سلطان شاہین، بانی و
ایڈیٹر، نیو ایج اسلام
12 جنوری
2022
------------------------------------------------------
مسلمانوں کے اندر
بنیاد پرست نظریات کو قبول کرنے کے رجحان کو تبدیل کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا
ہے؟ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ قرآن ابدی ہے، لیکن اس کی تشریح میں مسلسل
تبدیلی آتی رہی ہے، اور اس کا براہ راست شریعت (اسلامی قانون) پر اثر ہوتا ہے۔
مروجہ اسلامی قانون جدید تکثیری نظام سے متصادم ہے اور اس لیے اس میں ترمیم کی
ضرورت ہے۔ اس طرح کی ترمیم کے لیے مسلمان کیا کوششیں کر رہے ہیں؟ کیا کوششیں کی جا
چکی ہیں؟
-----------------------------------------------
جناب سلطان شاہین کی گفتگو کا مکمل متن اور اس کے بعد سوال و جواب کی نشست کی مکمل روداد
ریڈیکل آئیڈیالوجی 9/11
کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ طاقتور اور مضبوط ہو چکی ہے۔ نام نہاد دولتِ اسلامیہ
نے اگر چہ اپنا علاقہ کھو دیا ہے، لیکن بنیاد پرستوں نے افغانستان اور افریقہ میں
نئے علاقے حاصل کر لیے ہیں۔ آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ اپنے زہریلے نظریات کی
تبلیغ جاری رکھے ہوئے ہیں اور تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کر رہے
ہیں۔ اب ان کا ایک اہم ہدف ہندوستانی مسلمان ہیں، جنہیں وہ اپنے نئے پروپیگنڈہ
میگیزین وائس آف ہند کے ذریعے اپنی ہی حکومت کے خلاف جہاد کے لیے اکسانے کی کوشش
کر رہے ہیں۔
بہت سے لوگ 9/11 کے بعد
امریکی خارجہ پالیسی کی غلطیوں کو ان کی طاقت میں اضافے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
لیکن میں اسے نہیں مانتا۔ اس کی ایک وجہ ہے۔ میں 1980 کی دہائی میں بطور صحافی
لندن میں مقیم تھا۔ 87-1986 کے موسم سرما میں ناٹنگھم میں ایک بنیاد پرست مسلم
نوجوان سے مجھے ملاقات کا موقع ملا۔ وہ میرے
ایک دوست کے بچوں کو اہلحدیث بنانے کی کوشش کر رہا تھا، جو اس وقت کی سعودی
حکومت کی حمایت یافتہ سلفی فرقہ ہے۔ ان کے نزدیک اہلحدیث ہی حقیقی مسلمان ہیں۔ میں
نے اس سے پوچھا کہ تم دوسرے مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچتے ہو؟ اس نے کہا کہ یہ
اسلام کے اولین اور بدترین دشمن ہیں۔ میں
نے اس سے پوچھا "لیکن وہ مسلم کمیونٹی کا 99 فیصد ہیں، تم ان سے کیسے پیش آؤ
گے۔ اس نے بغیر کسی ترددکے جواب دیا "انہیں مار ڈالیں گے "۔ اس نے مجھے
سوچنے پر مجبور کیا۔ آخر وہ صرف ایک نوجوان طالب علم ہی تھا۔ میں نے سوچا کہ میری
برادری میں کچھ ایسا ہو رہا ہے جس کے بارے میں مجھے علم نہیں ہے۔
میں نے کبھی بھی اسلام کو
انتہا پسندی اور تشدد سے نہیں جوڑا۔ میں نے اس واقعہ کی چھان بین شروع کی تو معلوم
ہوا کہ برطانیہ کی زیادہ تر یونیورسٹیوں میں پہلے ہی 60 سے 70 فیصد مسلم طلباء ایک
کرشماتی سلفی عمر بکری کے زیر اثر انتہا پسندانہ ذہنیت حاصل کر چکے ہیں جو بعد میں
اسامہ بن لادن کا ترجمان بنا۔ یہ 1987 کے اوائل کا دور تھا، اس لیے میں یہ قبول
نہیں کر سکتا کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض 9/11 کے بعد کی غلطیوں کی وجہ سے ہے۔
اسلام اب تقریباً دہشت
گردی کا مترادف ہو چکا ہے۔ کیا اس بات سے
مسلمانوں کو کوئی پریشانی ہے؟ ہاں، کچھ مسلمان پریشان ہیں۔ لیکن روایتی
مسلم علمائے کرام نہیں۔ ہو سکتا ہے وہ عوامی طور پر یہ بات نہ کہیں لیکن وہ اصولی
طور پر بنیاد پرست بیانیہ سے متفق نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی
نے 1940 کی دہائی میں کہا تھا، "اسلام کو پوری دنیا کو فتح کرنا ہے، صرف اس
کے کسی حصے کو نہیں۔" بنیاد پرست مذہبی علما کے مطابق اسلام غیر مسلموں کو
اپنے مذہب پر رہنے اور اس پر عمل کرنے کی اجازت دے سکتا ہے، لیکن یہ انہیں اقتدار
کے عہدوں پر رہنے کی اجازت نہیں دے سکتا، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف مظالم کرنے کی تو بالکل نہیں،
