ادیس دودیریجا،
نیو ایج اسلام
15 جنوری 2024
فوری تنازعات اور خطرات کے
سدباب کے لیے، بعض اوقات مسلح کاروائی کا سہارا لینا جائز قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن
یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ مسلح تصادم کے اثرات جنگ کے رسمی طور پر خاتمے پر ہی
ختم نہیں ہو جاتے، بلکہ وہ مستقبل کے امن و امان کو بھی زبردست نقصان پہنچاتے ہیں۔
عہد حاضر میں تشدد کا استعمال کر کے دشمنوں کو شکست تو دیا جا سکتا ہے، لیکن یہ ہمارے
درمیان بنیاد پرستی، سماجی اختلاف و انتشار اور زبردست پولرائزیشن کے بیج بھی بو دیتا
ہے جس کا نتیجہ عدم استحکام کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ تین "Second-Order
Effects"
یعنی - سیاسی تنظیموں پر بنیاد پرستی کے اثرات، سماجی ہم آہنگی میں فساد، اور پالیسی
کی گنجائش کا ختم ہونا - کا جائزہ لینے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کس طرح جنگ اس معاشرتی
ڈھانچے کو کمزور کرتا ہے جو پائیدار امن کے لیے انتہائی اہم ہے۔
(From
File)
-----
عدم تشدد کا راستہ، اگرچہ شروع
میں پرخطر لگتا ہے، لیکن عدم تشدد ہی، تشدد کو لوگوں کے تعلقات اور سیاسی میدان میں
فساد پیدا کرنے سے روک کر، تنازعات اور اختلافات کا دروازہ بند کر سکتا ہے۔
ایک نقصان دہ سیکنڈ-آرڈر ایفکٹ،
'جنگ پر آڑے رہنا ہے' تاکہ بنیاد پرست عناصر کو فروغ دیا جائے، اور ان اعتدال پسندوں
کو نظرانداز کیا جائے جو مفاہمت اور سفارت کاری کا راستہ اختیار کرنا پسند کرتے ہیں۔
چونکہ جنگ جاری رہتی ہے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، معاشرے کے متزلزل اور کمزور طبقات
عدم تشدد کے ذریعے مسائل کے حل کی امید کھو بیٹھتے ہیں، اور عسکریت پسندی کو ہی ایک
"آخری حیلہ" مان لیتے ہیں۔ دھیرے
دھیرے انتہاپسند تمام فریقوں سے مفاہمت کی بصیرت افروز کوششوں کو بروئے کار لانے کے
بجائے، بزدلی یا غداری کا حربہ استعمال کرکے بیانیے پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ اور اس طرح
اعتدال پسندوں کو بدنام کر کے بنیاد پرست ایسے افراد کی ایک مضبوط حمایت حاصل کر لیتے
ہیں، جو قانونی طریقے سے تبدیلی لانے سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اور یہ بات چھوٹی موٹی تحریکوں
کو ایک مضبوط قوت میں تبدیل کر دیتی ہے جو اپنے مخلص پیروکاروں پر اپنے حکم کا سکہ
چلاتے ہیں، اور ان کا اثر، سادہ لوح نوجوانوں کی کئی عہد پر مشتمل منفی ذہن سازی کی
بدولت، ایک لمبے عرصے تک قائم رہتا ہے۔
جب تنازعات کا دورانیہ طویل
ہوتا ہے تو نقصان اور ناامیدی سے صدمے میں ڈوبے سماجی طور پر الگ تھلگ نوجوانوں کو
اس شورش اور ہنگامہ آرائی کے درمیان، بنیاد پرست تحریکوں اور تنظیموں کے دامن میں ایک
بامقصد زندگی، امید کی کرن اور ان کے سوالوں کے واضح جوابات ملتے ہیں، جس نے ان کی
زندگی تباہ کی ہے۔ ان نازک عمر کے لوگوں میں، جن کا ابھی کوئی نصب العین متعین نہیں
ہے اور جو ابھی تک اپنی شناخت وپہچان بنانے
کی کشمکش میں پڑے ہوئے ہیں، تشدد کے نتیجے میں رونما ہونے والی شورشوں اور ہنگامہ آرائیوں
کے ماحول میں ایک تشکیلاتی سیاسی نظریہ پروان چڑھتا ہے۔ ان کے لیے، غیر مصالحتی عسکریت
پسند نظریات، ٹوٹ پھوٹ کے شکار معاشرے کو تعلق اور رہنمائی کے ذرائع بنا دیتے ہیں۔
اس طرح جنگ نسلوں تک بنیاد پرستی کو زندہ رکھتی ہے اور یکے بعد دیگرے نوجوانوں کو بنیاد
پرستی کی آگ میں جھونکتی رہتی ہے، اور انہیں معاشرتی طور طریقوں اور آپسی تعاون سے
دور کر دیتی ہے، جو کہ ایک مستحکم معاشرے کی تعمیر کے لیے ایک ضروری عنصر ہے۔ تشدد
اب نوجوانوں کے اندر بھی، نسلوں تک فاسد اور متنازعہ فیہ افکار و نظریات کی ابلاغ و
ترسیل کا سبب بن رہی ہے۔
تنازعات اس سماجی تانے بانے کو
بھی تباہ کر دیتے ہیں جس پر معاشروں کا انحصار ہوتا ہے، اور ان کے درمیان باہمی اعتماد
کا بندھن بھی تار تار ہو جاتا ہے، جو کبھی ایک دوسرے پر منحصر ہوا کرتے تھے۔ اچانک
جنگ سے پیدا ہونے والا یہ خوف اور خراب تعلقات کا ماحول، دو بدو جنگ کے ختم ہونے کے
ایک طویل عرصے کے بعد بھی، آپسی مفاہمت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتا رہتا ہے۔
رابرٹ پٹنم کے مطابق "social
capital معاشرتی سرمایہ" یعنی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور باہمی خیر سگالی
کے ماحول میں یہ درار، افراد کے درمیان چھوٹے بڑے پیمانے پر پیدا ہو جاتی ہے۔ دونوں
صورتوں میں، بین معاشرتی تعلقات کا ملبہ، باہمی تعلقات کے بنیادی ڈھانچے کو کمزور کر
دیتا ہے، جو کہ تصادم کے خاتمے کے بعد، مستحکم اور باہمی تعاون پر مبنی تعلقات کی تشکیل
نو کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ تصادم کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار معاشرہ نفسیاتی اور
سیاسی طور پر ایک دوسرے سے بہت زیادہ دور ہو جاتا ہے، اور کسی جامع پالیسی کے ذریعے
مشترکہ شہریت کی بنیادوں پر اس کی از سر نو تعمیر کرنا مشکل ہوتا ہے۔ معاشرتی صدمے،
نفسیاتی طور پر ایسے تجربات کے ذریعے عرصہ دراز تک باقی رہتے ہیں، جن کی بدولت مفاہمت
کی خواہش کبھی سر اٹھا ہی نہیں پاتی۔
اسی طرح، چونکہ جنگ کے دوران اسٹریٹجک
تخمینے پولرائز کرتے ہیں، اس لیے فریقوں کے پاس تعاون پر مبنی حل کی گنجائش کم رہتی
ہے، کہ پسماندگی کی وجوہات کا حل پیش کیا جا سکے، جو کہ بسا اوقات تشدد کی وجہِ اولین
ہوتی ہے۔ اب اعتدال پسندی کی گرفت کمزور ہو جاتی ہے، جبکہ عسکریت پسندی ٹوٹ پھوٹ کے
شکار سیاسی ماحول پر حاوی ہو جاتی ہے۔ انسدادی اقدامات کے لیے باہمی تعاون کے راستے
کا بند ہو جانا، جنگ کے بعد مل جل کر مسائل کو حل کرنے اور محبت و ہم آہنگی کی فضا
قائم کرنے کو ناممکن بنانے کے لیے کافی ہے۔ جب سفارت کاری اور حکمت عملی جنگ اور تشدّد
کی جگہ لے لیتی ہے، تو داخلی اور خارجی دونوں سطح پر معاشرہ منقسم ہو جاتا ہے اور بین
الاقوامی عناصر بھی اختلاف و انتشار کا شکار، نفسیاتی طور پر صدمے اور سیاسی طور پر
ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، تو ان صورتوں میں مشترکہ خوشحالی اور شہری حقوق کی بازیابی
کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اور جنگ کے بعد باہمی تعاون کے ذریعے فروغِ امن کی کوششیں
طرح طرح کی رکاوٹوں اور پریشانیوں کے باعث مسدود ہو جاتی ہیں۔
اگرچہ، طاقت کے سہارے فوری طور
پر جنگ کی صورتحال ختم کی جا سکتی، لیکن اس کے نتیجے میں نسلوں کے اندر جو بنیاد پرستی
کا زہر پیدا ہوتا ہے، اس کے سبب اس کے اثرات دن بدن گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں، سماجی
ہم آہنگی میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے، اور مفاہمت پر مبنی سیاست دم توڑتی ہوئی نظر آتی
ہے۔ نفسیاتی طور پر لوگوں کے اندر اور تمام سیاسی نظاموں میں تنازعات کی فضاء پیدا
کرنے سے، اسی سماجی تانے بانے کو تار تار کر کے، جس پر قیام امن کی امیدیں ٹکی ہوتی
ہیں، خود جنگ، مستقبل کے تنازعات کی بیج بو دیتی ہے۔ باہمی تعاون پر مبنی حکمت عملی
کے ذریعے ایک جامع احتیاطی تدبیر کی تشکیل سے، کہ جس میں معاشرتی لچک کو ترجیح حاصل
ہو، کچھ کام بن سکتا ہے، بجائے عارضی فتوحات کے، جن سے جنگ کے بعد، استحکام میں رکاوٹ
پیدا کرنے والے گہرے نقصان دہ نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا، طاقت کے استعمال سے موجودہ
دشمن تو زیر ہو جاتے ہیں، لیکن عدم تشدد سے تباہ کن بنیاد پرستی، سماجی درار اور من
مانی پالیسی سازی کا راستہ بند کیا جا سکتا ہے، اور تباہ کن سیکنڈ-آرڈر ایفکٹ کے ذریعے
نسلوں تک جنگوں کے تسلسل کو روک کر جنگوں کا سلسلہ ختم کیا جا سکتا ہے۔
English
Article: The Lingering Costs of Violence
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism