مولانا ندیم الواجدی
ٓآج کل اخبارات میں بین المذاہب شادیوں کے سلسلے میں بڑی لے دے مچی
ہوئی ہے،کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا پیش آہی جاتاہے جس کو بہانہ بنا کر شیو سینا اور
بجرنگ دل جیسی فرقہ پرست ہندو تنظیمیں معاشرے میں زہر گھول دیتی ہیں، سہارن پور
ضلع میں بھی آج کل کچھ ایسا ہی ہورہا ہے، یہ سلسلہ دیوبند سے شروع ہوا،یہاں تک کے
ایک مسلم نوجوان نے اپنے پڑوس میں رہنے والی ایک ہندو لڑکی کو مسلمان بنا کر شادی
کرلی، یا وہ لڑکی مسلمان لڑکے کی محبت میں خود مسلمان ہوگئی، لڑکی کے والدین اور دوسرے
عزیز وں نے اس واقعے پر اس قدر ہنگامہ برپا کیا کہ الامان الحفیظ،بات پولیس تھانے
تک پہنچی،گرفتاریاں ہوئیں،لڑکی کے عدالتی بیان کے موقع پر کورٹ میں ان فرقہ پرست
تنظیموں نے اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے اور توڑ پھوڑ بھی کی، غنیمت یہ ہوا کہ
لڑکی میڈیکل رپورٹ کے مطابق 19برس کی تھی، اگروہ 18برس سے کم ہوتی تو لڑکا جیل
ضرور جاتا، پھر لڑکی نے اپنے بیان میں مسلمان شوہر کے ساتھ جانے او ررہنے کے عزم
ارادے کا اظہار بھی کیا، جس سے کیس لڑکے کے حق میں ہوگیا۔ فی الحال معاملہ عدالت
کے سخت موقف کی وجہ سے دب چکا ہے، لیکن اخبارات میں ”لوان جہاد“ کے عنوان سے ایک
نئی بحث شروع ہوگئی۔ بین المذاہب شادی کی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ طرفین کا
مذہب الگ الگ ہو اور دوسرے یہ کہ ایک فریق پہلے سے مسلمان ہو اور دوسرے نے اسلام
قبول کرنے کے بعد فریق اوّل سے نکاح کیا ہو،پہلی صورت کھلے طور پر بین المذاہب
شادی کی صورت ہے، لیکن دوسری صورت کو حقیقی طور پر بین المذاہب شادی کا عنوان نہیں
دیا جاسکتا، البتہ اس معنی میں اس کو بین المذاہب شادی کہا جاسکتا ہے کہ نکاح سے
پہلے دونوں کا مذہب الگ الگ تھا، تاہم نکاح کے وقت دونوں مسلمان ہوچکے تھے، اس طرح
دونوں صورتوں کی نوعیت بھی الگ ہے او ران کا حکم بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
مخلوط تعلیم، مخلوط
کلچر،لڑکوں لڑکیوں کے آزادانہ میل جول کے اثرات سوسائٹی پر مرتب ہونے لگے ہیں،بہت
سے نوجوان لڑکے لڑکیاں اس کلچر میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ انہیں جسمانی تعلقات
قائم کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتی، اس طرح تعلقات کے لیے محفوظ پناہ
گاہیں اور کھلی فضا ئیں موجود ہیں،جن میں کسی طرح کی کوئی قانونی یا سماجی رکاوٹ
نہیں ہے، جو نوجوان قانونی یا سماجی رکاوٹ محسوس کرتے ہیں وہ گھر سے فرار ہوجاتے
ہیں، اگر دونوں بالغ ہوں تو قانون بھی انہیں تحفظ فراہم کرتاہے خواہ ان کا تعلق
مختلف مذاہب ہی سے کیوں نہ ہو، بالغ نہ ہونے کی صورت میں یہ اندیشہ بہر حال موجود
ہے کہ اگر پکڑے گئے تو جیل اور لڑکی کو ناری نکیتن بھیجا جاسکتا ہے، یہ صورت حال
ہندو اور مسلمان سب ہی گھرانوں میں پیش آرہی ہے، اس رجحان پر قابوپانے کے لیے
ضروری ہے کہ معاشرے میں اخلاقی قدروں کو فروغ دیا جائے،اگر ایسا نہ کیا گیا تو
ہمارا معاشرہ بھی مغربی معاشرے کی طرح تباہ و برباد ہوسکتا ہے،جہاں بے حیائی عام
ہے،رضا مندی کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرتے ہیں کسی طرح کی کوئی قباحت نہیں ہے،
طلاق کی شرح ناقابل یقین حد تک بڑھ چکی ہے، ناجائز تعلقات کے نتیجے میں جو بچے
پیدا ہورہے ہیں ان کی تعداد روز افزوں ہے، آزادی کے باوجود جنسی جرائم کا گراف
بڑھتا جارہا ہے ایڈس جیسے جنسی امراض مغربی معاشرے کی شناخت بن چکے ہیں،مغرب کی یہ
بے راہ روی پہلے دبے پاؤں مشرق کی طرف بڑھ رہی تھی اب علی الاعلان مشرق کی سرحدوں
پر دستک دے رہی ہے،مذہبی پیشواؤں،سماجی کارکنوں،سیاسی لیڈروں اور تعلیمی امور کے
ماہروں کو بلہ تفریق مذہب وملت بہ طور خاص اس سلسلے میں غور و فکر کرناچاہئے۔
ہندوستان ایک کثیر
المذاہب ملک ہے، آبادیاں ملی جلی ہیں، رہائش ایک ہے،لباس ایک ہے، زبان ایک ہے،
کھانا پینا بھی تقریباً یکساں ہے، اس یکسانیت نے مختلف قومیتوں اور مذاہب سے تعلق
رکھنے والے لوگوں کو ایک دوسرے سے اتنا قریب کردیا ہے کہ بہت سی جگہوں پر یہ پہچان
ہی مشکل ہوگئی ہے کہ کون ہندو ہے ا ور کون مسلمان،تعلیمی اداروں میں،دفاتر
میں،بازاروں میں،تفریح گاہوں میں او ر دوسرے عوامی مقامات پر ایک بڑی تعداد ایسے
افراد کی ہوتی جو اگرزبان سے نہ بتلائیں تو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان میں ہندو
کون ہے اورمسلمان کون ہے، ایک بہت ہی محدود طبقہ اپنی شناخت رکھتا ہے،کچھ مسلمان
مرد اپنی ٹوپی داڑھی سے اور کچھ مسلمان عورتیں اپنے برقعے سے مسلمان کی حیثیت سے
پہچانی جاتی ہیں، باقی سب لوگ آبادی کے سمندر میں اپنی پہچان کھو چکے ہیں، اس صورت
حال نے مخلوط کلچر کو فروغ دیا ہے،یہاں تک کہ اب نوجوان اپنے مذہب ہی کے جنسی
مخالف دلچسپی نہیں لیتے،بلکہ دوسرے مذہب کی نوجوان لڑکے لڑکیوں میں بھی گھس پیٹھ
کر بیٹھتے ہیں،ایسے نوجوان میں بڑی تعداد تو وہ ہے جو مذہب پر ہی یقین نہیں
رکھتی،ان میں سے بعض کا خیال یہ ہے کہ مذہب ان کی ذاتی زندگی میں اس حد تک دخیل
نہیں ہے کہ وہ انہیں ان کی مرضی سے شادی بھی نہ کرنے دے، کیونکہ ابھی ہمارے سماج
میں پرانی قدریں باقی ہیں اس لیے جب بھی کوئی بین المذاہبی شادی کا واقعہ ہوتا ہے
تو بے چینی پھیل جاتی ہے، خاص طور پر ہندو سماج کے لوگ اس وقت بہت زیادہ بے چین
ہوجاتے ہیں جب لڑکا مسلمان اور لڑکی ہندو ہو، ان کے خیال میں کسی ہندو لڑکی کا کسی
مسلمان لڑکے کی شریک حیات بننا سبکی کی ہے،اگر صورت واقعہ اس کے برعکس ہوتو اس پر
کسی کو اعتراض نہیں ہوتا بلکہ ایک گونہ خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا جاتا ہے۔
عشق کے چکر میں پڑ کر کچھ نوجوان مذہب بھی تبدیل کر بیٹھتے ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جو
محبت اور مذہب دونوں میں توازن رکھنا چاہتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں وہ ان دونوں
میں سے کسی ایک سے بھی دست بردار نہیں ہوناچاہتے،ایسے لوگ جنس مخالف کو اپنا مذہب
تبدیل کرنے پر آمادہ کرلیتے ہیں، یہاں بھی سابقہ دونوں صورتیں پیش آتی ہیں، کبھی
مسلم لڑکا عشق کے ہاتھو ں مجبور ہوکر اپنی ابدی بد بختی پر مہر لگا بیٹھتا ہے اور
مذہب تبدیل کرلیتا ہے اورکبھی مسلم لڑکی غیر مسلم لڑکے سے شادی رچا نے کے چکر میں
ہندو مذہب اختیار کرلیتی ہے،ہمارے ملک میں یہ دونوں صورتیں خوشی سے قبول کی جاتی
ہیں،عام طور پر مسلمان اس طرح کے واقعات پر احتجاج بھی نہیں کرپاتے بلکہ بے بسی کے
ساتھ اپنی بدبختی کا تماشا دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں، ایسے واقعات میں قانون بھی
کچھ نہیں کرپاتا اور اگر اتفاق سے یہ صورت پیش آجائیتو کوئی ہندولڑکی کسی مسلمان
لڑکے کے عشق میں گرفتار ہوکر مسلمان ہوجائے تو فرقہ پرست تنظیمیں آسمان سر پر اٹھا
لیتی ہیں،دیوبند کے واقعے کو بنیاد بنا کر ان تنظیموں نے امن و امان کی صورت حال
کو بگاڑ نے کی جو مسلسل کوشش کی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندو تنظیموں
کو یہ صورت کسی بھی حال میں قبول نہیں ہے اور وہ اس طرح کے کسی بھی واقعے کی آڑ
میں مسلمانوں کو نشانہ بناسکتی ہیں، اس واقعے میں عدلیہ اور انتظامیہ کی غیر جانب
داری نے اور لڑکی کی عمر اور استقامت نے واقعے کی نوعیت بدل کر رکھ دی ہے ورنہ
سہارن پور کی آگ پورے ملک کی اہم آہنگی کو متاثر کرسکتی تھی۔اگر غیر جانب داری کے
ساتھ جائزہ لیا جائے اور اعدادو شمار جمع کئے جائیں تو یہ بات واضح طور پر سامنے
آئے گی کہ دیوبند جیسے واقعات شاذ ونادرہی پیش آتے ہیں،اس کے برعکس دوسری نوعیت کے
واقعات نسبتاً زیادہ پیش آرہے ہیں،یہ فرقہ پرست تنظیموں کی بدنیتی ہے کہ وہ دیوبند
جیسے واقعات پر آپے سے باہر ہوجاتی ہیں اور دوسری نوعیت کے واقعات پر بغلیں بجاتی
ہیں۔ جہاں تک مسلم نوجوانوں کی تبدیلی مذہب کا معاملہ ہے وہ انتہائی بدبختانہ
ہے،اس لیے کہ دولت،ایمان اور متاع اسلام کے مقابلے میں دنیا جہان کی نعمتیں اور
احنین ہیچ ہیں،لیکن نوجوانوں کو یہ بات سمجھائی نہیں جارہی ہے، عصری تعلیم نے دلوں
سے دین کی اہمیت نکال دی ہے۔ گھر میں بھی ان کی دینی اخلاقی تربیت کا کوئی انتظام
نہیں کیا جاتا،مسلمان بچے عصری تعلیم میں تو ترقی کررہے ہیں او ربڑی بڑی تنخواہوں
کے حقدار بن رہے ہیں لیکن والدین کی غفلت کی بنا پر دین سے دور ہوتے چلے جارہے
ہیں،اس سنگین مسئلے پرسنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے،ذرا اسی لاپرواہی یا غیر
معمولی تاخیر تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔کسی غیر مسلم لڑکے یا لڑکی کا اسلام قبول
کرنا یہ ظاہر غلط نہیں ہے، ملک کا قانون ہر شہری کو مذہب تبدیلی کا حق دیتا
ہے،اسلام کا دامن بھی کشادہ ہے اور وہ ہر اس شخص کو خوش آمدید کہنے کے لئے ہمہ وقت
تیار رہتا ہے جو اس کے سایہ رحمت میں آنا چاہے، اس لحاظ سے قبول اسلام کا کوئی بھی
واقعہ کسی کے لیے بھی باعث تشویش نہ ہوناچاہئے،لیکن ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ ہم
آہنگی کی کمی نے بہت سے سماجی اور سیاسی مسائل پیدا کردیئے ہیں، ان میں ایک مسئلہ
قبول اسلام کابھی ہے، قبول اسلام کا کوئی بھی واقعہ فرقہ پرستوں کو برداشت نہیں
ہے، اس کے باوجود خاصی تعداد میں لوگ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول
کررہے ہیں،اس کے لیے انہیں قانونی لڑائی بھی لڑنی پڑتی ہے اور سماجی کش مکش سے بھی
گزرنا پڑتا ہے،تاہم شادی بیاہ جیسے معاملات میں مذہب کو آڑ بنانا درست نہیں ہے،
مسلم نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ جذباتی فیصلوں سے گریز کریں، صرف شادی کے لیے اگر
کوئی لڑکی مذہب تبدیل کرے گی تو شاید ہی اس کا اسلام معتبر سمجھا جائے گا، چند
رموہن چاند اور فضا کے معاملے میں عام طور پر یہی کہا جارہا ہے کہ ان کا اسلام صرف
شادی کے لیے تھا، اس طرح کے معاملات میں بھی یہی کہا جائے گا،بہتر یہی ہے کہ مسلم
نوجوان اپنے ذاتی مفادات کے لیے اسلام کا نام نہ استعمال کریں اورنہ مسلمانوں کو
بلی کا بکرا بنائیں، ملک کے سیاسی حالات اس طرح کے فیصلوں کی اجازت نہیں دیتے، اگر
اسلام سے محبت ہے تو نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی شخصیت
کی تعمیر کریں۔ لو ان جہاد کا شوشہ چھوڑ کر فرقہ پرست تنظیمیں یہ ثابت کرنا چاہ
رہی ہیں کہ مسلمانوں نے جہاد کا نیا میدان تلاش کرلیا ہے او رملک میں
انتشارپھیلانے کانیا طریقہ ایجاد کرلیا ہے،اب مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو محبت کے
جال میں پھنسا کر جہاد کررہے ہیں،جو لوگ یہ الزام عائد کررہے ہیں وہ جہاد کی حقیقت
سے واقف ہی نہیں ہیں یا جان بوجھ کر ناواقف بن رہے ہیں، اکاد کا واقعات کو بنیاد
بنا کر الزام تراشی کرنا فرقہ پرستوں کا پرانا شیوہ ہے لیکن اس سے ہمارے نوجوانوں
کو بھی سبق لینا چاہیے، ان حالات میں جب کہ فرقہ پرستوں کی طرف سے مسلمانوں پر
”لوان جہاد“ کا الزام عائد کیا جارہا ہے، علماء دانش ور حضرات او ر ملت کے ہمدردوں
کو سوچنا ہوگاکہ اس الزام کا جواب کس طرح دیا جائے،زبان سے کہ ہم ایسا نہیں کررہے
ہیں اور یہ کہ اسلام میں جبراً تبدیلی مذہب کی کوئی گنجائش نہیں ہے یا اپنے عمل سے
جس کے ذریعہ ہم گھروں میں ایسا ماحول پیداکریں کہ کسی مسلم نوجوان کو مذہب کا
استحصال کرنے کی جرأت نہ ہو۔
URL for English article: https://www.newageislam.com/islam-and-pluralism/‘love-in-jihad’-–-myth-or-reality?/d/1576
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/love-jihad-myth-reality/d/122697