سید علی مجتبیٰ،
نیو ایج اسلام
20 جون 2023
ہندوستان میں کچھ ایسے واقعات
رونما ہو رہے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی حیثیت کا اندازہ لگانے کے لیے
تجزیہ کی ضرورت ہے، جن کی مقبولیت ملک میں کم نہیں ہے۔
ہندوستان میں جن واقعات کی بات
کی جا رہی ہے وہ یہ ہیں؛ منی پور کی صورتحال، اتراکھنڈ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم،
بین الاقوامی سطح پر ایوارڈ یافتہ خاتون ریسلروں کا جنسی طور پر ہراساں کیا جانا، کو-وِن
ڈیٹا لیک، اڈانی گھوٹالہ، اڈیشہ میں ٹرین حادثہ، وغیرہ ۔
ان واقعات سے نمٹنے میں ناکامی
ملک کی حکومت پر عائد ہوتی ہے اور ساری ذمہ داری پی ایم کے او پر آکر رک جاتی ہے، لیکن اتنا ہی شرمناک میڈیا
کا کردار ہے جو ان مسائل پر بات نہیں کرتا اور عوام کو یہ نہیں بتاتا کہ مودی کے دور
میں ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ اس سے بھی بدتر عدلیہ کی خاموشی ہے جو وزیر اعظم کے سامنے
ہاتھ جوڑ کر ان تمام پیشرفت کو دیکھ رہی ہے، گویا کہ وہ موجودہ حکومت کی ان خطاؤں اور
کوتاہیوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔
Imphal:
People at the site of a fire incident after violence broke out on Wednesday
between tribal and non-tribal during 'Tribal Solidarity March' called by All
Tribal Student Union Manipur (ATSUM). (PTI Photo)
------
منی پور کی
صورتحال: منی پور میں صورتحال خوفناک ہے۔ منی پور
کی خواتین نے احتجاج میں خود کو منظم کیا ہے اور سڑکیں بلاک کر دی ہیں تاکہ مرکزی فورسز
ان علاقوں تک نہ پہنچ سکیں جہاں ہجوم دوسری نسلی برادریوں کے گاؤں پر حملہ کر رہے ہیں۔
درحقیقت وہ فوجیوں کی شناخت کی جانچ کرنے کے لیے مرکزی فورسز کی گاڑیوں کو روک رہے
ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا اس گاڑی میں اس خاص نسل کا کوئی افراد تو نہیں
جو تنازعہ میں ملوث ہے۔ یہاں تک کہ آسام رائفلز کے لیے کھانے پینے کا سامان اور دیگر
ضروری اشیاء لے جانے والی گاڑیوں کو بھی جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ آسام رائفلز
کے کچھ یونٹوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے فوج کا سامان لینا پڑا۔ یہ شمالی مشرقی ہندوستان
کی سب سے اہم ریاستوں میں سے ایک کی حالت ہے جو میانمار کو ایکٹ ایسٹ پالیسی کے گیٹ
وے میں شامل کرتی ہے۔
بہت کوششیں کی جا رہی ہیں مثلاً
وزیر داخلہ امت شاہ کا منی پور کا چار روزہ دورہ۔ ان کے سفیر، آسام کے سی ایم ہیمنتا
بسوا سرما نے بھی صورتحال پر قابو پانے کے لیے امپھال کا دورہ کیا لیکن ان کوششوں سے
کوئی فرق نہیں پڑا۔ گوہاٹی میں کوکی عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ مذاکرات کے بعد بھی
آسام کے وزیر اعلیٰ اور شمالی مشرق کے بی جے پی کے کوآرڈینیٹر زمینی صورتحال کو تبدیل
نہیں کر سکے۔ مرکزی حکومت نے منی پور کے لیے ایک نیا سیکورٹی مشیر مقرر کیا ہے، جو
ایک ریٹائرڈ پولیس افسر ہیں، لیکن وہ بھی تشدد کو روکنے میں ناکام رہے ہیں، امن کو
بحال کرنے کی تو بات چھوڑ دی جائے۔ یہاں تک کہ ریاست کے باہر سے لائے گئے نئے ڈی جی
پی بھی منی پور میں موت کا ننگا ناچ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
یہ ایک ہندوستان کی ریاست میں ہونے
والے غیر معمولی واقعات ہیں اور یہاں کا میڈیا ہندوستانیوں کو 45 دن سے زیادہ پرانی
اس صورتحال سے نمٹنے میں حکومت کی نااہلی نہیں دکھا رہا ہے۔
میڈیا کے لیے تبلیغی جماعت کے اراکین
کا نظام الدین مرکز میں اجتماع منعقد کرنے اور ہندوستان میں کورونا وائرس پھیلانے کی
کہانی زیادہ اہم تھی کیونکہ اس میں مسلمانوں سے نفرت اور انہیں ریاست کا دشمن قرار
دینے کا خفیہ ایجنڈا تھا۔ منی پور میں ہونے والی پیش رفت کی رپورٹنگ ایک حکومت مخالف
سرگرمی ہوگی جسے کوئی بھی میڈیا نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ ایسا کرنے سے حکومت کی جانب
سے ان کی فنڈنگ بند ہو سکتی ہے۔
اس کی تمام تر ذمہ داریا ں یقینی
طور پر وزیر اعظم کی میز پر جا کر رکتی ہیں جنہوں نے منی پور پر ایک لفظ بھی نہیں کہا
جہاں غیر مستحکم صورتحال اب بھی برقرار ہے۔ 135 سے زائد جانوں کے ضیاع اور 60,000 افراد
کے بے گھر ہونے کے بعد بھی مودی کی خاموشی حیران کن ہے۔ یہ وہ حربے ہیں جو وہ ہندوستان
کو درپیش تکلیف دہ مسائل سے نمٹنے کے لیے باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں، لداخ میں چینی
دراندازی، اڈانی کی غلط حرکتیں، پیگاسس جاسوسی کانڈ اور پہلوانوں کا احتجاج وغیرہ۔
وزیر اعظم نے ہندوستان کے لوگوں سے ان مسائل پر بات کرنے سے گریز کیا ہے لیکن وہ آل
انڈیا ریڈیو پر 'من کی بات' کرنا پسند کرتے ہیں۔
منی پور کا بحران بہت گہرا
ہو چکا ہے اور اس کی کئی پرتیں ہیں۔ صورتحال سے نمٹنے میں مرکزی حکومت کا سیکورٹی پر
مبنی نقطہ نظر مسئلہ کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔ منی پور کے لوگ بغیر کسی حل کے اس بھارت
میں خود کو اکیلا محسوس کر رہے ہیں۔ ان کی حالت جموں و کشمیر کے لوگوں کی طرح ہے جو
اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ کیوں ان کے بادشاہ نے 1949 میں ریاست منی پور
کو انڈین یونین میں ضم کر دیا تھا۔ ریاست کے لوگوں کو لگتا ہے کہ منی پور میں بدامنی
کے ذمہ دار پی ایم مودی ہیں۔
اتراکھنڈ
میں مسلمانوں پر ظلم
اتراکھنڈ میں، مسلم برادری کے خلاف
نفرت انگیز تقریر، چوکسی اور ہدف بنا کر فرقہ وارانہ تشدد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا
ہے۔ اتراکھنڈ میں مقامی ہندوتوا گروپ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف مذہبی منافرت اور دشمنی
اور تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ اور یہ سب کچھ مسلمانوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے ہے تاکہ
وہ وہاں سے بھاگ جائیں۔ مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر 'X' کا نشان لگا ہوا ہے،
اور وہاں کے مسلم باشندوں کو جگہ خالی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی اور اقلیتی
کمیشن کے رہنما محمد زید سمیت بہت پرانے باشندے تشدد کے خطرے کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑ
کر چلے گئے ہیں۔
اخبارات میں اطلاع ہے کہ وشو ہندو
پریشد کی طرف سے تہری کے ضلع مجسٹریٹ کو ایک خط بھیجا گیا ہے جس میں مسلم برادری کے
ارکان کو جونپور وادی اور خاص طور پر نین باغ، جاکھڑ، ناگتیبہ، تھاتیور، سکلانہ، دمتا،
پرولا، برکوٹ، اور اترکاشی کے قصبوں کو چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا گیا ہے۔ اگر وہ خود
ان علاقوں کو چھوڑنے کے الٹی میٹم کا جواب نہیں دیتے ہیں تو ہندو تنظیمیں مسلمانوں
کو زبردستی بے دخل کرنے کے لیے آگے بڑھیں گی۔ حکومت، عدلیہ اور میڈیا اتراکھنڈ میں
مسلمانوں کے خلاف ہونے والے پرتشدد حملوں کو روکنے کے لیے کوئی فعال اقدامات نہیں کر
رہے ہیں۔
Security personnel detain
wrestler Sakshee Malikkh during wrestlers' protest march towards new Parliament
building, in New Delhi, Sunday. PTI
-----
خواتین ریسلروں
کا احتجاج
یوپی سے تعلق رکھنے والے بی جے
پی کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کی طرف سے خواتین پہلوانوں کو مبینہ طور پر
جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا معاملہ ملک میں ایک موضوع بحث ہے۔ نئی دہلی کے جنتر
منتر پر خواتین پہلوانوں نے کھلے عام چھیڑ چھاڑ کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ وہ 23 اپریل
سے ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ کی گرفتاری کا مطالبہ
کرتے ہوئے احتجاج پر بیٹھے تھے۔ اگرچہ یہ بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ پہلوان اس بارے
میں بات کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کس طرح جنسی زیادتی ہوئی ہے، لیکن حکومت ہندوتوا
تنظیموں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان کی حفاظت کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ خواتین پہلوانوں
نے بھی اپنے تمغے دریائے گنگا میں ڈبونے کے اعلان کیا ہے، لیکن حکومت کے کانوں پر جوں
تک نہیں رینگی۔ اب جب ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں نے پہلوانوں کے احتجاج میں شامل ہونے
کا اعلان کر دیا تب مرکزی حکومت کی جانب سے وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر نے احتجاج کرنے
والے پہلوانوں سے ’بات چیت‘ کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ
ملزم رکن اسمبلی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت ملزم کو
تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے اگر چہ اس نے ہندوستان کی ان بیٹیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے
قومی شرمندگی کا ارتکاب کیا ہے جنہوں نے اپنے مادر وطن کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔
Photo:
Cyber Peace Foundation
------
کو ون ڈیٹا
لیک
12 جون 2023 کو، رپورٹیں سامنے
آئیں کہ میسجنگ پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر ایک بوٹ مبینہ طور پر ہندوستانی شہریوں کا ذاتی
ڈیٹا واپس کر رہا ہے جنہوں نے ویکسینیشن کے مقاصد کے لیے پورٹل پر COVID-19 ویکسین انٹیلی جنس نیٹ ورک (CoWIN) کے ساتھ رجسٹر کیا تھا۔
یہ پورٹل 2021 میں ہندوستان کے COVID-19 ویکسین کے انتظام اور انصرام کے لیے بنایا گیا تھا۔
بوٹ نے فون نمبرز کے اندراج پر
ذاتی تفصیلات جیسے نام، آدھار نمبر، اور پاسپورٹ نمبروں کو ظاہر کیا۔ اس پر، وزارت
صحت نے ڈیٹا کی خلاف ورزی کی خبروں کی تردید کی، اور کہا کہ یہ الزامات "شرارتی
نوعیت کے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (CERT-In) پورٹل کے موجودہ سیکورٹی
انفراسٹرکچر کا جائزہ لے رہی ہے۔ علیحدہ طور پر، الیکٹرانکس اور آئی ٹی کے وزیر مملکت
راجیو چندر شیکھر نے کہا کہ نوڈل سائبر سیکورٹی ایجنسی نے مبینہ خلاف ورزی کا جائزہ
لیا اور پایا کہ CoWIN پلیٹ فارم کی "براہ راست خلاف ورزی" نہیں
ہوئی ہے۔ اس طرح ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت چل رہی ہے۔
اڈیشہ میں
ٹرین حادثہ
اڈیشہ کے بالاسور میں تین
ٹرینوں کے تصادم میں کم از کم 261 افراد ہلاک اور 1000 زخمی ہوئے ہیں۔ یہاں ایک مسافر
ٹرین ملحقہ ٹریک پر پٹری سے اتر گئی اور ایک آنے والی ٹرین سے بھی ٹکرا گئی جو قریب
میں کھڑی مال بردار ٹرین سے ٹکرا گئی۔ حادثے کی وجہ "تکنیکی وجوہات" کو مورد
الزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ یہ انسانی لاپرواہی کی وجہ سے ایک انسان
ساختہ سانحہ تھا۔ وزیراعظم نے جائے حادثہ کا دورہ کیا اور مگرمچھ کے آنسو بہائے۔ اس
حادثے کا تجزیہ وزیر اعظم کے ممبئی سے احمد آباد تک ’بلٹ ٹرین‘ کے افتتاح کے اعلان
کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔
اڈانی گھوٹالہ
مودی حکومت نے اڈانی گروپ کے خلاف
دھوکہ دہی کے الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کمپنی کے انفرادی
معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتی۔ کچھ دستاویزات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مودی
حکومت نے کوئلے کے کاروبار کو بڑھانے کے لیے اڈانی گروپ کو غیر معمولی فائدہ پہنچایا
ہے۔ مودی حکومت نے اڈانی گروپ کے 'کوئلے کے کاروبار' کو پھلنے پھولنے میں مدد کے لیے
قانون بھی بنائے۔ مزید یہ کہ الزام ہے کہ اڈانی گروپ ہندوستانی ریاستوں میں بجلی کی
پیداوار اور اس کی تقسیم میں 10,000 کروڑ روپے کے گھپلے میں ملوث ہے۔ اڈانی گروپ نے
بجلی پیدا کرنے اور چلانے کے لیے ریاستی حکومت سے پیسے لیے لیکن بھاری منافع کمایا۔
مودی سرکار اس معاملے پر بالکل خاموش ہے جس کی کارستانیاں امریکہ سے شائع ہونے والی
ہنڈن برگ کی رپورٹ نے سامنے رکھ دیں۔
خلاصہ
ہندوستان پر حکومت کرنے میں وزیر
اعظم نریندر مودی کی ناکامی ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے۔ بی جے پی حکومت کا ملک کی خراب
حکمرانی کے تباہ کن ریکارڈ موجود ہیں لیکن اسے پھر بھی عوام کی حمایت حاصل ہونا حیران
کی بات ہے۔ اس میں پریس کا کردار نمایاں ہے جس نے مودی حکومت سے اس کی ناکامی پر کوئی
سوال نہیں اٹھایا۔ دوسری چونکا دینے والی بات عدلیہ کا ردعمل ہے جو حکومت کے ساتھ کھڑی
ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ حکومت ناکام ہو جائے تو لوگ اس کے تدارک کے لیے عدلیہ کے پاس
جاتے ہیں، اب جب عدلیہ بھی حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لے تو عوام کہاں جائیں گے؟ مودی
کے دور حکومت میں ہندوستان کا یہ حال ہے۔
English Article: Prime Minister Narendra Modi's Popularity Remains
Undiminished, But Governance Is Raising Questions
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism