مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
12 اکتوبر 2018
جیسا کہ راقم الحروف ماقبل میں ذکر کر چکا ہے کہ قضاء و قدر کے حوالے سے آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ ﷺ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر شئی اللہ کے ارادہ و اختیار اور اس کے فیصلے کی پابند ہے اور کائنات کا کوئی ذرہ حتیٰ کہ انسان کے افعال اور اعمال بھی اللہ کے ارادہ و اختیار کے دائرے میں شمار ہوتے ہیں اور انسان کا مقدر ، اس کا نیک ہونا یا معصیت پرور ہونا اس کا مومن ہونا یا کافر ہونا سب اللہ نے اس کی پیدائش سے قبل ہی لکھ دیا ہے اور یہ نظریہ اس امر کا مقتضی ہے کہ انسان اپنے کسی بھی اقوال ، اعمال و افعال کا ذمہ دار نہیں ہے ، لہٰذا اس پر بازپرس بھی انصاف کے تقاضے کے خلاف ہو گی ۔ جبکہ دوسری طرف قرآن و حدیث میں جابجا نیکیوں پر اجر و ثواب اور کفر و معصیت پر سزا و عتاب کا ذکر بھی ملتا ہے ۔
لہٰذا ہم سب سے پہلے مجدد مائۃ ماضیۃ و مائۃ حاضرہ محقق اعظم کنز الکرامات اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا بریلوی قادری برکاتی (رضی اللہ عنہ وارضاہ عنا) کے نایاب رسالہ مبارکہ ‘‘ثلج الصدر لایمان القدر’’ کی عبارتوں کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ‘‘کائنات کی ہر شئی اللہ کے ارادہ و اختیار اور اس کے فیصلے کی پابند ہے اور کائنات کا کوئی ذرہ حتیٰ کہ انسان کے افعال اور اعمال بھی اللہ کے ارادہ و اختیار کے دائرے میں شمار ہوتے ہیں’’ ، اس کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟ اور کیا یہ کہنا درست ہے کہ ‘‘اور یہ نظریہ اس امر کا مقتضی ہے کہ انسان اپنے کسی بھی اقوال ، اعمال و افعال کا ذمہ دار نہیں ہے ، لہٰذا اس پر بازپرس بھی انصاف کے تقاضے کے خلاف ہو گی؟’’ ذیل میں پیش کی گئی عبارتوں کے درمیان جگہ جگہ (قوسین) میں بعض الفاظ کی ضروری تعبیر توضیح اور تشریح راقم کی طرف سے اضافہ ہے ، اصل عبات کا حصہ نہیں۔
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
باایں ہمہ کسی کا خالق ہونا،یعنی ذات ہو یا صفت،فعل ہو یاحالت،کسی معدوم چیز کو عدم سے نکال کر لباس وجود پہنا دینا،یہ اسی (اللہ عز و جل) کاکام ہے ، یہ نہ اس نے کسی کے اختیار میں دیا نہ کوئی اس کا اختیار پاسکتا تھا،کہ تمام مخلوقات خود اپنی حد ذات میں نیست ہیں (یعنی ان کی حقیقت معدوم ہونا ہے ، لیکن یہ موجود ہیں اس لئے کہ اللہ نے انہیں عارضی طور پر وجود بخشا ہے) ، ایك نیست دوسرے نیست کو کیا ہست بناسکے (یعنی جس کی حقیقت خود معدوم ہونا ہو وہ کیا کسی معدوم کو پیکر وجود عطاء کرے) ، ہست بنانا اسی کی شان ہےجو آپ اپنی ذات سے ہست حقیقی وہست مطلق ہے(یعنی اللہ عز و جل کا موجود ہونا حقیقی ، مستقل ، دائمی ، ازلی اور ابدی ہے وہ اپنے وجود اور بقا میں قطعاً کسی کا محتاج نہیں) ، ہاں یہ اس نے اپنی رحمت اور غنائے مطلق سے عادات اجراء فرمائے کہ بندہ جس امر کی طر ف قصد کرے اپنے جوارح ادھر پھیر ے ،مولا تعالٰی اپنے ارادہ سے اسے پیدا فرمادیتا ہے مثلا اس نے ہاتھ دئےان میں پھسلنے،سمٹنے،اٹھنے،جھکنے کی قوت رکھی،تلوار بنائی،اس میں دھار،اور دھار میں کاٹ کی قوت رکھی۔اس کا اٹھانا،لگانا،وار کرنا بنایا (یعنی ان تمام افعال کی تخلیق فرمائی) ، د وست دشمن کی پہچان کو عقل بخشی، اسے نیک وبد میں تمیزکی طاقت عطا کی،شریعت بھیج کر قتل حق و ناحق کی بھلائی برائی صاف جتادی (یعنی یہ بیان کر دیا کہ کسی کی جان لینا کن صورتوں میں جائز نیک کام ہے اور کن صورتوں میں نا جائز اور گناہ ہے)۔ زید نے وہی خدا کی بتائی ہوئی تلوار،خدا کے بنائے ہوئے ہاتھ،خداکی دی ہوئی قوت سے اٹھانے کا قصد کیا۔وہ خدا کے حکم سے اٹھ گئی اور (اس نے تلوار) جھکاکر ولید کے جسم پر ضرب پہنچانے کا ارادہ کیا،وہ خدا کے حکم سے جھکی اور ولید کے جسم پر لگی۔تو یہ ضرب جن امور پر موقوف تھی سب عطائے حق تھے (یعنی ان تمام افعال اور اسباب و محرکات اللہ کے کامل ارادہ و اختیار سے انجام پذیر ہوئے) ، اور خود جو ضرب واقع ہوئی بارادہ خدا واقع ہوئی۔اور اب جو اس ضرب سے ولید کی گردن کٹ جانا پیدا ہوگا یہ بھی اﷲ کے پیدا کرنے سے ہوگا (یعنی ان تمام باتوں کے باوجود گردن اس وجہ سے کٹی کیوں کہ اس میں اللہ کی مرضی اور اس کا ارادہ شامل تھا) ۔ وہ نہ چاہتا تو ایك زیدکیا تمام انس وجن وملك جمع ہو کر زور کرتے تو (تلوار کا) اٹھنا درکنار،ہرگز جنبش نہ کرتی اور اس کے حکم سے اٹھنے کے بعد اگر وہ نہ چاہتا تو زمین،آسمان،پہاڑ سب ایك لنگر بنا کر تلوار کے پیپلے‘‘نوک’’ پر ڈال دیے جاتے،(تو تلوار) نام کو بال برابر نہ جھکتی۔اور اس کے حکم سے (تلوار کے گردن تک) پہنچنے کے بعد اگر وہ نہ چاہتا گردن کٹنا تو بڑی چیز ہے ممکن نہ تھا کہ خط بھی آتا (یعنی اللہ کی مرضی نہ ہوتی تو ولید کی گردن پر تلوار کا نشان بھی نہ آتا)۔ لڑائیوں میں ہزاروں بار تجربہ ہوچکا کہ تلواریں پڑیں اور خراش تك نہ آئی،گولیاں لگیں اور جسم تك آتے آتے ٹھنڈی ہو گئیں ،شام کو معرکہ سے پلٹنے کے بعد سپاہیوں کے سر کے بالوں میں سے گولیاں نکلی ہیں ۔تو زید سے جو کچھ واقع ہوا سب خلق خدا و بارادہ خدا تھا۔زید کا بیچ میں صرف اتنا کام رہا کہ اس نے قتل ولید کا ارادہ کیا اور اس طرف اپنے جوارح کو پھیرا (یعنی زید نے قتل کی تدبیر کی اور اپنے اعضائے جسمانی کی توانائی ولید کے قتل پر صرف کی) اب اگر ولید شرعا مستحق قتل ہے تو زید پر کچھ الزام نہیں رہا (یعنی وہ اس کے قتل پر مجرم نہ ٹھہرایا جائے گا مثلاً قتل کی سزا سنانے والا جج اور اس فیصلے کو عملی شکل دینے والا جلاد) بلکہ بارہا ثواب عظیم کا مستحق ہوگا کہ اس نے اس چیز کا قصد کیا اور اس طرف جوارح کو پھیرا جسے اﷲ عزوجل نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے اپنی مرضی،اپنا پسندیدہ کام ارشاد فرمایا تھا۔اور اگر قتل ناحق ہے تو یقینًا زید پر الزام ہے (یعنی اسے قتل ناحق کا مجرم ٹھہرایا جائے گا) اور (زید) عذاب الیم کامستحق ہوگا کہ بمخالفت حکم شرع اس شئےکا عزم کیا ،اور اس طرف جوارح کو متوجہ کیا جسے مولی تعالٰی نے اپنی کتابوں کے واسطے سے اپنے غضب اپنی ناراضی کاحکم بتایا تھا،غرض فعل انسان کے ارادہ سے نہیں ہوتا بلکہ انسان کے ارادہ پر اﷲ کے ارادہ سے ہوتا ہے یہ نیکی کا ارادہ کرے اور اپنے جوارح کو پھیرے اﷲ تعالٰی اپنی رحمت سے نیکی پیدا کردے گا اور یہ برے کا ارادہ کرے اور جوارح کو اس طرف پھیرے اﷲ تعالٰی اپنی بے نیازی سے بدی کو موجود فرما دے گا۔
اپنی اس دلیل کو مزید واضح اور روشن کرنے کے لئے اعلیٰ حضرت نے ایک آسان مثال بھی پیش کی ہے ملاحظہ ہو؛
دو پیالوں میں شہد اور زہر ہیں اور دونوں خود بھی خدا ہی کے بنائے ہوئے ہیں،شہد میں شفاء ہے اور زہر میں ہلاك کرنے کا اثر بھی اسی نے رکھا ہے۔روشن دماغ حکیموں کو بھیج کر بتا بھی دیا ہے،کہ دیکھو یہ شہد ہے اس کے یہ منافع ہیں اور خبردار ! یہ زہر ہے اس کے پینے سے ہلاك ہوجاتا ہے۔ان ناصح اور خیر خواہ حکمائے کرام کی یہ مبارك آوازیں تمام جہان میں گونجیں اور ایك ایك شخص کے کان میں پہنچیں۔ اس پر کچھ نے شہد کی پیالی اٹھاکر پی اور کچھ نے زہر کی۔ان اٹھانے والوں کے ہاتھ بھی خدا ہی کے بنائے ہوئے تھے،اور ان میں پیالی اٹھا نے،منہ تك لے جانے کی قوت بھی اسی کی رکھی ہوئی تھی۔منہ اور حلق میں کسی چیز کو جذب کرکے اندر لینے کی قوت۔اور خود منہ اور حلق اور معدہ وغیرہ سب اس کےمخلوق تھے،اب شہد پینے والوں کے جوف (پیٹ) میں شہد پہنچا،کیا وہ آپ (خود بخود) اس کا نفع پیدا کر لیں گے ؟ یا شہد بذات خود خالق نفع ہوجائے گا؟ حاشا ہر گز نہیں،بلکہ اس کا اثر پیدا ہونا یہ بھی اسی کے دست قدرت میں ہے اور ہوگا تو اسی کے ارادہ سے ہوگا۔وہ نہ چاہے تو منوں (بکثرت) شہد پی جائے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا،بلکہ وہ (اللہ) چاہے تو شہد زہر کا اثردے،یونہی زہر والوں کے پیٹ میں زہر جاکر،کیا وہ آپ (خود بخود) ضرر کی تخلق کر لیں گے یا زہر خود بخود خالق ضرر ہو جائیگا،حاشا ہر گز نہیں بلکہ اس کا اثر پیدا ہونا یہ بھی اسی کے قبضہ اقتدار میں ہے اور ہوگا تو اسی کے ارادے سے ہوگا،بلکہ وہ چاہے تو زہر شہد ہوکر لگے (یعنی زہرکی تاثیر شہد کی تاثیر سے بدل جائے)،باایں ہمہ شہد پینے والے ضرور قابل تحسین وآفرین ہیں،ہر عاقل یہی کہے گا کہ انھوں نے اچھا کیا،ایسا ہی کرنا چاہے اور زہر پینے والے ضرور لائق سزا و نفریں ہیں،،ہر ذی ہوش یہی کہے گا کہ یہ بد بخت خودکشی کے مجرم ہیں۔
(حوالہ ؛ العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ – جلد 29 –صفحہ 290-289 –رسالہ- ثلج الصدر لایمان القدر‘‘سینے کی ٹھنڈک ، ایمان تقدیر کے سبب’’)
URL for Part-1:
URL for Part-2:
URL for Part-3:
URL for Part-4:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism