ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
19 جولائی،2024
اسلام کے بارے میں ایک
جملہ بڑی کثرت سے دعوے کے طور پر بولا جاتاہے کہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس
میں ہر مسئلے کا حل ہے اور اس کی رہنمائی وگرفت سے کوئی شعبہ حیات خالی نہیں،یہ
محض جملہ نہیں بلکہ اسلامی عقیدے کی روح ہے۔آج اسی تناظر میں بات کرتے ہیں۔ قرآن
میں اللہ رب العزت نے ہر دور کے مسلمانان کے لئے ایک کردار طے کردیاہے۔ اور وہ یہ
ہے کہ اے امت واحدہ آپ کا ہر سطح پر یہ فرض اولین ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن
المنکر کی روح کے عین مطابق اپنے آپ کو نیکی وتقوے کی زندہ مثال میں ڈھال کر اپنے
گردونواح کوبرائی سے بچانے او رنیکی کو عام کرنے کا وسیلہ بن جاؤ۔ قرآن کا رب رب
المسلمین نہیں، بلکہ رب العالمین ہے۔ پوری انسانی برادری ایک کنبہ ہے اور اس نسبت
سے ہر سو ہمارے فرائض وذمہ داریوں کا تعین ہے جسے ایمان کی دولت نصیب ہے۔ وہ اس کا
حق ادا کرے اور جو اس معجزے سے محروم ہیں ان پر محنت کرکے فرض کفایہ کا مکلف ہو۔
اسلام ایک فلاحی معاشرے کے قیام کا ہدف رکھتاہے اور حق و صداقت کے امین کے طور پر
اپنے آپ کو پیش کرتاہے۔ اس عمل میں سب سے اہم کام انسان سازی کاہے۔ جس کے لئے
تعلیم وتربیت، ادارہ دسازی کے سا تھ چلنے والا ایک ایسا ایمان و عمل پر مبینہ نظام
کا قیام ناگزیر ہے جو اس فریضے کو اس طرح ادا کرکے کہ بد بختی کے باعث مبتلا نفوس
انسانی کو ایک ایسے زندہ شاہکار میں ڈھال دیا جائے کہ جس پر دنیا رشک ہی نہ کرے
بلکہ اس کی تقلید بھی کرنا چاہئے!
مدارس، مکاتب، خانقاہیں،
عصری تعلیمی ادارے، فلاحی تنظیمیں اور دیگر متوازی انتظامات سب ہی انسان سازی کے
ہد ف پر کام کررہے ہیں۔ اسی تمام سرگرمیوں کی ہم قدر کرتے ہیں۔ سب مذہب کے ماننے
والے اپنے طے شدہ طریقہ کار کے تحت اس کام کو انجام دیں۔ ان خدمات کا اعتراف
اخلاقی فریضہ ہے۔ دن میں پانچ مرتبہ اللہ رب العزت سے ملاقات وروحانی دیدار کا شرف
باعث عظمت وبرکت،آپ کے گھر مسجد میں حاضری کی سعادت کریمہ، رحمت باری تعالیٰ سے
سرفراز ہونا، دانستہ وغیر دانستہ کی گئی غلطیوں کی معافی مانگنا، ان کو نہ دوہرانے
کا عزم او رپھر اس سب کے پس پشت توبہ واستغفار کا لازمی انفرادی و اجتماعی عمل جو
بندے اور اس کی بندگی کو خدا او راس کی خدائی سے جوڑنے کا نماز پنجگانہ او ر مسجد
کی شکل میں اسلام پیش کررہاہے اس کا کوئی متبادل کم از کم میرے مطالعے، مشاہدے اور
علم میں تو نہیں!
المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز
ہندوستان میں پانچ لاکھ مساجد موجود ہیں، یہ مسلمانوں کو اللہ کا عطا کردہ وہ انتظامی
ڈھانچہ ہے جو ملک گیر سطح پر فعال و سرگرم عمل ہے۔ فی الوقت وہاں پانچ وقت کی نماز
جس میں سب ملا کر دو گھنٹے سے زیادہ نہیں لگتے، بقیہ 22 گھنٹے میں تھوڑی بہت قرآن
کی تعلیم، حفظ یا دیگر ابتدائی تعلیمی عمل چلتا ہے جس میں چند مزید گھنٹے او رلگ
جاتے ہیں۔ چھ گھنٹے رات میں آرام کے لئے کافی ہیں۔ یہ سب ملا کر زیادہ سے زیادہ
بارہ گھنٹے بنتے ہیں۔ گویا 12 گھنٹے اتنا بڑا نظام خالی رہے یہ قابل غور ہے۔ دوسرے
مسجد اخلاقی تربیت کابہترین مرکز ہے مگر وہاں جس طرح ہم چپل او رجوتے رکھیں گے وضو
میں ٹوٹی پوری کھول لیں گے، پانی ضائع کریں گے او ربرابر کے ساتھی پر اپنی چھینٹیں
پڑنے کو محسوس ہی نہیں کریں گے، جب تک وضو چل رہا ہے جتنا پانی وضو کے لئے چاہئے
اس کہیں زیادہ ضائع کر ینگے، صف بندی کو لیکر ہم امام صاحب کے کہنے کے باوجود ٹس
سے مس نہیں ہونگے، بزرگوں، ضعیف لوگوں،معذوروں کیلئے کوئی جوان جگہ نہیں چھوڑے گا
بلکہ ایسے مطالبے پر منہ بنائے گا،امام او رموذن کو ملازم، ماتحت او رغلام سمجھتے
ہیں جب کہ ذرا سوچیں موذن صاحب میں حضرت بلال کو تلاش کریں اور امام معظم میں رسول
کے نائب کا گرخیال ہوتو ائمہ مساجد اور موذنین کے ساتھ ہمارا رویہ ایسا ہونا
چاہئے؟
مسجد پر غیر ضروری
لاؤڈاسپیکر،بھلے ہی نمازی چند صف پر مشتمل ہی کیو ں نہ ہو ں نماز پبلک ایڈریس سسٹم
پر ہی ہوگی، آواز کو بلند رکھاہی جائے گا اوراطراف کا بالکل خیال نہ کیا جائے
گا۔نمازجمعہ میں آنے سے پہلے جانے کی جلدی اس سب میں رجوع الہٰی، خشوع وخضوع،
روحانی کیفیت، رب جلیل سے ملنے کا احساس جیسا جذبہ ہماری مساجد میں آج کہا ں ہے؟
مساجد کی زیبائش کے لئے جائز نہ جائز رقوم وچندے، بلند وبالا مینار وعمارتیں اور
گنبد مگر مقتدیوں میں تقوے کا احساس ندارد! معاذ اللہ! جمعہ کی نماز میں سڑکوں کو
گھیر نا معمولات زندگی میں دخیل ہونا کسی طرح مناسب نہیں، باہر نماز پڑھنے کی صورت
میں محتاط رویہ رکھنا دس طرح کے فتوؤں سے بچنے کے لئے ضروری ہے! مسلم معاشرہ آج
ایک مسئلہ بن کر کھڑا ہے جس کی ہوا مکمل اکھڑی ہوئی ہے۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے؟
سوال یہ نہیں ہے کہ ایسا کیسے ہوگیا؟ اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کے تدارک
کے حوالے سے کوئی حکمت عملی رکھتے ہیں یا نہیں؟ اس کے ذیل میں کچھ گزارشات
کرناچاہتا ہوں جس سے ہماری مساجد کا کردار ہی بدل جائے گا۔یہ صرف نماز پنجگانہ کا
مرکز نہ رہ کر ایک ایسے جامع فلاحی مرکز میں تبدیل ہوجائے گی جس سے پورا سماج بلا
تفریق فائدہ اٹھائے؟ کچھ سفارشات اس طرح ہیں:
(1) مساجد میں پانی، بیت الخلاء وغسل خانہ موجود ہوتاہے ان کو صاف
رکھا جائے او رمسافروں کی اطمینان بخش تفتیش کے بعد ان سہولیات کے استعمال کو عام
کیا جائے۔
(2) پینے کے پانی کی دستیابی کو عوام کے لئے یقینی بنایا جائے
اوراطراف میں فلاحی سرگرمیوں کے لئے تمام مذاہب کے لوگوں کو ایک ساتھ لیکر بیٹھا
جائے۔ خوشگوار رشتے تشکیل دیئے جائیں تاکہ اشتراک عمل او ر باہمی عزت و احترام کو
زمین ملے!
(3)تمام مذاہب کے پیشواؤں کو مسجد میں بلا یا جائے ان کی عزت
افزائی کی جائے، ان کو سناجائے تاکہ ایک دوسرے کے مذہب وعقیدے کی جانکاری ہو۔ اس
سے فرقہ واریت و بین المذاہب ناہموار یاں کم ہوں گی۔
(4) وہ بستیاں جہاں مسجد کے گردونواح میں دیگر مذاہب کے لوگ
بمقابلہ مسلمانوں کے تعداد میں زیادہ ہیں وہاں پبلک ایڈریس سسٹم مسجد کی چہار
دیواری کے اندر تک محدود رکھیں۔اذان بھی لاؤڈ اسپیکر پر نہ دی جائے۔ اب تو موبائل
اور انٹر نیٹ کا زمانہ ہے اب نماز کے اوقات کے حساب سے پیشگی الارم لگا سکتے ہیں۔
(5) سڑکوں او رعوامی مقامات پر نماز نہ پڑھی جائے۔ اس سے کئی مسائل
پیدا ہورہے ہیں۔ عبادت خالص ذاتی معاملہ ہے اسے تشہیر کے فتنے سے جہاں تک ہو
بچائیں!
(6)شب برأت،رمضان المبارک، عیدین میں رات بھر ہنگامہ آرائی،شور
برپا رکھنا، موٹر سائیکلوں او رگاڑیوں کا دوڑانا، مسخرہ پن، چھیڑ چھاڑ معتوب عمل
ہیں۔ یوں بھی عبادت یا کسی خوشی کے منانے میں کسی کو تکلیف نہ پہنچے یہ تو خالص
اسلامی اخلاقیات ہے۔
(7)مساجد میں قرآن کا درس و تفسیر کا مستقل معمول رہے۔ مقتدیوں کو
معمول کی نماز میں تلاوت کی جانے والی قرآنی آیات او ر جمعہ کے خطبے کا ترجمہ تو
کم از کم پتہ ہو۔ چودہ سے زائد صدیاں گزر گئیں پتہ نہیں کہ کیا پڑھا او رکیا سنا؟
جس دعا پر آمین کہہ رہا ہے اس کا بھی پتہ نہیں!
(8) مسجد میں فرسٹ ایڈ اور ڈسپنسیری کا نظم شروع کیا جائے تاکہ
عوام سے خیر کا رابطہ بنے اور بڑھے! منتظمہ کمیٹیاں میڈیکل کیمپ کا علاقے کے لوگوں
کو ساتھ لے کر کیمپ لگائیں۔
(9) مساجد کی منتظمہ کمیٹیاں مسجد کے اطراف میں رہنے والے غریب،
مفلس، نادار، مستحقین،بیماروں کی داد رسی او رمعاونت کا کوئی نظم قائم کرنے کی
جانب پہل کریں۔
(10)کورونا جیسی مہلک بیماری یا دیگر آفات کے متاثرین کے عارضی
قیام و طعام کا مساجد میں اہتمام رہناچاہئے۔ اجتماعی سرگرمیوں کی موقعوں پر پانی،
شربت یا پیک کھانوں کااہتمام بھی خیر سگالی کی ایک اچھی کوشش ہوگی۔
(11) تعلیم کو عام کرنے میں مساجد بڑااہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
کوچنگ، شخصیت سازی او رتعلیم بالغاں کا مستقل نظم کیا جاسکتاہے۔
مشورے بہت دیے جاسکتے
ہیں۔ البتہ پیش نظر محض اتنا ہے کہ مسجد کے سامنے سے گزرنے والے کی نظر جب اللہ کے
گھر پر پڑے تو اسے سہارے کااحساس،دادرسی کی امید او راعلی اخلاق کی توقع ہو۔ بھوکے
کو کھانا او ربھٹکے مسافر کو قیام کی سہولت،بھائی چارگی، خیر سگالی، خوشگواری
اوراپنے پن کا احساس محسوس ہو۔ خوف، منافرت یا منفی فکر ذہن و نفسیات پر غالب نہ
ہو۔ مساجد میں مندرجہ بلا فلاحی و اصلاحی پہل کے تعارف ونفاذ کے ذریعے مثبت
وتعمیری مواقع پیدا کرکے پورے مسلم معاشرے کی تصویر ہی بدلی جاسکتی ہے۔ کچھ پہلیں
ادھر ادھر نظرآرہی ہیں جن کا خیر مقدم ہے۔
19 جولائی،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism