احمدجاوید
16 ستمبر، 2021
شہید صحافت وحریت مولوی
محمد باقر دہلی کےایک متبحرعالم، خطیب، ادیب ، دہلی کالج کے استاداور اردو کے عہد
ساز صحافی تھےاور سب سے بڑھ کر ہندوستان کی تحریک آزادی میں پہلا جام شہادت جس
صحافی کے حصے میںآیا، وہ یہی ہیں ۔
دہلی اردو اخبار کے بانی
و مدیرمحمد باقردہلوی 1780ء
میں ملک کےایک مشہوردینی و علمی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کےوالد مولوی محمد اکبر
علی دہلی کے ایک بڑے عالم و فقیہ تھے۔ ان کی تعلیم پہلے تو اپنے والد کی درسگاہ
میں ہوئی، پھردہلی کالج، دہلی میں پڑھا۔تعلیم سے فراغت کے انہوں نے درس وتدریس کا
خاندانی پیشہ اپنایا۔ وہ ایک عرصہ تک دہلی کالج کےاستاد تھے۔ان کی شخصی خصوصیات سے
متأثر ہوکرمنتظم دہلی چارلس مٹکاف ان کوکالج سےانتظامیہ میں لےآیاجہاں وہ ترقی کرکے تحصیلدار
دہلی ہو گئے تھے۔
مولوی محمد باقر
----
1836ء
میں حکومت نے پریس ایکٹ میں ترمیم کر کےملک ے باشندوں کودیسی زبانوں میں اخبارات
کی اشاعت کی اجازت دے دی توان کی بےچین روح ملازمت کی پابندیاں توڑ کرملک و ملت کی
تعمیر فکر ونظر اور آرائش عروس حریت کے مشن پر نکل پڑے۔مولانا نے صحافت کی دنیا
میں قدم رکھا جو ان کا فن اوران کی پہچان بن گیا۔ جنوری 1837ء
میں انہوں
نے ہفت روزہ ’دہلی اخبار‘ جاری کیا۔ یہ اخبارمسلسل اکیس برسوں تک جاری رہا۔اردو کی
جس طاقت کو ہری ہردت اور سداسکھ لعل نے 1822ء
میں کلکتہ
سے ’جام جہاں نما‘ جاری کرکےدریافت کیا تھا، صحیح معنوں میں اس کی نشوونمااس اخبار
کے ذریعے ہوئی۔ اس دوران اس کا دو مرتبہ نام تبدیل ہوا۔3؍مئی 140ء
کو اس کا نام ’ دہلیاردو‘ اخبار کردیا گیا تھا جبکہ 12؍جولائی 1857ء
کو مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے اس کا نام ’ اخبارظفر‘ کردیا تھا اور اس کے آخری
دس شمارے اسی نام سے شائع ہوئے۔مولوی باقر کو عربی، فارسی اور انگریزی بھی آتی
تھی۔1836ء میں انہوں نےاپنا چھاپہ خانہ قائم
کیا۔ اسی پرنٹنگ پریس سے اردو کے پہلے مکمل، خود مکتفی اور باقاعدہ اخبار کا آغاز
ہوا۔اردو کے پہلے اخبار ’جام جہاں نما‘ کو مورخین اسی نام کےفارسی اخبار کا ضمیمہ
مانتے ہیں اور ضابطہ کے کاغذات میں اس کی زبان ہندوستانی تھی۔ دہلی اردو اخبار کے
صفحہ اول پر بادشاہ، شہزادے شہزادیاں اور قلعہ معلی کی خبریں چھپتی تھیں جبکہ
صاحب کلاں کے مستقل عنوان کےتحت ایسٹ انڈیا کمپنی کی خبریں دی جاتی تھیں۔مذہبی
مضامین اور ادبی تخلیقات کا الگ الگ گوشہ ہوتا تھا ۔ مولانا اپنے رشحات قلم میں
جدید تعلیم کے فروغ پر زور دیتے تھے۔ 1857ء
میں انہوں نے اخبار کو آزادی کی جدوجہد کی ذہنی و فکری رہنمائی کے لیے وقف کردیا
تھا۔یہاں تک کہ غدر شروع ہواتو اخبار کا نام بدل کر اخبارالظفر کردیا اور اس میں
دہلی، میرٹھ، سہارنپور، انبالہ اور دیگر علاقوں کی سیاسی و سماجی سگرمیوں کی خبریں
بھی چھپنے لگیں۔ کٹک، لاہور، ملتان ، بھوپال اور کلکتہ جیسے دور دراز علاقوں کے
حالات معلوم کرکے ان کی تفصیلات بھی شائع کیں۔ مولانا کا خبررسانی کا نیٹ ورک اتنا
وسیع تھا کہ دور دراز شہروں کی خبریں بھی ان کو مل جایا کرتی تھیں۔عین ممکن ہے کہ
وہ ان خبروں کی ترسیل کے انقلابیوں کی تنظیموں، باغی فوجیوں اور وقائع نگاری کے
روایتی سرکاری نظام کا استعمال کرتے ہوں۔ تحریک آزادی کے عروج کے وقت دہلی میں جب
انگریزوں کے اہل کتاب ہونے اور ہندؤں کے خلاف جہاد کے وجوب کا اشتہار لگایا گیا
تو مولانا نے فرزندان وطن کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی اس سازش کو بروقت پہچان
لیا اور اخبار کے ذریعے عوام الناس کو اس سے باخبر کیااور آزادی کے لیے لڑنے والے
سپاہیوں کو اپنی صفوں میں اتحادو اتفاق قائم رکھنے کی تلقین کی۔ انہوں نے رئیسوں
اور راجاؤں کے لیے لکھا کہ اپنے ہم وطنوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھ انہیں ہرگز
نہیں دینا چاہیے۔فرزندان وطن کو بار بار یاد دلایا کہ:
بنی آدم اعضائے یک
دیگرند
کہ در آفرینش زیک جوہرند
مولانا اتحاد قوم ہی نہیں
اتحاد امت مسلمہ کے بھی بہت بڑے داعی و نقیب تھے۔انہوں نےدہلی میں درگاہ پنجہ شریف
کے قریب امام بارگاہ تعمیر کرائی تھی جس کو آزاد منزل کے نام سے جانا جاتا تھا۔
مشہور ہے کہ سید احمدبریلوی کی تحریک کے ردعمل میں جب اس شہر میں جوابی جوش و خروش
بڑھا اور تبرابازی ہونے لگی تو انہوں نے اپنے امام باڑے میں تبرا پر پابندی
لگائی۔انہوں نے 1843ء میں مظہرالحق کے نام سےایک مذہبی
اخبار بھی اردو میں نکالا تھا جس کےمضامین میں غلامی کے خلاف اسلام کی جدوجہد اور
دین کے صحیح تصور پر بہت زور ہوتا تھا۔
1857ء
کے انقلاب کی ناکامی کے بعد آزادی کی اس جنگ میں شرکت کی بنا پر ان کوگرفتار کیا
گیا اور بغیر کسی مقدمے کے دو دنوں بعد 16 ستمبر 1857ء
کو گولی مار کر سزائے موت دے دی گئی۔ان قتل کرنے کے لیے دہلی کالج کے انگریز
پرنسپل مسٹر ٹیلر کے قتل کا الزام لگایا گیا تھاحالانکہ اس شخص کو مولانا نے اپنے
گھر میں پناہ دی تھی اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اس کی جان بچانے کی کوشش کی
تھی۔ مولانا کو شہید کرنے والےانگریز افسرکا نام ولیم اسٹیفن رائیکس ہوڈسن تھا جس
کو ایک سال بعد لکھنؤ میں کسی نے گولی مار کر جہنم رسید کردیا تھا۔
مولانا محمد باقر
ہندوستان کی قومی تاریخ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی صحافت کا وہ باب ہیں جس نے ملک
کی آزادی میں صحافت کا قائدانہ کردار متعین کیا۔وہ ادو صحافت کے ماتھے کاوہ جھومر
ہیں جس پر ہم جتنا بھی ناز کریں کم ہوگا لیکن اسی کے ساتھ اپنےاعمال و کردار کا
جائزہ بھی لیں کہ آج ہم اور ہماری صحافت کہاں کھڑی ہے۔
16 ستمبر، 2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism