مولانا محمود
الحسن نے افغانستان میں ایک آزاد ہندوستانی حکومت قائم کی تھی
اہم نکات:
1. مہاراجہ پرتاپ سنگھ افغانستان میں ہندوستانی حکومت کے صدر تھے۔
2. مولانا برکت اللہ بھوپالی وزیراعظم تھے۔
3. جمعیت علماء ہند طالبان کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی۔
4. طالبانی حکومت کو حقیقی معنوں میں اسلامی کہا جا سکتا ہے اگر وہ
امن اور ہم آہنگی قائم کریں اور اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیں۔
-----
نیو ایج اسلام نامہ نگار
23 اگست 2021
23 اگست 2021 کو اردو روزنامہ
راشٹریہ سہارا کے ساتھ مولانا ارشد مدنی کے انٹرویو کے اقتباسات
جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا
ارشد مدنی نے افغانستان کے بارے میں میڈیا کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ
طالبان کو دیوبند اور دارالعلوم سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں، جب کہ میرے خیال میں یہ بات
صحیح نہیں ہے اور اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ طالبان حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن
دیوبندیؒ کی طرف اپنے کو منسوب کرتے ہیں اورچونکہ حضرت شیخ الہندؒ دیوبند کے رہنے والے
تھے، دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین تھے اور اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم تھے اور
انگریزوں سے دشمنی ان کے رگ و ریشہ کے اندر سرایت تھی، اس لئے انگریزوں نے ان کو پکڑا
اور ان کو مالٹا کی جیل میں بند کیا، وہ چار سال مالٹا کی جیل میں رہے اور ہندوستان
میں انگریز حکومت کے خلاف سب سے پہلے شیخ الہندؒ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے افغانستان
کے اندر اس وقت آزاد حکومت قائم کی تھی جس کا صدر مہاراجہ پرتاپ سنگھ کو بنایا تھا۔
مولانا برکت اللہ بھوپالی کو وزیر اعظم اور اپنے ہونہار شاگردمولانا عبید اللہ سندھیؒ
کو وزیر خارجہ بنایا تھا۔
مولانا ارشد مدنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولاناارشد مدنی نے مزید وضاحت
کرتے ہوئے کہا کہ آج جو طالبان ہیں وہ اصل میں حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک سے جڑے ہوئے
ان لوگوں کی اولاد ہیں جوآزادی ہند کیلئے جدوجہد کررہے تھے یاان کی اولاد کی اولاد
ہیں، اس لئے طالبان ان کو اپنا امام مانتے ہیں اوروہ یہ کہتے ہیں کہ جس طرح حضرت شیخ
الہندؒ نے اپنی ساری زندگی ملک کی آزادی کیلئے جدوجہد کی جو انگریز جیسی غیرملکی طاقت
کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا، آج ہم بھی ان کے راستہ پر چل رہے ہیں، اصل حقیقت صرف اتنی
ہی ہے۔ رہا لوگوں کا یہ کہنا کہ وہ دیوبند کے پڑھے ہوئے ہیں، درست نہیں ہے، کیونکہ
ملک کی آزادی سے پہلے تو وہ لوگ پڑھتے تھے اور میری معلومات کے مطابق آج ان میں سے
کوئی بھی زندہ نہیں ہے یہ لوگ وہ ہیں جو ان سے پڑھے ہوئے ہیں اور ان کے شاگرد ہیں۔
مولانا مدنی نے ایک سوال کے جواب
میں کہا کہ طالبان کے یہ کہنے کی بنیاد صرف اتنی ہے کہ جس طرح شیخ الہندؒ نے ملک کی
آزاد ی کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا اور شاگردوں کی ایک ایسی فوج کھڑی کردی
جنہوں نے 10-10 سال جیلوں کے اندر گزارے اور پھر ملک کو غیر ملکی طاقتوں سے آزاد کرایا،
ہم بھی اپنے ملک کو غیروں کے تسلط سے آزاد کرانے کیلئے کام کررہے ہیں، تو گویا کہ
جومشن ان کا تھا اور جس کیلئے زندگی بھرکام کرتے رہے ہم بھی اسی لائن پر چل رہے ہیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ لوگ
ہم سے یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ ہم طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں یہ بات سراسرغلط
ہے ہم تو کسی کے بارے میں بھی کوئی رائے نہیں رکھتے، یہ تو مستقبل بتائے گا کہ ان کا
طریق کار کیا ہوتا ہے اور اپنے ملک کے نظام کو کس طرح چلاتے ہیں، ملکی دستور میں شریعت
اسلامی کو حاکم بناتے ہیں یا نہیں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی حکومت کی پائیداری
کیلئے 2 بڑی بنیادیں ہیں: پہلی یہ کہ قومی یکجہتی اور بھائی چارہ ہو، شہریوں کے درمیان
مساوات ہو، اقلیت اور اکثریت کے درمیان امتیاز نہ ہو، مسلکی منافرت نہ ہو، لہٰذا اگر
وہ اقلیت اور اکثریت کیلئے ایک پیمانہ رکھتے ہیں اور ان کو معاشی، تعلیمی اور دوسرے
شہری حقوق دیتے ہیں تو ہم ان کی تعریف کریں گے، اسی طرح سے اگر وہ ملک میں امن و امان
کے قیام کو یقینی بناتے ہیں اور ہرشہری کی جان، مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کو یقینی
بناتے ہیں اور ہر شہری کو یکساں حقوق فراہم کرتے ہیں تو ہم تالی بجائیں گے اور ہم کہیں
گے کہ یہ انقلاب اسلامی انقلاب ہے اور اگر اس طریقہ پر نہیں چلتے ہیں تو دنیا میں ان
کی مخالفت ہوگی، ہم بھی اسی لائن کے اندر کھڑے ہونگے۔
مولانا مدنی نے طالبان اور
ملا عمر کو دیوبند سے جوڑے جانے کے بارے میں کہا کہ دنیا میں جو لوگ بھی دارالعلوم
سے براہ راست یا بالواسطہ پڑھ کر گئے ہیں وہ اپنے ملک میں اپنے اپنے طریقے سے دین کا
کام کررہے ہیں، اس وقت طالبان تنہا وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم آزادیٔ وطن کیلئے
لڑرہے ہیں، جس طرح ہمارے ملک کے اندر آزادیٔ وطن کیلئے جد وجہد ہوئی، اسی طرح وہ بھی
کررہے ہیں۔ طالبان کا تعلق ایسی غیور قوم سے ہے جس نے کبھی بھی کسی غیر کے تسلط کو
قبول کیا ہی نہیں اور وہ اپنی اس آزادیٔ وطن کی جدوجہد کو دیوبند سے جوڑتے ہیں، حضرت
شیخ الہندؒ کی تحریک سے جوڑتے ہیں، لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت شیخ الہندؒ کی
تحریک افغانستان میں رنگ لائی تھی اور وہاں ایک طبقہ تھا جو ان کے ساتھ کھڑا ہوگیا
تھا اورانہوں نے وہاں ہندوستان کی آزاد حکومت قائم کردی تھی، یہ سب حضرت شیخ الہندؒ
کی تحریک سے جڑے ہوئے لوگ تھے اسی لیے حضرت شیخ الہندؒ کے انتقال پر وہاں ان لوگوں
نے جو تعزیتی جلسہ کیا تھا اس میں افغانستان کے چوٹی کے لوگ موجود تھے۔ اس موقع پر
وہاں کے حاکم نے کہا تھا کہ ’جس چیز کو شیخ الہند رحمہ اللہ نہیں پورا کرسکے اور دنیا
سے چلے گئے میں اس چیز کو پورا کروں گا‘ آج اس کا نتیجہ دیکھنے کو آرہا ہے، وہ قوم
کھڑی ہوگئی ہے، لیکن چونکہ افغانستان میں اقلیت بھی ہیں، اکثریت بھی، طالبان پشتو زبان
بولنے والے ہیں جو جنوبی افغانستان کے ہیں، شمالی افغانستان جو اوپر ہے اور روس کی
ریاستوں سے ملتا ہے، تاجکستان اور اس کے درمیان میں ایک دریا ہے، ادھر تاجکستان ہے
ادھر افغانستان ہے، وہاں کے لوگ فارسی بولنے والے ہیں، ہمارا ماننا یہ ہے کہ حکومت
کامیاب جب ہوگی جب سب کیلئے ایک پیمانہ ہو جب یہ صورت ہوگی تو ہم کہیں گے کہ حکومت
کامیاب ہے ورنہ یہ ناکام شمارہوگی۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ اسلامی انقلاب ہے میرا ماننا
ہے کہ یہ اسلامی انقلاب ہے یا نہیں ہے اس کو مستقبل بتائے گا، جس طرح دنیا کی اچھی
حکومتیں اقلیت اور اکثریت کے حقوق کو مانتی ہیں اسی طرح اگریہ حکومت بھی مانے گی تبھی
حکومت کو کامیاب اسلامی حکومت مانا جائے گا اور ہمارے نزدیک کامیاب حکومت کی بنیادیں2
ہیں: ایک تو ہر سطح پر امن و امان ہو اورہر شہری کی جان، مال اور عزت و آبرو محفوظ
ہو، اور دوسرا یہ کہ ہر شہری کیلئے ایک ہی پیمانہ ہو اگر ایسا ہوتا ہے تب تو حکومت
چلے گی اور اگر ایسا نہیں ہوا تو اسی کے اندر سے دوسرا طبقہ کھڑا ہوگا جو ان کی مخالفت
کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ حالات میں مولانا ارشد
مدنی کا انٹرویو اہم ہے۔ طالبان کے دارالعلوم سے روابط کے دعوے کی باتیں ہو رہی ہیں
اور اس بنیاد پر میڈیا اور دارالعلوم کے ناقدین یہ کہتے رہے ہیں کہ جمعیت علماء اور
دارالعلوم دیوبند طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس انٹرویو میں مولانا مدنی نے
یہ کہہ کر الجھن کو دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے پاس طالبان کے لیے کوئی نرم گوشہ
نہیں ہے اور وہ ان کی تعریف صرف اس صورت میں کریں گے جب وہ افغانستان میں ہر سطح پر
امن قائم کریں اور نسل اور مذہب سے قطع نظر اپنے تمام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں
جیسا کہ دنیا کی تمام جدید حکومتیں کرتی ہیں۔ طالبان کے دارالعلوم سے وابستگی کے دعووں
پر غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ برطانوی دور میں دارالعلوم کے
اس وقت کے بہت سے طلباء نے اپنے استاذ اور سرپرست شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی
قیادت میں ہندوستان کی تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا اور افغانستان میں حکومت ہند کے
قیام میں تعاون کیا تھا۔ آج کے طالبان کا دارالعلوم سے براہ راست تعلق نہیں ہے اور
وہ دارالعلوم کے سابقہ فارغ التحصیل کے شاگرد ہیں جن میں سے کوئی بھی آج زندہ نہیں
ہیں۔ مولانا مدنی کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کی نظریاتی جڑیں دارالعلوم سے
ہوسکتی ہیں لیکن وہ دارالعلوم کے بنیادی اصول اور فلسفے سے انحراف کر چکے ہیں کیونکہ
وہ دارالعلوم سے براہ راست تعلیم یافتہ نہیں ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ دارالعلوم
دیوبند کے طلباء نے دین کا کام "اپنے طریقے سے" کیا ہے۔
مولانا مدنی نے اپنی گفتگو میں
یہ واضح کر دیا کہ حقیقی اسلامی حکومت کہلانے کے لیے طالبان کو جدید حکومتوں کے مطابق
اپنی اقلیتوں کو تعلیمی، معاشی اور مذہبی حقوق کی ضمانت دینی ہوگی۔
تاہم، مولانا ارشد مدنی نے
طالبان کے نظریے کے کچھ نمایاں پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا۔ انہوں نے نقاب نہ پہننے
کے جرم میں طالبان کے ہاتھوں ایک خاتون کے قتل کا معاملہ نظر انداز کر دیا۔ انہیں اس
کی مذمت کرنی چاہیے تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ طالبان کوئی نیا گروہ نہیں ہے۔ وہ افغانستان
اور پاکستان میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے سرگرم عمل ہیں۔ شیعوں کے خلاف ان کے فتوے
اور شیعوں، ہندوؤں، عیسائیوں اور (افغانستان اور پاکستان) کے ہزارہ مسلمانوں پر ان
کے مظالم مشہور ہیں۔ وہ خواتین کی تعلیم اور ملازمتوں اور سماجی تقریبات میں ان کی
شرکت کے خلاف ہیں جبکہ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک میں خواتین کو نہ صرف تعلیم
حاصل کرنے کی اجازت ہے بلکہ وہ سرکاری اور غیر سرکاری ملازمتوں میں بھی شامل ہیں۔ حال
ہی میں سعودی عرب نے سیکورٹی کے شعبے میں خواتین کے لیے نوکریوں کا دروازہ کھول دیا
ہے۔ دارالعلوم یا جمعیت علماء نے بھی تعلیم نسواں مخالفت نہیں کی ہے۔
چنانچہ ہو سکتا ہے کہ دارالعلوم
دیوبند میں طالبان کے لیے نرم گوشے نہ ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے طالبان کی
اسلام مخالف سرگرمیوں پر کھل کر تنقید نہیں کی ہے کیونکہ وہ دارالعلوم سے وابستگی کا
دعویٰ کر کے دارالعلوم کی شبیہ خراب کرتے ہیں۔ اگرچہ مولانا ارشد مدنی نے یہ کہا ہے
کہ موجودہ طالبان ممبران کے اساتذہ دارالعلوم کے فارغ التحصیل تھے جس سے وہ یہ بتانا
چاہتے ہیں کہ موجودہ طالبان ممبران دارالعلوم فارغ التحصیل نہیں ہیں، لہکن وہ کھل کر
ان کے متشدد اور تکفیری نظریے سے برأت کا اظہار نہیں کر رہے ہیں۔ طالبان کا اپنا ایک
نظریہ ہے جو اسلام کی بنیادی روح اور اس کے ہم آہنگی، بھائی چارے، رواداری اور مساوات
کے اصولوں کے خلاف ہے۔ برقع نہ پہننے پر لڑکی کے قتل سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کی
نئی حکومت اپنے پیشرو سے زیادہ مختلف نہیں ہوگی۔ ہزاروں مسلمانوں کا طالبان کے خوف
سے افغانستان سے بھاگنا اس بات کا اشارہ ہے کہ انہیں عوام مسیحا نہیں بلکہ دشمن سمجھتے
ہیں۔ لہٰذا مولانا ارشد مدنی کو اپنے بیان میں نرمی و ہمدردی ظاہر کرنے کے بجائے طالبان
کی سخت تنقیدی کرنی چاہیے تھی۔
---------------
English Article: Taliban Are Right or Wrong Only Future Will Decide: Maulana Arshad Madani
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism