New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 10:29 AM

Urdu Section ( 12 Feb 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What Is Meant By Knowledge In The Qur'an? قرآن کا تصور ِعلم کیا ہے؟ اس کو ضرور سمجھئے

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

9 فروری 2024

اس کائنات میں انسان اللہ کی نیابت اور خلافت کا اعزاز رکھتا ہے اور انسان کو باری تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں اشرف اور افضل بنایا ہے اور احسن تقویم کا شرف عطا کیا ہے۔ اس کائنات میں انسان کی نیابت، خلافت اور فضیلت کی بنیاد، علم ہے۔ اس تصور پر یہ آیت کریمہ مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیئے۔ ‘‘ (البقرة:۳۱)

آدم علیہ السلام کو ملائکہ اور جنات پر فضیلت، علم کی بنیاد پر عطا کی گئی۔ اسی علم کو انسان کا شرف بنایا گیا اور اسی علم کو انسان کے امتیاز کا سبب بنایا گیا اور یہی علم انسان کی خلافت الٰہی کی بنیاد بنا ہے اور یہی علم انسان کی ترقی کا ہر دور میں راز بنا ہے اور یہی علم انسان کی دنیوی ترقی اور معاشرتی بلندی اور قومی عظمت کی نشانی بنا ہے اور اسی علم نے انسان کو انفرادی سطح پر بھی ترقی دی ہے اور اجتماعی سطح پر بھی عظمت اور سربلندی دی ہے اور یہی علم ہر دور میں قوموں کی ترقی کا ایک راز مسلسل رہا ہے اور یہی علم عصر حاضر میں سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد ہے۔ آج اقوام مغرب کی ترقی کا راز سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم ہے۔ اسی علم کو حاصل کرنے کی اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہر دور میں ترغیب دی ہے۔ پہلی وحی قرآن ہی حصول علم کی ترغیب دیتی ہے:

’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں ) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ ‘‘ (العلق: ۱؍تا۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کے ہر ہر فرد کے لئے تحصیل علم کو فرض قرار دیا ہے۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ ‘‘

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

’’مہد سے لے کر لحد تک علم حاصل کرو۔ ‘‘

آیئے اب ہم قرآن حکیم کی آیات کی روشنی میں اس بات پر غور کرتے ہیں کہ قرآن کا تصور علم کیا ہے۔ قرآن کس چیز کو علم سے تعبیرکرتا ہے۔ کون سا عمل، قرآن کے نزدیک علم ٹھہرتا ہے۔ علم کی حقیقت کیا ہے اور علم کی ماہیت کیا ہے، علم کا وظیفہ کیا ہے، انسان کا کون سا قول علم کی بنیاد بنتا ہے اور انسان کا کون سا عمل، علم کی علامت بنتا ہے؟ سورہ الانعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اور تمہیں وہ کچھ سکھایا گیا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔ ‘‘ (الانعام:۹۱)

اس آیت کریمہ کی ر‘و سے علم نہ جانی ہوئی چیزکو جاننا ہے۔ علم کسی چیز کا ادراک کرنا ہے۔ علم کسی چیز کو پالینا ہے، علم کسی چیز کا فہم حاصل کرنا ہے۔ علم سیکھنے اور سکھانے کا نام ہے۔ علم یہ ہے کہ جو قول کہا جائے وہ سمجھ میں آئے تو وہ قولِ علم ہے۔ اس سلسلے میں سورۃ النساء میں باری تعالیٰ نے فرمایا:’’یہاں تک کہ وہ بات سمجھنے لگو جو تم کہتے ہو۔ ‘‘ (النساء:۴۳)۔ گویا کوئی قال کا عمل کرے کوئی یقول کا وظیفہ اپنائے غرضیکہ قول کی جو بھی صورت ہو وہ سمجھ میں آئے تو علم ہے اور سمجھ یا فہم میں نہ آئے تو وہ بس قول ہی ہے، علم نہیں۔ گویا قرآن کہہ رہا ہے کہ تم وہ بات کہو جس میں علم ہو، تمہارے کہنے سے لوگ جان جائیں تو وہ علم ہے اور جو کہا جائے مگر وہ علم نہ دے تو وہ محض کہنا ہی ہے، علم نہیں ہے۔ علم وہی ہے جو سمجھ میں آئے۔ اس لئے سورہ بقرہ میں فرمایا:

’’پھر اسے سمجھنے کے بعد (خود) بدل دیتے حالاں کہ وہ خوب جانتے تھے (کہ حقیقت کیا ہے اور وہ کیا کر رہے ہیں )۔ ‘‘(البقره:۷۵)

قرآن کہتا ہے کہ علم، حقیقت کو جاننا ہے۔ علم حق کو پانا ہے۔ قرآن کے نزدیک علم سچ کو جاننا ہے اور علم صداقت کو پہچاننا ہے۔ علم انسان کا حق شناس ہونا ہے۔ اس لئے سورہ البقرہ میں ارشاد فرمایا: ’’اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ۔ ‘‘(البقره:۴۲)

جب انسان علم کے ذریعے حق کو جان لیتا ہے تو پھر وہ تنازعات نہیں اٹھاتا، وہ جھگڑے نہیں کرتا، وہ فساد نہیں مچاتا، وہ فتنہ بپا نہیں کرتا اور وہ ظلم نہیں کرتا۔ یہ ساری برائیاں نہ جاننے (علم نہ رکھنے) کی ہیں۔ حقیقت علم سے لاتعلقی کی ہیں، علم نہ ہو تو انسان فساد مچاتا ہے اور فتنے کو فروغ دیتا ہے۔ اس لئے سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا:

’’مگر ان باتوں میں کیوں تکرار کرتے ہو جن کا تمہیں سرے سے کوئی علم ہی نہیں ہے۔ ‘‘(آل عمران:۶۶)

 علم کی طلب سوال سے ظاہر ہوتی ہے۔ علم کا سوال کرنا، مزید علم جاننے کی خواہش کا اظہار کرنا ہے، خود سوال طلب علم کی نشانی ہے۔ لہٰذا طالب علم کو اپنی طلبِ علم کا سوال، اہل علم سے کرتے رہنا چاہئے، یہی فروغ علم کا ذریعہ ہے۔ علم کا سوال، علم کے نئے حقائق کو منکشف کرتا ہے۔ سوال علم کی گہرائیوں کو کھولتا ہے۔ سوال علم کی نئی جہتوں کو متعارف کرانے کا سبب بنتا ہے۔ سوال تلاش کو بڑھاتا ہے اور علم کو پھیلاتا ہے۔ اس لئے طالب علموں کو سوال کرنے کی ترغیب یوں دی گئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’سو تم اہل ِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو۔ ‘‘ (النحل:۴۳)

طالب علم کا کسی بھی علم کو جاننا یہ ہے کہ وہ اس علم کا ماضی بھی جانے، حال اور مستقبل بھی۔ وہ اس علم کی ابتداء بھی اور تاریخ ارتقاء بھی جانے، اس علم کی موجودہ اہمیت کو بھی سمجھے اور مستقبل میں ضرورت پر بھی نظر کرے، اس علم کی ساری جہتیں، ساری نوعیتیں اور ساری صورتیں اس کے ذہن میں ہوں، تب اس کا، اس علم کو جاننا کار آمد ہوگا۔ تب اس علم کو حاصل کرنا مفید اور اس علم کو پانا، اس کے لئے نفع بخش ہوگا۔ اس لئے ’’ایدیہم‘‘ کا جاننا حال و مستقبل کا جاننا ہے اور ’’خلفہم‘‘ کا جاننا، ماضی کا جاننا ہے۔ ارشاد فرمایا:

’’جو کچھ مخلوقات کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے بعد (ہونے والا) ہے (وہ) سب جانتا ہے۔ ‘‘ (البقره: ۲۵۵) معلم اپنے متعلم سے بڑھ کر جانتا ہے اس لئے فرمایا: ’’پس وہ جانتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے۔ ‘‘ (الفتح:۲۷)

قرآن، علم کی اہمیت کو کس جامع انداز میں اور عام فہم طریق میں انسانوں کو سمجھا رہا ہے کہ ایک جاننے والا اور ایک نہ جاننے والا برابر نہیں ہوسکتے۔ ایک عالم اور ایک جاہل مساوی نہیں ہوسکتے۔ علم بذات خود ایک منصب ہے اور علم بذات خود ایک عہدہ ہے۔ علم بذات خود ایک وقار ہے اور علم بذات خود ایک عظمت ہے۔ اس کے برعکس جہالت ایک آفت ہے۔ جہالت بھی ایک مصیبت ہے۔ جہالت بھی ایک اذیت ہے۔

اس طرح جو چیزیں ایک دوسری کی ضد ہوں وہ کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتیں۔ قرآن ہمیں اس آیت کریمہ کے ذریعے یہ حقیقت سمجھا رہا ہے کہ جس طرح جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہوسکتے:’’فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں ؟‘‘ (الزمر:۹) اسی طرح وہ معاشرہ جو پڑھا لکھا ہے اور وہ معاشرہ جو پڑھا لکھا نہیں ہے وہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح وہ قوم جو تعلیم یافتہ ہے اور وہ قوم جو جاہل ہے دونوں برابر نہیں ہوسکتیں۔ اس آیت کریمہ سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اگر قوم کو آگے بڑھانا ہے اور قوم کو ترقی دینا ہے اور قوم کو عظیم بنانا ہے تو اس قوم کو علم میں اتنا آگے بڑھا دو کہ دنیا کی کوئی قوم علم میں اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔

قرآن اس کے ساتھ ساتھ انسان کی شخصی حیثیت میں بھی حصول علم کی ترغیب دیتا ہے۔ فرمایا ہم نے انسان کو دو طرح سے علم دیا ہے۔ ایک طریق بیان اور ایک طریق قلم۔ سورہ الرحمٰن میں ارشاد فرمایا:

 ’’اسی رب نے انسان کو بیان سکھایا۔ ‘‘

 باری تعالیٰ نے انسان کوعلم سکھایا اور انسان نے اس علم کو بیان کرنا سیکھا، اس علم کو اظہار میں لانا سیکھا، اس علم کو مختلف جہتوں سے واضح کرنا سیکھا، اس علم کی ساری حقیقتوں کو بیان کرنا سیکھا، انسان کے بیان سے علم عیاں ہوا، انسان کے بیان سے علم ہر ذہن میں درخشاں ہوا، انسان کا حق شناسی کا بیان سب بیانوں پر ایک مہربان ٹھہرا۔ انسان کا یہی علم پر مبنی بیان، اس کی کامیابی کا امتحان ٹھہرا، تعلیم بیان در حقیقت تعلیم زبان ہے، تعلیم زباں درحقیقت قول انسان ہے۔ اب شخصی تعلیم کی دوسری جہت کو یوں بیان کیا:

’’جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ ‘‘ (العلق:۴۔ ۵)

انسان کے علم کا ذریعہ قلم ہے۔ جس انسان نے علم کے حصول کے لئے قلم کا استعمال سیکھ لیا اس نے علم سیکھ لیا۔ علم اور قلم لازم و ملزوم ہیں۔ قلم کے چلنے سے علم آتا ہے اور علم کی حفاظت قلم سے ہوتی ہے۔ علم بالقلم کے زندہ مظاہر، کتب خانوں میں ہیں۔ جس نے قلم کا سہارا لیا وہ امتحان میں کامیاب ہوا اور زندگی کے امتحان میں سرخرو ہوا۔

 علم اور قلم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنی دعوت کا ذریعہ علم اور قلم کو بنایا۔ رسولؐ اللہ نے اپنی امت کو سب سے پہلی تعلیم اقراء باسم ربک اور علم بالقلم کی صورت میں دی ہے۔ قرآن کا نزول ہوا تو علم بالقلم کے ذریعے تحریری صورت میں محفوظ ہوا، رسولؐ اللہ کی سیرت لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ، قلم کے ذریعے آج ہمارے پاس ایک زندہ سیرت کے طور پر موجود ہے۔ آج قرآن حکیم کے تراجم، تفاسیر، علوم القرآن، احادیث رسول کی ساری کتابیں اور ان کی شرحات، تمام علوم عقلیہ و نقلیہ، تمام فنی اور سائنسی علوم، تمام علوم ایجادات و اکتشافات اور سائنس و ٹیکنالوجی سب کے سب علوم علم بالقلم کے مظاہر ہیں۔ آج کا زمانہ قلم کے ذریعے زندہ ہے اور آج کی عصری روایات قلم کے ذریعے مستقبل میں موجود ہیں۔

 انسان کا ماضی قلم کی قوت سے درخشاں ہے، اس کا حال قلم کی قوت سے روشن ہے اور مستقبل قلم کی قوت سے تابناک ہے۔ جس فرد اور جس قوم نے قلم کو استعمال کیا، قلم اس فرد کے عمل کو بڑھادے گا اور اس قوم کو ترقی سے ہمکنار کردے گا۔ اس لئے ہر دور میں اور بطور خاص آج کی دنیا میں جتنے بھی کارہائے نمایاں ہیں وہ قلم کے ذریعے ہیں، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ’’قلم گوید کہ من شاہ جہانم۔‘‘

9 فروری 2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

---------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/meant-knowledge-quran/d/131699

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..