شورش کاشمیری
23 دسمبر، 2013
جناب شورش کاشمیری کو 1946 میں دیئے گئے انٹرویو کا دوسرا حصہ
‘‘ ابھی تک مسٹر جناح نے شاید اس پر غور نہیں کیا کہ بنگال اپنے سے باہر کی لیڈر شپ کو کسی نہ کسی مرحلے میں مسترد کردیتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں مسٹر اے کے فضل الحق نے مسٹر جناح سے بغاوت کی اور لیگ سے نکال دیئے گئے مسٹر حسین شہید سہر وردی بھی مسٹر جناح کے متعلق چنداں خوش رائے نہیں، لیگ کو چھوڑ و، کانگریس ہی کی پوری تاریخ پر نظر ڈالو، سبھاش چندر بوس کی آخری بغاوت سب کے سامنے ہے۔ گاندھی جی ان کی صدارت سے مطمئن نہ تھے ۔ انہوں نے راج کوٹ میں مرن برت رکھ کر سارے ملک کو اپنی طرف پھیر لیا ، سبھاش بوس لڑکر کانگریس سے الگ ہوگئے ۔ بنگال کی آب ہوا کا خاصہ ہے کہ وہ بیرونی لیڈر شپ سے گریز کرتا اور اپنی لَے پر قائل رہتا ہے اور جب اس کے حقوق و مفادات مجروح ہوں تو بہر نوعی بغاوت کے لئے تیار ہوتا ہے ۔ مسٹر جناح یالیاقت علی تک تو مشرقی پاکستان کا اطمینان ڈانو اڈول نہیں ہوگا کہ پاکستان کی تازگی ان کے اتحاد کا باعث ہوگی لیکن ان کے بعد مشرقی پاکستان میں اس قسم کے آثار کا پھوٹنا یقینی ہے جو مغربی پاکستان سے اس کے بد ظنی اور آخر کار علیحدگی کا موجب ہوں گے مجھے شبہ ہے کہ مشرقی پاکستان زیادہ دیر مغربی پاکستان کے ساتھ رہ سکے گا؟ دونوں حصوں میں مسلمان کہلانے کے سوا کوئی چیز مشترک نہیں لیکن مسلمان کہلانا کبھی ریاستوں کے دائمی اتحاد کا باعث نہیں ہوا۔ عرب دنیا ہمارے سامنے ہے وہاں ایک نہیں کئی چیزیں مشترک ہیں، عقائد میں یک رنگی ہے، تہذیب یکساں ہے ، ثقافت ایک ہے، زبان واحد ہے حتیٰ کہ جغرافیائی حد و د تک مشترک ہیں لیکن ان میں سیاسی و حدت نہیں ان کے نظام ہائے حکومت مختلف ہیں اور اندر خانہ ایک دوسرے سے تصادم کی فضا موجود ہے ۔ مشرقی پاکستان کی زبان، رہن سہن، تہذیب، ثقافت اور بعض دوسری چیز یں مغربی پاکستان سے قطعی مختلف ہیں، پاکستان کا تخلیقی شعلہ سرد پڑتے ہی ان تضادات کا ابھر نا ایک بد یہی امر ہے۔ پھر عالمی طاقتوں کے مفادات کا ٹکراؤ ان کی علیحدگی کا متحرک ہوسکتا ہے۔
خدانخواستہ مشرقی پاکستان الگ ہوگیا تو مغربی پاکستان تضادات و تصادِ مات کا مجموعہ بن جائے گا ، پنجابی، سندھی، سرحدی او ربلوچی اختلافات و سوالات پیدا کئے گئے تو پاکستان ذہنی انتشار اور عالمی مفاد کی آماجگاہ بن جائے گا۔ آج جو نسل پاکستان بنائے گی ، ممکن ہے اس کے اٹھتے ہی صوبائی عصبیتوں کاسوال اُبھر ے اور عالمی طاقتیں پاکستان کی مختلف الفکر لیڈر شپ کو ہاتھ میں لے کر ایک ایساکھیل رچائیں کہ مغربی پاکستان بلقانی ریاستوں یا عرب ریاستوں کی طرح کئی ایک ریاستوں میں بٹ جائے؟ تب یہ سوال ممکن ہے، بعض ذہنوں میں پیدا ہوکہ ہم نے پایا کیا اور کھویا کیا؟
ایک دوسرا سوال جو بر اعظم کی تقسیم سے وابستہ ہے وہ افریشیائی ملکوں میں عالمی طاقتوں کی مداخلت کامسئلہ ہے۔ افریشیائی ممالک زیادہ تر مسلمان ریاستوں ہی کا ایک مجموعہ ہیں ان کے لئے ایک ہندوستان ہی زیادہ سے زیادہ مفید ہوسکتا ہے لیکن پاکستان کا ہندوستان سے اور ہندوستان کا پاکستان سے ٹکراؤ ، نہ صرف ہندوستانی عوام کو مسلمانوں سے بدظن کردے گا بلکہ مسلمان ریاستوں کے ابتلاء میں بھی ہمدردی و اعانت کے وہ جذبات پیدا نہ ہوں گے جو مشترکہ ہندوستان میں پیدا ہوسکتے ہیں۔
اصل سوال دین کا نہیں معاش کا ہے ۔ مسلمان امراء نے اپنی معاشی کمتری اور اقتصادی فروتری کے خوف و انحطاط کو دو قومی نظریہ کی شکل دے کر فرقہ وار مسائل کو اس انتہا تک پہنچادیا ہے کہ اب انہیں ایک ہندوستان میں اپنے معاشی اقتدار کے لئے کوئی جگہ نظر نہیں آتی وہ ایک اسلامی ریاست میں بلا شرکت غیرے معاشیات کے واحد مالک ہوں گے لیکن کب تک مسلمانوں کو نظریاتی سحر میں مبتلا رکھ سکیں گے یہ غور طلب سوال ہے۔ پاکستان کے سر پہ کئی چیزیں سوار ہو ں گی، مثلاً:
1۔ سیاست دانوں کی ویرانی پر مسلمان ملکوں کی طرح فوجی انقلاب کے خطرے۔ 2۔ غیر ملکی قرضوں کا اندھا دھند بوجھ ۔3۔ ہمسایہ ملکوں سے جنگ کا خدشہ ۔4۔ اندرونی تضادات کے تصادمات ۔5۔ پاکستان کے نو دولت سرمایہ داروں اور نو ساختہ صنعت کاروں کی لوٹ ۔6۔ اس استحصال سے طبقاتی جنگ پیدا ہونے کے امکانات ۔7۔ اسلام سے نئی پود کابہمہ و جوہ گریز و فرار بالفاظ دیگر نظریہ پاکستان کا سقوط ۔8۔ عالمی طاقتوں کی پاکستان کے بارے میں مختلف سازشیں۔
ادھر ان حالات میں پاکستان مخدوش ہوگا اُدھر اسلامی ملک اس قابل نہیں ہوں گے کہ پاکستان کی اس طرح مدد کرسکیں جس طرح دوسری جنگ عظیم میں اتحادی ایک دوسرے کے معاون تھے ، غیر اسلامی ملکوں نے پاکستان کی مدد کی تو وہ ان کے مفادات کا ریلا لے کر آئے گی، جس سے پاکستان میں نظریاتی اور جغرافیائی خلل کا پیدا ہونا یقینی ہے ۔
سوال ۔ ‘‘لیکن ایک ہندوستان میں مسلمان اپنی اصل انفرادیت کیونکر قائم کرسکتے ہیں اور ان میں ایک اسلامی ریاست کے مسلمانوں کی خصوصیتیں کیونکر پیدا ہوسکتی ہیں؟’’
جواب ۔‘‘ محض الفاظ کے سہارے حقائق کو جھٹلا یا نہیں جاسکتا ورنہ سوالات کا رُخ پھیر کر جوابات میں کجی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ حقائق کو ا س قسم کے سوالات یا جوابات سے توڑ نایا موڑ نا غلط بحث ہے۔ مسلمانوں کی ملّی انفرادیت سے مراد کیا ہے؟ اگر انگریزوں کے عہد میں وہ ملّی انفرادیت قائم رہی ہے تو آزاد ہندوستان میں جن کے حصے دار مسلمان بھی ہوں گے اس انفرادیت کا ضائع ہوناکیونکر ممکن ہے؟ مسلمان ریاستوں کی وہ کون سی خصوصیتیں ہیں جنہیں آپ یہاں پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ اصل چیز دین اور اس کے لوازم ہیں ، انہیں اختیار کرنے اور ان پر چلنے سے کون روک سکتا ہے؟ کیا نو کروڑ مسلمان آزادی کےبعد اس قدر بے بس ہوجائیں گے کہ دین اور اس کے لوازم ان سے چھن جائیں گے ، انگریز ایک عالمی عیسائی طاقت ہونے کے باوجود ان سے اسلام چھین نہیں سکا تو ہندوؤں میں وہ کون سی طاقت، کشش یا سحر ہے کہ وہ مسلمانوں کو اسلام سے محروم کردیں گے؟ یہ سوالات عموماً ان لوگوں کے پیدا کردہ ہیں جو خود انگریزی تہذیب سے مغلوب ہوکر اسلام سے دستبردار ہوچکے اور اب سیاسی طور پر ٹامک ٹوئیاں مارر ہے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ اجتماعی طور پر مسلمانوں کی تاریخ ہے ۔ مسلمان بادشاہوں نے ہندوستان میں اسلام کی خدمت کی ہوتی تو آج تین چوتھائی ہندوستان ضرور مسلمان ہوتا لیکن ان بادشاہوں نےاسلام سے ظواہر کا واسطہ رکھا، وہ اسلام کے داعی نہ تھے وہ حکومت چاہتے اور حکومت کرتے تھے ۔
اسلام یہاں صوفیوں کی بدولت پھیلا، مسلمانوں کا سوادِ اعظیم ان اہل اللہ کا مرہون ہے، اسلام کی دولت انہی کی معرفت ملی ہے۔ کئی بادشاہوں نے ان کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا اور اپنے گردوپیش اس قسم کے علماء پیدا کئے جو اشاعت اسلام کی راہ میں ایک بڑی روک تھے ۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے اس وقت کی مہذب دنیا کو مغلوب کیا اور حجاز کے گردو پیش کےبیسیوں ملک کو مِلاً اسلام کی آغوش میں آگئے لیکن ہندوستان میں صحیح اسلام نہ آسکا ۔ مسلمان یہاں کے رسومات سے اس قدر متاثر ہوئے اسلام کی حقیقی روح سے محروم ہوگئے ۔ ایک دوسری وجہ یہ تھی کہ اسلام یہاں عجم کی معرفت آیا تھا لیکن اس کے باوجود ہندوستان کی بارہ سو برس کی تہذیب پر مسلمانوں کی چھاپ لگی ہوئی ہے اور اس کامعاشرہ اسلامی نقش و نگار کر مرہون ہے، ہندوستان کے آرٹ،ہندوستان کی موسیقی ، ہندوستان کے تمدن، ہندوستان کی ثقافت، ہندوستان کے فن تعمیر اور ہندوستان کی زبان میں نصف سے زائد حصہ اسلامیات سے فیضیاب ہے، ان کے خزانے عربی، عجمی ، ترکستانی اور ایرانی مسلمانوں کی بود و باس اور رنگ و آہنگ سے لدے پھندے ہیں ۔
آج ہندوستان کے تہذیبی شہر مثلاً لکھنؤ اور دہلی کن محاسن کا مجموعہ ہیں؟ کیامسلمانوں کی تہذیب ان کی روح رواں نہیں؟ مسلمان ہندوستان کو اتنا کچھ دے کر بھی خطرہ محسوس کریں اور انہیں وہم ہوکہ وہ انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے فوراً بعد ہندوؤں کے غلام ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہی دُعا کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کو استقامات ایمان عطا ہو، آدمی بد دل ہوتو اس کے دل کو سنبھا لا دیا جاسکتا ہے اور اس میں حرکت کے آثار واپس لائے جاسکتے ہیں لیکن آدمی بزدل ہوتو اس کے دل کو سنبھالا دینا اور اس کے حوصلے کو ثبات کی سمت لوٹا نامشکل ہے، مسلمان اجتماعی طور پر بزدل ہوچکے ہیں۔ وہ خدا سے نہیں ،ڈرتے انسانوں سے ڈرتے ہیں اور اس ڈر ہی سے انہیں اپنا وجود آزاد ہندوستان میں خطروں کا صید محسوس ہوتا ہے۔
انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو کیا مسلمانوں کو مٹانے کی ہر بہیمیت کے باوجود مٹا سکے؟ مسلمان جبر سہتے او ربڑھتے گئے ، ہندوستان کی مردم شماری کے مختلف ادوار کا نقشہ ان کے علم میں ہوتو مسلمان شاید محسوس کریں کہ ان کے ذہنی خطرے بے اصل ہیں اور ہر دور میں پھیلتے رہے ہیں اور اس کی وجہ ان کے معاشرے کا سحر و کشش ہے۔ ہندوستان کے تین طرف اسلامی دنیا پھیلی ہوئی ہے، ہندوستان کی اکثریت مسلمانوں کو مٹا کر کیونکر پنپ سکتی ہے ۔ کیا نو کروڑ مسلمانوں کو مٹانا آسان ہے؟ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری تہذیب اور ثقافت میں ایک ایسا جادو ہے کہ شاید آئندہ پچاس سال میں ہندوستان کی سب سے بڑی آبادی مسلمان ہو۔ دنیا کو پائیدار امن کی تلاش کے علاوہ ایک فلسفہ پر زندگی کی ضرورت ہے ۔ اگر ہندو کا رل مارکس کے پیچھے دوڑ سکتے اور فلسفہ زندگی کی تلاش میں یورپ کے علم و دانش کا کھنگال سکتے ہیں تو اسلام سے انہیں کد نہیں ، وہ اس کے سوانح سے آگاہ ہیں ۔ ان کا دل اعتراف کرتا ہے کہ اسلام کی عصیبت کا نام نہیں اور نہ استبدادی فلسفہ ہے ۔
اسلام ایک عالمگیر معاشرے کی دعوت ہے ایک عالمی امن کی اساس ہے۔ ایک پروردگار کی خدائی کا اقرار ہے اور ایک ایسے شخص کی رسالت کا اعلان ہے جو اپنی پوجا کے لئے نہیں خدا کی عبادت کے لئے نوع انسان کو پکارتا ہے اور جس نے تمام معاشی و مجلسی امتیازات مٹا کر صرف تقویٰ ، دیانت او رعلم کے عناصر ثلاثہ پر معاشرے کی بنیاد رکھی ۔ ہم نے اپنے اعمال کی تعدیوں سے نا مسلمانوں کو اسلام سے برگشت کیا ہے۔ ہم اگر اسلام کو اپنے اغراض کی سیاہی سے داغدار نہ کرتے تو مضطرب الحال دنیا اسلام کے آغوش میں ہوتی ۔ پاکستان اسلام نہیں ، ایک سیاسی مطالبہ ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کا مسلم لیگ کے الفاظ میں قومی نصب العین ہے ۔ میرے نزدیک یہ ان مسائل کا حل نہیں جو مسلمانوں کو درپیش ہیں ۔ یہ اور کئی مسئلوں کو جنم دے گا اور جو مسائل موجود ہیں ان کا حل نہ ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ‘ خدا نے میرے لئے تمام دنیا کو مسجد بنایا’ او رہم کسی حال میں بھی مسجد کی تقسیم کے مجاز نہیں ۔
نوکروڑ ہندوستانی مسلمان تمام صوبوں میں اقلیتوں کی طرح منتشر ہوتے تو ان کی یکجائی کے لئے ایک دو صوبوں میں ان کے اکثریتی اتحاد کا مطالبہ کیا جاسکتا تھا، گو یہ مطالبہ بھی اسلامی نہ ہوتا ۔ لیکن مسلمانوں کے عمومی تحفظ کی خاطر کسی حد تک یکسر مختلف ہے۔ ہندوستان کے سرحدی صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ان سے ملحق خود مختار اسلامی ریاستیں ہیں ۔ وہ کون سی طاقت ہے جو انہیں مٹا سکتی ہے یا مٹادے گی۔ ہم تقسیم کا مطالبہ کر کے مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کے علاوہ ساڑھے تین کروڑ مسلمانوں کو خود ہندو راج کے حوالے کر رہے ہیں ۔ وہ مسئلہ جو آج ہندو مسلم آویزش کی شکل میں مسلم لیگ اور کانگریس کا تنازع ہے کل دو ریاستوں کا تنازع ہوجائے گا۔
اور یہی تنازع عالمی استعمار کی معرفت کسی دن میں جنگ کاموجب ہوگا ۔ رہا یہ سوال کہ پاکستان مسلمانوں کے لئے نقصان کیوں کرتے ہیں؟ تو یہ سوال فی الواقعہ دلچسپ ہے ۔ جنہیں آزادی کی لگن ہے او رملک کی یکجہتی کے شیدائی ہیں وہ عالمی سامراج کی ریشہ دو انیوں سے محفوظ رہنے کے لئے بٹوارے کی مخالفت کرتے ہیں کچھ خام دماغ اس کی مخالفت سے مسلمانوں کو پاکستان کے لئے پکّا کررہے ہیں کہ اس طرح پاکستان کو تسلیم کر کے وہ بلا شرکت غیرے ہندوستان کے مالک بننا چاہتےہیں۔ (جاری)
23 دسمبر، 2013 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر، نئی دہلی
Related Article:
URL of English Article: https://newageislam.com/books-documents/maulana-abul-kalam-azad-man/d/2139
https://www.newageislam.com/urdu-section/maulana-abul-kalam-azad-man-part-1/d/35655
https://www.newageislam.com/urdu-section/maulana-abul-kalam-azad-man-part-3/d/35695
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/maulana-abul-kalam-azad-man-part-2/d/35663