New Age Islam
Tue Feb 11 2025, 01:51 AM

Urdu Section ( 21 Sept 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Abrogation in Quran, Part-3 مسائل تنسیخ ؛ چند بنیادی مباحث

مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام

20  ستمبر 2018

اب تک گزشتہ دو حصوں میں ہم نے نسخ کی تعریف اور اس کی لغوی اور شرعی توجیہ پیش کی اور مختصراً ہم نے یہ بھی جانا کہ نسخ کا تحقق کن کن حجتوں اور دلائل شرعیہ سے ہوتا ہے۔ نیز اب تک کے مطالعہ سے بھی بات واضح ہو چکی کہ نسخ کا مسئلہ متفق علیہ نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ بھی مختلف مذاہب و مسالک کے درمیان نزاعی ہے۔ اس مسئلے میں اختلاف کرنے والوں میں سے اکثر کے دلائل عقل و استدلال پر مبنی ہیں جبکہ اس کا اثبات کرنے والوں کہ پاس دلائل عقلیہ اور نقلیہ دونوں ہیں۔

امام رازی لکھتے ہیں:

‘‘ہمارے نزدیک نسخ عقلا جائز ہے اور دلائل سمعیہ سے نسخ ثابت اور واقع ہے، اس میں یہود کا اختلاف ہے ، بعض یہود نے نسخ کا عقلاً انکار کیا اور بعض یہود نے نسخ کو عقلاً جائز کہا اور سمعاً انکار کیا ، بعض مسلمانوں سے بھی نسخ کا انکار منقول ہے’’۔

اس کے جواب میں آپ رقمطراز ہیں:

‘‘جمہور مسلمین نے نسخ کے جواز اور وقوع پر اس سے استدلال کیا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی نبوت ثابت ہے اور جب تک یہ تسلیم نہ کیا جائے کہ آپ سے پہلے کی تمام شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں اس وقت تک آپ کی نبوت اور شریعت ثابت نہیں ہو گی اس لئے قطعی طور پر نسخ واقع ہے۔

یہود کے خلاف نسخ پر حجت یہ ہے کہ تورات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی ذریت کے لئے تمام جانور حلال کر دئے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام اور نبی اسرائیل پر بہت سے جانور حرام کر دیئے ، دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام بہن بھائی کا نکاح کر دیتے تھے اور اس کے بعد حضرت موسی علیہ السلام کی شریعت میں اس کو حرام کر دیا گیا’’۔ (تفسیر کبیر ۔ ج1۔ ص 434-433۔ مطبوعہ دار الفکر بیروت۔ بحوالہ تبیان القرآن)

اہل اسلام میں سے ابو مسلم کو قرآن کی آیت 41:42 سے مغالطہ لگا اور انہوں نے نسخ کا ہی انکار کر دیا۔ انہیں یہ خیال گزرا کہ خدانخواستہ اگر قرآن میں نسخ قبول کر لیا جائے تو کلام اللہ کے اندر بے شمار اباطیل کا اجتماع لازم آئے گا ، جبکہ یہ محض ایک علمی تسامح ہے ، ورنہ اگر وہ نسخ کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھ لیں تو ان کا یہ تسامح دور ہو جائے۔ اس لئے کہ نسخ واقع ہی اسی حکم میں ہوتا ہے جسے شارع نے خود مشروع کیا ہو، اور بھر بعد میں کسی حکمت یا کسی ضرورت کے تحت اس حکم کی مشروعیت مرتفع کر لی جائے اور اس کی جگہ اسی جیسا یا اس سے بہتر کوئی حکم لائی جائے۔

اللہ کا فرمان ہے:

مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ: ‘‘جب کوئی آیت منسوخ فرما دیں یا بھلا دیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آیں گے کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔’’ (البقرہ آیت نمبر 106)

اس حوالے سے علامہ عبد العلیم زرقانی مناہل العرفان میں لکھتے ہیں کہ :

‘‘اہل اسلام میں سے ابو مسلم نے نسخ کا انکار کیا اور ان کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے:

لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ (41:42)

اس کے بعد اس کا جواب دیتے ہوئے علامہ زرقانی لکھتے ہیں:

‘‘اللہ تعالیٰ نے جس حکم کو منسوخ فرمایا وہ باطل نہیں ہے بلکہ جس زمانہ میں وہ حکم مشروع تھا اور اس زمانہ کے اعتبار سے وہی برحق تھا، اور اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ قرآن مجید میں باطل چیز نہیں آ سکتی۔ اور اس آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ قرآن مجید کے بیان کردہ عقائد عقل کے موافق ہیں اور اس کے احکام حکمتوں پر مبنی ہیں اور اس کی دی گئی خبریں واقع کے مطابق ہیں اور اس کے الفاظ تغیر و تبدیل سے محفوظ ہیں اور اس میں کسی وجہ سے بھی خطاء کا در آنا ممکن نہیں ہے’’۔

تنسیخ کا انکار کرنے والوں میں اہل قرآن مسلک کے بانی پرویز صاحب کا نام اہل علم کے درمیان بڑا نمایاں ہے ، آئندہ ہم ان کے بھی موقف کا پوری شرح و بسط کے ساتھ جائزہ لیں گے ، لیکن ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ مسائل تنسیخ میں اگر مذکورہ توجیہ کا اعتبار نہ کیا جائے تو مقاصد شریعت مفقود ہو جائیں گے اور قرآن کے اندر حلت و حرمت کے احکامات میں ہمیں جا بجا  اضطراب نظر آنے لگے گا۔

اب رہ گیا یہ سوال کہ قرآن کے اندر کتنی آیتیں منسوخ ہیں اور مفسرین نے کن کن آیات قرآنیہ پر ناسخ و منسوخ ہونے کا قول کیا ہے ؟ تو یہ معاملہ بھی مفسرین کے درمیان نزاعی اور مختلف فیہ ہے۔ اس ضمن میں ہم سب سے پہلے ان آیتوں کا مطالعہ کرتے ہیں جنہیں علامہ غلام رسول سعدی نور اللہ مرقدہ نے اپنی مایہ ناز تصنیف تبیان القرآن کے اندر ذکر فرمایا ہے ۔

آپ اپنی کتاب تبیان القرآن کے مقدمہ میں صفحہ نمبر 76 پر لکھتے ہیں کہ ہماری تحقیق کے مطابق منسوخ الحکم آیتوں کی تعداد بارہ ہے ، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

1.    ‘‘كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ’’۔ (2:180)

ترجمہ: ‘‘تم پر فرض ہوا کہ جب تم میں کسی کو موت آئے اگر کچھ مال چھوڑے تو وصیت کرجائے اپنے ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں کے لئے موافق دستور یہ واجب ہے پرہیزگاروں پر’’۔ (ترجمہ؛ کنز الایمان)

2.    ‘‘يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ’’۔ (2:183)

ترجمہ: ‘‘اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے’’۔ (ترجمہ؛ کنز الایمان)

3.    ‘‘يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ’’۔ (2:217)

ترجمہ: ‘‘تم سے پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنے کا حکم تم فرماؤ اس میں لڑنا بڑا گناہ ہے’’۔ (ترجمہ؛ کنز الایمان)

4.    ‘‘وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ’’۔ (2:240)

ترجمہ: ‘‘اور جو تم میں مریں اور بیبیاں چھوڑ جائیں، وہ اپنی عورتوں کے لئے وصیت کرجائیں سال بھر تک نان نفقہ دینے کی بے نکالے پھر اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر اس کا مؤاخذہ نہیں جو انہوں نے اپنے معاملہ میں مناسب طور پر کیا، اور اللہ غالب حکمت والا ہے’’۔ (ترجمہ؛ کنز الایمان)

5.    ‘‘وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ’’۔ (2:284)

ترجمہ: ‘‘اور اگر تم ظاہر کرو جو کچھ تمہارے جی میں ہے یا چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا’’۔ (ترجمہ؛ کنز الایمان)

6.    ‘‘وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا۔’’ (4:15)

ترجمہ: ‘‘اور تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کریں ان پر خاص اپنے میں کے چار مردوں کی گواہی لو پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھر میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت اٹھالے یا اللہ ان کی کچھ راہ نکالے’’۔ (ترجمہ؛ کنز الایمان)

7.    ‘‘يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ۔’’ (5:2)

ترجمہ: ‘‘اے ایمان والو! حلال نہ ٹھہرالو اللہ کے نشان اور نہ ادب والے مہینے اور نہ حرم کو’’۔ (ترجمہ؛ کنز الایمان)

8.    ‘‘إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ’’۔ (8:65)

ترجمہ: ‘‘مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اگر تم میں کے بیس صبر والے ہوں گے دو سو پر غالب ہوں گے اور اگر تم میں کے سو ہوں تو کافروں کے ہزا ر پر غالب آئیں گے اس لیے کہ وہ سمجھ نہیں رکھتے’’۔ (ترجمہ؛ کنز الایمان)

9.    ‘‘الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ’’۔(24:3)

ترجمہ: ‘‘بدکار مرد نکاح نہ کرے مگر بدکار عورت یا شرک والی سے، اور بدکار عورت سے نکاح نہ کرے مگر بدکار مرد یا مشرک اور یہ کام ایمان والوں پر حرام ہے’’۔ (ترجمہ؛ کنز الایمان)

10.                        ‘‘لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ’’۔ (33:52)

ترجمہ: ‘‘ان کے بعد اور عورتیں تمہیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ ان کے عوض اور بیبیاں بدلو اگرچہ تمہیں ان کا حسن بھائے مگر کنیز تمہارے ہاتھ کا مالک اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے’’۔ (ترجمہ؛ کنز الایمان)

11.                        ‘‘يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً’’۔ (58:12)

ترجمہ: ‘‘اے ایمان والو جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو’’۔ (ترجمہ؛ کنز الایمان)

12.                        ‘‘يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ- قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا- نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا- أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا-’’ (4-73:1)

ترجمہ: ‘‘اے جھرمٹ مارنے والے، رات میں قیام فرما سوا کچھ رات کے، آدھی رات یا اس سے کچھ تم کرو، یا اس پر کچھ بڑھاؤ اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو’’۔ (ترجمہ؛ کنز الایمان)

نوٹ : یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کئی مفسرین ایسے ہیں جو آیت سیف کو ان ابتدائی مکی آیتوں کا ناسخ مانتے ہیں جن میں کفار مکہ کی زیادتیوں پر صبر و ضبط کا حکم دیا گیا تھا۔ اپنے اپنے موقف پر ہر مفسر کی اپنی ایک دلیل ہےجنکا ہم انشاء اللہ اسی سیریز میں جائزہ لیں گے۔

علامہ غلام رسول سعیدی صاحب مزید لکھتے ہیں:

‘‘ہمارے نزدیک قرآن مجید کی ان بارہ آیتوں کا حکم منسوخ ہو چکا ہے اور ان کے علاوہ وہ آیتیں ہیں جن میں بنوت کے ابتدائی دور میں کفار کی زیادتیوں کے مقابلے میں صبر و ضبط سے کام لینے کا حکم دیا گیا تھاپھر آیت سیف نازل ہونے کے بعد ان کا حکم منسوخ ہو گیا’’۔ (مقدمہ تبیان القرآن صفحہ 80)

جاری.................

URL for Part-1: https://www.newageislam.com/urdu-section/abrogation-quran-part-1-/d/116373

URL for Part-2: https://www.newageislam.com/urdu-section/abrogation-quran-part-2-/d/116397

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/abrogation-quran-part-3-/d/116442

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..