اسعدعلوی ایڈوکیٹ
12 نومبر 2020
Wikipediaپرلو جہاد کو
اسلاموپھوبک سازش کا ایک نظریہ بتایا گیا ہے۔ مسلمان مردوں پر الزام ہے کہ وہ غیر
مسلم خواتین کو عشق میں پھنساکر مذہب تبدیل کر اسلام قبول کراتے ہیں۔اگر یہ حقیقت
ہے کہ شادی کی وجہ صرف کسی کے مذہبی عقیدے کو تبدیل کرایا جائے یا مذہبی عقیدے
کوتبدیل کرنے کی نیت سے شادی کرائی جائے تو یہ بات مذہبی،اخلاقی اور دنیاوی سب
اعتبار سے نا جائز ہے۔ کیونکہ قانون میں، مذہب میں کسی کا اعتماد حاصل کرکے اسکو
کسی دوسری منشا کیلئے استعمال کرنا پوری طرح غیر قانونی ہے۔ سپریم کورٹ اور مختلف
ہائی کورٹ نے زناباالجبر کے معاملات میں ان واقعات کو بھی زنا مانا ہے، جہاں ایک
خاتون کا اعتماد شادی کے وعدے کیلئے کیا جائے اور اسکے ساتھ جسمانی رشتہ بنایا
جائے اور پھر شادی کیجائے یہ زنابالجبر کے زمرے میں آتا ہے۔لیکن جہاں دو بالغ لوگ
بنا کسی لالچ، فریب،آزادانہ مرضی سے شادی کرنے کا اہتمام کرتے ہیں وہ قانون کی
نظر میں جائز اور صحیح ہے۔ اس معاملے میں مذہب،عقیدے،ذات برادری کی کوئی پابندی
نہیں ہے۔ اس پر قانون پوری طرح شیشہ کی طرح صاف ہے۔
اسپیشل میرج ایکٹ ۱۹۵۴ ءکی دفعہ چار کے دو
اشخاص کی شادی مکمل کرنے کے لیے کچھ شرائط
ہیں۔ کچھ رشتے ممنوعہ ہیں،جن میں ایک Exception رعایت بھی کہ قبایلی
فرقوں میں جہاں کوئی روایت مدتوں سے رائج ہے۔ مثلاً مہاراشٹر میں کچھ فرقوں میں
سگی بہن کے کسی بیٹی سے شادی کا چلن ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ملک میں سیکولرازم کو فروغ
ملے اور لوگوں میں باہمی اتحاد ہو۔ مذہبوں اور فرقوں میں نفرت نہ رہے اسکے لیے
ماہر سماجیات ہمیشہ Inter-Religion اور Inter-cast شادیوں پر زور دیتے رہے ہیں۔ قانون اور مذہب میں بھی اسکی ممانیت
نہیں ہے۔ اسلام میں تمام اہل کتاب سے شادی بغیر مذہب تبدیل کیے ہی کی جا سکتی
ہے۔لیکن پھر بھی نہ جانے کتنے معاملات آنر کلنگ قتل براے غیرت عدالتوں کے سامنے
آتے رہتے ہیں۔ لتا سنگھ بنام حکومت اتر پردیش ایک عرض داشت آرٹیکل ۳۲ ؍دستور
ہند کے تحت سپریم کورٹ میں داخل ہوئی۔ اس معاملے میں ایک ۲۷ ؍برس
کی دوشیزہ جو ہندی میں ماسٹرس کر رہی تھی۔ والدین کی ناگہاں موت کے بعد اپنے بھائی
کے ساتھ رہتی تھی۔ ایک دن دو نومبر ۲۰۰۲ء
کو اپنی رضا مندی سے آریہ سماج مندر میں جاکر ایک برہم نند گپتا سے شادی کرلی۔ ۴ ؍نومبر
۲۰۰۷ء کولتا سنگھ کے بھائی نے
لکھنؤ کے ایک تھانے میں گم شدگی کی ایک رپٹ لکھوائی۔ اور اس رپٹ کے نتیجے میں
پولس نے لتا سنگھ کے شوہر، شوہر کی بہنیں اور کچھ عزیزو عقارب کو گرفتار کر
لیا۔اور اس عرض داشت میں لتا سنگھ نے اپنے بھائی پر الزام لگایا کہ اس نے اس کے
شوہر کی والدہ اور رشتہ داروں کو مارا پیٹا وغیرہ، اور سب کو جان سے مارنے کی
دھمکی وغیرہ بھی دی۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مقدمہ کے حالات ہذا کے
مطابق یہ بہت ہی مذمّت آمیز واقعات ہیں۔ لتا سنگھ ایک بالغ خاتون ہیں۔ ہندومیرج
ایکٹ میں یا کسی دوسرے قانون میں انٹرکاسٹ شادی ممنوعہ نہیں ہے۔ اس فیصلے کے اہم
حصّہ کو میں بطور سہولت نقل کر رہا ہوں۔
کاسٹ سسٹم ملک کے لیے ایک
لعنت ہے۔ بنیادی طور پر یہ ملک کو تقسیم کرتی ہے۔ حقیقت میں انٹر کاسٹ شادیاں ملکی
ہم آہنگی کے لیے عطیہ ہے۔کورٹ نے آگے کہا کہ آنر کلنگ یا قتل برائے غیرت کی
خبریں آئے دن آتی رہتی ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی مرضی سے انٹر کاسٹ یا غیر مذہب میں
شادی کرتے ہیں انکا قتل کر دیا جاتا، خاندانی عزت و عظمت کی خاطر۔ اصل میں اس میں
کوئی بھی عظمت اور غیرت کا کوئی بھی پہلو نہیں ہے۔ یہ بہت شرمناک اور وحشیانہ قتل
کے زمرے میں آتا ہے، جو جاگیر دانہ ذہنیت کی عکاّسی کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو بہت
سخت سزا دینی چاہیے، تاکہ اس برائی کا خاتمہ ہو۔ ایک اور بہت اہم بات اس فیصلے میں
سپریم کورٹ نے کہی اگر دو لوگ بالغ ہیں تو کسی سے بھی اپنی مرضی سے شادی کر سکتے
ہیں۔ اور اگر اُن کے والدین اس شادی کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے ہیں جب وہ غیر
فرقے یا غیر مذہب میں شادی کرنا چاہتے ہوں تو والدین زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے
ہیں کہ وہ اپنے بچّوں سے قطع تعلق کرلیں،
لیکن وہ ان کو دھمکی یا تشدّد یا ہر اساں نہیں کر سکتے۔اور ملک کی پولس کو انتباہ
کیا کہ اگر دو بلوغ اشخاص اپنی مرضی سے کسی بھی مذہب یا غیر مذہب سے شادی کرتے ہیں
تو پولس ان کو ہراساں ہونے سے حفاظت کرے گی اور ہراساںکرنے والے کے خلاف سخت
کاروائی کرےگی۔ ۲۰۰۷
ءمیں ہماچل حکومت نے تبدیل مذہب کے خلاف
ایک قانون بنایا۔ اس قانون کی رو سے کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے مذہب کو غلطی
معافی، طاقت،ناجائز اثر انداز کرکے،جبر، دھوکہ سے یا شادی کرکے کسی کو مذہب تبدیل
کرنے کے لیے اکسائے گا یا سازش کرینگے۔ لیکن کسی کو اپنے مادری مذہب میں واپس ہونے
پر یہ قانون نہیں لاگو ہوگا۔ یہ ایک غیر ضمانتی اور ایک قابل گرفت جرم ہوگا۔ اور
دوماہ کی سزا کا مرتکب ہوگا۔ہریانہ نے بھی ’لوجہاد‘ کے خلاف اسی طرح کے قانون بنانے
کی بات کہی ہے۔اس قانون کے پیش نظر جو اضطراب آئے گا اور جو نتیجے ہوںگے وہ یہ
ہوںگے کہ غیر مذہب لوگوں میں شادیاں ممکن نہیں ہوںگی، کیونکہ شادی کے لیے مذہب
تبدیل کرنا ایک قابلِ گرفت جرم ہوگا۔
ہندوستان میں کثیر تعداد
میں مسلمان اور کریشچن۔ ہندو مذہب سے مسلمان اور کریشچن بنے ہیں۔ ان کا مادری مذہب
ہندو ہے۔ وہ واپس اپنے مادری مذہب کو قبول کر سکتے ہیں۔ اس طرح کے قوانین دستور
ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کے اصول کو بھی نفی کرتے ہیں۔ آرٹیکل ۲۵؍
دستور ہند کے مطابق ایک شہری کو حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی مذہب کو منتخب
کرے اور عمل کرے۔ غلط بیانی، بے جا طاقت کا استعمال، ناجائز اثر انداز کرنا جبر
کرکے کسی کو کچھ بھی کرنے کے لیے تیار کرنا تو پہلے سے ہی غیر قانونی ہے۔ لیکن
جہاں کچھ کرنے کے لیے رضامندی ہے وہاں شادی کو اس زمرے میں رکھ دینا کسی خاص سیاسی
ایجنڈے کی تعمیل ہے۔پورا ملک جانتا ہے کہ کچھ سیاسی لوگ ملک کے سیکولر ڈھانچے کو
منتشر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ انیس احمد بنام حکومت کے فیصلے کی ابتدا
’مایا انجلیو (Maya
Angelou)ایک
امریکی شاعر کی تخلیق سے ہوئی۔
"Love
recognizes no barriers. It jumps hurdles, leaps fences,penetrates walls
toarrive at its destination full of hope ."
’محبت ِ دشواریوں کو روندتی ہوئی ۔ جھاڑیوں پرچھلانگے بھرتے ہوے ،
دیواروں کی قیدسے بے نیاز، منزل پر جا ہی پہنچتی ہے‘
اس مقدمہ میں شروتھی ایک
پوسٹ گریجویٹ لڑکی نے انیس حمید جو شروتھی کا ہم درجہ (Classmate) تھا شادی کرلی ۔
شروتھی کے والد نے گمشدگی کی ایک رپٹ تھانے میں کروادی۔ شروتھی اور انیس کو برآمد
کیا گیا اور شروتھی کواسکے والد کے سپرد کردیاگیا۔ شروتھی کے والد نے اسکو
ایرناکلم کے ایک یو گاکیندر کے سپرد کردیا جہاں ۴۰؍
اور مجبور لڑکیاںرہتی تھیں۔ انیس نے ایک عرض داشت داخل کی اور مجسٹریٹ درجہ اوّل
نے ایک سرچ وارنٹ ایشو کردیا۔ وہاں پھر شروتھی کو پیش کیا گیا اور شروتھی کو
دوبارہ والدین کے سپرد کردیا۔ والدین نے دوبارہ یوگاکیندر کو دے دیا تاکہ شروتھی
نہ صرف انیس سے دور رہے بلکہ ہندو مذہب کو مانتی رہے۔ انیس نے پھر ایک رٹ فائیل
کی۔ اسی رٹ میں بہت سارے فریق سننے کے لیے عرضیاں داخل کی گئیں۔ اور کہا گیا یہ
کیس اور لو جہاد اور گھر واپسی کا ہے۔ عدالت نے اس کو حبث بیجا کا معاملہ مانا اور
ایک لڑکی کی ذاتی آزادی پر حملہ مانا اور لو جہاد کا مطالبہ کرنے والی ساری
درخواستوں کو خارج کر دیا۔ اور کہا کہ آج کل انٹر کاسٹ اور انٹر ریلجن شادیوں کو
سننی خیز مسئلہ بنادیا جاتا ہے۔ اور دستورہند کے آرٹیکل ۲۵ کو دوہرایا۔ فلم
کیدارناتھ پر جس ہندو مسلمان لڑکے لڑکی کی محبت کی کہانی دیکھائی اس پر بھی لو
جہاد کہہ کر مقدمہ کیا جو کورٹ نے خارج کردیا۔قانونی تقاضوںکی تکمیل میں قانونی
نظام کی ناکامی ایک جانب محبت کے نغمے گائے جاتے ہیں۔محبت کی شاعری کرتے ہیں۔محبت
کی کہانیاں کہتے ہیں۔محبت کی فلمیں بنتی ہیں۔دوسری جانب محبت کے دشمن محبت کو جرم
بنانے پر تلے ہیں۔
علّامہ اقبال نے کہا ہے
کہ
محبت ہی وہ منزل ہے کہ
منزل بھی ہے صحرا بھی
جرس بھی کارواں بھی راہبر
بھی راہزن بھی ہے
12 نومبر 2020،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/love-jihad-law-jihad-supreme/d/123456
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism