New Age Islam
Sun Mar 23 2025, 03:53 PM

Urdu Section ( 27 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Message to The Muslim Community مسلم سماج کے لیے ایک پیغام

غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام

27 ستمبر،2023

مسلم معاشرہ  کلی ، ایمانی اور عملی اعتبار سے مسلمان  کیسے نظر آئے گا؟

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب الفوز الکبیر میں مشرکین اور ملت ابراہیمی کے عنوان پر گفتگو کی ہے ۔ در اصل اس کتاب میں انہوں نے قرآن کریم کے اندر مذکور علوم خمسہ پر گفتگو کی ہے اور علم الجدل و المخاصمہ کے تحت بتایا ہے کہ قرآن کریم نے مختلف سورتوں اور آیتوں کے اندر چار فرقوں (مشرکین، یہود، نصاری اور منافقین)  کی بڑی بڑی گمراہیاں بیان کرتے ہوئے انہیں اصلاح کی دعوت دی ہے اور ساتھ میں یہ بھی بتایا ہے کہ قرآن کی آیتوں نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق، سورج ، چاند اور ستاروں کا  اللہ تعالی کے حکم کا پابند ہونا ، پہاڑوں کا زمین پر قائم ہونا تاکہ زمین انسان کو لیکر حرکت نہ کرے، یہ وہ چیزیں ہیں جن میں واضح دلیلیں ہیں کہ خدا ایک ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

  اس کتاب میں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ قرآن مجید نے مشرکین عرب کی چار بڑی گمراہیوں کا تذکرہ کیا ہے ، جو یہ ہیں: شرک، تشبیہ ، تحریف اور انکار آخرت ۔ شاہ صاحب کے ماننے والے بہت ہیں جن میں عوام و خواص سبھی شمار ہوتے ہیں ، اس لیے وہ  وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح قرآن مجید نے ان چار بڑی گمراہیوں کا تذکرہ کیا ہے ، مقدس قرآن کا  اسلوب کیسا تھا ، مشرکین کے سوالات و اعتراضات کیا تھے ، پھر کس طرح قرآن  کریم نے ان کے جوابات دیے ، اور کس طرح  مقدس قرآن نے بتایا کہ اس کتاب میں ایمان والوں کے لیے واضح دلیلیں ہیں جو نہ صرف بر ضرورت عقل سے بلکہ قلب سے بھی کام لیتے ہیں اور  جو نہ صرف واسطہ  وراثت سے ایمان کی توفیق پاتے ہیں بلکہ دلیلوں کی روشنی سے بھی حق کو دیکھ لیتے ہیں ۔

قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ  یہ وہ ایمان ہے ، یہ وہ اسلام ہے ، جس میں کسی طرح کا جبر نہیں ، جس میں کسی طرح کی زیادتی نہیں ، جس میں کسی طرح کی دہشت گردی نہیں ، یہ تو انسانیت کی خیر خواہی کےلیے آیا ہے ، یہ تو دنیا میں امن و اطمینان کی فضا قائم کرنا چاہتا ہے ، اس کا مقصد تو فساد اور ظلم کو مٹانا ہے ، اس کا مقصد تو گورے اور کالے کے امتیاز کو مٹانا ہے ، اس کا مقصد تو کمزوروں اور غریبوں کی دلجوئی کرنا اور انہیں تحفظ فراہم کرنا ہے ،  یہ تو  خلوص اور محبت کا پیغام لیکر آیا ہے ، اس سے قطع نظر کہ کون مسلم ہے اور کون غیر مسلم ، یہ تو سب کے لیے عد ل و انصاف  کی باتیں کرتا ہے ،  یہ تو بندوں کو طریقہ عبادت سکھانے آیا ہے ،  یہ تو  توبہ  کے  ذریعے سے  دنیا میں کیے تمام گناہوں سے مغفرت کی باتیں کرتا ہے ،  یہ تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے ،قیامت اور  حساب کے دن  کی یاد دلاکر ایمان  لانے اور حسن عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے ، یہ تو نماز ، روزہ اور حج کا درس  دیتے ہوئے   حقوق اللہ کی  مثالیں  پیش کرتا ہے  اور غر با ومساکین  کی  مالی امداد کرنے والی زکوۃ کو ایمان والوں پر  فرض قرار دے کر  حقوق العباد کی بہترین مثال پیش کرتا ہے ۔  

اب اتنی باتوں کو ذہن میں  لاتے ہوئے شاہ   صاحب کے  نقاط کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔وہ بیان کرتے ہیں مشرکین عرب اپنے آپ کو حنفاکہتے تھے ۔حنفا جمع ہے حنیف کی ، جس کے لغوی معنی    باطل سے جدا ہونے کے ہیں ۔  اصطلاح میں حنیف ملت ابراہیمی کے متبع کو کہا جاتا ہے ۔مشرکین اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا متبعین  مانتے تھے ، وہ یہ دعوی کرتے تھے کہ وہ ملت ابراہیمی کی تعلیمات پر گامزن ہیں ۔لہذا قرآن مجید ، بقول شاہ صاحب، نے مشرکین کے اس دعوی کو دلائل کی روشنی میں  باطل قرار دیا  ، جس کی تفصیل شاہ صاحب نے اس طرح کی ہے کہ عرب کے جمہور مشرکین نے جن بڑی گمراہیوں کو اپنا لیا تھا اور جن کی وجہ سے وہ ملت ابراہیمی کی اتباع سے باہر نکل چکے تھے ، وہ یہ ہیں : شرک ، تحریف، تشبیہ اور انکار آخرت ۔ پھر اس کے بعد  تھوڑی تفصیل سے بیان کرتے ہوئے شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ  جمہور مشرکین نے ملت ابراہمی کے شعار کو کس طرح  تاریخ کے مختلف ادوار میں ترک کر دیا تھا ۔ شاہ صاحب اپنے سمجھدار قارئین کو یہ ذہن دینا چاہتے ہیں  کہ محض کسی چیز کا دعوی کرنا  اس چیز کے حق پر ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کیے گئے وعدے پر روشن  دلائل طلب کیے جائیں پھر اس دعوے کو رد کرنے یا قبول کرنے کا فیصلہ دیا جائے ۔ ملت ابراہیمی شرک ، تحریف ، تشبیہ اور انکار آخرت سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ حسن خلق اور اچھے اعمال کا نمونہ تھا مگر تاریخ کے گزرتے لمحات کے ساتھ عرب کے جمہور مشرکین میں چوری ، زنا ، سود ، اور غصب جیسے برے اعمال عام ہو گئے ۔ جب اسلام آیا تو  اس نے نہ صرف عرب کے مشرکین بلکہ پوری انسانیت کو حقیقی  ملت ابراہیمی کی تعلیم دی جس  میں یہ مذکورہ  بد اعمالیاں حرام تھیں  اور اسلام میں بھی حرام بن گئیں ۔

اصل مدعا یہ ہے کہ آج ہم مسلمان  اسلام پر ہونے کا دعوی تو ضرور کرتے ہیں مگر اپنے دعوے کی تصدیق پر روشن دلائل پر غور نہیں کرتے جن سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہم اسلام پر ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں مگر ہم نے اسلام کی تعلیمات  پر عمل کرنا ترک  کر  دیا ہے ۔ہم کہنے کو تو مسلمان ہو گئے ، ہم کلمہ ضرور پڑھتے ہیں ، ہم اللہ تعالی کی ذات و صفات میں کسی کو شریک ٹھہرا کر شرک کا ارتکاب نہیں کرتے ہیں ، ہم اللہ تعالی کے تمام نبیوں، تمام کتابوں ، تمام فرشتوں ، قیامت کےدن پر ، آخرت کے دن پر ، حساب کے دن پر ، ایمان تو ضرور رکھتے ہیں مگر عمل کے اعتبار سے ہم اتنے برے ہو گئے ہیں کہ اسلام  ہمارے عمل سے ظاہر ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے ، ہمارے اند رکچھ ایسے بھی ہیں جو اسلام کا دعوی تو کرتے ہیں مگر اسلام ان کے اعمال میں نظر نہیں آتا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ آج  اسلام کی تعلیمات سے جہالت اور غفلت کا چلن زیادہ ہے ۔ بعض مسلمان کہے جانے والے افراد  چوری ، سود ، زنا ، غصب ، تہمت لگا کر کسی خاندان کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا دینا ، دھوکہ دہی کرنا ، جھوٹ بولنا ، غیبت کرنا ، حسد کرنا ، بد ظنی کرنا ، غصہ کرنا ، والدین اور رشتہ داروں کی حق تلفی کرنا ، لوگوں کی دل شکنی کرنا ، انسانیت سے دشمنی رکھنا ، عدل و انصاف کا گلا گھوٹنا اور ظلم و ستم کا پہاڑ قائم کرنا ، اور ان جیسے متعدد بد اعمالیوں کا  پوری طرح شکار ہو چکے ہیں ۔ زمین جائیداد کا مسئلہ ہو یا نکاح و طلاق کا مسئلہ ، ہم اسلام کی رہنمائی سے کوسون دور ہیں ۔ ایک مسلم گاوں  میں مسلمانوں کی بھاری پنچایت کے ہونے کے باوجود دوسرے بھائی کی زمین و جائداد پر ناحق قبضہ کر لیتا ہے ، قتل و خون کا معرکہ پھر گرم ہو جاتا ہے ۔ اگر میاں بیوی کا جھگڑا ہو جائے تو بجائے اسلام کی رہنمائی اختیار کیے ہوئے سالوں سال تک ایک مسلم خاندان دوسرے مسلم خاندان کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر  سبق سکھانے کا عہد کرتی ہے تو دوسرے طرف کچھ مسلم عورتیں سالوں سے اپنی حق زوجیت اور نفقات لینے کے لیے کورٹ کچہری کے چکر کاٹتی نظر آتی ہے ۔ کورٹ کچہری میں جاکر دیکھیے ایسے کتنے کیسیز جاری و ساری ہیں ۔ مصالحت و موافقت ،  اور عدل و انصاف ، بھائی چارگی اور حقوق کی ادائیگی کی جو تعلیمات اسلام نے دی ہے ان سب کو کس طرح  ان مسلمانوں نے بھلا دیا ہے ۔

 ان مٹھی بھر بد اعمالیوں کے مرتکب  مسلمانوں کا  کلی طور پر مقارنہ مشرکین عرب سے  ہرگز نہیں کیا  جا سکتا ہے کیونکہ مشرکین عرب نے تو ملت ابراہیمی کی پیروی ایمان و عمل دونوں لحاظوں سے  ترک کر دی تھی جبکہ ان مٹھی بھر  مسلم افراد نے   صرف عمل کے اعتبار سے اسلام کو ترک کر دیا ہے اور ایمان کے اعتبار سے ابھی بھی اسلام کو اپنائے ہوئے ہیں ۔ یہاں یہ پہلو بھی یاد رکھیں کہ بعض افراد ایسے بھی ہیں جنہوں نے اسلام کے عملی احکام پر اس  قدر شدت پسندی اختیار کی ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کی بے عزتی سے مشہور ہوئے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو مسجدوں میں بھی چولہا اور گیس لیکر داخل ہوتے ہیں اور چٹائی کو اپنے بیڈ کی چادر سمجھتے ہوئے آرام بھی فرمانا شروع کر دیتے ہیں ۔ کبھی کوئی نمازی اگر تنہا نماز پڑھتا تو وہ بھی پاس میں لیٹے شخص کی کھراٹے سے بے چین ہو جاتا ۔ ان مسلمانوں کا مشرکین عرب سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا مگر ایک درس ضرور یہاں ملتا ہے کہ ہم غور و فکر کریں ، تھوڑی دیر تامل کریں ، اور ٹھنڈے دماغ سے سوچیں ہمارے مسلمانوں میں کتنی بد اعمالیاں پیدا ہو گئی ہیں ، ہم  عمل کے اعتبار سے اسلام سے کتنے کوسوں دور ہو گئے ہیں ، ہم یا تو اسلام کی  عملی تعلیمات سے جاہل ہیں یا پھر ہمارے    اوپر غفلت کا پردہ پڑا ہے ۔ اس کی سمجھ کیسے ہوگی؟ کیسے ہم جانیں گے   کہ ہم اپنے اسلامی دعوی میں کچھ حد تک جھوٹے بھی ہیں   ۔ چوری، غصب ، سود ، حرام کاموں کا چلن ہمارے مسلم سماج میں عام ہو چکا ہے مگر  ہم ہیں کہ جمعہ کے دن ٹوپی پہن کر ، خوشبو لگا کر ، کرتہ پائجامہ پہن کر نکلتے ہیں تو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ پورے سال ہم میں سے اکثر صرف جمعہ کے دن نکلتے ہیں یا پھر رمضان کے مقدس مہینے میں جب شیطان کو زنجیر سے جکڑ لیا جاتا ہے ۔

ان باتون کا احساس کب پیدا ہوگا ؟  اس لیے دین اسلام کی ایمانی  تعلیمات  (ایمانیات ) کے ساتھ  ساتھ ، اسلام کی عملی تعلیمات مثلا حسن عمل  اور  حسن خلق  کی بھی تعلیم پر زور دینا  ضروری ہے ۔ تبھی ہمارا معاشرہ کلی ، ایمانی اور عملی اعتبار سے مسلمان نظر آئے گا ۔   

۔۔۔

غلام غوث صدیقی نیو ایج اسلام کے مستقل انگریزی کالم نگار ہیں۔

-----------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/message-muslim-community/d/130764

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..