
ادا کر رہے تھے۔ سب سے مہلک منصوبہ بند حملوں میں سے ایک کا پتہ پولیس نے 2008 میں
اس وقت لگایا تھا جب دہشت گردوں نے "محرم کے جلوسوں کے راستے میں رکھے سبیل کو
سائینائیڈ سے زہر آلود کر دیا تھا" جو بم دھماکوں کے ساتھ مربوط ہوتے۔ 2006 میں
ہنگو میں جلوس پر متعدد دھماکے ہوئے جس کے بعد شیعوں کے کئی دیہاتوں پر راکٹوں اور
مارٹروں سے حملے کیے گئے۔ ہلاکتوں کی تعداد نامعلوم رہی۔
2012 میں پاکستان میں متعدد
مقامات، شیعہ مساجد اور امام بارگاہوں پر بم حملے کیے گئے۔ راولپنڈی میں ایک امام بارگاہ
میں خودکش بمبار کے حملے میں کم از کم 23 افراد ہلاک ہوئے۔ خان پور میں ہونے والے بم
دھماکے میں 18 ہلاکتیں ہوئیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک دھماکے میں کم از کم 14 شیعہ
ہلاک ہو گئے۔ اسی سال مستونگ میں دہشت گردوں نے ایران جانے والے شیعہ زائرین کے تین
بسوں کے قافلے پر بم حملہ کیا جس میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے۔
اپنی کتاب "The
Shias of Pakistan: An Assertive and Beleaguered Minority" میںAndreas T. Rieck لکھتے ہیں، "شیعوں کے خلاف تشدد کی یہ لہر پاکستان
میں انتہا پسندوں کی طرف سے دہشت گردی کی ایک عمومی مہم کے پس منظر میں رونما ہوئی،
جس کی قیادت 2007 سے تحریک طالبان پاکستان (TTP) نے کی تھی۔ جس نے صرف
2009 سے 2012 کے درمیان 10,000 سے زیادہ جانیں لیں اور اس کا پڑوسی ملک افغانستان میں
تنازعات سے گہرا تعلق تھا۔ لیکن شیعہ پاکستان کے شہریوں کے کسی بھی دوسرے گروہ سے زیادہ
دہشت گردی کا شکار بننے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اور جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں
نے اکثر مجرم انتہا پسندوں کے خلاف عزم اور حوصلے کے ساتھ کام کیا ہے، لیکن انہیں کبھی
سیاسی رہنماؤں اور عدلیہ سے ضروری حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ واضح رہے کہ جولائی 2011 میں
لشکر جھنگوی کے حملہ آور ملک محمد اسحاق کی "ثبوت کی کمی" کی وجہ سے ضمانت
پر رہائی ہو گئی، حالانکہ 1997 میں گرفتاری کے بعد، اس پر 44 مختلف معاملات میں ستر
افراد کے قتل کا الزام تھا جن میں سے زیادہ تر شیعہ تھے۔ اور بعض اوقات تو لشکر جھنگوی
سے وابستہ مجرموں کو جیل کی کوٹھریوں سے فرار ہونے کی بھی اجازت دی جاتی ہے۔
Dr.
Pervez Hoodbhoy
-----
2012 میں، دی ڈان نے ڈاکٹر
پرویز ہودبھائے کا یہ بیان رپورٹ کیا تھا، "قتل کو فرقہ وارانہ قرار دینا اشتعال
انگیز ہے کیونکہ ایک تنازعہ دو متحارب فریقوں کا دخل ہوتا ہے۔ لیکن درحقیقت یہاں صرف
ایک فریق ہے یعنی شیعہ – جس کا قتل عام ہو رہا ہے۔ پاکستان کا تصور عجلت میں صرف ایک
مقصد کو ذہن میں رکھ کر کیا گیا تھا - مسلمانوں کو ہندوؤں سے الگ ہونا چاہیے، اور پھر
کسی نہ کسی طرح تمام مسلمان مل جل کر خوشی سے رہیں گے۔ جب مذہبی تشدد پیدا ہوتا ہے
تو کیا ہوتا ہے اس کے بارے میں باکل ہی نہیں سوچا گیا تھا۔
محرم 680 عیسوی میں کربلا میں امام
حسین اور ان کے اہل خانہ کی شہادت کی یاد میں دنیا بھر کے مسلمانوں اور بالخصوص شیعوں
کے لیے سوگ کا مہینہ ہے۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردوں کی بدولت یہ شیعہ مسلمانوں کے
لیے دہشت اور وحشت کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں ان کی عبادت گاہوں پر بمباری کی جاتی
ہے، فائرنگ کی جاتی ہے، جلایا جاتا ہے اور حملے کیے جاتے ہیں۔
--------------
English Article: Muharram Or Shia Genocide: Pakistan Recreates Karbala
for Shia Muslim
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism