New Age Islam
Sat Apr 26 2025, 08:09 PM

Urdu Section ( 7 Feb 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why Marriage of Minor Muslim Girls Should be Illegal کیوں مسلم بچیوں کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا جانا چاہیے؟

ارشد عالم، نیو ایج اسلام

 16 جنوری 2023

 مسلمانوں کو آگے آکر اپنے پرسنل لا میں تبدیلی کرنا چاہیے۔

 اہم نکات:

1.      مسلم پرسنل لاء PCM 2006 اور POCSO 2012 جیسے سول قوانین سے متصادم ہے۔

2.      سپریم کورٹ نے ایک پٹیشن کو منظوری دی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس طرح کے تنازعات کے معاملات میں، ملک کے سول قانون کو مذہبی قوانین پر فوقیت دینی چاہیے۔

3.      مسلم پرسنل لا کے مطابق، لڑکی بلوغت کو پہنچتے ہی شادی کر سکتی ہے۔

4.      طفولیت میں بچیوں کی شادی کے نتائج جذباتی، نفسیاتی، جسمانی، مالی اور تعلیمی عتبار سے سامنے آتے ہیں۔

 -----

 سپریم کورٹ نے ایک عرضی کو منظوری دی تھی  جس میں مسلم پرسنل لاء کے دفعات کے تحت نابالغ مسلم لڑکیوں کی شادی کی قانونی حیثیت کی جانچ کا مطالبہ کیا گیا ۔ ہم جانتے ہیں کہ ملک میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال ہے لیکن مسلم پرسنل لاء لڑکیوں اور لڑکوں کو بلوغت تک پہنچنے کے بعد شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان لڑکیاں مقررہ 18 سال سے بہت پہلے شادی کر سکتی ہیں۔ مسلم قانون اور ریاستی قانون کے درمیان یہ تضاد ابھی تک حل نہیں ہوا ہے، مختلف ریاستوں میں اعلیٰ عدالتیں مختلف فیصلے دے رہی ہیں۔ اس طرح، گزشتہ سال اکتوبر میں، پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ مسلم لڑکیاں بلوغت کو پہنچنے کے بعد شادی کر سکتی ہیں کیونکہ اس کا مذہب اسے اس کی اجازت دیتا ہے۔

 مسلم پرسنل لا کی یہ شق براہ راست پریوینشن آف چائلڈ میرجز ایکٹ 2006 سے متصادم ہے، جو 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادیوں کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ اس قانون کو ذہن میں رکھتے ہوئے، کرناٹک ہائی کورٹ نے 2013 میں فیصلہ دیا تھا کہ "کوئی بھی ہندوستانی شہری کسی خاص مذہب سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر، کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے قانون سے مستثنیٰ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا"، اس طرح کسی بھی حالت میں 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کرنا مسلم لڑکیوں کے لیے بھی غیر قانونی قرار دیا گیا۔ مسلم پرسنل لاء POCSO ایکٹ 2012 کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے، جو نابالغوں کی جنسی سرگرمیوں کے لیے رضامندی کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ اس ایکٹ کی دفعات کے تحت، 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے لڑکیوں کے ساتھ کسی بھی طرح کی جنسی سرگرمی کو جنسی زیادتی تصور کیا جاتا ہے، لہٰذا اس پر سزا دی جا سکتی ہے۔ سول اور مسلم پرسنل لا کے درمیان اسی تضاد نے مختلف ہائی کورٹوں کے متضاد فیصلوں کے حوالے سے ابہام کو جنم دیا ہے۔ توقع ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے کا جائزہ لے گی اور ایسا فیصلہ دے گی جس سے قانون کی موضوعی تشریحات پر روک لگ جائے گی۔

 یہ سچ ہے کہ پنجاب اور ہریانہ کیس میں لڑکی کی اس کے گھر والوں نے زبردستی اس کے ماموں سے شادی کر دی تھی۔ اس نے کسی اور سے شادی کر کے اس رشتے کو توڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس معاملے میں، مسلم پرسنل لاء نے اس لڑکی کے حق میں کام کیا کیونکہ اس نے 18 سال کی عمر نہ ہونے کے باوجود اسے شادی کرنے کی اجازت دی تھی۔ اگر وہ 18 سال کی ہونے کا انتظار کرتی تو اس کے لیے حالات بہت زیادہ خراب ہوتے۔ لیکن واضح طور پر، یہ غیر معمولی حالات ہیں، اور اس سے ہمیں اس بڑے مسئلے سے توجہ نہیں ہٹانا چاہیے کہ کم عمری کی شادی سے مسلم لڑکیوں کی عزت، خودمختاری اور وقار پر کیا اثر پڑتا ہے۔ مزید برآں، ہمیں اس بات سے بھی آگاہ ہونے کی ضرورت ہے کہ جیسے جیسے معاشرے ترقی کرتے ہیں، لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھتی جاتی ہے۔ کیونہ اس کے پیچھے یہ نظریہ کار فرما ہے کہ خواتین واقعی بااختیار بن جاتی ہیں جب وہ تعلیم حاصل کر لیتی ہیں اور مالی طور پر خود مختار بن جاتی ہیں۔ اور یہ اس وقت ممکن نہیں جب وہ چھوٹی عمر میں شادی کر لیں، ماں بن جائیں اور گھر کے کاموں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیں۔

 پوری دنیا میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا عام معمول یہ ہے کہ وہ لڑکیوں کی شادی عمر میں ہی کر دیتے ہیں۔ ہندوستان میں ہندو روایت اس سے مختلف نہیں تھی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان مذہبی روایات نے اب خود کو بدل لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندو برادریوں میں کم عمری کی شادیاں نہیں ہوتیں۔ راجستھان ایسی کہانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ لیکن پھر ہندو مذہب نے مجموعی طور پر اس نظریہ کو قبول کر لیا ہے کہ لڑکیوں کے لیے جسمانی اور جذباتی پختگی کے بعد ہی ان شادی کرنا بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب لڑکیوں کی شادی کی عمر کو 16 سے بڑھا کر 18 کر دیا گیا تو یہ ان کے لیے کوئی زیادہ بڑا مسئلہ نہیں تھا۔

Child marriage. Representational Image? First Post

----

 بدقسمتی سے، ہم مسلم مذہبی روایت کے حق میں ایسا نہیں کہہ سکتے۔ 2013 میں، کیرالہ میں اکثر مسلم تنظیموں نے ریاست سے اپیل کی تھی کہ وہ ہمیں چائلڈ میرج ایکٹ 2006 سے مستثنیٰ قرار دے کیونکہ یہ اسلامی شریعت کے خلاف ہے۔ خوش قسمتی سے، مسلم خواتین کی تنظیموں اور طلباء کی جماعتوں نے اس مطالبے کی مخالفت کی، بنیادی طور پر آرتھوڈوکس علماء نے اس مطالبے کی حمایت کی۔ 2012 میں، اے آئی ایم پی ایل بی نے دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا جس نے ایک 15 سالہ لڑکی کی شادی کی قانونی حیثیت کو برقرار رکھا تھا۔ جب 2021 میں، مرکزی کابینہ نے لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سے بڑھا کر 21 کرنے کے لیے ایک قرارداد پیش کی تھی، تو AIMPLB نے اسے دوبارہ اپنے پرسنل قوانین میں مداخلت قرار دیا۔

 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زیادہ تر مسلم لڑکیوں کی بلوغت کے ساتھ ہی شادی ہو جاتی ہے۔ درحقیقت، دیگر برادریوں کی طرح، مسلم لڑکیوں کی شادی کی عمر بھی بڑھی ہے۔ تاہم، اے آئی ایم پی ایل بی اور دیگر اس جیسے مذہبی اداروں کے بیانات کو دیکھ کر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اس طرح کی پیش رفت سے ناراض ہیں۔ ان کا نظریہ واضح ہے: لڑکیوں کی جلد از جلد شادی کر دینی چاہیے۔ یہی وہ چیز ہے جو اسلامی ردعمل کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرتی ہے۔ جب کہ دوسرے مذاہب نے اس بات کو اندرونی طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ لڑکیوں کے لیے اس وقت شادی کرنا اچھا ہے جب وہ جذباتی اور جنسی طور پر بالغ ہو جائیں، لیکن اسلام کو اب بھی اس سے حاصل ہونے والے فوائد کو تسلیم کرنے میں پریشانی ہے۔

 یا یہ کہ مذہب اسلام شعوری طور پر اپنی خواتین پیروکاروں کو بااختیار بنانے میں کوئی فائدہ نہیں دیکھنا چاہتا؟ مقاصد دینیہ کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرنے والے خواتین کے دکھوں پر مزہ لیتے ہیں۔ ذرا دیکھیں کہ طالبان افغانستان میں کیا کر رہے ہیں اور داعش نے شام اور عراق میں کیا کیا۔ اسلامی صحیفہ یعنی قرآن یقینی طور پر یہ مشورہ دیتا ہے کہ لڑکیوں کی شادی بلوغت کو پہنچنے پر کر دی جائے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کی شادی کم عمری میں ہی کر دی جائے۔ مزید یہ کہ یہی صحیفہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ شادی ایک معاہدہ ہے۔ لہٰذا یہ مانا جاتا ہے کہ عقد نکاح میں داخل ہونے والا شخص درست فیصلہ کرنے کا اہل ہے اور درست رضامندی دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ کیا رجعت پسند علماء یہ سمجھتے ہیں کہ 15-16 سال کی لڑکی اس بات کو پوری طرح سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہے کہ شادی کا کیا مطلب ہے؟ کیا وہ سماجی ذمہ داریوں کو سمجھتی ہے جو شادی کے بعد اس کے کندھوں پر آنے والی ہے؟ واضح ہے کہ کوئی بھی سمجھدار شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایک بچی یہ سب کچھ سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لہٰذا، وہ جو رضامندی دیتی ہے (جو اکثر والدین کے دباؤ یا ان کی ترغیب سے متاثر ہوتی ہے)، اسے درست قرار نہیں دیا جا سکتا اگر ہم اسلامی شادی کے پس پردہ حکمت کو تسلیم کریں۔

 علمائے کرام فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے شادی چھ سال کی عمر میں کی تھی اور نو سال کی عمر میں اس نکاح کی تکمیل ہوئی تھی۔ اور چونکہ پیغمبرانہ طرز عمل کی تقلید سنت ہے، اس لیے علمائے کرام کی دلیل ہے کہ مسلم لڑکیوں کی شادی کے لیے کوئی اول مدت متعین نہیں کی جا سکتی۔ یہ دعویٰ اب حد سے زیادہ جھوٹا لگتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ باتیں ان احادیث سے ماخوذ ہیں جو آپ کی وفات کے تقریباً پچاس سال بعد لکھی گئی تھیں۔ اس لیے جس طریقہ کار سے یہ روایتیں ہم تک پہنچی ہیں اس کے حوالے سے بہت سارے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کی عمر کے بارے میں تازہ ترین تحقیق بتاتی ہے کہ جب ان کی شادی ہوئی تو وہ 9 نہیں بلکہ 19 سال کی تھیں۔ اس کو مسلم معذرت خواہ کہہ کر رد کیا جا سکتا ہے لیکن دوسری روایتیں بھی ہیں جو اس دعوے کی تائید کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کم عمری کی شادی بالکل پسند نہیں تھی۔ ان روایتوں میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی کم عمری کی وجہ سے ان کی شادی سے انکار کر دیا۔ اس رشتے کے دعویدار ابوبکر اور عمر تھے، جو اسلام کے پہلے اور دوسرے خلیفہ تھے۔ احادیث کے مستند ہونے پر یقین رکھنے والوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل کی وضاحت کرنا چاہیے، جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے بچی کی شادی کو واضح طور پر منع کر دیا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ مسلم علماء اس روایت کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ یہ ان کے ایجنڈے کے مطابق نہیں ہے۔

 اسلامی روایت ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی خدیجہ تھیں جو آپ سے 15 سال بڑی تھیں۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات قابل تقلید نمونہ ہے تو پھر یہ نبی کی پہلی شادی مسلمانوں کے لیے قابل تقلید کیوں نہیں بنتی؟ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللّٰہ عنہا کے ساتھ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی سب سے پہلی شادی، جو سب سے طویل قائم رہی اور اس دوران آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے کبھی دوسری شادی نہیں کی، عصر حاضر میں ایک مثالی نمونہ معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے کہ ہمارے علمائے کرام اس نکاح کو ایسی سنت نہیں مانتے جس پر مسلمانوں کو عمل کرنا چاہیے؟

 جس طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کی شادی کو بطور نمونہ مان لیا گیا ہے اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللّٰہ عنہا کی شادی کو نہیں وہ مکمل طور پر نفس پرستی ہے۔ بالآخر، ایک نمونے کو دوسرے پر یہ فوقیت اسلام کے کسی بنیادی اصول کے بجائے طاقت اور اختیار کی بات ہے، جس کا ہمارے علماء راگ الاپتے رہتے ہیں۔ وہ علماء جنہوں نے ایک نمونے کو دوسرے پر ترجیح دی تھی ان کی جڑیں ان کے زمانے میں تھیں، ان کی اپنی معروضیت نے اس روایت بنا ڈالی جسے آج ہم اسلام کے نام سے جانتے ہیں۔ اس لیے اب اس طرح کی تشریحات کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارا دور کافی مختلف ہے اور ہماری معروضیت 11-12 ویں صدی میں رہنے والوں سے بہت مختلف ہے، جب اس طرح کے قوانین بنائے جا رہے تھے۔ خاص طور پر جب ایسی ایسی شریعت اخلاق، عزت اور وقار کے عصری تصورات سے متصادم ہو۔

 بہت سے مسلم ممالک اس کا ادراک کر چکے ہیں۔ استثناء کے ساتھ، الجزائر، بنگلہ دیش اور ترکی جیسے ممالک نے لڑکیوں کی شادی کی اقل مدت بڑھا دی ہے۔ کیا ہندوستانی مسلمانوں کو بھی ایسا نہیں کرنا چاہئے؟

English Article: Why Marriage of Minor Muslim Girls Should be Illegal

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/marriage-minor-muslim-girls-illegal/d/129046

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..