نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر
22 جون،2024
ابھی گزشتہ مہینے ہی پاکستان
کے سرگودھا میں توہین قرآن کے الزام میں ایک ضعیف العمر عیسائی شخص کو ہجوم نے گھر
میں گھس کر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا تھا اور اس کے گھر اور جوتے کی فیکٹری میں آگ لگا
دی تھی۔ اس کے اہل خانہ کو پولیس نے ایک محفوظ مقام پر منتقل کردیا تھا۔ اب پاکستان
کے خیبر پختونخوا میں سوات علاقے کے شہر مدین میں مشتعل ہجوم نے ایک ادھیڑ عمر کے مسلم
محمد سلیمان کو قرآن جلانے کے الزام میں پیٹ پیٹ کر مار ڈالا اور اس کے برہنہ جسم کو
جلا دیا۔ وہ شخص پنجاب کے سیالکوٹ کا رہنے والا تھا اور مدین سیاحت کے لئے آیا ہوا
تھا جہاں وہ ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھا۔
اس قتل میں بھی طریقہء کار
وہی تھا جو پاکستان میں توہین کے ملزم کے ہجومی قتل میں اختیار کیا جاتا ہے۔ پہلے اس
شخص پر کسی نے قرآن جلانے کا الزام لگایا۔پھر کسی نے مسجد میں جا کر مسجد کے لاؤڈ,اسپیکر
پر ملزم کے خلاف تویین قرآن کے الزام کا اعلان کیا اور مسلمانوں کو اس کے خلاف اکسایا۔
اس کے بعد عوام نے اس شخص کو پکڑ کر پیٹنا شروع کیا۔ پولیس اسے ہجوم کی گرفت سے چھڑا
کر تھانے لے گئی۔ ہجوم نے تھانے پر حملہ کردیا اور اسے لاک اپ سے نکال کر سڑک پر پیٹ
پیٹ کر ہلاک کردیا۔ جب وہ مرگیا تو اس کی لاش کو آگ لگادی۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس
ہجوم میں اور دیگر ہجومی تشدد کے واقعات میں بھی ایک بڑی تعداد 13 سے 15 برس کے بچوں
کی تھی۔ اس تشدد میں کئی کمسن بچے بھی زخمی ہوئے ہیں۔ سرگودھا میں عیسائی شخص پر ہجومی
تشدد میں بھی بچوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد تھی۔ سرگودھا میں ہجوم نے "لبیک
لبیک "کے نعرے لگائے تھے سوات میں بھی ہجوم میں شامل کچھ افراد نے لبیک یا رسول
اللہ کے نعرے لگائے۔ واضح ہو کہ تحریک لبیک پاکستاک مذہبی سیاسی تنظیم ہے جو مذہبی
اور مسلکی منافرت پھیلانے کے واقعات میں ملؤث رہی ہے۔ کے ہجومی تشدد میں کسی مذہبی
تنظیم کا نام نہیں آیا ہے لیکن مسجد سے لاؤڈاسپیکر پر اعلان کرنا اور عوام کوبھڑکانا
اس کے بعد عوام کو تھانے تک ورغلاکر لے جانا اور تھانے پر حملہ کرکے ملزم کو چھڑا لینے
کا کام کسی تنظیم کے کارکنان کا ہی ہوسکتا ہے۔
اس سے قبل بھی سیالکوٹ ، مردان
، جرانوالہ اور وار برٹن بھی توہین قرآن کے الزام میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کو
ہجومی تشدد کانشانہ بنایا گیا ہےاور کئی معاملات میں ہجوم نے تھانے پر حملہ کرکے ملزم
کو چھڑا لیا ہے اور اسے پیٹ پیٹ کر قتل کردیا ہے۔
مدین میں ہونے والے ہجومی
قتل کے بعد مقتول کی والدہ شایستہ پروین نے ایک ویڈیو جاری کرکے کہا ہے کہ اس کا بیٹا
گھر سے ڈیڑھ سال پہلے چلا گیا تھا ۔وہ گھر میں اپنی بیوی اور مجھ سے جھگڑا کرتا تھا
اس لئے میں نے اسے عاق کردیا تھا۔ اب اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور اس کے کسی
عمل میں ہمیں شریک نہ سمجھا جائے۔ یہ ویڈیو مقتول کی خاتون نے اس خوف سے جاری کیا ہے
کہ اسے بھی اس کے بیٹے کے کئے کی سزا نہ دی جائے کیونکہ پاکستان میں کسی ہر اگر توہین
قرآن یا توہین رسالت کا الزام لگتا ہے تو ملزم کے ساتھ اس کے والدین اور دیگر اہل خانہ
کو بھی اس گناہ میں شریک سمجھا جاتا ہے اور انہیں بھی قتل کے ڈر سے روپوش ہوجانا پڑتا
ہے۔ کسی بھی دوسرے ملک میں مقتول کی والدہ نے اس کے بیٹے کو الزام لگا کر قتل کردینے
پر قاتلوں کی مذمت کی ہوتی اور ان کے لئے سخت سزا کا مطالبہ کرتی لیکن اس پاکستانی
خاتون کی بے بسی یہ ہے کہ اسے یہ ڈر ہے کہ کہیں مسلمان اس کے گھر پر بھی حملہ نہ کردیں
اور اس کے گھر کوبھی آگ نہ لگا دیں۔ اس لئے اس نے اپنے بیٹے سے اپنی براءت کا اعلان
کردیا اور حکومت سے قاتلوں کی سزا کا مطالبہ نہیں کیا۔
خیبر پختونخوا کے وزیراعلی
علی امین گنڈا پور نے اس واقعے پر ایک رسمی سا بیان دیا ہے جس میں اس واقعے پر افسوس
کا اظہار کیا گیا ہے۔نہ کسی کی مذمت کرنے کی ہمت کی ہے اور نہ ہی قاتلوں کو کیفرکردار
تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ پولیس کے اعلی حکام نے مقامی تھانے سے رپورٹ طلب
کرلی ہے اور مقامی پولیس نے اعلان کردیا ہے کہ سوات کا پرفضا علاقہ اب پرسکون ہے اور
اب سیاحوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس لئے وہ سیاحت کے لئے
سوات بغیر کسی خوف اور اندیشے کے آسکتے ہیں۔ پولیس نے ہجوم میں شامل نامعلوم قاتلوں
کے خلاف کیس درج کرلیا ہے۔ ساتھ ہی مقتول کے خلاف بھی توہین قرآن کا کیس درج کرلیا
ہے۔شاید اب مقتول اپنے قتل کی گواہی دینے اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے کبھی
عدالت میں حاضر نہ ہو سکے اور یہ کیس بھی دوسرے تمام ہجومی تشدد کے مقدمات کی طرح پاکستان
کی ہجومی تشدد کی تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائے۔
جسب معمول کسی عالم دین کی
طرف سے واقعے کی مذمت کا بیان نہیں آیا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی لیڈر نے اس واقعے کی
مذمت کرنے کی ہمت کی ہے کیونکہ مقتول تویین قرآن کا ملزم تھا ۔ توہین قرآن کے ملزم
کی حمایت میں کچھ کہنے پر اسلامی تنظیمیں ان کے خلاف بھی توہین مذہب کےملزم کی حمایت
کا الزام لگا دینگی ۔ اس لئے اس طرح کے معاملات کے بعد پاکستان میں ایک پراسرار خاموشی
چھاجاتی ہے۔ کوئی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا کہ ملزم کے خلاف ثبوت کیا تھا اور مسجد
سے لاؤڈاسپیکر پر اعلان کس ثبوت کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔
جکومت پاکستان کے لئے جب ہجومی
تشدد ایک مستقل مسئلہ بن گیا ہے تو پھر اس رجحان کو روکنے کے لئے وہ قوانین کیوں نہیں
بناتی؟ وہ ہجومی تشدد کو روکنے کے لئے مسجدسے لاؤڈاسپیکر کے استعمال کو ممنوع کیوں
نہیں قرار دیتی؟وہ ہر ضلع میں ہجومی تشدد مخالف فورس کی تشکیل کیوں نہیں کرتی؟ سیاسی
مخالفین کے خلاف جیو فینسنگ کا استعمال کرکے لوگوں کو
حراست میں لیا جاتا ہے تو
ہجومی تشدد کے ملزمین کو جیوفینسنگ کے ذریعہ حراست میں کیوں نہیں لیا جاتا اورجھوٹا
الزام لگانے والوں کے خلاف قرآن اور حدیث کی روشنی میں قانونی کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟۔
پاکستان میں کسی پر توہین
مذہب کا الزام۔لگانے سے لے کر اس پر ہجومی تشدد کرنا اورمسجد کے لاؤڈاسپیکر پرعوام
کو تشدد پر اکسانا ، تھانے پر حملہ کرنا اقر ملزم کو ہجوم کے ذریعہ قتل کردینا سارے
اعمال غیر شرعی اور غیر اسلامی ہیں۔ نہ ہی ملزم پر لگائے گئے الزام کی انکوائری ہوتا
ہے اور نہ ہی جھوٹا الزام لگا کر قتل کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے پھر
بھی نہ سیاست داں کچھ کہتے ہیں ، نہ مذہبی تنظیمیں اس غیر شرعی چلن پر کچھ کہتی ہیں
اور نہ ہی سیاست داں اس کے خلاف کچھ کہنے کی ہمت جٹا پاتے ییں۔ ہرماہ پاکتان میں کہیں
نہ کہیں توہین کے نام پر تشدد ہوتا ہے اور اس تشددمیں بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان بچوں
کو یہ تعلیم کون دیتا ہے؟
پاکستان میں توہین قرآن کے
نام پر تشدد اور قتل شاید چلتا ہی رہے گا کیونکہ اب نئی نسل بھی ہجومی تشدد کو اسلام
کا ہی ایک حصہ سمجھنے لگی ہے۔ ان کے نزدیک یہ گناہ کبیرہ نہیں بلکہ کارثواب ہے ۔
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism