از مشتاق
الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام
12 جون 2023
خاص لمحے
زندگی کے
مصنف: ابوعارف
ناشر: میزان
پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، سری نگر، کشمیر
سال اشاعت:
2018
صفحات:
210، قیمت: ذکر نہیں۔
-------
برصغیر کی تقسیم کے بعد سے کشمیر
کا تنازعہ بے شمار شہریوں کی ہلاکتوں اور ان کے خلاف تشدد کی بنیاد بن چکا ہے۔ یہاں
تشدد میں اب بھی بے شمار جانیں تلف ہو چکی ہیں، لیکن اب اس کی شدت میں کمی آئی ہے۔
اگر چہ پرتشدد شورش اپنی کم ترین سطح پر ہے، لیکن خطے کی عسکریت پسندی میں کمی نہیں
آئی ہے۔ سیکورٹی ماہرین کا یہ تجزیہ ہے کہ مقامی پولیس، انسداد بغاوت گروپوں اور غیر
رسمی سپاہ پر مشتمل دس لاکھ سے زائد فوجیوں کی تعیناتی کے باوجود، دو سو سے بھی کم
غیر ریاستی متشدد عناصر کے پاس اتنی بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز کو شامل کرنے کی صلاحیت
ہے۔ کچھ لوگ اسے گوریلا شورش کی طاقت کہتے ہیں۔ ریاستی اور غیر ریاستی متشدد عناصر
کے درمیان پرتشدد جھگڑے کو چھوڑ کر، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوں اور
نظریات سے تعلق رکھتے ہیں اور پرتشدد تصادم میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔
متفرق سیاسی نظریات اور جماعتیں
ہی کسی پرتشدد تنازعہ میں کسی کو ختم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مخالف جماعتوں کا خیال
ہے کہ ان کا راستہ ہی درست ہے اور ہر اپوزیشن کو ختم کر دینا ضروری ہے۔ سیاسی جماعتیں
یقینی طور پر یا تو ریاست کے ساتھ ہیں یا اس کے خلاف ہیں، اور دونوں کے پاس کرایہ کے
قاتل ہیں، جنہیں ممکنہ طور پر 'دشمنوں' کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ہر سیاست دان، سیاسی کارکن یا کسی سیاسی جماعت کے رکن کے پاس شورش زدہ وادی کشمیر میں
اپنی بقا کے لیے جد وجہد کی اپنی ایک لمبی داستان ہے۔ کئی سیاسی کارکنوں اور سیاسی
جماعتوں کے ارکان کو نامعلوم مسلح افراد نے گولیوں کا نشانہ بنایا ہے۔ ان میں ہندوستان
نواز اور ہندوستان مخالف دونوں سیاسی جماعتیں شامل رہی ہیں۔ 1990 کی دہائی کے اوائل
میں مقامی اخبارات کے صفحات سیاسی جماعتوں بالخصوص نیشنل کانفرنس (NC) اور کانگریس کے اراکین
اور رہنماؤں کے عوامی نوٹ سے بھرے ہوئے تھے۔ ان پبلک نوٹ میں انہوں نے عوام کو آگاہ
کیا کہ انہوں نے ان سیاسی جماعتوں کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے اور اب سے
ان کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ عدم شمولیت کے نوٹ، باغیوں کے قہر سے بچنے کے لیے
شائع کیے جاتے تھے، جنہوں نے ایسے ہر شخص کو قتل کر دیا کرتے تھے۔ بڑے سیاسی رہنما
اور ارکان جن کے پاس ذرائع تھے وہ دوسری ریاستوں میں بھاگ کر چلے گئے، لیکن نچلے درجے
کے ارکان جن کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں تھا، انہیں اپنی بقاء کے لیے استعفیٰ نامہ
شائع کرنا پڑا۔
یہ کتاب کشمیر سے تعلق رکھنے والے
کانگریس کے رکن عبدالجبار لون عرف ابو عارف کی سیاسی روداد ہے۔ وہ شیخ محمد عبداللہ
کے دور میں بھی کانگریس کے رکن رہے ہیں، جنہوں نے انہیں گٹر کا کیڑا قرار دیا تھا۔
انہوں نے لوگوں سے سماجی، معاشی اور مذہبی طور پر ان کا بائیکاٹ کرنے کو کہا اور اس
دور میں کانگریس پارٹی سے وابستہ بہت سے لوگوں کو بغیر کسی نماز جنازہ کے دفن کر دیا
گیا۔ انہوں نے اپنی روداد میں ایسی تفصیلات درج کی ہیں۔ اب بڑھاپے میں انہیں احساس
ہو گیا ہے کہ لیڈر ہی عوام کے دکھوں کے ذمہ دار اور اصل مجرم ہیں۔ وہ اس حقیقت پر اظہار
افسوس کرتے ہیں کہ ان لیڈروں کے پاس اب بھی لوگوں کو دھوکہ دینے کی طاقت ہے (ص-12)۔
کشمیر میں کانگریس کی پہلی نسل
کے رہنماؤں میں غلام رسول کار بھی شامل تھے جن کے ساتھ ان کا تعامل تھا لیکن انہیں
عارف کی وفاداری پر بھروسہ نہیں تھا۔ اگرچہ، وہ اپنی رسمی تعلیم مکمل نہ کرسکے، لیکن
مطالعے کے اپنے ذاتی شوق سے، وہ ایک ادیب اور شاعر بن گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پولیس نے
انہیں کیسے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا، کیونکہ پینتھر پارٹی کے ایک غدار سیاست
دان کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اب بھی یہ ایک عام رجحان ہے کہ بے گناہوں پر ان جرائم کا
مقدمہ درج کر دیا جاتا ہے جو انہوں نے کیے ہی نہیں ہیں۔ وہ اخبارات اور صحافیوں پر
بھی تنقید کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر سچائی کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے بلکہ اپنے
مفادات کے غلام ہیں۔
وہ قارئین کو بتاتے ہیں کہ کانگریسی
ہونے کے باوجود شیخ محمد عبداللہ کی قبر پر 5 دسمبر کی یادگاری تقریب کے انعقاد کے
ذمہ دار تھے۔ عسکریت پسندوں کی دھمکیوں کی وجہ سے پانچ سال کے طویل عرصے تک شیخ کی
برسی کی کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی تھی۔ ان کے اس عزم کو دیکھتے ہوئے، این سی نے
انہیں 1996 میں انتخابات میں کھڑے ہونے کے لیے ٹکٹ کی پیشکش کی، جسے انہوں نے ٹھکرا
دیا (ص-95)۔ کانگریس کے تئیں ان کی وابستگی غلط معلوم ہوتی ہے، کیونکہ وہ این سی کی
تعریف کر رہے ہیں، اور گیلانی انہیں قوم پرست لگتے ہیں (ص-112)۔ وہ کانگریس کے سابق
رہنما عبدالغنی لون کے ساتھ اپنے جھگڑے کو بھی بیان کرتے ہیں، جو پھر حریت کانفرنس
میں شامل ہو گئے تھے۔ انہوں نے عارف کو غلام رسول کار کا ایجنٹ کہا، اور عارف نے بھی
انہیں تنخواہ دار ایجنٹ قرار دیا، جو آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنا چاہتا تھا(ص-113)۔ غنی
لون کی شخصیت ایک معمہ ہے جو کانگریس کے رہنما تھے اور پھر بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ
سید علی گیلانی کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حریت میں شامل ہوئے اور بعد میں گیلانی کے
پروپیگنڈے کی وجہ سے انہیں قتل کر دیا گیا۔ لیکن پھر وہ لون قبیلے کی تعریف بھی کرتے
ہیں، حالانکہ ان کے قبیلے کا سیاسی جھکاؤ الگ ہے۔ وہ کانگریسی ہونے کے باوجود مولانا
ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ ساتھ گیلانی کو بھی بطور مذہبی شخصیت کے پسند کرتے ہیں۔
یا تو وہ الجھن کا شکار ہیں، یا وہ نہ تو مودودی کے کاموں کو سمجھ پائے اور نہ ہی کانگریس
کے نظریے کو، کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف سمتوں پر کھڑے ہیں جو کبھی مل نہیں سکتے۔
کانگریس پر تنقید کے لیے انہیں ہندوستانی مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش پڑھنی چاہیے
تھی، جسے مودودی نے تقسیم سے پہلے لکھا تھا، جو بعد میں تین جلدوں میں مرتب کی گئی۔
عارف بتاتے ہیں کہ کس طرح 1990
کی دہائی میں کشمیر میں ہندوستانی سیاسی پارٹی کے ارکان کا زندہ رہنا مشکل تھا۔ وہ
شیخ عبداللہ کی حکومت کو سبوتاژ کرنے میں کانگریس کے کردار پر بھی تنقید کرتے ہیں۔
وہ اس بات پر تنقید کرتے ہیں کہ جموں کے ہوٹل مالکان نے کشمیریوں کو کس طرح ہراساں
کیا جب وہ وادی سے بھاگ رہے تھے۔ وہ عبدالرحمن مخلص کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں جو
ایک قلمکار ہیں، جنہیں ایک قابل مصنف ہونے کے باوجود ذلیل و رسوا کیا گیا۔ پوری کتاب
میں ہر طرف معلومات بکھرے پڑے ہیں، کیونکہ اس میں کسی ترتیب یا نمونے کا خیال نہیں
رکھا گیا ہے۔ یہ کتاب مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ معلوم ہوتی ہے، اگرچہ
یہ معلوماتی کتاب ہے لیکن کئی بار قاری کو الجھا دیتی ہے۔ اس کتاب میں ایک اور کشمیری
کانگریسی رہنما محمد شفیع قریشی اور کشمیر کے بارے میں ان کے ریلوے پروجیکٹ کے بارے
میں بھی بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے۔
عارف کی تنقید پوری کتاب میں بھری
ہوئی ہے، گورنر جگ موہن سے جنہیں کشمیر سے پنڈتوں کی ہجرت کا ذمہ دار مانا جاتا ہے۔
وہ جگ موہن پر اس بنیاد پر تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے ہندو اقلیتی پنڈتوں کو تحفظ
فراہم کرنے کے بجائے ان کے لیے مفت ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا (ص-148) وہ ان دونوں ممالک
کی ترقی میں رکاوٹ کا ذمہ دار بھی ہند و پاک تنازعہ کو ٹھہراتے ہیں۔
یہ ایک اچھی کتاب ہے کیونکہ یہ
کشمیر، اس کی سیاست اور سیاست دانوں کے بارے میں کئی باریکیوں کو سمجھنے میں مدد کرتی
ہے۔ تاہم، صرف اس کی یادداشت پر انحصار کرنے کے بجائے، تھوڑی سی پس منظر کی تحقیق کر
لی جاتی تو کتاب اور شاندار ہوتی، کیونکہ کئی مقامات پر اس میں غلط حقائق بھی در آئے
ہیں۔ مقبول بھٹ لبریشن فرنٹ کے چیئرمین نہیں تھے(ص-19)، مولانا انور شاہ کشمیر نے کبھی
تفہیم القرآن (تفسیر القرآن) کی تعریف نہیں کی، جسے مولانا مودودی (ص-109) نے لکھا
تھا۔ انور شاہ کشمیری کا انتقال 1933 میں ہوا، مودودی نے تب تفہیم لکھنا بھی شروع نہیں
کیا تھا۔ تاہم، ان خامیوں کے ساتھ اس روداد میں ایک کانگریسی کے قلم سے بہت سے مسائل،
لوگوں اور کشمیر میں سیاست کی نوعیت کے بارے میں کافی داخلی جانکاریاں موجود ہیں۔
English
Article: Kashmiri Writer Abu Aarif’s Life That Experienced
Variegated Political Ideologies
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism