New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 09:53 AM

Urdu Section ( 4 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Marriage Rituals, Dowry and their Disadvantages شادی کی رسومات ، جہیز اور ان کی تباہ کاریاں

حفظ الرحمن یونس خان

29دسمبر،2023

شادی انسان کی فطری ضرورت ،نسل انسانی کے بقا کی ضامن ہے۔ عفت وپاکدامنی ،الفت و محبت میں مضبوطی اور وسعت دیتی ہے۔ شادی زنا جیسے عظیم گناہ سے بچنے کا آسان ذریعہ ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کو شادی کی ترغیب دی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘شادی میری سنت ہے جو شخص بلا کسی عزر کے شادی نہیں کرتاہے وہ ہم میں سے نہیں’ ۔دنیا میں جنسی بے راہ روی کی سب سے بڑی وجہ بلوغت کے بعدوقت پر شادی نہ کرنا ہے۔رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شادی کو اتنا آسان کردو کہ زنامشکل ترین ہوجائے ۔

نکاح ایک ایسا عقد ومعاہدہ ہے جس کے نتیجہ میں مرد اور عورت ایک دوسرے پر حلال ہوجاتے ہیں۔ ‘‘عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو’’( سورہ نساء۔3 ) ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘‘ اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھتا ہے وہ نکاح کرلے’’( صحیح بخاری ومسلم) ۔ اسلام جبری اور غیر پسند کی شادی کو ناپسند کرتا ہے نیز والدین کے ادب واحترام کے باوجود اولاد کی رغبت پسند اور رضامندی کو ترجیح دیتاہے ۔ نسل انسانی کی بقا، اپنی عزت کی حفاظت ،فطری خواہش کی تکمیل ،الفت و محبت میں وسعت زوجین کے حقوق کا تعین اور دونوں سے جو اولادیں پیدا ہوں ان کی تعلیم وتربیت میں ایک دوسرے کا تعاون شادی کامقصود ہے۔

نسل انسانی کی بقا کو یوروپ کے وہ لوگ زیادہ سمجھ سکتے ہیں جہاں کی آبادی دن بدن گھٹی جارہی ہے۔ انسانی وسائل اور انفرادی قوت کی قلت نے معیشت کی کمر توڑ دیتی ہے جس کی وجہ سے یورپ کی بعض حکومتیں فزائیش نسل کے لئے انعامات ودیگر سہولیات دینے کا وعدہ کرنے پر مجبور ہیں ۔ شادی اور اس کی رسومات کو ہم اتنا مشکل ترین بنادیا ہے کہ اب شادی آسانی کی جگہ مشکل ترین اور زحمت بن کر رہ گئی ہے۔ بن بیاہی او رکنواری لڑکیوں کی تعداددن بدن بڑھتی جارہی ہے۔مسلکی ،خاندانی، برادری ،قبائلی اور دیگر وجوہات کی بنا پر رشتے کٹھن ہوگئے ہیں ،اگر مشکل سے رشتے ملتے بھی ہیں تو بیجا رسومات اور جہیز کی لعنت نے تباہی مچا رکھی ہے۔ منگنی ،مہدی ، تیل، ہلدی ،بارات او رنہ جانے کن کن ،ناموں سے بے جارسومات میں لاکھوں روپے حرام طریقے سے خرچ کیے جارہے اگر ہم ،صرف منگنی، مہدی، تیل اور ہلدی میں سے ایک کو چھوڑدے تو تین چار غریب بچیوں کی شادی ہوجائے۔

یہ مشہور ہے کہ قوم مسلم غربت مفلسی مظلومی او ربیچارگی کی زندگی جینے پر مجبور ہے لیکن ان کی شہنشاہی دیکھتی ہے تو شادی ہال پنڈالوں اور شادی گھروں میں جاکر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس قوم سے بڑھ کر تو آج شہنشاہیت اور ٹھاٹھ باٹ میں کوئی جی ہی نہیں رہا ہے ۔ ان بیجا رسومات کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ گھر کا رہنما سردار نگراں اور حاکم مرد ہے کوئی مرد صرف روزہ ،نماز اور حج کی بنیاد پر جنت میں نہیں جاسکتا ۔ ان سے ان کی بیویاں اور ان کی اولاد ان کے زیر اثر اور نگرانی میں رہنے والے کے متعلق پوچھا جائے گا کہ یہ لوگ دین سے دور اور بے راہ روی کے شکار ہوئے کیسے۔قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا لیکن ھھر کے بے راہ روی کا بوجھ مرد جو گھر کا نگراں او رحاکم اس کے سر ہوگا۔

جہیز جیسے ہندوستان میں دان دہیج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ،دین اسلام میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ چونکہ ہندوستان میں لڑکی کے لیے وراثت میں کوئی حصہ نہیں تھا لہٰذا لرکی کے والدین دین دہیج خیرات کے نام پربیٹی کو دے دلاکر ہمیشہ کے لئے کنیا دان کے نام سے رخصت کردیتے تھے ۔لیکن دین اسلام میں بیٹی والے پر کوئی اضافی بوجھ نہیں ہے۔

بیٹی کی رخصتی کے وقت باپ کے لئے خوشی کا وقت ہوتاہے ۔ یہ اندیشہ ہوتاہے کہ نیا گھر نیا ماحول نیا انسان پتہ نہیں دل ملے نہ ملے یہ کیسا انصاف اور عقل سے لگتی بات کہ باپ اپنے جگر کے ٹکڑے کو تعلیم و تربیت دے کر آپ کے حوالے کرے او رآپ کے لیے طرح طرح کے پکوان کا انتظام بھی کرے۔ جہیز ظلم وزیادتی ہے۔ ایک بھیانک فساد اور ایک دمکتی ہوئی آگ ہے جس میں لاکھوں نہیں کروڑوں بیٹیاں جھلس چکی ہیں ۔کیرالہ کی ایک ڈاکٹر بیٹی بی ایم ڈبلیو ہیرے جواہرات اور زمینیں جہیز میں نہ دیے جانے پر شادی ٹوٹ جانے کے غم میں خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئی۔ کچھ نادان کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہ کو جہیز دیا تھا ۔ انہیں یہ پتانہیں کہ فاطمہ زہرہ کے والد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ولی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جیب سے کچھ بھی نہیں دیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جن کا اپنا گھر بھی نہیں تھا، انہیں کسی انصاری صحابی نے ایک حجرہ دیاتاکہ بیوی کو رخصتی کراکر لاسکیں۔ایک پرانی زرہ جسے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خودی اورغیرت کو چوٹ نہ پہنچے 30؍درہم یا دینار میں خریدی جس کا کچھ حصہ مہر میں دیا گیا، کچھ حصہ حجرہ کی صاف صفائی کھانے پینے کے چند روز کے انتظام کیلئے دیا گیا اور کچھ سے ایک گدہ دو تکیہ جس میں کھجور کی چھالیں بھری تھیں ، ایک آٹے کی چکی ایک پانی کا مشکیزہ خریدا گیا او رجو درہم یا دینار تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ملکیت تھی۔

اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ شادی کی رسومات او رجہیز نے بھیانک ،ہولناک اور تباہ کن وبا کی شکل اختیار کرلی ہے جس کے روک تھام اور اس زحمت کو پھر سے رحمت بنانے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ شادی کی وہ سادہ شکل جس میں دلہا دلہن ،دوگواہ، حیثیت کے مطابق نقد مہر کا تعین ،ایجاب وقبول اور حیثت کے مطابق ایک چھوٹا سا ولیمہ ہواسے دوبارہ اختیار کی جائے ،تاکہ اس بھیانک تباہی کو کچھ کم کیا جاسکے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : ‘‘ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا او راسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے بہت سے مردوعورت پھیلا دیئے، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام سے ایک دسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑ نے ؂سے بھی بچو اللہ تم کو دیکھ رہا ہے’’( نساء ۔4)یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ سے خوشنودی مولیٰ کو حاصل کرتے ہوئے سماجی تباہی، ہولناک کی ،بربادی، فساد وبے چینی کو ختم کرسکتے ہیں اس کے علاوہ دوسری کوئی راہ نہیں ہے۔

29دسمبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/marriage-rituals-disadvantages/d/131448

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..