New Age Islam
Thu May 15 2025, 07:17 PM

Urdu Section ( 15 Feb 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Movement of Silk Handkerchiefs from Deoband to Malta تحریک ریشمی رومال دیوبند سے مالٹا تک

12فروری،2023

بیسوی صدی کے آغاز میں بھی برطانوی حکومت کی طرف سے ہندوستانیوں کو تقریر و تحریر کی آزادی حاصل نہیں تھی، حکم زبان بندی عام تھا، برسرعام حکومت کے طرز عمل پر نکتہ چینی اور تنقید برطانوی حکومت کی پیشانی پر غیظ و غضب کی شکن پیدا کرنے کے لیے کافی تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تقسیم بنگال جیسے اہم مسئلہ پر جن لوگو ں نے اپنے دُکھ درد کا اظہار واضح لفظوں میں کردیا تھا ان کے لیے سوائے جیل کے او رکوئی جگہ نہیں رہ گئی تھی۔

جن لوگوں کو غلامی کی ذلّت ،ہندوستانی مظلومیت او ربے بسی ، تقریر وتحریر کا گھلا گھونٹ دینے والی حکومت کوشدت سے احساس تھا ان کے لیے صورت حال ناقابل برداشت تھی اور یہ اپنی جانیں دے کر بھی آزادی حاصل کرنے کو غلامی کی ذلت بھری زندگی پر ترجیح دینے لگے تھے ، ان کا کہنا تھا کہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے اچھی ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہم دیکھتے ہیں کہ بیرون ملک میں ہندوستانیوں نے آزادی کی شمع جلائی، امریکہ، جرمنی، افغانستان اور ترکی میں ہندوستانی جوان پہنچے او رانہوں نے اپنی صلاحیتوں سے کا م لے کر ایسے وسائل وـزرائع پیدا کیے جن سے کام لے کر وہ آزادی کی راہ میں کوئی مؤثر رول ادا کرنے کی پوزیشن میں آگئے۔ 1915ء میں جرمنی نے اپنا ایک وفد افغانستان بھیجا تاکہ افغانستان کو ہندوستان پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کرنے یا غستان اور آزاد قبائل کی فوجی تربیت اور اسلحہ کی سپلائی بھی وسائل وذرائع کا پتہ چلا ئے اور کس طرح ان مقامات میں آزادی کا جذبہ پیدا کرکے جدید اسلحہ کے استعمال تربیت پر ان کو آمادہ کیا جائے، جرمنی کے اس وفد کے سربراہ ڈاکٹر برکت اللہ بھوپالی تھے او رانہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس کام کو کیا اور وفد کو محفوظ راستے سے لائے اور افغانستان پہنچایا۔ فان ہن تیگ جرمنی ، وفد کا سرخیل اور قیصر جرمنی کا نمائندہ تھا، کاظم بے ترکی کی وفد کاقائد تھا جسے سلطان محمد خامس غنائی نے بحیثیت خلیفۃ المسلمین اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا اس وفد کے ساتھ ہندوستانیوں میں ڈاکٹر برکت اللہ بھوپالی او رراجہ مہندر پرتاپ تھے ان ارکان وفد کے علاوہ اس وفد کیساتھ کچھ فوجی افسران بھی جنہیں یاغستان اور آزاد قبائل میں فوجی ٹریننگ دینے کے لیے ساتھ لیا گیاتھا فوجی افسران میں ترکوں کے علاوہ پٹھان بھی تھے جو فرانس کے جنگی میدانوں سے بھاگ کر جرمنی پہنچے تھے یا جرمنوں کے ہاتھ میں اسیر ہوگئے تھے۔ جرمنی کا اصرار تھا کہ شاہ افغانستان کو آلات جنگ و اسلحہ فوج اور زر ومال کی امداد کا زیادہ سے زیادہ یقین دلایا جائے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب افغانستان میں یہ وفد گفتگو کررہا تھا او رافغانستان او رمجاہدین آزادی مقیم یاغستان کو پیش نظر رکھ کر نقشہ جنگ مرتب کیا جارہا تھا ، ہندوستان میں برطانوی حکومت کی قوت گیارہ ہزار یا پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں تھی، ان حالات میں اگر افغانوں او ریاغستانیوں کو جدید اسلحہ مل جاتے تو اس منصوبے کی کامیابی کے امکانات انتہائی روشن تھے۔

ٹھیک یہی وہ وقت ہے جب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند مولانامحمود حسن صاحب شیخ الہند کی ‘‘ریشمی رومال کی تحریک’’ وجود پذیر ہوئی، یہ شیخ الہند کے سیاسی تدبر او رایک بوریہ نشین عالم کے طائر فکر کی بلند پروازی کی روشن اور واضح دلیل ہے، اس تحریک کی تاریخ لکھنے والوں نے ابھی اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا ہے کہ شیخ الہند اور ان لوگوں کا جن کا اس تحریک میں کلیدی رول تھا سرحدی قبائل او ران مجاہدین آزادی سے براہ راست کیا تعلق تھا؟ جبکہ اس تحریک کی اہمیت و عظمت اور قدر و قیمت کا صحیح اندازہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب اس تاریخی تحریک سے پردہ اٹھایا جائے۔

تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ شیخ الہند نے اپنے معتمد شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی کو ابتدا میں دیوبند میں اپنے پاس رکھا اورپھر کچھ دنوں کے بعد ان کو دہلی لے گئے اور خصوصیت کیساتھ مولاناابوالکلام آزاد سے ملاقات کرائی او رمولانا سندھی پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار فرما کر مولانا آزاد کو مطمئن کردیا کہ عبیداللہ سندھی ہر طرح قابل اعتماد ،اور ہر طرح کے نازک راز وں کے امین اوران کے مخلص ہونے میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

مولاناسندھی کے تعارف کی اتنی اہمیت کیوں تھی؟ او رمولانا آزاد کو کیوں مطمئن کیا جارہاہے، دراصل مولانا آزاد کا سرحد کے ان مجاہدین آزادی سے نہ صرف براہ راست تعلق تھا بلکہ وہا ں کے مشیر بھی تھے اور بوقت ضرورت ہندوستان میں رہ کر ان کو وسائل بھی فراہم کرتے تھے اور سرحدی مجاہدین آزادی مولاناآزاد سے مشورے بھی کرتے رہتے تھے گویا ہندوستان میں بیٹھ کر وہ مجاہدین سرحد کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔

خود مولانا عبیداللہ سندھی نے اپنی ذاتی ڈائری میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ الہند نے دہلی لے جاکر مجھے اپنے حلقہ کے لوگوں سے ملایا او رمیرا تعارف کرایا وہ یہی قومی رہنما تھے جو سرحد کے مجاہدین سے واقف ہی نہیں تھے بلکہ ان کی ہر طرح کی مدد بھی کرتے تھے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیخ الہند نے اپنی منصوبہ بندی میں ان تمام قومی لیڈروں کو شامل رکھا تھا جو مجاہدین سے براہ راست روابط رکھتے تھے اور یہ طریقہ کار مستقبل میں جنگ آزادی کا جو محاذ کھلنے والا تھا اس کے لیے ضروری تھا کیونکہ شیخ الہند کی تحریک کا ایک اہم ضروری جز تھا کہ سرحد کی طرف سے جب مجاہدین حکومتوں کے تعاون سے انگریزی فوج پر یلغار کریں تو اسی تاریخ کو مجاہدین آزادی کی راہ میں پڑنے والے تمام بڑے شہروں میں بغاوت کابگل بجادیا جائے تاکہ انگریز چکّی کی دو پاٹوں کے بیچ میں آجائے او راندرونی نظم میں الجھ کر حملہ آور مجاہدین کا مقابلہ نہ کرسکیں ، اس طرح شیخ الہند کی یہ تحریک ایک مکمل او رمنصوبہ بند تحریک تھی۔

14 اگست،1914 ء کو پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا، ہندوستان کے انقلابی لیڈروں کے نزدیک یہ موقعہ ایسا تھا کہ کسی باہری طاقت کی مدد سے ملک میں انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کر کے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے اور برطانوی حکومت سے نجات حاصل کرسکتی ہے شیخ الہند نے اس کی تیاری برسو ں پہلے سے شروع کردی تھی اور مولانا عبیداللہ سندھی کو بلا کر کام کا آغاز بھی کردیاتھا ہندوستان میں جو سیاسی ماحول اور فضا بن چکی تھی اب مزید عملی اقدامات کا وقت آچکا تھا 1915 ء میں جب کہ جنگ عظیم شباب پر تھی او ربرطانوی حکومت انتہائی خطرناک حالات میں گھری ہوئی تھی ، اس کی ساری توجہ یورپ میں ہونے والی جنگ کی طرف لگی ہوئی تھی کیونکہ انگریز وں کا وطن دشمنوں کی زد پر تھا، ٹھیک اسی ماحول میں شیخ الہند نے مولانا سندھی کو پروگرام کوعملی شکل دینے کے لیے کابل روانہ کردیا اور خود حجاز پہنچ کرنقشہ جنگ مرتب کرے اور ترکی حکومت کی پشت پناہی حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے۔

رولٹ ایکٹ کمیٹی نے اپنی تحقیقات کے سلسلہ میں جو رپورٹ مرتب کی ہے اس میں تحریک کی کہانی کچھ اس طرح ہے۔

‘‘ یہ ایک تجویز تھی جو ہندوستان میں تیار کی گئی تھی اس کامقصد تھا کہ شمال مغربی سرحد سے ایک حملہ ہو اور ادھر مسلمان اٹھ کھڑے ہوں اور سلطنت برطانیہ کو تباہ وبرباد کردیا جائے اس تجویز عمل کرنے اوراس کو تقویت دینے کے لیے ایک شخص مولوی عبیداللہ نے اپنے تین رفقاء محمد اور محمد علی کو ساتھ لے کر اگست 1915 ء میں شمالی مغربی سرحد کو عبور کیا،عبیداللہ سکھ سے مسلمان ہوا ہے اور صوبحات متحدہ کے ضلع سہارنپور کے مذہبی مدرسہ دیوبند میں تعلیم پائی تھی وہاں اس نے جنگی اور خلاف برطانیہ خیالات سے عملہ مدرسہ کے خاص لوگوں کو او رکچھ طلباء کو متاثر کیا اور سب سے بڑاشخص جس نے اس پر اثر ڈالا وہ مولانا محمود الحسن تھا مدرسہ میں بہت دن تک ہیڈمولوی رہ چکا ہے، عبیداللہ چاہتا تھا کہ دیوبند کے مشہور مدرسہ کے تعلیم یافتہ مولویوں کی رفاقت سے ہندوستان بھر میں ایک اسلامی جوش او رمسلمانوں میں برطانیہ کے خلاف تحریک جہاد پھیلادے لیکن اس کی تجاویز کے راستہ میں مدرسہ کے مہتمم اور انجمن کے لوگ سد راہ ہوئے ، انہوں نے اسے اور اس کے چند ساتھیوں کو مدرسہ کی خدمت سے برخاست کردیا، اس امر کا بھی ثبوت مل چکا ہے کہ وہ بعض حالات میں مصیبت میں گرفتار رہا پھر بھی وہ مولانامحمود الحسن کے پاس عام طور پر آتا رہا مولاناکے مکان پر خفیہ جلسے ہوتے تھے او راس امر کی اطلاع ملی ہے کہ سرحد کے بھی کچھ آدمی وہاں آتے تھے 18؍ اکتوبر،1915ء کو محمود الحسن نے بھی ایک شخص محمد میاں اور دو دوستوں کے ساتھ عبیداللہ کی پیروی کی اور شمال کی طرف جانے بلکہ عرب کے صوبہ حجاز میں مقیم ہونے کے لیے ہندوستان چھوڑدیا ، روانہ ہونے سے پہلے عبیداللہ نے دہلی میں ایک مدرسہ قائم کیا اوردو ایسی کتابیں معرض اشاعت میں لے آیا جن میں ہندوستان کے مسلمانوں کو چنگی او رمذہبی جوش کی ترغیب دی گئی تھی۔

12 فروری،2023 ، بشکریہ:انقلاب،نئی دہلی

------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/movement-silk-handkerchiefs-deoband-malta/d/129109

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..