New Age Islam
Tue May 13 2025, 01:46 AM

Urdu Section ( 21 Jun 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Liberal Islam Rendered Irrelevant by Liberal Muslims لبرل اسلام کو لبرل مسلمانوں نے غیر افادیت بخش بنا دیا

مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

 15 جون 2023

 نام کتابWho Killed Liberal Islam

 مصنف: حسن سرور

 ناشر: روپا پبلیکیشنز، نئی دہلی، انڈیا

 اشاعت کا سال: 2019

 صفحات: 234، قیمت: 595 روپے

 آئی ایس بی این: 9789353335939

 -------

 لبرل ازم نشاۃ ثانیہ کی ایک روشن خیال قدر رہی ہے۔ نشاۃ ثانیہ کی جڑیں الحاد میں اور ہر اس چیز میں ہے جو مذہب کے خلاف ہے۔ لبرل ازم، مذہب کے متوازی کسی شئ کے طور پر بنایاش کیا گیا ہے۔ لہٰذا، کسی مسلمان کو لبرل کہہ کر تنقید کا نشانہ بنانا اسے مذہب کی قانونی حیثیت کے استحقاق سے محروم کرنا اور اسے بے دین قرار دینا ہے۔ اس اصطلاح کا ملاؤں اور قدامت پسند علمائے نے اس قدر غلط استعمال کیا ہے کہ بہت کم مسلمانوں میں خود کو لبرل کہنے کی ہمت ہوگی۔ اس کے علاوہ، لبرل ازم کی روح آزادی ہے اور اگر قانون کے ذریعے پابندیاں نہ ہوں نہ تو لذت پرستی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ کسی بھی ضابطہ اخلاق کی طرح مذہب کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں، اور لبرل ازم کے بھی اپنے کچھ اصول ہیں۔ لیکن یہ اصول عام مسلمانوں کے ذہنوں میں گئے ہیں، مثلاً جنسی بے راہ روی کی حمایت اور حوصلہ افزائی، بغیر پابندیوں کے آزادی، مادیت پرستی، زیادہ سے زیادہ لذتوں کا حصول اور خدا کے خلاف بغاوت۔

 کیا لبرل ازم اور اسلام ایک ساتھ پائے جا سکتے ہیں؟اس سوال پر بحث ہوتی رہی ہے اور ہمارے ہاں اس پر علماء کے متضاد اور مختلف خیالات ہیں۔ کچھ کے لیے وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں، کچھ کے نزدیک وہ بعض استثناء کے ساتھ ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں اور کچھ کے نزدیک ان میں بالکل ہی کوئی مطابقت نہیں ہے اور انہیں ملایا نہیں جا سکتا۔ ایک تجربہ کار صحافی اور ترقی پسند مسلمان حسن سرور نے اپنی نئی کتاب، Who Killed Liberal Islam، میں اس پر کچھ خامہ فرسائی کی ہے۔ جیسا کہ عنوان سے پتہ چلتا ہے، حسن سرور اسلام کو لبرل مانتے ہیں اور اس اہم سوال پر تحقیق کرتے ہیں، اور ان وجوہات اور عوامل کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان پر غور و خوض کرتے ہیں جو لبرل اسلام کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔ بنیادی طور پر مسئلہ لبرل مسلمانوں کی شناخت اور ان لوگوں کی صداقت کی تصدیق کا ہے جنہیں عام طور پر مسلمانوں میں لبرل اور ترقی پسند چہرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ حسن سرور، تعارف میں لکھتے ہیں، "میں ایسے مسلمانوں کی صداقت پر سوال اٹھاتا ہوں جنہیں عام طور پر معاشرے کے لبرل اور ترقی پسند عوامی چہرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہاں وہ لبرل ہیں لیکن مسلمان؟ (ص-xv)

 اس سوال کی مزید تحقیقات کرتے ہوئے، حسن سرور چاہتے ہیں کہ قارئین اس بات کو سمجھیں کہ لبرل لوگوں نے کیا کیا ہے، "کتاب کا اصل مقصد یہ بیان کرنے کی کوشش کرنا ہے کہ بائیں بازو کے مسلم دانشوروں کو مسلم معاشرے کے لبرل لیڈر کے طور پر پریڈ کیا- اور وہ ایسے مسلمان جو اخبارات میں لکھتے ہیں، ٹی وی پر شریعت کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں، در حقیقت ایسے ہی لوگوں نے مسلم لبرل ازم کے مقصد کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ وہ تبدیلی کے ٹھیکیدار نہیں ہیں۔ اس کے برعکس، شریعت اسلامیہ کے مخالف کے طور سامنے آنے کر، انہوں نے معاشرے کے چند اعتدال پسندوں کو کمزور کیا ہے جو حقیقی تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔" (ص-xvi-xvii)

 سورور کے نزدیک اسلام کو لبرلائز کی بحث یہ ہے، "میری کتاب کا مرکزی کردار ہندوستانی مسلمان ہیں، میں اسلام کو لبرلائز کرنے کے حوالے سے وسیع تر عالمی بحث کو بھی دیکھتا ہوں۔ تاریخی مباحثوں اور تحریروں پر روشنی ڈالتے ہوئے، میں معمول کے مطابق کیے جانے والے اس دعوے کی مخالفت کرتا ہوں کہ ایک تاریخی طور پر لبرل اور روادار مذہب کو انتہا پسندوں نے ’اچانک‘ ہائی جیک کر لیا ہے، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ کس طرح اسلام اپنی تاریخ کے اوائل دور میں ہی سخت گیر لوگوں سے ہار گیا۔ (ص-xix)

 حسن سرور، ہندوستانی مسلم لبرلوں کی فکری بزدلی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں، جو زیادہ تر معاملات میں خود کی ہی تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جبکہ زیادہ تر اہم مسائل پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ وہ کم سے کم مزاحمت کا راستہ بھی اختیار کرتے ہیں۔ حسن سورور کے لیے لبرل مسلمان مصطفیٰ کمال اتاترک اور رضا شاہ پہلوی ہیں، جنہوں نے ترکی اور مصر کے قدامت پسند اور مذہبی معاشروں میں جارحانہ سیکولرازم کا فیصلہ کیا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے ایسے لبرل برانڈ کو اپنایا جائے، نہ کہ خود سے نفرت اور بزدلی پر مبنی لبرل ازم کو۔ کمیونسٹ انقلاب کی آمد کے بعد، جس کا اثر مسلم معاشروں پر بھی پڑا، ملاؤں اور مارکسسٹوں کے درمیان تقسیم واضح ہو گئی، حالانکہ اب وہ حالات نہیں رہے۔ مسلم مارکسسٹوں نے سماجی اصلاحات کا سلسلہ شروع کرنے کی کوشش کی، لیکن اب مسلمانوں میں اصلاحات کے بارے میں بہت کم بحث یا جوش و خروش پایا جاتا ہے، کیونکہ شناخت سے متعلق مسائل پر زیادہ توجہ دینے کی وجہ سے یہ مسائل فراموش کر دیے جاتے ہیں۔

 یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی ایک رنگ برنگ تاریخ رہی ہے، جہاں سے لبرل اور انتہا پسند دونوں ہی چند واقعات کو اپنے حساب سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ ایک ایسا بیانیہ تیار کیا جائے جو ناقص اور غیر جامع ہو۔ آزاد ہندوستان میں ایک بڑا واقعہ، جس نے سیکولرازم اور لبرل ازم جیسی آئینی اقدار کو مجروح کر دیا، 1992 میں بابری مسجد کا انہدام تھا۔ بابری مسجد انہدام کے بعد مسلمانوں کی تحمل و برداشت کو لبرل ازم کا آغاز ماننا سراب ہے۔ انہوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور بڑے پیمانے پر پرتشدد ردعمل کا اظہار نہیں کیا کیونکہ ان کے پاس صبر کرنے اور ردعمل ظاہر نہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ اگر وہ پرتشدد ردعمل کا اظہار کرتے تو یقیناً اس کا نتیجہ ان کی نسل کشی کی صورت میں نکلتا۔بعض اہل علم کے مطابق لبرل ازم کی طرح سیکولرازم بھی اسلام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، لیکن سبھی ایسا نہیں مانتے۔ لہٰذا جو مسلمان اسلام چھوڑ دیتے ہیں، وہ مرتد ہو جاتے ہیں اور ارتداد کی سزا موت ہے۔ اس سزا کو ختم کر دینا چاہیے کیونکہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ مذہبی ظلم و ستم کا دور ختم ہو چکا ہے۔ کسی کو بھی عقائد کے کسی ایک مجموعہ پر یقین کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہئے، چاہے وہ اسلام ہی کیوں نہ ہو۔ حسن سرور اور دیگر قلمکار جنہوں نے لبرل ازم اور اسلام کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، ڈاکٹر اصغر علی انجینئر، پروفیسر آمنہ ودود اور ڈاکٹر راشد شاز جیسے معاصر مسلم مصلحین کا ذکر کرنے سے گریز کیا ہے۔ نیز شراب کو ایسی چیز کے طور پر پینے کی تلقین کرنا جسے خلفاء، علماء پیتے تھے اسے حلال، با شرع اور حلال نہیں بناتا (ص-128)۔ حسن سورور کی ترجیحات غلط لگتی ہیں، کیونکہ لبرل مسلمان ہونے کا مطلب شرابی ہونا نہیں ہے۔

 ایک ترقی پسند ویب سائٹ کے چیف ایڈیٹر، مسٹر سلطان شاہین اپنے مضمون میں لکھتے کرتے ہیں کہ ہندوستان میں لبرل مسلمانوں کو کس طرح برداشت کیا جاتا ہے، اور وہ جماعت اسلامی کی منافقت کو بھی بے نقاب کرتے ہیں، جو پاکستان میں اقلیتوں کے بارے میں خاموشی اختیار کرتی ہے۔ ہندوستان میں چونکہ مسلمان اقلیت میں ہیں اور جب مسلم اقلیت پر کوئی حملہ یا ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتے لیکن جب کسی مسلم اکثریتی ملک میں غیر مسلم اقلیت کے خلاف ایسا ہی کوئی حملہ ہوتا ہے تو اسلامی تنظیمیں ایسے مظالم پر آنکھیں بند کر لیتی ہیں۔ آخر میں، لبرل مسلمانوں کے ہاتھوں لبرل ازم کی ناکامی کے اسباب کی چھان بین کرتے ہوئے، یہ بیان کیا گیا ہے، ’’جزوی طور پر تکبر اور جزوی طور پر نادانی میں، انھوں نے معاشرے کو سمجھے بغیر بڑے مصلحین کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ ان کی گھٹیا روش کا خاصا ہے اور اس نے مسلم لبرل ازم کو تقریباً اتنا ہی نقصان پہنچایا ہے جتنا کہ ملاؤں نے۔ ان کی طرف سے شریعت اسلامیہ کا شدید رد اور ان سے اختلاف کرنے والے ہر شخص یعنی تقریباً ہر باعمل مسلمان کو بنیاد پرست قرار دینے کے ان کے رجحان نے عام مسلمانوں کی نظر میں، بشمول اصلاح پسندوں اعتدال پسندوں کے، لبرل لوگوں پر اعتماد کھو چکے ہیں۔ اور لبرل ازم کو خود مسلم شناخت کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ (ص-178-179)

 کتاب میں کچھ خامیاں ہیں، جیسا کہ مصنف کا خیال ہے کہ شاہ ولی اللہ اور ان کی تحریک اپنے رجحان کے اعتبار سے وہابی تھی (ص-57)۔ وہابی کی اصطلاح کی تشکیل برطانوی استعماریت کے دور میں ہوئی۔ حسن سورور کا ان کی تقلید کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ کتاب شاندار ہے، اور مختلف علماء کے لکھے ہوئے مضامین بھی کثرت رائے کو سامنے لاتے ہیں۔

English Article: Liberal Islam Rendered Irrelevant by Liberal Muslims

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/liberal-islam-irrelevant-muslims/d/130041

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..