New Age Islam
Sat May 24 2025, 04:52 AM

Urdu Section ( 11 May 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Is Madrasa Reform Possible? کیا اصلاح مدارس ممکن ہے؟

 ارشد عالم، نیو ایج اسلام

 10 مئی 2023

 اصلاح پسند متضاد نظریات کو ایک کرنے کی منصوبہ بندی کیسے کرتے ہیں؟

 اہم نکات:

1.       یہ بحث عام ہے کہ مدارس کی اصلاح ضروری ہے، لیکن مسلم اصلاح پسند ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ یہ کیا کیسے جائے۔

2.       صرف باتیں بنانے کے بجائے، بہتر ہو گا کہ وہ اس نظام کی اصلاح کے لیے کوئی منصوبہ پیش کریں۔

3.       اصلاح صرف برائے نام نہیں بلکہ دو بالکل مختلف نظریات کے درمیان ایک مکمل ہم آہنگی کی شکل میں ہونا چاہیے۔

 -----

Representative Photo

-----

جب مدارس کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو عام طور پر مسلمانوں کا موقف دو قسم کا ہوتا ہے۔ سب سے پہلا موقف علماء کے قدامت پسند طبقے سے سامنے آتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اس نظام میں کوئی خرابی نہیں ہے اس لیے اسے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ دینی تعلیم کا ایک ہی نظام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے جاری ہے اس لیے اس میں تبدیلی سنت کے خلاف کرنے کے مترادف ہوگی۔ دوسرا موقف مسلمانوں کے اندر اصلاح پسندوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسلامی تعلیم کا موجودہ نظام فرسودہ ہوچکا ہے اس لیے اسے موجودہ تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تبدیل کیا جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ قدامت پسندوں کا موقف تاریخ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کیونکہ مسلمان اور اسلام ہمیشہ وقت کی تبدیلی کے ساتھ ترقی پذیر ہوتے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ دوسرے طبقے کا موقف درست ہے، لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ خود اصلاح پسندانہ موقف کی بنیاد اچھی سوجھ بوجھ پر نہیں ہے۔

اصلاح پسند موقف اس لحاظ سے جدیدیت پسند ہے کہ وہ مدارس کے نصاب میں جدید مضامین کو شامل کرنا چاہتے ہیں، جن کی اکثریت خالصتاً مذہبی مضامین پڑھانے پر راضی ہے۔ تاہم، اس سے آگے، اصلاح پسندوں کا موقف اس وضاحت سے خالی ہے کہ ان اصلاحات کو مؤثر طریقے سے کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظام کی خامیوں پر گہرائی سے غور و فکر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ بنیادی طور پر نادان اصلاح پسند ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ صرف یہ کہہ کر کہ سائنس اور تاریخ کو مدارس میں پڑھایا جانا چاہیے، انھوں نے مسلم معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ حل کر دیا ہے۔ لیکن جب آپ ان سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیسے کیا جائے، تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ان کے پاس مدارس کی اصلاح کے حوالے سے خواہش مندانہ سوچ کے علاوہ کرنے کے لیے اور کچھ بھی نہیں ہے۔

 آئیے پہلے بار بار دہرائے جانے والے اس دعوے پر سوال اٹھاتے ہیں کہ مدارس کے نصاب میں جدید مضامین مثلاً سائنس، تاریخ وغیرہ شامل کرکے اس کی اصلاح کی جانی چاہیے۔ مدارس کا موجودہ نصاب خالصتاً مذہبی ہے، اس کے بعد اس وقت کے درس نظامی میں دیوبند نے اس انداز میں ترمیم کی ہے۔ قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ کی کتابیں بھی ہوتی ہیں، جن پر طلبہ کا سارا وقت خرچ ہوتا ہے۔ تو پھر، سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا طلباء پر زیادہ بوجھ ڈالے بغیر نئے مضامین کا اضافہ ممکن ہوگا؟ کیا یہ اصلاح پسند چاہتے ہیں کہ طلباء ہر وقت پڑھتے رہیں؟ کیا انھوں نے سوچا ہے کہ اس کا ان طلبہ پر کیا نفسیاتی اور جذباتی اثر پڑے گا؟

 ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ مدرسہ کی تعلیم اور جدید تعلیم کے بنیادی اصول بنیادی طور پر مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر، بریلوی مدرسے کے اندر، بچوں کو اب بھی یہ سیکھایا جاتا ہے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے نہ کہ اس کے برعکس۔ آخرکار، ان کے نظریہ ساز احمد رضا نے یہ ثابت کرنے میں کافی وقت صرف کیا کہ کائنات کا ہیلیو سینٹرک نظریہ صریح طور پر غلط ہے کیونکہ یہ قرآن سے متصادم ہے۔ یہاں بات یہ ہے کہ جب ہم سائنس اور مذہب کی بات کرتے ہیں تو زیادہ تر چیزوں کے بارے میں نظریہ اور مفروضہ بنیادی طور پر مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے اکثر ماہرین اس بات کو پرزور انداز میں کہتے ہیں کہ مدارس میں سائنس کی تعلیم دی جانی چاہیے لیکن انھیں اس بات کا کوئی علم نہیں ہے کہ سائنس کی تعلیم کو اسلام کے ساتھ کیسے ایک کیا جائے۔ ایک پورٹل کی طرف سے تیار کی گئی ایک حالیہ دستاویزی فلم میں، ایک شخص یہاں تک دعویٰ کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے کہ بہت سے مدارس پہلے ہی سائنس کی تعلیم دے رہے ہیں۔ لیکن یقیناً، اگر آپ اس سے ان میں سے کچھ مدارس کا نام پوچھیں، تو وہ ان میں سے کسی ایک کا نام بھی نہیں بتا سکے گا۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ایسا کوئی سروے ہوا ہی نہیں ہے جو ہمیں بتا سکے کہ مدارس اس تبدیلی سے گزر رہے ہیں۔ قوم مسلم کے ان خود ساختہ ترجمانوں کو اندازہ نہیں ہے کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں۔

 لیکن ہم ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ مدارس واقعی یہ جدید مضامین پڑھانا چاہتے ہیں۔ پھر سب سے منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان میں یہ کرنے کی صلاحیت ہے؟ ان اداروں میں اساتذہ کون لوگ ہیں؟ انہیں ان کی روایتی تعلیم کی بنیاد پر بھرتی کیا جاتا ہے جو انہوں نے مدارس میں حاصل کی ہے۔ ان سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ ایسے مضامین پڑھائیں گے جن میں ان کی کوئی اہلیت ہی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ، ان میں سے زیادہ تر کو کسی مسابقتی امتحان کے ذریعے نہیں بلکہ برادری اور خاندانی تعلقات کی بنیاد پر بھرتی کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اگر کوئی واقعی تعلیمی نظام کو بدلنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اساتذہ کی تیاری کو دیکھنا چاہیے۔ مدرسہ کے اساتذہ کی توہین کیے بغیر، کیا ہم واقعی ان سے کوئی ایسا کام کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں جس کے لیے وہ پہلے تربیت یافتہ نہ ہوں؟ لیکن یقیناً ہمارے اصلاح پسند مسلمانوں کو یہ کوئی مسئلہ نہیں لگتا۔

 مدارس کی جدید کاری جیسے سرکاری منصوبوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو مدارس کو خاص طور پر سائنس اور ریاضی جیسے مضامین کی تعلیم کے لیے اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ یقیناً ایسے منصوبے موجود ہیں۔ لیکن جس نے بھی اس کے نفاذ پر کام کیا ہے وہ آپ کو بتائے گا کہ منصوبے کو بری طرح سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ بنیادی طور پر، ملک میں دو طرح کے مدارس ہیں: ریاست کے زیر انتظام اور وہ جو کمیونٹی کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔ جن مسائل پر ہم اب تک بحث کرتے رہے ہیں ان کا تعلق حکومت سے چلنے والے مدارس سے نہیں ہے۔ یہ سرکاری مالی امداد والے مدارس پہلے سے ہی جدید مضامین پڑھاتے ہیں۔ مسئلہ قوم کے چندے سے چلنے والے مدارس کا ہے، جو صرف مذہبی مضامین ہی پڑھاتے ہیں۔ مدارس کی جدید کاری کے منصوبے کی توجہ قوم کے چندے سے چلنے والے ان مدارس پر ہونی چاہیے تھی لیکن اعلیٰ بیوروکریسی میں مسلمانوں کی نمائندگی کی کمی کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ کسی نے بھی انہیں حکومت اور قوم کے فنڈ سے چلنے والے مدارس کے درمیان فرق کے بارے میں نہیں بتایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زیادہ تر فنڈز ریاستی مالی اعانت سے چلنے والے مدارس نے روک لیے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ: قوم کے چندے سے چلنے والے مدارس نے بھی ان چندوں کو غیر تربیت یافتہ انڈرگریجویٹ اساتذہ کو سائنس اور ریاضی سکھانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اور اگر کوئی گہرائی میں جائے تو خاندان اور برادری کی بنیاد پر اقربا پروری کے تار بھی نظر آ جائیں گے۔ آخر کار اس طرح کے مدارس کے غریب اور حد سے زیادہ مفلس و نادار مسلم طلبہ کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

 لہٰذا اصلاح کا سوال صرف فلسفیانہ نہیں بلکہ عملی بھی ہے۔ کیا مدرسہ خود کو جدید تعلیم کے ادارے میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ اگر مسلمان واقعی اپنی تعلیمی ترقی میں دلچسپی رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ وہ اس بے کار ادارے سے آگے دیکھنا شروع کر دیں۔ آگے بڑھنے کا واحد راستہ مدارس کے بجائے سیکولر نجی یا ریاستی اداروں پر انحصار کرنا ہے۔

 لیکن پھر اصلاح پسند اور قدامت پسند دونوں یہ کہیں گے کہ ہندوستان میں اسلامی تعلیم کو گرہن لگ جائے گا۔ یہ بالکل ہی بکواس بات ہے۔ روایتی علماء ختم نہیں ہو جائیں گے لیکن ایسے علماء کو بھی کچھ نہ کچھ سیکولر اداروں کی تعلیم لینا چاہئے۔ اس کے لیے سب سے پہلے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسلامی تعلیمات کے شعبہ جات کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے۔ اسلامی اسکالروں کو ایسے اداروں سے فارغ التحصیل ہونا چاہیے لیکن ریاستی تعلیم کے 12 سال مکمل کرنے سے پہلے نہیں۔ اس طرح وہ دنیا و آخرت دونوں جہانوں کامیاب ہو جائیں گے۔ اور کون جانتا ہے؛ کہ وہ ان مختلف نظریات کو ملانے کے لیے ایک تخلیقی حل تلاش کرنے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں!

 English Article: Is Madrasa Reform Possible?

URL:  https://www.newageislam.com/urdu-section/madrasa-reform-ulema/d/129751

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..