New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 02:02 PM

Urdu Section ( 26 Aug 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

How Long Will The Orgy Of Sectarianism Persist? فرقہ پرستی کا ننگا ناچ کب تک؟

پروفیسر اخترالواسع

25 اگست،2023

گزشتہ چند ہفتوں میں وطن عزیز میں جو کچھ دیکھنے کو ملا ہے اس سے وحشت اور دہشت کا ماحول اگر نہ پیدا ہوتا تو تعجب کی بات ہوتی۔ منی پور میں تین مہینے سے زیادہ ہونے کو آئے ،جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہریانہ میں ہوا وہ ناقابل تردید حد تک افسوس ناک اور شرم ناک ہے۔ جس طرح سپریم کورٹ کی تادیب کے باوجود مہاپنچایتوں کے اجلاس بلائے جا رہے ہیں اس میں مسلمانوں کے خلاف جس طرح ہرزہ سرائی کی جا رہی ہے وہ اور زیادہ تشویش ناک ہے۔ ہریانہ میں لگتا ہے سرکار دو حصوں میں بنٹ چکی ہے۔ ایک طرف مرکزی وزیر مملکت راؤ اندر جیت سنگھ ہیں جو پارلیمنٹ میں گروگرام اور نوح کی نمائندگی کرتے ہیں۔اسی طرح ر نائب وزیر اعلیٰ دشینت چوٹالہ ہیں ۔یہ دونوں بجا طور پر انتظامیہ کی ناکامی پر نہ صرف سوال اٹھا رہے ہیں بلکہ انہوں نے حق کو غالب کرتے ہوئے یہ تک کہہ ڈالا کہ ہتھیار، بندوق اور تلواریں لے کر جلوس میں کون جاتا ہے اور نوح اور آس پاس کے علاقوں میں جو کچھ آج تک نہیں ہوا تھا وہ اب کس طرح ہو گیا؟ اسی طرح اب نفرت کی جو مہم جاری ہے اور جس طرح مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم چلائی جاتی ہے، جلسے  اور جلوس نکالے جاتے ہیں اس میں مقامی کم اور باہر کے لوگ زیادہ حصہ لیتے ہیں۔ یہ بھی کوئی تعجب کی بات نہیں کہ نوح میں جب فساد ہوا اور جلوس میں شامل لوگوں نے جن میں بچے، بوڑھے اور عورتیں شامل تھیں، ایک مندر میں پناہ لی تو وہاں کے پروہت کے مطابق مسلمانوں نے ان کی حفاظت کی۔ یہ بھی کم افسوس کی بات نہیں کہ فرقہ پرست اور فسطائی ذہنیت کے مالک شرپسند گروہ مقامی انتظامیہ اور ریاستی سرکاروں کے ہوتے ہوئے اس طرح کے سوشل میڈیا پر پوسٹ شائع کرتے ہیں جس میں اپنے مکروہ عزائم کا پہلے سے اعلان کرنے میں انہیں کوئی تکلف نہیں ہوتا۔ اس میں سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ریاستی حکومتیں اور مقامی انتظامیہ ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتیں اور ان پر کوئی پابندی نہیں لگاتیں۔

معاملہ صرف مفسدانہ عزائم والے اشرار کا ہی نہیں بلکہ خود سرکاری مشینریوں کا بھی ہے۔ وہ کام جو شرارت پسند نہیں کر پاتے اسے ہم نے نوح میں دیکھا کہ مقامی انتظامیہ نے کر دکھایا۔ نہ جانے کتنے لوگوں کے گھر، دکانوں اور ایک ہوٹل پر بلڈوزر چلا دیا گیا اور پہلے تو یہ تاثر دیا گیا کہ گناہ گاروں کو نہ بخشے جانے کے لیے یہ کارروائی کی جا رہی ہے لیکن جب پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ نے اس کا سخت نوٹس لیا تو کہا گیا کہ یہ سب غیرقانونی تعمیرات تھیں جن کو منہدم کیا گیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ غیرقانونی تعمیرات کب تعمیر ہوئیں، کیسے تعمیر ہونے کی اجازت دی گئی اور کس طرح سرکاری ادارے ان کے ساتھ بجلی، پانی اور دیگر سہولتوں کے لیے معاونت کرتے رہے؟ کہیں سچ مچ تو ویسا ہی نہیں جیسا کہ پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ کی بینچ نے کہا کہ یہ نسلی تطہیر کی مشق تو نہیں ہے؟

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ بہادر میواتی تھے جنہوں نے بابر تک کی طاقت کو چیلنج کیا تھا۔ جنہوں نے پاکستان جانے کے بجائے تقسیم کے وقت ہندوستان میں رہنا پسند کیا تھا۔ جن کی سادگی، بانکپن، جفاکشی اور انسان دوستی کے سب قائل رہے ہیں۔ جو اپنی وطن دوستی اور بھائی چارے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ جب جب ملک میں فسادات ہوئے تو میوات کے مسلم اکثریتی علاقے امن و آشتی کا جزیرہ بنے رہے۔ انتہا یہ کہ۶؍ دسمبر۱۹۹۲ءکو بابری مسجد کی شہادت ہو یا۲۰۰۲ء کے گجرات میں مسلم کش فسادات، میواتیوں نے صبرو تحمل اور امن و انصاف کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔

وہ لوگ جو میوات میں امن کو غارت کرنے میں لگے ہوئے ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ میوات میں امن کو تہ و بالا کرنے میں نہیں لگے ہیں بلکہ اس عظیم ملک کی امن و آشتی اور شانتی کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے میں لگے ہوئے ہیں۔معاملہ صرف ہریانہ تک محدود نہیں بلکہ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا، ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وِج سے آگے نکلنے میں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو عام کرنے میں پیچھے نظر نہیں آنا چاہتے۔ مدھیہ پردیش میں بھی پتہ نہیں کیوں مسلمانوں کو جان بوجھ کر سب و شتم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اب بعض ریاستوں میں تو قانون کی عملداری کی بجائے بلڈوزروں سے حملہ آوری کو قانون بنا دیا گیا ہے۔معاملہ صرف مسلمانوں کے علاقوں یا ان پر انفرادی طور پر حملوں ہی کا نہیں بلکہ ان کی کوئی عبادت گاہ بھی اب بظاہر محفوظ نظر نہیں آتی۔۱۹۹۱ء کا پارلیمنٹ کا خود پاس کیا ہوا قانون آج مذاق کا موضوع بنا دیا گیا ہے اور بنارس کی جامع مسجد ہو یا متھرا کی عیدگاہ ، سب کے سروے کی باتیں ہو رہی ہیں اور سب سے پریشانی کی بات یہ ہے کہ عدالتیں بھی۱۹۹۱ء کے قانون کی پاسداری نہ کرکے نہ جانے کن بنیادوں پر اس طرح کے کاموں کی اجازت دے رہی ہیں۔ اگر پارلیمنٹ کے پاس کئے ہوئے قوانین کی اقتدار کے نشے میں اسی طرح ناقدری ہونے دی گئی تو پھر اس ملک میں مستقبل میں کچھ بھی محفوظ نہ رہے گا۔

مرکز میں برسراقتدار سیاسی جماعت جو کئی ریاستوں میں بھی حکومت چلا رہی ہے، وہ ایک طرف تو پسماندہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ لانے کی کوشش کر رہی ہے اور دوسری طرف یہ نہیں سوچ رہی ہےکہ پہلو خان ہوں یا جنید و ناصر اور ان جیسے دوسرے لوگ جو بے دردی سے قتل کئے جا رہے ہیں، زندہ جلائے جا رہے ہیں اور ماب لنچنگ کا شکار ہو رہے ہیں وہ سب بھی پسماندہ مسلمان ہی تھے۔ اگر برسراقتدار گروہ کو پسماندہ مسلمان مردوں اور مسلم خواتین کی صحیح معنوں میں فکر ہے تو پھر انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت پسماندہ ہی ہے ۔ اس سے اچھی کوئی بات ہی نہیں ہو سکتی کہ حکومت ان کی فکر کرے۔ مسلمان خواتین کے بہتر حال اور مستقبل کی فکر کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی ستائش ہونی چاہیے لیکن سرکار کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بلقیس بھی ایک مظلوم، مجبور اور مقہور مسلم خاتون ہی ہے جس کی اجتماعی آبروریزی کرنے والوں، جس کی بچی اور خاندان والوں کو ہلاک کر دینے والوں کے ساتھ سرکار ایسا سلوک کرتی ہے جس پر ہر انصاف پسند سکتے کے عالم میں رہ جاتا ہے۔

مسلمانوں سے بار بار یہ سوال کیا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان میں اپنے لیے کیا چاہتے ہیں؟ اب تشٹی کرن کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ اب منہ بھرائی کی پالیسی پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔ تو ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارا تشٹی کرن کب ہوا؟ ہمارے ساتھ منھ بھرائی کامعاملہ کب ہوا؟ کیا۱۴؍سے۱۵؍فیصد مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ سرکاری نوکریاں مل گئیں؟ رعایتیں دے دی گئیں؟ ان کے محلوں میں تھانوں کی جگہ اسکول کھول دیے گئے؟ ہسپتال بنا دیے گئے؟ بلکہ سچ یہ ہے کہ تعلیمی اعتبار سے، معاشی اعتبار سے، سماجی اعتبار سے مسلمان ہر طرح پچھڑے ہوئے رہے ہیں۔ ملک کی تعمیر میں ان کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیا گیا۔ اور آج حالت یہ ہے کہ وہ دلتوں سے بھی پچھڑے ہوئے ہیں۔ ہم بہ حیثیت مسلمان اور کچھ نہیں چاہتے بس اتنا چاہتے ہیں کہ ہمیں بھیک نہیں بھاگیداری ملے۔ ہمیں رعایت نہیں شرکت چاہیے۔ہم صرف وہ چاہتے ہیں جو ہندوستان کا دستور سب کو عطا کرتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں اور ایسا کرکے سرکاریں مسلمانوں پر کوئی احسان نہیں کریں گی بلکہ ملک میں ترقی کے لیے ایک نئی راہ جو اعتدال و توازن کی راہ ہوگی، فراہم کریں گی اور اس طرح مادرِ وطن کی صحیح معنوں میں خدمت انجام دی جاسکے گی۔لیکن اس سے پہلے فرقہ پرستی، فسطائیت کے ننگے ناچ کو روکنا ہوگا۔

25گست،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/long-orgy-sectarianism-persist/d/130525

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..