یہ انہیں مسلم طاقتوں پر غلبہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا جیسا کہ وہ اب کر
رہے ہیں۔
بنیاد پرست اسلام پسندی
کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ اس کی مضبوطی اس حقیقت میں مضمر ہے کہ یہ ناقابل اعتراض
ابتدائی اسلامی تاریخ پر مبنی ہے، نہ کہ صرف اسلامی صحیفوں پر۔ بہت سے لوگوں کو
صحیفوں کی سمجھ نہیں ہوتی ہے ۔ لیکن تاریخ سے ہر کوئی خود کو جوڑ سکتا ہے۔ صحیفوں
کی مختلف تشریحات پیش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن قائم شدہ تاریخ ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے۔
کافروں، مشرکوں، مرتدوں کے خلاف جنگیں۔ یہ سب درحقیقت ساتویں صدی عیسوی میں ہوئیں
اور مسلمان اس وقت فتح یاب ہوئے جب وہ بہت کمزور تھے۔ مسلمانوں نے حکمرانی کرنے
والی دو سپر پاورز کو تباہ کر دیا۔ اس وقت کا عالمی نظام تہ و بالا ہو گیا۔ اسلام
کی آمد کے بعد ایک صدی کے اندر اندر سپین سے لے کر چین کی سرحدوں تک اسلام کی
حکومت قائم ہو گئی۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو جیسے لا مذہب شخص
نے اسے ایک معجزہ قرار دیا۔ اب بنیاد پرستوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک بار پھر
دو سپر پاورز کو شکست دی ہے۔ اور یہ بھی ایک الگ معجزہ ہے، جیسا وہ دعوی کرتے ہیں،
اور اس سے ایک بار پھر ان کے ایمان کو تقویت ملتی ہے۔9/11 کے بعد کے واقعات کے
نتیجے میں وہ کافی حد تک بااختیار محسوس کرتے ہیں۔
اعتدال پسند مسلمان اس
رجحان کو تبدیل کرنے اور مزید بنیاد پرستی کو روکنے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔
ایک عالمی برادری کے طور
پر مسلمانوں نے اپنے مذہبی ماہرین اور علمائے کرام کو دہشت گردی کے خلاف فتویٰ
جاری کرنے کی ترغیب دی ہے۔ عملی طور پر ہر مسلم مذہبی ادارہ ایسا فتویٰ جاری کر
چکا ہے۔ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ان میں سے کچھ فتووں پر لاکھوں علماء
نے دستخط بھی کیے ہیں۔ وہ سب جذباتی طور پر اسلام کو امن کا مذہب قرار دیتے ہیں
اور دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔
لیکن یہ فتوے کام نہیں
آئے اور نہ ہی وہ کام آئیں گے۔ اس کی وجوہات بہت واضح ہیں۔
اول، یہ فتوے زیادہ تر
محض بیان بازیوں پر مشتمل ہیں جن میں بنیاد پرست بیانیہ کی بنیادوں پر سوال نہیں
اٹھائے گئے ہیں۔ جہادی اسلامی فقہ اجماع کی فقہ ہے۔ یہ گذشتہ 1400 سالوں میں اسلام
کے تمام فرقوں کے متعدد قابل احترام علماء کی آراء سے تیار ہوا ہے۔ اس کا مقابلہ
محض اس بیان سے نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ دہشت گردی کی تردید میں
دئے گئے زیادہ تر فتووں میں قرآن کی ایک مشہور آیت (5:32) پیش کی گئی ہےجس میں کہا
گیا ہے کہ ایک بے گناہ کا بھی قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک شخص کو بچانا
پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔
دوم، جہادی بیانیہ کا
مقابلہ ایسے فتوے سے نہیں کیا جا سکتا جو بذات خود ان بنیادی باتوں سے اتفاق کرتا
ہو جن پر وہ بیانیہ مبنی ہے۔ میں آپ کو ایک ٹھوس مثال دیتا ہوں۔ دنیا بھر سے
تقریباً 126 معروف اعتدال پسند علما، جن میں سے زیادہ تر امریکہ سے ہیں، نے اگست
2015 میں خود ساختہ خلیفہ بغدادی کو ایک کھلا خط لکھا جس میں ان کی سرگرمیوں کی
مذمت کی گئی۔ اس 14,000 الفاظ پر مشتمل فتویٰ کو ایک بڑی پیش رفت قرار دیا گیا اور
اس سے کچھ توقعات بھی وابستہ ہوئیں، لیکن اسی سال دنیا کے 86 ممالک سے 40,000
تعلیم یافتہ مسلم نوجوان داعش میں شامل ہوئے۔ بظاہر، عالمی مسلم کمیونٹی کی اعتدال
پسند آواز کی نمائندگی کرنے والے اسلام کے تمام فرقوں کے نامور علماء کے اس مشہور
فتوے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
میں نے اس کھلے خط پر
2,000 الفاظ پر مشتمل تنقیدی تحریر لکھی ہے جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ
کیوں یہ کھلا خط بالآخر ناکامی کا منھ دیکھے گا۔ یہ میری ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
لیکن میں آپ کے سامنے ایسے کچھ وجوہات رکھوں گا جن کا میں نے حوالہ دیا تھا۔
اس کھلے خط نے درحقیقت یہ
کہہ کر جہادی کام کو آسان بنا دیا کہ: "... قرآن میں موجود ہر چیز حق ہے، اور
حدیث صحیح کی ہر بات وحی ہے۔" اس میں یہ بھی کہا گیا ہے: "حدیث وحی کے
مترادف ہے،" حالانکہ نبی کے یہ نام نہاد اقوال آپ کی وفات کے 300 سال بعد
تک مدون کیے گئے تھے۔ یہی بات جہادی بھی
ہمارے نوجوانوں کو بتاتے ہیں۔
یہ 126 علمائے کرام یہ
بھی بتاتے ہیں کہ قرآنی آیت (2:256) "دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں
ہے،" کو ہو سکتا ہے کہ بعد میں نازل ہونے والی جنگی آیات نے منسوخ کر دیا ہو۔
وہ تنسیخ کے جہادی نظریہ سے واضح طور پر متفق ہیں جس کے مطابق بعد میں مدینہ میں
نازل ہونے والی جہاد کی آیات نے امن اور رواداری کی مکی آیات کو منسوخ کر دیا ہے۔
صرف ایک جہادی آیت (9:5) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے مکہ میں نازل ہونے والی
124 امن والی آیات کو منسوخ کر دیا ہے۔
اسی طرح، اعتدال پسند
علمائے کرام کہتے ہیں: "حدود کی سزائیں قرآن اور حدیث میں متعین ہیں اور
اسلامی قانون میں بلاشبہ واجب ہیں،" وہ اس طرح شریعت کے بارے میں بغدادی
قبیلے کی بنیادی اصولوں کو قبول کرتے ہیں جو زیادہ تر ساتویں صدی کے بدو عربوں
کیلئے تھی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 120 سال بعد پہلی بار مرتب کی
گئی تھی۔
نیز، معروف اعتدال پسند
علمائے کرام شرک اور بت پرستی کے تمام مظاہر کو تباہ اور ختم کرنے کی فرضی ذمہ
داری کو قبول کرتے ہیں۔ آج کے مسلمانوں کو کیا حق ہے کہ وہ ان بتوں کو توڑ دیں
جنہیں دوسرے مذاہب کے لوگ پوجتے ہیں؟ یہاں تک کہ بامیان کے بودھ بھی 1300 سال کی
مسلم حکومت میں باقی رہے تھے ۔ اور اسی
طرح مسلم دنیا میں دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں ہیں۔
اس سے اعتدال پسندی اور
انتہا پسندی کے درمیان فرق مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ مرکزی دھارے اور اعتدال
پسند اسلام کی حمایت کے بعد دہشت گرد نظریہ سازوں کو اس سے بڑھ کر اور کیا
تحفہ چاہیے؟
علمائے دین کا مسئلہ یہ
ہے کہ انہوں نے وہی روایتی فقہ پڑھی اور سیکھی ہیں جس پر جہادی بیانیہ کی بنیاد
ہے، اس لیے وہ اس کی حکمت عملی، نفاذ، وقت کا انتخاب وغیرہ پر سوال اٹھانے سے زیادہ کچھ نہیں کر
سکتے۔
اب باقی چند منٹوں میں،
میں آپ کے سامنے چند ایسے نکات رکھنا چاہوں گا جن میں میرے خیال میں جوابی بیانیہ
بننے کی صلاحیت ہے جو جہادی تعلیمات کی جڑ پر حملہ کرے گا۔ یہ جوابی بیانیہ اسلامی
تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے اور اسے قابل قبول بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ علماء و
فقہاء کو نظر انداز کرتے ہوئے صحیح طریقے سے مسلمانوں کے درمیان پیش کیا جائے۔ خوش
قسمتی سے، آج ہمارے پاس ایسے تکنیکی ذرائع موجود ہیں کہ جن کی مدد سے روایتی
علمائے کرام کی طرف سے چلائے جانے والے مساجد اور مدارس سے رجوع کیے بغیر جوابی
بیانیہ کو براہ راست مسلم عوام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
1.
قرآن
اللہ کی مخلوق ہے۔ یہ ان آیتوں کا ایک مجموعہ ہے جو ابتدائی مکی دور میں محمد ﷺ پر
نازل کی گئی ہیں۔ یہ مکی آیات ہمیں امن اور ہم آہنگی، اچھی ہمسائیگی، صبر، تحمل
اور تکثیریت کا درس دیتی ہیں۔ یہ قرآن کی بنیادی اور تشکیلی آیات ہیں۔ یہ اسلام کے
بنیادی پیغام کو تشکیل دیتی ہیں۔
2.
قرآن
میں بہت سی سیاق و سباق والی آیات بھی ہیں، مثلا جنگ کے وقت کی ہدایات۔ ایسی آیات
آج ہم مسلمانوں پر لاگو نہیں ہوتیں۔
3.
آج
جس انداز میں بنیاد پرست عناصر تنسیخ کا اصول بیان کرتے ہیں وہ غلط اور بے بنیاد
ہے۔ خدا کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتا جسے بعد میں منسوخ کرنا پڑے۔ لہٰذا جنگ کی
مدنی آیات نے پہلے کی امن اور تکثیریت والی مکی آیات کو منسوخ نہیں کیا ہے۔
4.
خدا
نے توہین رسالت اور ارتداد کے لئے کسی بھی سزا کا تعین نہیں کیا۔ اور نہ ہی اس نے
کسی بھی انسان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کفر اور شرک پر کسی شخص کو سزا دے۔ لہذا
اگر علماء کی نظر میں کسی نے ان جرائم کا ارتکاب کیا ہے تب بھی اس کی سزا خدا پر
ہی چھوڑ دی جائے گی۔
5.
ہم
اب جدید قومی ریاستوں کے دور میں رہ رہے ہیں؛ ہمارے بین الاقوامی تعلقات اقوام
متحدہ کے چارٹر کی ہدایات کے پابند ہیں جن پر تمام مسلم اکثریتی ممالک سمیت دنیا
کے تقریبا تمام ملکوں نے دستخط کیے ہیں۔ لہٰذا سال میں کم از کم ایک بار جہاد کرنے
کی تمام باتیں بند ہو جانی چاہیے۔
6.
مسلمانوں
کی عالمی خلافت کی دعوت کا جواز نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی کسی حدیث میں۔ جدید
تکثیری ریاستیں اس پہلی اسلامی ریاست کے ساتھ بہت زیادہ مشابہ ہیں جسے ہمارے نبی ﷺ
نے میثاق مدینہ میں فراہم کردہ آئین کے تحت قائم کیا تھا ۔
7.
جدید
جمہوریت امرھم شوریٰ بینھم کے قرآنی حکم کی عملی شکل ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو
جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
8.
اسلام
بنیادی ادی طور پر نجات کے بہت سے راستوں میں سے ایک روحانی راستہ ہے (قرآن 5:48)،
بالادست سیاسی نظریہ نہیں۔ جیسا کہ قرآن تمام سابقہ مذاہب کی تصدیق کے لیے آیا ہے،
ہم دوسرے تمام مذاہب کو صرف اسی اللہ کی طرف ایک راستہ مان کر ان کا احترام کر
سکتے ہیں۔
9.
الولاء
و البراء کا اصول جس کا پروپیگنڈہ انتہا پسند عناصر کرتے ہیں غلط فہمی اور ناقص سوچ
پر مبنی ہے اور آج کے انتہائی مخلوط اور باہم مربوط عالمی معاشرے میں ناقابل عمل
ہے۔۔
میں یہ اور اسی طرح کے
نکات اپنے قارئین کو سمجھاتا رہتا ہوں، اس امید پر کہ عام مسلمان ان پر غور کریں
گے اور بتدریج اتفاق رائے قائم ہوگی۔
------
مڈل ایسٹ فورم کے سٹیسی رومن
کے ذریعہ پیش کردہ سوال و جواب کے سیشن کی نقل (وضاحت کے لیے قدرے ترمیم کی گئی ہے(
سٹیسی رومن:
شاندار۔ بہت بہت شکریہ. ہمارے پاس جیفری نورووڈس سے پہلا سوال ہے۔ اسلام مدینہ کی
پاسداری اور تنسیخ کے قانون کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلم دنیا
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مخصوص الفاظ
کا انکار کرے اور مرتد بھی نہ ہو؟
سلطان شاہین:
ایک غیر مستحکم انٹرنیٹ کنکشن کی وجہ سے، مجھے آپ کا سوال پوری طرح سے نہیں ملا،
لیکن میرا خیال ہے کہ آپ شاید مکی اور مدنی آیات کے بارے میں بات کر رہے ہیں، ان
میں فرق ہے۔ کیا واقعی؟ ہاں۔ ہوتا یہ ہے کہ جہادی نقطہ نظر اور روایتی اسلامی
نظریہ بھی یہ ہے کہ چونکہ مدینہ کی جنگ کی آیات بعد میں آئی ہیں، اس لیے انھوں نے
امن کی سابقہ مکی آیات کو منسوخ کر دیا ہے۔ مکی آیات اس وقت آئی تھیں جب مسلمان
بہت کمزور تھے۔ وہ تعداد میں بہت کم تھے۔ وہ مکہ میں مقیم تھے، اور ان کا محاصرہ
کیا گیا تھا۔ ہماری اپنی کوئی ریاست نہیں تھی۔ ہم میں لڑنے کی طاقت نہیں تھی۔ اور
اس طرح مدینہ میں آنے والی ان نئی آیات نے پچھلی آیات کو منسوخ کر دیا ہے۔ حالانکہ
یہ ایک بہت ہی غلط عقیدہ ہے۔ اور اعتدال پسند علماء کے لیے، جیسا کہ میں نے آپ کو
بتایا، منسوخی کے اس نظریے کی حمایت کرنا جہادیوں کی فقہ کی حمایت کے مترادف ہے۔
یہ ان کا نظریہ ہے۔ یہ ان کے مطابق ہے۔ ایک آیت 9:5 قرآن کی 124 آیات سے کیسے
متصادم ہو سکتی ہے اور ان تمام کو منسوخ بھی کر سکتی ہے، جو پہلے مسلمانوں کو
بقائے باہمی اور تکثیریت اور دوسرے مذاہب کو قبول کرنے کی تعلیم دیتی تھیں۔ لا اکراہ فی الدین مثلاً دین
میں کوئی جبر نہیں ہے۔ یہ اعتدال پسند اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ ہم
اسلام کو اس طرح پیش کرتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ ہم آج کی جدید دنیا میں اسی طرح رہ
سکتے ہیں۔ ہم ایسی دنیا میں نہیں رہ سکتے جس میں مذہب مجبوری ہو۔ آپ لوگوں کو
تبدیل نہیں کر سکتے، انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے یا اس کے لئے ان
پر زبردستی نہیں کر سکتے۔ یہ ایک ناممکن چیز ہے۔
لہٰذا ہم مسلمانوں کو
باہر نکل کر یہ تمام باتیں بلند آواز سے اور بار بار کہنی ہوں گی اور اپنے عام
لوگوں تک پہنچانی ہوں گی، جیسا کہ میں نے کہا، علمائے دین کو نظرانداز کرتے ہوئے،
کیونکہ وہ کبھی اسے قبول نہیں کریں گے۔ جیسا کہ میں نے آپ کو ان 126 علماء کی مثال
دی جو اعتدال پسند علماء کے طور پر بہت مشہور ہیں، دنیا بھر کی حکومتیں ان کا بہت
احترام کرتی ہیں، اور ان میں سے کچھ دراصل خود امریکہ اور یورپ اور دنیا کے دیگر
حصوں میں رہتے ہیں۔ اور وہ وہی بات کہہ رہے ہیں جو جہادی فقہ کہہ رہی ہے، جیسا کہ
میں نے آپ کو سمجھا دیا ہے، وہ دراصل اس کی تردید کے بجائے اس کی فقہی نظریات کو مضبوط
کر رہے ہیں۔
سٹیسی رومن:
شکریہ۔ آرنلڈ کوہن سوال کرتے ہیں کہ کیا اس قومی ریاست کا قانون جس میں مسلمان
رہتے ہیں اسلامی قانون پر فوقیت رکھتا ہے؟ اسلامی قانون اور اس ملک کے قانون کا
کیا تعلق ہے جس میں اسلام پر عمل کیا جا رہا ہو؟ کیا جوابات اسلام کے مخصوص فرقوں
کے لحاظ سے مختلف ہوں گے؟
سلطان شاہین:
جیسا کہ میں نے کہا، اسلامی قانون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے 120 سال بعد
وضع کیا گیا تھا، اور تب سے یہ بدل رہا ہے۔ یہ ہر ملک میں مختلف ہے۔ آج بھی مختلف
مسلم ممالک میں مختلف قوانین ہیں۔ ان میں سے کچھ صرف عائلی قوانین پر عمل کرتے ہیں
اور کچھ نہیں۔ ان میں سے اکثر اصل میں صرف عائلی قوانین پر ہی عمل کرتے ہیں۔ اور
یہاں تک کہ ان میں بھی اختلافات ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان، جو کہ ایک اسلامی
جمہوریہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اس نے خود اسلامی قانون، حتیٰ کہ عائلی قوانین میں
بھی تبدیلی، ترمیم اور اصلاح کی ہے۔ یہاں تک کہ تین طلاق کا قانون بھی، جسے شریعت
کا حصہ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، اور نہ ہی یہ کسی بھی طرح سے ہو
سکتا۔ قرآن میں اس کی کوئی اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا شریعت پر اصرار کرنے کا کوئی
فائدہ نہیں ہے، اور یورپ میں رہنا اور یورپ کو ایک شریعت کنٹرولڈ زون کے طور پر
قائم کرنے کی چاہ رکھنا بے معنی ہے۔ میں برطانیہ میں مقیم تھا اور ایک بار میں نے
مشرقی لندن کا ایک حصہ دیکھا جسے انتہا پسند اسلام پسندوں نے شریعت کنٹرول والا
علاقہ قرار دیا تھا۔ یہ کیسی بکواس بات تھی؟ چنانچہ اس قسم کی باتیں جو مسلمان
کہتے رہتے ہیں اور جہادیوں نے بعض مسلمانوں کو یہ باور کرایا ہے کہ بحیثیت مسلمان
یہ ان کا فرض ہے کہ وہ دنیا پر شریعت نافذ کریں اور دنیا کے ہر معاشرے کو شرعی
قوانین پر عمل کرنا چاہیے۔ اور یہ کہنا ہمارا فرض ہے کہ یہ سب لغو ہے۔ اور یہ ہمیں
بار بار، بار بار کہنا چاہیے ۔ اور یہ اسلامی صحیفوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ باتیں
ہم قرآن و حدیث کے دائرے میں رہ کر کہہ سکتے ہیں۔
سٹیسی رومن:
شکریہ۔ رابرٹ سلیٹر پوچھتے ہیں، کیا صوفی اسلام آپ کے موقف کے کچھ قریب آتا ہے؟
سلطان شاہین:
صوفی فقہ نہیں؟ صوفی اسلام میں دو چیزیں ہیں۔ ایک صوفی بزرگوں کا طرز عمل، کہ کس
طرح وہ غیر مسلموں کے ساتھ پیش آتے تھے۔ درحقیقت بہت سے لوگوں نے ان کے سلوک کی
وجہ سے اسلام قبول کیا، مثلاً میرے ملک کو ہی دیکھ لیں جہاں چھوا چھوت اور اس جیسی چیزیں تھیں اور ان صوفیوں نے سب کو
دعوت دی کہ وہ آئیں اور ان کے ساتھ بیٹھیں اور ان کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر
کھانا کھائیں۔ تو یہ ان کا طرز عمل تھا۔ انہوں نے خدمت خلق کو اسلام کا سنگ بنیاد
بنایا جو کہ انسانیت کی خدمت ہے۔ پھر انہوں نے اس کی بھی تبلیغ جسے اب ویدوں سے
ماخوذ سمجھا جاتا ہے، اور وہ مون ازم ہے، مونوتھی ازم نہیں، یعنی خدا ہر جگہ ہے
اور خدا ہم سب میں ہے۔ وحدۃ الوجود اور ہم
سب ایک ہی الہی خدائی عنصر سے بنے ہیں۔ تو ہم سب ایک ہیں۔ لہٰذا یہ صوفیوں کا
پیغام تھا، اور جیسا کہ آپ کو اس کے بارے میں معلوم ہے ان میں سے کچھ کو اسی لیے
سولی دے دی گئی تھی۔ تو یہ ہے صوفی طرز عمل، کہ وہ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ اور اسی
طرح ہمارے ہاں تصوف کا بھی اتنا احترام ہے۔
لیکن پھر صوفی فقہ بھی
ہے۔ ایسے صوفی ہیں جنہوں نے صوفی تعلیمات کو روایتی اسلامی فقہ کے ساتھ ملانے کی
کوشش کی ہے اور وہ کم و بیش یہی باتیں کہتے ہیں۔ درحقیقت، آپ دیکھیں گے کہ تمام
اسلامی مکاتب فکر میں، بشمول شیعہ اور سبھی سنی فرقوں کے-- جب اسلام کا، اسلام کا
غیر مسلموں کے ساتھ تعلق کا، اسلام کی بالادستی کا، علیحدگی پسندی کا اور اسلام کے
اندر زینوفوبیا کا سوال آتا ہے تو یہ سب ایک ہو جاتے ہیں۔ وہ سب کم و بیش ایک جیسی
باتیں کہتے ہیں، شاید بعض اوقات کچھ مختلف الفاظ اور کچھ مختلف اصطلاحات استعمال
کرتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر ایک ہی وہ سب ایک ہی چیز ہوتی ہے۔ اور صوفی فقہ بھی
اس سے مختلف نہیں۔ چنانچہ جب چند سال پہلے دہلی میں ایک بڑی بین الاقوامی صوفی
کانفرنس ہوئی تو میں نے کھلے خط کی شکل میں ایک طویل تحریر لکھی تھی، جس میں صوفی
علما سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ ان مسائل پر غور کریں اور اپنے فقہ کو جدیدیت کے
مطابق اور صوفیاء کے طرز عمل کے مطابق بنائیں۔
سٹیسی رومن:
بہت شکریہ۔ یوزیف ٹائلز پوچھتے ہیں، چونکہ قرآن کا زیادہ تر حصہ کافروں کی سزا اور
اذیت کے بارے میں بات کرتا ہے، اس لیے کیا قرآن کو زیادہ معتدل مقدس کتاب سے تبدیل
کرنا ممکن ہوگا؟
سلطان شاہین:
نہیں، میرا مطلب ہے، آپ صحیفے نہیں تبدیلی نہیں کر سکتے۔ دنیا میں بہت سارے صحیفے
ہیں اور ان سب میں ایسی باتیں ہیں جو آپ کو پسند نہیں ہیں اور جو جدید حساسیت سے
مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ آپ انہیں تبدیل نہیں کر سکتے۔ لیکن آپ کیا کر سکتے ہیں۔
اور جہاں تک قرآن کا تعلق ہے، میرا خیال کئی دہائیوں سے رہا ہے کہ ہم اپنے لوگوں
کو بتائیں کہ ان میں سے کچھ آیات سیاق و سباق والی ہیں۔ کسی بھی جنگ میں جب جنگ
ہوتی ہے، آج ہم نہیں جانتے کہ یہ جنگ کیسے ہوئی۔ آپ نے دیکھا کہ حالیہ واقعات میں
بھی ہم بعض اوقات اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ چیزیں کیسے ہوئیں، اصل میں کیا
ہوا، لہٰذا اگر اس وقت عرب میں 1400 سال پہلے کسی صحرائی گاؤں میں کچھ ہوا تو ہم
بالکل نہیں جانتے کہ چیزیں کیسے ہوئی ہیں، چیزیں کیوں بنتی ہیں، جس طرح سے وہ تیار
ہوتی ہیں، خدا نے اس قسم کے احکامات دینے میں کیا مجبوری محسوس کی۔ لیکن یہ جنگ کے
وقت کی ہدایات تھیں۔ اور کسی بھی جنگ میں، یہ عام بات ہے۔ کوئی بھی سمجھے گا کہ
کسی بھی جنگی حکم فوجیوں کو مارنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ آپ جنگ میں کیا کرتے ہیں؟
آپ لوگوں کو مارتے ہیں، آپ ان سے لڑتے ہیں، آپ اپنا دفاع کرتے ہیں، آپ اپنے آپ کو
بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور آپ اس عمل میں دوسروں کو مار بھی ڈالتے ہیں۔ چنانچہ یہ احکامات ہر جنگ میں دیئے
جاتے ہیں۔ مستقبل کی جنگوں میں بھی فوج کو لوگوں کو مارنے کے احکامات دیے جائیں
گے۔ لیکن پھر جس لمحے جنگ ختم ہو جاتی ہے، وہ ہدایات اپنی اہمیت اور نفاذیت سے محروم ہو جاتی ہیں۔ 1300 سال پہلے عرب صحرا
کے ایک گاؤں میں ہونے والی جنگ میں دی گئی ہدایات آج ہم پر کیسے لاگو ہو سکتی ہیں؟
اس میں کیا فائدہ ہے؟ اس سے کیا سمجھ میں آتا ہے؟
لہذا ہم قرآن سے آیات کو
نہیں ہٹا سکتے، بلکہ ہم کسی بھی صحیفے کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔ بہت سے صحیفے
ہیں اور ان سب میں ایسی چیزیں ہیں جو آج ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ لیکن ہم
کیا کہہ سکتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ آیات آج ہم مسلمانوں پر لاگو نہیں
ہوتیں۔ یہ بات ہر مسلمان کو سمجھنی چاہیے۔ یہ وہ پیغام ہے جس کے ساتھ ہمیں
مسلمانوں، عام لوگوں تک جانا چاہیے۔ علماء، میں ان سے بہت مایوس ہوں۔ میں ان کے
ساتھ معاملہ کرتا رہا ہوں۔ میں اب کئی دہائیوں سے ان سے بحث کرتا رہا ہوں اور میں
بہت مایوس ہوں کہ یہ لوگ معمولی عقل کے
معاملات کو بھی سمجھنے کے قابل نہیں ہیں۔ آپ ان سے بات نہیں کر سکتے۔ وہ کہیں گے
اوہ یہ تو قرآن میں ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ قرآن غیر مخلوق ہے، جس کا مطلب ہے کہ
یہ خدا کی طرح ہے۔ یہ خدا کا ایک پہلو ہے۔ اس لیے آپ قرآن پر بحث نہیں کر سکتے۔
اور یہ مضحکہ خیز ہے کیونکہ قرآن کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جو آسمان سے گرے ہو۔ یہ
آیات کا مجموعہ ہے، اس میں وہ ہدایات ہیں وقتاً فوقتاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو
دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک ٹکڑوں اور قسطوں میں آتی رہیں۔ اور وہ بنیادی طور پر
پیغمبر کے لئے ہدایت ہوتی تھی کہ پیدا ہونے والی کسی خاص صورتحال سے کیسے نمٹا
جائے۔ وہ صورت حال اب باقی نہیں رہی۔ اسلامی مذہبی تربیت میں ایک پورا شعبہ ہے، آپ
شان نزول کا مطالعہ کریں، جس کا مطلب ہے سیاق و سباق، جس کا مطلب ہے کہ یہ آیت
کیسے اور کیوں نازل ہوئی۔ یہ آیت کس وقت آئی؟ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت کیا
ہو رہا تھا؟ اب شان نزول کو سمجھنے اور مطالعہ کرنے کا کیا فائدہ، اگر آپ یہ بھی
نہ کہیں کہ چونکہ وہ سیاق و سباق باقی نہیں رہا اس لیے یہ آیات قابل اطلاق نہیں
رہیں۔ منطقی نتیجہ یہ ہونا چاہیے۔
سٹیسی رومن:
شکریہ۔ جی ہاں. صحیفوں کے تشریح پر منحصر ہونے کے بارے میں آپ نے شروع میں بات کی
تھی، لیکن تاریخ کا ناقابل تردید ہونا زیادہ دلچسپ تھا۔ جیفری نورووڈ یہ بات کرنا
چاہتے ہیں کہ قرآن کامل اور ابدی ہے۔ کیا قرآن کی تاریخی درستگی کو چیلنج کرنا
ارتدادنہیں ہے؟
سلطان شاہین:
سوالات ہیں کہ اسے کیسے جمع کیا گیا؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے
دس بارہ سال بعد اس شکل میں جمع کیا گیا جس شکل میں اب موجود ہے۔ اور اس کے بارے
میں کچھ سوالات پیدا ہوئے ہیں، قرآن کے کچھ ایسے ٹکڑے ملے ہیں جو بظاہر گرامر کے لحاظ
سے تھوڑے مختلف نظر آتے ہیں، قرات وغیرہ جو آج تمام مسلمانوں کے نزدیک مستند سمجھے
جاتے ہیں۔ وہ معنی نہیں بدلتے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ اس میں زیادہ اختلاف نہیں ہے
سوائے اس کے کہ بعض لوگ ہمیشہ سوال کریں گے۔ جو کچھ بھی 1400 سال پہلے انتہائی غیر
یقینی صورتحال میں ہوا تھا اس پر سوال کیا جائے گا اور سوال کیا جا سکتا ہے۔ اور
لوگوں نے اس پر سوال اٹھایا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسے اسی وقت حفظ
بھی کر لیا تھا اور پھر جب آیات نازل ہوئیں تو اسے لکھنے کے ساتھ ساتھ بہت سے
لوگوں نے حفظ کر لیا۔ اور اتنے سارے لوگوں کی موجودگی میں تیسرے خلیفہ حضرت عثمان
کا قرآن کا بالکل مختلف نسخہ پیش کرنا ممکن نہیں تھا۔
البتہ اسلامی فقہ میں،
خود اسلامی لٹریچر میں، آپ کو کچھ ایسی روایتیں ملتی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ
قرآن کی کچھ آیات غائب ہو گئی ہیں۔ ایک سورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سورہ
بقرہ جتنی بڑی تھی اور اب اس کا آدھا حصہ
ہے۔ تو یہ سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ مسلمانوں نے خود ان کو نہایت دیانتداری سے درج
کیا ہے۔ یہ تمام سوالات جو آئے ہیں اور موجود ہیں اور مدارس میں بھی پڑھائے جاتے
ہیں۔ ایسی کئی کتابیں ہیں جو پڑھائی جاتی ہیں جو ان چیزوں کے بارے میں بتاتی ہیں
اور وہ موجود ہیں۔ لیکن بڑے پیمانے پر۔ قرآنی آیات کی صداقت پر کوئی زیادہ سوال
نہیں ہے۔
سٹیسی رومن:
شکریہ۔ اور یہاں ہمارے آخری لمحات میں، کیا آپ ہمارے ناظرین کو اپنی ویب سائٹ کے
بارے میں کچھ اور بتا سکتے ہیں؟
سلطان شاہین: جی، میں نے
اپنی ویب سائٹ کو 2008 میں شروع کیا تھا اور ہم جو کوشش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ
جہادی ویب سائیٹس میں جو دلائل دیے گئے ہیں ان کا حرف بہ حرف رد کیا جائے اور
یقیناً کچھ مضامین اور بیانات بھی ہیں لیکن یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو ہم کرتے
ہیں۔ کیا. جب ہم نے یہ کرنا شروع کیا تو بدقسمتی سے ہماری سائٹ پر پاکستان میں
پابندی لگا دی گئی۔ پاکستان خود انتہا پسندی سے لڑنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن ہوا
یہ کہ طالبان کا ایک رسالہ نوائے افغان جہاد شائع ہوا اور اسے چھاپ کر پاکستانیوں
میں مفت تقسیم کیا گیا۔ یہ ان کی ویب سائٹس پر بھی دستیاب ہے۔ اس نے ایک بار
اسلامی فقہ کے مطابق شہریوں کے قتل کو جائز قرار دینے والے مضامین کا ایک سلسلہ
شائع کیا۔ لہذا ہم نے اسے اٹھایا، اور ہم نے ہر اس نکتے کی تردید شروع کردی جو وہ
پیش کر رہے تھے۔ یہ کچھ لوگوں کو نامناسب گزرا اور پاکستانی حکومت نے پہلے اردو
مضامین پر پابندی لگائی، پھر انگریزی پر بھی پابندی لگا دی، پھر پورے اردو سیکشن
پر پابندی لگا دی اور پھر پوری ویب سائٹ پر پابندی لگا دی، اور آج آپ پاکستان میں
ہماری ویب سائٹ نہیں پڑھ سکتے۔
ہم ایک کثیر لسانی ویب
سائٹ بھی ہیں، ہم اپنے مضامین کو اردو، ہندی اور ملیالم میں شائع اور ترجمہ کرتے
ہیں جس میں ان علاقوں کا احاطہ کیا جاتا ہے جہاں ہندوستان میں بنیاد پرستی کا بہت
زیادہ اثر ہوتا ہے اور ہمارے پاس بنگلہ، آسامی، تامل اور کنڑ میں بھی مضامین ہیں،
لیکن صرف چند. (ہم فرانسیسی زبان میں بھی ترجمہ
کرتے تھے اور کچھ مضامین اب بھی فرانسیسی سیکشن میں موجود ہیں۔) ہم ابھی تک
ان زبانوں کے لیے صحیح مترجم تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں لیکن ہم انہیں
تراجم کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سٹیسی رومن: newageislam.com کے
بارے میں بات کرنے کا بہت شکریہ۔ آج ہمارے ساتھ شامل ہونے کے لیے جناب سلطان شاہین
کا بہت شکریہ۔
سلطان شاہین:
بہت شکریہ۔ میں آپ سے اور آپ کے ناظرین سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ میری ویب سائٹ
ملاحظہ کریں اور مضامین کے ساتھ ساتھ تبصروں کے حوالے سے بھی تعاون کریں۔ ہم مسائل
پر بحث کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک مضمون پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں تبصرے ہوتے ہیں۔ اور
میں چاہوں گا کہ آپ کے ناظرین بھی مضامین اور تبصروں میں حصہ لیں۔ اپ کا بہت شکریہ
----
English Article: Adjusting To Modernity: Sultan Shahin Tells
An American Audience What Can Be Done To Reverse The Trend Of Muslims Accepting
Radical Ideologies
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia
in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism