New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 09:35 AM

Urdu Section ( 28 Sept 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Abrogation in Quran, Part-7 مسائل تنسیخ ؛ چند بنیادی مباحث

مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام

27 ستمبر 2018

چونکہ آیات قرآنیہ کے اند رنسخ سے انکار کرتےہوئے غلام احمد پرویز صاحب نے قرآن کی اس آیت پر بھی گفتگو کی ہے جن سے جمہور مفسرین آیات قرآنیہ میں نسخ ثابت کرتے ہیں ، لہٰذا ضروری ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ اس آیت کا ترجمہ غلام احمد پرویز صاحب نے کیا کیا ہے اور اس سے انہوں نے کیا سمجھا ہے۔

اپنی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر آیت تنسیخ کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے غلام احمد پرویز صاحب لکھتے ہیں ؛

 ‘‘سورت بقرہ میں سابقہ انبیائے کرام کے سلسلے میں وحی کے متعلق ہے مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا (البقرہ آیت نمبر 106)۔ ہم جس سابقہ حکم کو منسوخ کرتے ہیں تو اس کے بعد اس سے بہتر حکم دے دیتے ہیں اور جسےعلی حالہ چھوڑ دیتے ہیں تو اس جیسا حکم دوسرے نبی کی وحی میں دے دیتے ہیں ۔ اسی طرح سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَ (سورہ الاعلی آیت نمبر 6)کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہم اس وحی کو اس طرح محفوظ رکھیں گے کہ تو اس میں سے کسی بات کو بھی چھوڑ نہیں سکے گا ۔ اس میں سے کچھ بھی چھوڑنے نہیں پائے گا ۔ سب ایک جگہ جمع ہو جائے گا۔ (صفحہ 1618-1617)

انہوں نے قرآن کی ان آیات کریمہ کا یہ عجوبہ ترجمہ کیوں کیا اسے سمجھنے کے لئے ان کی درج ذیل تشریح بلا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں ؛

‘‘نسخ کےمعنی ہم نے اوپر دیکھ ہی لئے ہیں ۔ کسی چیز کی جگہ دوسری چیز کو لے آنا ۔ آیت کےمعنیٰ صرف قرآن کریم کی آیات نہیں ہیں ۔ قران کریم نے ہر رسول کی وحی کو ‘‘آیات اللہ’’ کہا ہے ۔ مثلا اسی سورہ بقرہ میں قصۂ ادم میں ہے کہ آدم سے کہا گیا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ(البقرہ آیت نمبر 38)۔ جب بھی میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے تو جو کوئی اس ہدایت کی اتباع کرے گا اسے کوئی خوف اور حزن نہیں ہوگا ۔ اور اس سے آگے ہے والذين كفروا وكذبوا باياتنا (البقرہ آیت نمبر 38) ..... اس کے برعکس جو لوگ ہماری آیت کی تکذیب کریں گے اور ان سے انکار کریں گے... یہاں سے ظاہر ہے کہ جہاں اور جب بھی خدا کی طرف سے ہدایت آئی ہے اسے آیات اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ لہٰذا ‘‘ماننسخ من ایۃ’’ میں آیات سے مراد قرآن کریم کی آیات نہیں بلکہ اس سے مراد ہے کسی حابق وحی کی آیات کی تبدیلی بعد کی وحی کی آیات سے ۔ جیسا کہ سورہ نحل میں کہا گیا ہے وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ (سورہ النحل آیت نمبر 101)۔ اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں۔

 اس کے بعد لفظ ننسیھا ہے ۔ یہ لفظ نسی سے ہے ۔ نسی کے معنیٰ کسی چیز کو ترک کردینا ، یا فراموش کر دینا ، آتے ہیں۔ اس لفظ میں یہ ساری حقیقت آجاتی ہے کہ سابقہ کتب آسمانی اپنی اصل حالت میں باقی نہیں رہتی تھیں ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے کہ جو رسول بھی آیا اس کے ساتھ یہی ہوا ہے کہ اس کی وحی میں سرکش اور مفسد لوگوں نے اپنی طرف سے کچھ ملا دیا ۔ لیکن خدا کی طرف سے ایسا ہوتا رہا ہے کہ ان کی اس آمیزش اور ملاوٹ کو الگ کر دیا جاتا اور اس طرح اللہ اپنی آیات کو ازسرنو محکم کر دیتا (22:56) ۔ یا وہ اس وحی کے کچھ حصے کو ترک ہی کر دیتے تھے ۔ اس حصے کو خدا نئے رسول کی وحی میں پھرشامل کردیتا ۔ اس سے بھی ظاہر ہے کہ ایک آیت کی جگہ دوسری آیت (اس کی مثل یا اس جیسی آیت) سے مراد ثابت وحی کی آیت ہیں نہ کہ قرآن کریم کی ایک آیت کی جگہ دوسری آیت’’۔

آپ مزید لکھتے ہیں :

‘‘نسی کے معنیٰ کسی چیز کوعلی حالہ چھوڑ دینے کے بھی ہیں ۔ اس اعتبار سے آیت ننسیھا سے مفہوم یہ ہوگا کہ جن سابقہ احکام کے متعلق ہمارا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں علی حالہ رہنے دیا جائے ، انہیں ہم رسول کی وحی میں اسی طرح شامل کر لیتے ہیں’’ ۔

 مذکورہ تعبیر کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے غلام احمد پرویز صاحب لکھتے ہیں؛

 اس اعتبار سے قرآن کریم ایک طرف تمام انبیاء سابقہ کی وحی کا مھیمن ہے (5:47) ۔ یعنی اس کے اندر وہ تمام قوانین محفوظ ہوگئے ہیں اور دوسری طرف خدا کو جس قدر احکام نوع انسانی کے لیے دینے تھے ، ان سب کی تکمیل ہو گئی ہے ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ۚ (6:115) ۔ اور اب اس میں کوئی ردوبدل نہیں ہو سکتا ۔ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ ۚ (6:115) ۔ نہ خدا کی طرف سے اب کسی تبدیلی کی ضرورت باقی ہے اور نہ انسانوں میں سے کوئی اس میں ردوبدل کر سکے گا ۔ کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے لے رکھا ہے (15:9)۔

 بلکہ غلام احمد پرویز صاحب اپنی اسی کتاب لغات القرآن کے صفحہ 1613 پر آیات نسخ کی ایک نئی تعبیرپیش کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ؛

 ‘‘ما ننسخ والی آیت یا سورہ نحل کی آیت اذا بدلنا ايۃمكان ايۃ میں آیت سے مراد اگر کائناتی حوادث و وقائع لئے جائیں (انہیں قرآن کریم متعدد مقامات پر ‘‘آیات اللہ’’ کہہ کر پکارتا ہے) تو‘‘نسخ آیت’’ سے مراد ہوگا نظام کائنات کے کسی ایک طریق یا مظہر کی جگہ دوسرے طریق یا مظہر کا آجانا ۔ ارباب علم تحقیق سے پوشیدہ نہیں کہ کائنات میں اس قسم کے تبدلات کس طرح آئے دن ہوتے رہتے ہیں ۔

 لیکن چونکہ ہردو مذکورہ بالا آیات کے سیاق و سباق کا تعلق وحی سے ہے اسی لئے ہم پہلے بیان کردہ مفہوم کو ترجیح دیتے ہیں ، اگرچہ دوسرے مفہوم کی رو سے معنی میں بڑی وسعت پیدا ہو جاتی ہے ۔

 اس کے بعد غلام احمد پرویز صاحب اپنا قول فیصل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؛

 اول الذکر مفہوم ہو یا ثانی الذکر ، یہ حقیقت اپنی جگہ رہتی ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں جو منسوخ ہو ۔ اس غیر متبدل صحیفہ آسمانی کا ایک ایک حرف اپنے مقام پر اٹل ہے اوراٹل رہے گا (لغات القرآن ۔ص 1613)۔

URL for Part-1: https://www.newageislam.com/urdu-section/abrogation-quran-part-1-/d/116373

URL for Part-2: https://www.newageislam.com/urdu-section/abrogation-quran-part-2-/d/116397

URL for Part-3: https://www.newageislam.com/urdu-section/abrogation-quran-part-3-/d/116442

URL foe Part-4:  https://www.newageislam.com/urdu-section/abrogation-quran-part-4-/d/116467

URL for Part-5: https://www.newageislam.com/urdu-section/abrogation-quran-part-5-/d/116488

URL for Part-6: https://www.newageislam.com/urdu-section/abrogation-quran-part-6-/d/116499

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/abrogation-quran-part-7-/d/116519

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..