ڈاکٹر مفتی محمد کریم خان
17 دسمبر،2021
حدیث شریف کے مطابق ایک
مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے۔
۔۔۔۔۔۔
انسان جب دنیامیں قدم
رکھتا ہے تو اس کائنات کی بہت ساری اشیاء سے اس کاکچھ نہ کچھ تعلق پیدا ہوجاتاہے۔
اسی تعلق کو بحسن و خوبی انجام دینا اخلاق ہے۔ اخلاق سے مقصود بندوں کے حقوق و
فرائض کے وہ تعلقات ہیں جن کوادا کرنا ہر انسان کے لئے ضروری ہے ۔ اسلام کی بنیاد
اخلاق حسنہ پر ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ میں
حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔‘‘۔( مؤطا امام مالک)۔
اس مضمون میں صحیح بخاری
سے چند ایسی احادیث کو بیان کیا گیا ہے جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
اخلاقیات کی تعلیمات کوبڑے احسن انداز میں بیان فرمایا ہے او رہمیں درس عبرت و
نصیحت دی ہے:
اتحاد امت: حضرت ابو
موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مومن
دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط رکھتی ہے
او رآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں میں تشبیک کی یعنی ایک دوسرے میں داخل
کیا۔’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام
لو‘‘۔( آل عمران:103 )
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ
سے حسب ذیل مسائل کا استنباط ہوتاہے:
وعظ و نصیحت کے دوران
مثال دینے اور سمجھانے کیلئے تشبیک دینا جائز ہے ۔ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ
وہ مسلمانوں میں تفریق و تخریب کا باعث بنے ۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے دنیا
و آخرت میں معاون ومددگار ہے۔
حفاظت زبان: حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بندہ بعض اوقات ایسی بات کہہ دیتا ہے جس کا نقصان نہیں سمجھتا او راس کی وجہ سے
وہ دوزخ میں اس قدر اتر جاتاہے جس قدر کہ مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے‘‘۔
اس حدیث مبارکہ سے حسب
ذیل مسائل کا استنباط ہوتاہے: بات کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے ۔بغیر تفکر وتدبر کے
کی ہوئی بات سے بعض دفعہ بھاری نقصان ہوجاتاہے ۔ کسی لفظ کو زبان پر لانے سے پہلے
عواقب پر غور و فکر کرناچاہئے ۔ جس بات سے نقصان ہو وہ نہ کرنابہتر ہے ۔زبان کی
حفاظت کرنی چاہئے ۔ انسان جس کلام کے حسن و قبح سے واقف نہ ہو اسے زبان پر نہ
لائے۔
حسن سلوک: حضرت عدی بن
حاتمؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوزخ سے بچو اگر
کھجور کے ٹکڑے کے ساتھ ہی ہو۔ پس جو یہ نہ کرپائے تو کلمہ طیبہ کے ساتھ ہی بچے۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے حسب ذیل مسائل کا استنباط ہوتا ہے: کسی نیکی کو حقیر نہیں
سمجھنا چاہئے۔ اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے۔سائل حقیقی کو سختی سے جواب دینا جائز
نہیں ہے۔
غریب و مسکین و کمزور
لوگوں کے ساتھ نرمی او رحسن سلوک کے ساتھ پیش آنا چاہئے( سورۃ الضحیٰ :10 ) اچھی
بات کرنے سے قلب کی صفائی و پاکیزگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ بندہ کو قول فعل کے ساتھ
صدقہ اور نیکی کمانے پر حریص رہناچاہئے۔
حقیقی منزل آخرت: حضرت
عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ دنیا
میں غریب کی طرح یا مسافر کی طرح زندگی گزار اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار
کر۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے حسب
ذیل مسائل کا استنباط ہوتا ہے: مال و دولت کا حریص ہونا مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے۔
موت کو ہر وقت یاد رکھناچاہئے ۔ جتنا مال و دولت کم ہوگا قیامت کے دن حساب کتاب
میں آسانی ہوگی۔ لوگوں کے ساتھ میل جول کم رکھنے سے آدمی حسد، عداوت، بغض ،کینہ،
چغل خوری اور دوسرے بُرے رزائل سے محفوظ رہتاہے ۔ اس دنیا میں رب تعالیٰ کی رضا کو
حاصل کرنے کیلئے کوشش کرتے رہنا چاہئے۔
مومن ہمیشہ فائدہ مند
ہوتاہے:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: ’’ مجھے ایسے درخت کی خبر دو جو مسلمان کی مثل ہوتاہے او روہ اپنے
رب کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے اور اس کے پتے نہیں جھڑتے پھر فرمایا: وہ کھجور
کا درخت ہے‘‘۔
اس حدیث مبارکہ سے حسب
ذیل مسائل کا استنباط ہوتاہے: طلبہ او رمستفید ین کو متوجہ رکھنے کی بھر پور کوشش
کرنی چاہئے ۔علم کے شوقین کا ذوق علم بڑھانے کیلئے ان سے سوالات کیے جائیں ۔ سوال
کرنے کامقصد مسئول کو پریشان کرنا یا مغالطہ میں ڈالنا نہیں ہونا چاہئے۔ امتحان
لینے کیلئے اپنے شاگردوں یااصحاب سے سوال کرناجائز ہے۔ اپنے اساتذہ ، شیوخ یا بڑوں
کے سامنے خاموش رہنابہترین عمل ہے۔ مثالیں دے کر مسائل کو سمجھانا بہترین تبلیغ
علم ہے۔مسلمان اخلاق و عادات اور حسن اعمال میں مستقل مزاج ہوتا ہے۔ کھجور کے درخت
کی طرح مسلمان بھی اپنی زندگی میں اور موت کے بعد بھی دوسروں کے لئے سرچشمہ خیر بن
سکتا ہے ۔ جیسے کھجور کے درخت کی جڑیں زمین میں گہری ہوتی ہیں اسی طرح مومن کے دل
میں ایمان بڑا گہرا ہوتاہے۔سوال کرنا عدم علمیت پر دلالت نہیں کرتا ۔ مومن سچا اور
دوسروں کیلئے نافع ہوتا ہے۔
اخوت اسلامی: حضرت نعمان
بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مومن بندوں کی
مثال ان کی آپس محبت ، اتحاد اور شفقت میں ایک جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء
میں سے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور ہر
عضو بخار چڑھ جانے میں اس کا شریک ہوجاتاہے۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے حسب
ذیل مسائل کا استنباط ہوتاہے: مومن کااپنے مومن بھائی کے ساتھ معاملہ محبت و شفقت
والا ہونا چاہئے۔ اہل ایمان کو ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا چاہئے ۔ تمام
مسلمانوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھناچاہئے ۔مسلمان کی مسلمان کے ساتھ
ہمدردی ایمان کی بنیاد پر ہونی چاہئے کسی اور سبب سے نہیں۔ اہل اسلام کو ایک دوسرے
کے لئے سکون و راحت کا باعث ہونا چاہئے۔
17 دسمبر،2021 ،بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism