ثاقب سلیم،
نیو ایج اسلام
18 دسمبر 2022
حتمی تجزیہ
یہ ہے کہ اقلیتوں کا تحفظ مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کو مختلف
گروہوں، ذیلی گروہوں اور پارٹیوں میں تقسیم کرنا ہے تاکہ لوگوں کی مشترکہ طور پر کوئی
بھی مربوط کارروائی ہندوستان میں ممکن نہ ہو سکے
رضا الکریم
-----
کیلیفورنیا یونیورسٹی میں بشریات
کی سابق پروفیسر صبا محمود، اپنے مشہور مقالے، Religious
Freedom, the Minority Question, and Geopolitics in the Middle East میں لکھتی ہیں: "ایک قومی اقلیت کے تصور کی
بنیاد ایک تناؤ پر رکھی گئی ہے: ایک طرف، یہ قومی سیاست میں اقلیتی گروپ کی رکنیت کی
علامت ہے تو دوسری طرف اقلیتی گروہ اکثریتی فرقے کی ثقافت سے اپنے ثقافتی نسلی، مذہبی،
صنفی یا لسانی اختلاف کی وجہ سے قومی یکجہتی کے لیے ایک ابتدائی خطرہ کی علامت بن جاتا
ہے۔
A
Muslim family breaking their fast during Ramazan in Delhi's Jama Masjid (Ravi
Batra)
----------
موجودہ دنیا میں ایسی دنیا کے بارے
میں سوچنا ناممکن لگتا ہے جہاں ہم ’اقلیتی‘ اور ’اقلیتی حقوق‘ کی بات نہ کریں۔ ہندوستان
میں اقلیتوں کے حقوق ایک تنازعہ کا عنوان رہا ہے جہاں ایک طرف اکثریتی فرقہ مختلف
'اقلیتی' گروپوں کو خوش کرنے کا الزام لگاتا رہتا ہے تو دوسری طرف 'اقلیتی جماعت' ریاست
پر اپنے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام لگاتے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں سے اکثر
کہا جاتا ہے کہ وہ پڑوسی دشمن ملک کے باشندوں کے ہم مذہب ہونے کی وجہ سے اپنی وفاداری
ثابت کریں۔
ہمارے معاشرے کے دانشور، سیاست
دان، اسکالر اور دیگر رہنما اکثر سوچتے ہیں کہ ہندوستانی صدیوں تک مذہب کی بنیاد پر
خونریزی کے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں، جبکہ ما بعد استعماریت کے ہندوستان میں یہ ہوا کہ
مختلف فرقے اور برادریاں ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں۔ جیسا کہ صبا محمود
نے کہا ہے کہ، اقلیت کا نظریہ، بعض مذہبی، سماجی، یا نسلی گروہوں کے قانونی حقوق کے
حصول میں واضح طور پر معاون ہوتا، لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کو مساوی شراکت داری کی قومی
سیاست سے دور بھی لے جاتا ہے۔ 'اکثریت' سے علیحدہ "ایک اقلیت" ہونے کی شناخت
'اکثریت' کے زیر تسلط ریاست پر اپنے حقوق کے لیے 'منحصر' ہو جاتی ہے۔
شاید کوئی یقین نہ کرے لیکن ’قومی
اقلیت‘ کا تصور صرف ایک صدی پرانا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی "ورسیلیز پیس کانفرنس"
میں 'قومی اقلیت' کے تصور کو بین الاقوامی قانون میں استعمال کیا گیا تاکہ ان جماعتوں
میں جو قومی سیاست میں اپنی دعوے داری پیش کر سکتے ہیں اور ان جماعتوں میں فرق کیا
جا سکے جو اس طرح کا کوئی دعویٰ نہیں کر سکتے۔
جبکہ اس نظریہ میں بڑے مسائل ہیں۔
ہندوستان میں، اگر ہم اس زمرے میں مسلمانوں، سکھوں، جینوں، عیسائیوں، سندھیوں یا کسی
دوسرے گروہ کو شامل کرتے ہیں تو ہم انہیں قومی شناخت سے خارج کر دیتے ہیں۔
ہننا آرینڈٹ نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ
تاریخ انسانی کے ہر دور میں اقلیتیں انسانی معاشروں کا حصہ رہی ہیں لیکن "ایک
مستقل ادارے کے طور پر اقلیت" کو عالمی جنگ کے بعد معاہدوں کے ساتھ متعارف کرایا
گیا تھا۔ اس مقالے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ "لاکھوں لوگ بنیادی قانونی تحفظ سے
باہر تھے اور انہیں کسی بیرونی ادارے (دی لیگ آف نیشنز) سے اپنے بنیادی حقوق کی اضافی
ضمانت کی ضرورت تھی"۔
ہننا کے مطابق، اقلیتوں اور ان
کے حقوق کے اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ "صرف ملکی باشندے ہی شہری ہو سکتے ہیں، صرف
ایک ہی قومیت کے لوگ قانونی اداروں کے مکمل تحفظ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، اور یہ
کہ مختلف قومیتوں کے افراد کو کسی استثنائی قانون کی ضرورت ہے، حتی کہ وہ اپنی اصل
سے جدا ہوکر مکمل طور پر اکثریت کے ساتھ ضم ہو جائیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ہندوستانی اس درجہ
بندی کے خطرات کو نہیں سمجھتے تھے۔ ہندوستانی مسلمانوں نے اقلیت کے بطور اپنی شناخت
کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے ملک تقسیم ہو جائے گا۔ مجاہد آزادی اور
آئین ساز اسمبلی کے رکن مولانا حسرت موہانی نے دستور ساز اسمبلی میں ہندوستان کے مسلمانوں
کے لیے اقلیت کی اصطلاح استعمال کرنے کی شدید مخالفت کی تھی۔
انہوں نے اقلیتوں کے حقوق پر ڈاکٹر
بی آر امبیڈکر سے اختلاف کیا اور کہا، ''میں کہتا ہوں: ہم انہیں نہیں چاہتے۔ آپ نے
آئین میں کہا ہے کہ 14 فیصد نشستیں مسلمانوں کے لیے مختص کی جائیں۔ آپ اب بھی اپنے
آپ کو 86 فیصد اور مسلمانوں کو 14 فیصد سمجھتے ہیں۔ جب تک یہ فرقہ پرستی ہے کچھ نہیں
ہو سکتا۔ آپ مسلمانوں کو اقلیت کیوں کہتے ہیں؟ جب تک آپ انہیں فرقہ وارانہ رنگ میں
پیش کرتے رہیں گے مسلمان اقلیت ہی رہیں گے۔‘‘
بنگال کے ایک اور ممتاز رہنما اور
نامور مصنف، رضا الکریم نے مسلمانوں کی بطور اقلیت کی درجہ بندی کے خلاف مہم چلائی۔
ان کا کہنا تھا کہ، ''حتمی تجزیہ یہ ہے کہ اقلیتوں کا تحفظ مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ
نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کو مختلف گروہوں، ذیلی گروہوں اور پارٹیوں میں تقسیم کرنا ہے
تاکہ لوگوں کی مشترکہ طور پر کوئی بھی مربوط کارروائی ہندوستان میں ممکن نہ ہو سکے۔
لہذا، اقلیتی مفاد کا مطلب مسلم مفاد نہیں ہے۔ اقلیتیں ہمیشہ اقلیتیں ہوتی ہیں۔ انہیں
کبھی اکثریت نہیں بنایا جا سکتا۔
ایک اور انقلابی مجاہد آزادی مولانا
عبید اللہ سندھی نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو اقلیت نہیں سمجھا جا سکتا اور قومی شہریت
تمام مذاہب کے لیے یکساں ہونی چاہیے۔ ان کے خیال میں خود کو اقلیت سمجھنے کی نفسیات
مسلمانوں کو پسماندہ رکھے گی۔ نیتا جی سبھاس چندر کا یہ بھی ماننا تھا کہ ہندو، سکھ،
عیسائی اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کو اکثریت اور اقلیت نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہر ہندوستانی
قوم پرست کو ایک ہی حیثیت حاصل ہے۔ نیتا جی کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ
اقتدار میں رہنما ہندو ہے یا مسلمان۔ ان کے مطابق قوم پرستی کی خوبی مذہبی عقیدے سے
آگے تھی۔
بعض برادریوں کو اقلیتی درجہ دینے
کے اثرات اکثر نقصان دہ رہے ہیں۔ ہم نے بین الاقوامی برادری کو اقلیتوں کے مسائل کا
نوٹس لیتے دیکھا ہے، یا بعض اوقات 'کارکنان' کو بین الاقوامی برادری سے ان کے خلاف
ہونے والے 'مظالم' کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ صبا لکھتی ہیں،
"ایک مذہبی اقلیت کے لیے بین الاقوامی تحفظ کا مطالبہ کرنا اس گروہ کی انفرادیت
کی طرف بھی توجہ مبذول کرنا ہے جو کہ قوم کی اکثریتی شناخت سے الگ ہے"۔ وہ یہ
دلیل دیتی ہے کہ اقلیتوں کے لیے یہ خصوصی تحفظ "انہیں زیادہ کمزور بھی" کرتا
ہے۔
بین الاقوامی میدان میں، اقلیت
اور اکثریت کے درمیان 'فرق' کی نشاندہی کرکے حمایت اکٹھی کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں
وہ قومی اتحاد کے منصوبے میں غیر مستحکم ہوتے ہیں اور مزید "ایک ساتھ اجتماعی
زندگی گزارنے کے امکانات کو کمزور کرتے ہیں"۔
-------------
Source: Should Indian
Muslims Shun The Minority Tag?
English
Article: ‘A Minority’, By Its Identification As ‘Other’ Of ‘A
Majority’ Becomes ‘Dependent’ For Its Rights On The State Controlled By The
‘Majority’
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism