ارشد عالم، نیو ایج اسلام
2 اگست 2021
ان کا قیام اشرافیہ
مسلمانوں کے لیے تھا لیکن اب مدارس اجلاف سے بھرے ہوئے ہیں
اہم نکات:
• مسلمان اپنے
درمیان ذات پات کے نظام سے انکار کرتے ہیں
• دیوبندیوں اور
بریلویوں دونوں نے یہ نظریہ قائم کیا کہ تعلیم کو صرف چار اونچی ذات والوں تک ہی
محدود رکھا جائے
• اس حقیقت کو
دیکھتے ہوئے کہ آج مدارس میں اجلاف اساتذہ اور طلباء بھرے ہوئے ہیں کیا ہم ان
اداروں سے اٹھنے والے ذات پات کے نظام کی تنقید دیکھیں گے؟
-----
مسلمانوں کی جانب سے
مسلسل ذات پات کے انکار کے باوجود ذات پات کا یہ نظام مسلم معاشرے میں بھی اسی طرح
پھیلا ہوا ہے جس طرح ہندو سماج میں ہے۔ معاشرتی لحاظ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کیونکہ
ذات (نہ کہ مذہب) اس ملک میں سب سے اہم مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کا اس سے انکار کرنا
بڑی حد تک ان کی اس خواہش کا نتیجہ ہے کہ وہ خود کو دوسری مذہبی برادریوں سے مختلف
ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس کا انکار زیادہ تر اونچی ذات یا اشرافیہ
مسلمان کرتے ہیں اور اس سے ان کے دو مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے۔ اول یہ کہ اس سے
اشرافیہ مسلمانوں کا تسلط قائم ہوتا ہے اس لئے ذات پات ایک ایسا مرکز نہیں بنتا جس
کے ارد گرد تقسیم کی سیاست کا تصور کیا جا سکے۔ مسلمانوں کے اندر ذات کے بارے میں
بات نہ کرنا مذہبی یا فرقہ وارانہ شناخت پر خصوصی توجہ کا باعث بنتا ہے جس سے
اونچی ذات کے مسلمانوں کو اپنا تسلط برقرار رکھنے میں زیادہ فائدہ ملتا ہے۔ دوم یہ
کہ اکثر مذہبی اشرافیہ اس کا انکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے اسلام دیگر تمام مذہبی
برادریوں سے مختلف ظاہر ہوتا ہے اور اس طرح مسلمانوں کی امتیازی حیثیت اور
بالادستی کو فروغ ملتا ہے۔
ذات پات کے سوال پر
مسلمانوں کا تاریخی عمل دوسری مذہبی برادریوں سے بمشکل ہی مختلف رہا ہے۔ نظامی
جیسے مورخ نے یہ لکھا ہے کہ مساوات کے اسلامی دعووں کے باوجود قرون وسطی کے
ہندوستان میں مدارس تک صرف اعلیٰ ذات کے مسلمان کو ہی رسائی حاصل ہوا کرتی تھی۔ نچلی
ذات کے مسلمانوں کی تعلیم قرآن کی ابتدائی تلاوت کے فورا بعد ہی بند کر دی جاتی
تھی۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ اس دور میں نچلی ذات والوں کو تعلیم سے محروم رکھنا
صرف مسلم معاشرے کا ہی وطیرہ نہیں تھا۔ البتہ انوکھی بات مسلمانوں کا یہ کہنا ہے
کہ ایسا کوئی رواج ان کے معاشرے کا حصہ نہیں تھا۔
امتیاز احمد اور حال ہی
میں مسعود عالم فلاحی جیسے علماء نے یہ واضح کیا ہے کہ ذات پات صرف معمول کا ہی
حصہ نہیں تھا بلکہ اسے نظریات کی سطح پر بھی جواز حاصل تھا۔ فلاحی نے یہ بھی اجاگر
کیا ہے کہ کس طرح مسلم معاشرے کے بڑے بڑے علماء بھی ذات پات کے نظریات رکھتے تھے۔
درس و تدریس اور مدارس کے قیام میں سرگرم علماء میں بھی ہمیں ایسا ہی نمونہ نظر
آتا ہے۔ دیوبند کے مورخ باربرا میٹکالف یہ لکھتے ہیں کہ مدرسے کے بانی قاسم
نانوتوی کا بھی یہی پختہ نظریہ تھا کہ خدا نے تعلیم کو چار اونچی ذاتوں کے حوالے
کر دیا ہے اور یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے علم بردار بنیں۔ بریلوی مفکر احمد
رضا کے نچلی ذات کے مسلمانوں کے بارے میں تضحیک آمیز خیالات و نظریات مشہور ہیں۔
ان کے نزدیک سید ذات کے لیے ایسی تعظیم تھی کہ ایک بار جب انہیں معلوم ہوا کہ ان
کا ایک پالکی اٹھانے والا سید ہے تو وہ پالکی سے باہر نکلے اور اس شخص کو اپنی جگہ
پر بیٹھنے کے لئے اصرار کیا۔ ان کے فتاویٰ کے مجموعہ فتاویٰ رضویہ نیز ان کے
ملفوظات میں کئی جگہوں پر نہ صرف ذات کے اندر شادی کا جواز پیش کیا گیا ہے بلکہ
اعلیٰ ذات کی برتری بھی ثابت کی گئی ہے۔ اس کتاب میں جسے اکثر بریلوی حضرات مستند
سمجھتے ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ اگر ایک نچلی ذات کا مسلمان عالم بن جائے تب بھی
اسے اشرافیہ کے برابر نہیں سمجھا جا سکتا۔
جبکہ دوسروں کے لیے وہی
علماء یہ کہتے تھے کہ اسلام میں تعظیم و تکریم کی واحد بنیاد تقویٰ ہے۔ لیکن وہ
اپنی تحریروں اور طرز عمل میں دینی شرافت کے بجائے پیدائش کی بنیاد پر تعظیم و
تکریم کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کی اس سمجھ کے باوجود کہ تعلیم (بشمول مذہبی تعلیم)
کو صرف چار اعلیٰ ذاتوں کے اندر ہی رکھا جانا چاہیے آس پاس کے سماجی حالات بدل رہے
تھے۔ پہلی بار برطانوی سامراج نے تعلیم کا دروازہ تمام ذات والوں کے لیے کھولا
تھا۔ بہت سی نچلی ذاتیں بشمول اجلاف کے اس سے فائدہ اٹھانے والی تھیں۔ مزید یہ کہ
سرکاری ملازمتوں کی لالچ میں اعلیٰ ذات کے مسلمانوں نے علی گڑھ کے محمدن اینگلو
اورینٹل کالج جیسی جگہوں پر جدید انگریزی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دیا۔ مسلم
اشرفیہ کے خالی کردہ اس شعبہ کو اجلاف مسلمانوں نے تیزی سے پُر کیا۔ اونچی ذات کے
اداروں میں نچلی ذات کے مسلمانوں کی موجودگی ان کے لئے سوزش دل کا باعث بنتی تھی۔
اسی تناظر میں دیوبندی مشہور زمانہ (بدنام زمانہ؟) عالم دین اشرف علی تھانوی نے یہ
شکایت کی کہ جب سے نچلی ذات کے مسلمانوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کیا ہے مدارس اب
غزالی جیسے علماء پیدا نہیں کر رہے ہیں۔
یہ کہنا زیادتی نہیں ہوگی
کہ آج کے مدارس اسلامیہ بنیادی طور پر ہندوستان کے نچلی ذات کے لوگوں کے لئے ہیں۔
اساتذہ کے ساتھ ساتھ طلباء کی اکثریت اجلاف کے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس صورت میں
یہ پوچھنا ضروری ہے کہ وہ اس قسم کی تعلیم سے کیا حاصل کرتے ہیں؟ ایسے بہت سے
مسلمانوں کے لیے مدارس ثقافتی اور سماجی سرمایہ جمع کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ کچھ کے
لیے یہ سرکاری سند کے امتحانات کے ذریعے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع
فراہم کرتا ہے۔ کچھ دوسروں کے لیے اسلامی تعلیم اور عربی زبان میں مہارت دوسرے
ممالک کے دروازے کھول دیتی ہے۔ چونکہ انگریزی میڈیم اور کانونٹ اسکول کی تعلیم
اکثر ان طلباء کی رسائی سے باہر کی بات ہے اس لیے مدرسہ کی تعلیم کو سستے میں اچھی
مہارت اور مستحکم روزگار کے لئے ڈگری فراہم کرنے میں حقیقی معاشی افادیت کے طور پر
دیکھا جاتا ہے۔
لیکن شاید سب سے زیادہ
اہم اس تعلیم کا کردار ذات پات کے بارے میں ہے۔ ایک اجلاف کے بیٹے کا مقامی مسجد
میں امام بننا ایک ناقابل یقین لمحہ ہوتا ہے۔ اس کا نماز میں امام بننا پرانے
زمانے کی کئی سماجی بندشوں کو توڑ دیتا ہے خاص طور پر ذات پات کی۔ جس کا ذات کی
وجہ سے ہمیشہ مذاق اڑایا گیا آج یہی نچلی ذات کا مسلمان ہے اسلام کی قیادت کر رہا
ہے۔ تاہم، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ کیا اسلامی تعلیم کی سماجی ساخت میں یہ تبدیلی
ان مدارس میں مسلمانوں کے ذات پر کچھ غور و فکر کی راہ ہموار کرے گی۔ بہر حال، اس
حقیقت کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہونا چاہیے کہ ان کے بڑے بڑے مفکرین اسلام
جارحانہ طور پر ذات پات کے نظریات رکھے تھے۔ مختلف تنظیموں کی طرف سے اختیار کردہ
ایک حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ان کی کتابوں کی نئی اشاعتوں سے ان جارحانہ حوالوں کو
خارج کر دیں۔ لیکن کیا یہ کافی ہوگا وقت ہی بتائے گا؟ کیا مدارس اشرافیہ مسلمانوں
کے قائم کردہ ذات پات کے خلاف ایک جوابی بیانیہ پیش کر سکیں گے؟
--------------------
English Article: Madrasas, Caste and Islam
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism