گریس مبشر، نیو ایج اسلام
6 اپریل 2024
محلہ سسٹم میں، گورننس اور
سماجی تنظیم سازی کے لیے کمیونٹی پر مبنی نقطہ نظر سے ، کئی وجوہ سے مسلم خواتین
کی زندگی کے حالات کو نمایاں طور پر بہتر بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔
اہم نکات:
1۔ معاشرتی حمایت اور امداد میں اضافہ: محلہ سسٹم رہائشیوں کے
درمیان اخوت اور یکجہتی کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ باہمی تعاون اور امداد کو فروغ
دے کر، یہ ان مسلم خواتین کے تحفظ کا ایک بہترین ذریعہ ہو سکتا ہے، جنہیں معاشی
مشکلات، گھریلو تشدد، یا امتیازی سلوک سمیت مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔
2۔ بااختیار بنانا اور شرکت کو فروغ دینا: ہو سکتا ہے کہ بہت سے
روایتی معاشروں میں، خواتین کو فیصلہ سازی کے عمل یا معاشرے کے معاملات میں، حصہ
لینے کے محدود مواقع حاصل ہوں۔ تاہم، محلہ سسٹم شمولیت اور زمینی سطح پر جمہوریت
پر زور دیتا ہے، جس سے خواتین کو مقامی گورننس اور معاشرتی اقدامات میں فعال طور
پر شرکت کرنے کے مواقع ہاتھ آتے ہیں۔ محلہ نظام کے اندر فیصلہ سازی کے عہدوں اور
قائدانہ کرداروں میں خواتین کو شامل کرکے، ان کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں، اور ایسی
پالیسیوں اور پروگراموں کی تشکیل میں ان کے نقطہ نظر پر غور کیا جا سکتا ہے، جو ان
کی زندگیوں کو متاثر کرنے والی ہیں۔
3 ۔ وسائل اور خدمات تک رسائی: مسلم خواتین، خاص طور پر پسماندہ پس
منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین کو حفظان صحت ، تعلیم اور روزگار کے مواقع، جیسے
ضروری وسائل اور خدمات تک رسائی میں، اکثر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ محلہ
سسٹم کے ذریعے، کمیونٹی کے اراکین اجتماعی طور پر وسائل کو منظم کرکے، بہتر خدمات
کی حمایت کر کے، اور خواتین کی ضروریات کے مطابق معاشرتی پروگراموں کو نافذ کرکے،
ان چیلنجوں سے نمٹ سکتے ہیں۔ یہ حفظان صحت کی سہولیات، تعلیمی اداروں، پیشہ ورانہ
تربیتی پروگراموں، اور خواتین کے معیار زندگی کو بہتر بنانے والی، دیگر معاون
خدمات تک بہتر رسائی کا باعث بن سکتا ہے۔
4۔ خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات کا فروغ: محلہ سسٹم، قومِ مسلم
میں خواتین کے حقوق، اور صنفی مساوات کے مسائل پر بیداری، اور ان کی حمایت کو فروغ
دینےکا ایک پلیٹ فارم بن سکتا ہے۔ مکالمے، تعلیم اور بیداری کی مہمات کو فروغ دے
کر، محلہ سسٹم ایسے مضرت رساں اصولوں اور معمولات کو چیلنج کر سکتا ہے، جن سے صنفی
بنیاد پر امتیاز اور تشدد کو فروغ ملتا ہے۔ کمیونٹی لیڈران اور ممبران صنفی طور پر
انصاف پسند پالیسیوں کو فروغ دینے، خواتین کے لیے قانونی تحفظات کو نافذ کرنے، اور
کمیونٹی کے اندر احترام اور مساوات کا کلچر قائم کرنے کے لیے، مل جل کر کام کر سکتے
ہیں۔
5۔ سماجی ہم آہنگی اور یکجہتی: محلہ سسٹم کے ذریعے، محلے میں سماجی
ہم آہنگی اور یکجہتی کو مضبوط کرنا، مجموعی طور پر مسلم خواتین کی فلاح و بہبود
میں کار آمد ہو سکتا ہے۔ باہمی امداد و تعاون کا نظام قائم کر کے، مثبت سماجی
تعامل کو فروغ دیکر، اور تنوعا کا احترام کر کے، محلہ سسٹم ایک ایسا جامع اور
مربوط معاشرتی ماحول قائم کر سکتا ہے، جہاں خواتین کو اپنی قدر، عزت، اور زندگی
گزارنے کی مکمل آزادی محسوس ہو۔
(Representative
Photo)
------------
اسلامی میں تاریخ طور پر
، مساجد صرف عبادت گاہیں نہیں تھیں۔ بلکہ مساجد سے ہی لوگ ذاتی، خاندانی، تعلیمی،
معاشی اور سماجی مسائل سیکھا کرتے تھے، اور مساجد میں ہی معاشرے کے مسائل پر بات
کی جاتی تھی، اور ان کا حل پیش کیا جاتا تھا۔ لوگوں نے محلہ سسٹم کواب استعمال
کرنا چھوڑ دیا، جس میں افراد، خاندانوں اور برادریوں کے لیے واضح اور قطعی قانونی
تحفظ اور مسائل کو حل کرنے کا پراسیس موجود تھا، اس کے بعد اس کی طاقت و اہمیت ختم
ہو گئی۔ جب محلہ سسٹم شادیوں اور جنازوں جیسی مخصوص تقریبات تک محدود ہو گیا، تو
قوم مسلم نے اپنی قیادت اور اپنے مسائل کے اسلامی حل پر بات کرنے کا ایک بہترین
پلیٹ فارم کھو دیا۔ اس کی قیمت سب سے زیادہ مسلم معاشرے کی خواتین نے ادا کی۔
کیونکہ خواتین کے مسائل قومِ مسلم کے سب سے بڑے مسائل ہیں، جو ناقابل حل ہیں۔
شادی کے مسائل
محلے کے لوگ شادی میں،
زیادہ تر محلہ سسٹم کا استعمال کرتے ہیں۔ شادیوں کی اجازت لینا، لڑکیوں کی شادیوں
کے لیے پیسے جمع کرنا، اور تقریبات کا انعقاد ہی وہ کام ہیں جو زیادہ تر محلے والے
کرتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے اس کا کیا مطلب ہے، کہ مساجد کے امام کثیر مہمانوں
پر مشتمل مہنگی مہنگی شادیاں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں کہتے؟
ہزاروں لڑکیاں ان لوگوں
کی وجہ سے اپنے مقدر کا ماتم کرتی ہیں، جو خاموشی کے ساتھ محلوں میں جہیز جیسی
لعنت کو پھلنے پھولنے دیتے ہیں۔ اگر اہل محلہ یہ کہنے کی ہمت کر لیں، کہ ہم نقد
والی شادیاں اور مہنگی شادیاں نہیں ہونے دیں گے، تو یہ ایک انقلابی قدم اور ہمارے
دور کی عظیم ترین دینی خدمت ہوگی۔
شادیوں میں معاملہ طے
ہوتا ہے، شادی کی ایک قیمت مقرر کر دی جاتی ہے، اور لڑکی کے والد کو وہ قیمت ادا
کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف مہر کے طور پر جو کچھ بھی نظر آتا ہے، وہ لڑکی
کو بطور تحفہ دیا جاتا ہے، چاہے لڑکی کتنی ہی اچھی ہو یا مرد کتنا ہی اچھا ہو۔ مہر
واقعی کوئی مہربانی نہیں ہے۔ یہ عورت کو شادی کے وقت ہی مل جانا چاہیے۔ کیونکہ
لڑکی کا ولی (والدین) اپنی بیٹی کے لیے، بطور مہر ایسی رقم کا مطالبہ کر سکتا ہے،
جو لڑکی کے حسب حال ہو، اور اس مہر کو مقر کرنے اور اسے حاصل کرنے کے لیے، لڑکی کے
ولی اور محلہ کے ذمہ داروں کے پاس ایک طریق کار ہونا چاہیے ۔
محلہ والوں کو بھی شادی
سے پہلے کاؤنسلنگ کا اہتمام کرکے، لوگوں کی شادی میں مدد کرنی چاہیے۔ ہماری قوم
میں بہت سی نوجوان لڑکیا،اپنی آنے والی نئی زندگی کی کوئی واضح منصوبہ بندی کے
بغیر ہی شادی کر لیتی ہیں۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ان دنوں زیادہ سے زیادہ پڑھے
لکھے لوگ طلاق لے رہے ہیں۔ اس لیے محلوں میں، شادی سے پہلے تربیتی پروگراموں کا
انعقاد ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو اچھی طرح اندازہ ہو سکے کہ شادی شدہ زندگی کیسی
ہوتی ہے۔
انصاف پر مبنی طلاق
محلہ والوں کی رضامندی کے
ساتھ، آج طلاق اور ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا عام سی بات ہو گئی ہے۔ اسلام میں
طلاق اتنا آسان یا ہلکا کام نہیں، جتنا کہ عالم مغرب میں ہے۔ طلاق کا عمل مکمل
کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنی تمام تر کوششوں کے بعد
بھی، دوبارہ اکٹھے نہیں ہو پاتے، تب تیسرا طلاق دیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ اس سے پہلے
کیا جانا چاہیے، کہ ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے کا شرمناک اور خلافِ اسلام عمل،
قوم میں بے روک ٹوک جاری رہے۔ محلہ والوں کو ایسے کاموں کے سخت خلاف ہونا چاہیے،
جو اللہ کے فرمان کے خلاف ہیں، اور انہیں اس قسم کے طلاق کے عمل کے لیے تیار نہیں
ہونا چاہیے ۔
طلاق کے بعد متاع (گزر
بسر کا انتظام)کا صحیح طریقہ کیا ہے، جو کہ ایک مطلقہ عورت کا حق ہے؟ ہر شعبہ حیات
میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنا اسلام کا نصب العین ہے۔ اگر شادی کرنے پر اسے حق
مہر حاصل ہو سکتا ہے، تو طلاق کی صورت میں متاع (گزر بسر کا انتظام)اس کا حق ہے،
جو اسلام نے اسے دیا ہے۔ قومِ مسلم میں، ایک ساتھ تین طلاقیں دینا اور عورت کو
بغیر کچھ دیے رخصت کر دینا ایک معمول ہے۔ طلاق یافتہ عورت کو منصفانہ متاع (گزر
بسر کا انتظام) دلوانا بھی اہل محلہ کے ذمے ہونا چاہیے۔
خلع
فسخ کے علاوہ، خلع عقد
نکاح کو تحلیل کرنے کا واحد عمل نہیں ہے۔ اسلام میں، خواتین فسخ اور خلع کے طریقے
استعمال کر سکتی ہیں، جو کہ طلاق کے مقابلے میں، بہت آسان اور کم پیچیدہ ہیں۔ خلع
حاصل کرنے کے لیے، ایک عورت کو ایسی کسی بھی پریشانی سے نہیں گزرنا پڑتا، جو ایک
مرد کھڑے کرتا ہے۔ اگر شوہر اسے تحفظ، انصاف اور حقوق نہیں دیتا ، تو وہ عدالت سے
رجوع کر کے، یا مہر واپس کر کے اپنے شوہر کو چھوڑ سکتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ، وہ اس کام کے لیے کس عدالت کا رخ کرے گی؟ اس معاملے میں محلہ عدالتوں کا
استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایسے ہزاروں لوگ ہیں جو خواتین کو دیئے گئے اس حق کے بارے
میں جانتے بھی نہیں، اور ظلم، بے اعتنائی اور تشدد سے بھرپور، جہنم جیسی زندگی
گزار رہے ہیں۔ اہل علم کو یاد رکھنا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ
الوداع میں ہم سے کیا فرمایا تھا: " عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے
رہو۔" پیغمبر اکرم ﷺکی پیروی کرنے والے اساتذہ اور مذہبی رہنماؤں پر یہ ذمہ
داری عائد ہوتی ہے کہ، خواتین کو وہ حقوق اور انصاف ملے جو اسلام انہیں دیتا ہے۔
تعددِ ازدواج
آج تعدد ازدواج کے قانون
کا بھی غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ قانون بیواؤں اور بچوں کے تحفظ کے لیے بنایا
گیا تھا۔ "دو، تین یا چار عورتوں سے شادی کرو اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم یتیموں
کے ساتھ بھلائی نہیں کر پاؤ گے۔" لیکن، اگر آپ کو لگتا ہے کہ ان کے درمیان
انصاف نہیں ہو سکتا، تو صرف ایک ہی شادی کریں۔ قرآن اس موضوع پر بہت واضح اور سخت
ہدایات دیتا ہے۔ جو لوگ ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ "نبی ﷺ
نے بھی ایک سے زائد شادیاں فرمائی" ہیں، تو ان سے پوچھا جانا چاہئے: کیا نبی
ﷺکی پہلی شادی کی طرح ایک شاندار رشتہ ازدواج نبھانا ممکن ہے؟ جب محمد ﷺجوان تھے،
تو آپ نے خدیجہ سے محبت کیا، جو ایک 40 سالہ بیوہ اور دو بچوں کی ماں تھیں۔ ان کی
شادی 25 سال کی عمر میں ہو جاتی ہے۔ خدیجہ کی محمد ﷺسے تیسری شادی تھی۔ وہ لوگ جو
کنوارے رہنا چاہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم یتیموں کی حفاظت کے لیے ایسا کر رہے
ہیں، وہ بالکل ایمانداری کی بات کر رہے ہیں، جب وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی بیوی اور
بچوں کے ساتھ خوشگوار خاندانی زندگی گزارتے ہوئے دوسرا رشتہ چاہتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کے زمانے میں تعدد ازدواج، اب کی طرح کوئی خاص باتی نہیں تھی۔ کبھی کبھی تعدد
ازدواج کیا جاتا، اور پہلی بیوی اور اس کے خاندان کو اس کا علم ہوتا تھا۔ لہٰذا،
اس وقت کی عورتیں مردوں سے زیادہ عقلمند تھیں۔ کیونکہ انہیں اپنے مومن شوہروں سے
بھی اسی طرح کا انصاف ملتا تھا۔ ورنہ شکایات درج کرانے اور انصاف حاصل کرنے کے
لیے، ایک عدالت اور ایک نظا م بھی موجود تھا۔ طلاق اور نکاح کے مقدمات میں انصاف
سے محروم خواتین کے تحفظ کے لیے محلہ عدالتیں قائم کی جائیں۔
مسجد میں داخل ہونے کا
مسئلہ
مسجد محلے کے وسط میں واقع
ہوتا ہے، اس لیے اس میں داخل ہونا سب سے پہلا حق ہے، جس کے لیے مسلمان خواتین کو
کھڑا ہونا چاہیے اور حاصل کرنا چاہیے۔ تاریخ بتاتی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں، عورتیں مساجد کے اجتماعات میں اپنے حقوق کے
لیے آواز اٹھاتی تھیں، اپنی شکایات پیش کرتی تھیں، اور ان کا ازالہ بھی کیا جاتا
تھا۔ ایک واقعہ، جس میں ایک عورت نے عمر رضی اللہ عنہ سے مہر کے بارے میں پوچھا،
وہ بھی مسجد میں ہی پیش آیا تھا۔ ان خواتین کو، انبیاء کے ماضی کا علم تھا، اور وہ
یہ جانتی تھیں کہ انہیں مسجد میں عبادت، علمی اجتماع اور خطبہ کے لیے آنے کا حق
ہے۔ چونکہ وہ ان جگہوں پر جاتی تھیں، اسی لیے مرد بھی انہیں سراہتے، ان کا احترام
کرتے اور ان کی حیثیت کو تسلیم کرتے تھے۔ خواتین سے اپنے مسائل پر بات کرنے کا
موقع چھین لیا گیا، جب انہیں مسجدیا علمی محفلوں میں جانے سے روک دیا گیا۔
محلہ سمیتی
اسلامی شریعت کے احکام پر
عمل کرنا، ایک مسلمان عورت کے لیے آسان ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں، ہندوستان کا
مسلم پرسنل لاء، خواتین کو وہ تحفظ نہیں فراہم کرتا۔ شریعت کے نفاذ کے ذریعے
خواتین کو مساوی انصاف دلانے کے لیے، بہتر ہو گا کہ محلہ ازالہ کمیٹیاں بنائی
جائیں، جن میں خواتین ممبران ہوں۔ خواتین کے مسائل پر غور کرتے وقت ،خواتین کا
موجود ہونا ضروری ہے، کیونکہ انہیں ہی معلوم ہے کہ کون سا مسئلہ کتنا اہم اور کتنا
سنجیدہ ہے۔ ان احمقانہ اور فضول دعوؤں سے بھی پریشان نہ ہوں، کہ اگر عورتیں مسجد
میں آنے لگیں تو فتنہ پیدا ہوگا۔ آج، وہ بطور استاذ کے خدمات انجام دیتی ہیں۔ جب
تعلیم و تعلم کی بات آتی ہے، تو وہ اپنے محلے کے مردوں سے زیادہ ہوشیار ہیں۔ محلہ
سمیتیوں کو چاہئے، کہ وہ ان مسلم خواتین کے خیالات اور آراء کا بھی استعمال کریں،
جو ہوشیار اور ہنر مند ہیں۔
الغرض ! محلہ سسٹم میں،
معاشرتی امداد و حمایت کو فروغ دے کر، خواتین کی شراکت داری کو مضبوت بنا کر،
وسائل اور خدمات تک ان کی رسائی کو بڑھا کر، خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات کو
فروغ دے کر، اور محلےکے اندر سماجی ہم آہنگی اور یکجہتی کو مضبوط کر کے، مسلم
خواتین کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ زمینی سطح پر مشترکہ
کوششوں کے ذریعے، محلہ سسٹم مثبت تبدیلیوں میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے، جن کا
مسلم خواتین اور ان کے معاشرے پر مثبت اثر مرتب ہوگا۔
English
Article: How Mohalla System Can Improve The Life Conditions Of
Muslim Women?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism