غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
پہلی قسط میں نے ہم نے حضور خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کے مکتوب اول کے پہلے موضوع کلمہ طیبہ کی حقیقت کا مطالعہ کیا۔ اب ہم اسی مکتوب اول کے اگلے موضوع نماز کی حقیقت کو پیش کریں گے ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی قدس اللہ سرہ اپنے خلیفہ ارشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے نام اپنے مکتوب اول میں نماز کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
نماز کی حقیقت
نماز حقیقی کے متعلق حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ، اے عمر (رضی اللہ عنہ )! لا صلوۃ الا بحضور القلب ، یعنی نماز حقیقی سے مومن کامل اور عارف الہی کا حضور ی دائمی حاصل ہوتی ہے ۔
نیز حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : نماز دو قسم کی ہوتی ہے ۔ایک نماز علما و فقہا ظاہری اور زاہد ان خشک کی ، جو صرف قول و فعل تک ہی محدود ہوتی ہے ، اور اس سے وصال الہی حاصل نہیں ہوتا ۔یہی وجہ ہے کہ اس کی رسائی بھی عالم ملکوت نفسانی تک محدود رہتی ہے ۔دوسری نماز انبیا اور اولیا اور خلفا کی جو حضور قلب سے ادا کی جاتی ہے ۔اس کا ثمرہ وصال الہی ہے اور اس کی رسائی عالم جبروت رحمانی تک محدود ہوتی ہے ۔
اے عمر (رضی اللہ عنہ) ! نماز حقیقی در اصل یہی رحمانی نماز ہے ، ورنہ نماز جو عوام الناس ظاہری طور پر بلا حضور قلب ادا کرتے ہیں ، نہ نماز نفسانی ہے ، رحمانی نہیں ہے ۔
نبی الرحمۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ من صلى صلاة طويلة في المسجد وزين البدن بالعمامة في نظر الخلائق وما كان في قلبه من عجز فهو محجوب ولا صلاة ولا وصال۔ جس کا مطلب ہے کہ علما ظاہر پرست اور صوفیان ریا کار خوب جبہ دستار باندھ کر ظاہری شان و شوکت اور ٹاٹھ بنا کر محض ریا کاری کی نماز پڑھتے ہیں ، ان کے نفوس مغروری اور خود پسندی کی قصر مذلت میں گرے ہوئے ہوتے ہیں ، ان کی نماز کیا حقیقت رکھتی ہے ۔کیونکہ یہ لوگ نفس کے بندے ہیں ، اور نفسانی آدمی در اصل شیطان بقالب انسان ہوتا ہے اور شیطان بالاتفاق کافر اور گمراہ ہے ۔پس نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ ایسے لوگ در حقیقت گمراہ اور کافر ہیں ، انہیں چاہئے کہ کسی مرشد کامل کی صحبت میں رہ کر اپنے دل کو غرور نفسانیت کے خس و خاشاک سے پاک و صاف کریں اور معرفت الہی سے معمور اور آباد بنائیں، تاکہ وہ صحیح معنوں میں انسان بن جائیں اور گمراہی سے نکل کر راہ راست پر آ جائیں ، جب ہی ان کی نماز حقیقی نماز ہوگی اور یہی نماز بارگاہ الہی میں قبولیت کے قابل ہوگی اور خوش قسمتی سے ایسا حقیقی نمازی ہزاروں لاکھوں میں سے ایک آدھ بھی مل جائے تو اس کی خدمت و صحبت اکسیر احمر سے بدرجہا بہتر ہے ۔(مترجم)
یہ گمراہ در اصل بت پرست ہیں اور پھر تعجب ہے کہ یہ اپنی بت پرستی پر نازاں بھی ہیں اور لوگ بھی عجیب کور باطن اور نادان ہیں جو ایسے ریا کاروں کو نمازی شمار کرتے ہیں ۔ایسی بے حقیقت نماز سے کیا فائدہ ؟
حدیث قدسی : الانبياء والأولياء يصلون في قلوبهم دائمون یعنی انبیا علیہم السلام اور اولیا رحمۃ اللہ علیہم ہمیشہ حضور قلب نماز پڑھتے ہیں (یعنی نماز حقیقی)۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صلاة الأنبياء والأولياء حبس الحواس وعدد الأنفاس . یعنی انبیا اور اولیا کی نماز در حقیقت وہ نماز ہوتی ہے کہ جب وہ نماز میں کھڑے ہوتے ہیں ، بلکہ ہر وقت ہی ان کے حواس خمسہ غیر اللہ کے لئے بند ہو جاتے ہیں اور ان کا ایک ایک سانس یاد الہی میں گزرتا ہے ۔وہ اپنے ایک ایک سانس کا خیال و شمار رکھتے ہیں کہ کہیں غفلت میں نہ گزر جائے ، یہی لوگ در اصل نمازی ہیں ۔
اے عمر (رضی اللہ عنہ) ! نماز حقیقی رحمانی ہیں ۔اسی نماز سے وصال الہی حاصل ہوتا ہے ۔
اے عمر (رضی اللہ عنہ) ! انبیا علیہم السلام اور اولیا رحمۃ اللہ علیہم ہمیشہ ذکر خفی میں رہتے ہیں ۔نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ذكر اللسان لقلقة وذكر القلب وسوسة وذكر الروح مشاهدة وذكر الخفي دائما. یعنی زبانی ذکر گویا لقلقہ ہے اور دلی ذکر ایک قسم کا وسوسہ ہے اور روحانی ذکر مشاہدہ الہی کا موجب ہے اور ذکر خفی ہمیشہ ہوا کرتا ہے ۔
اے عمر (رضی اللہ عنہ)! ذکر خفی اور نماز حقیقی ترک وجود ہے ۔(عابدوں کی نماز سجدہ اور سجود پر مبنی ہے )
نماز زاہداں سجدہ سجود است / نماز عاشقاں ترک وجود است
یعنی اللہ عز و جل کے سوا کسی کو موجود نہ سمجھنا اور غیر اللہ کا وجود دل سے بالکل نکال دینا ۔
مومنوں کو عیش اس دنیا کا رب / دے چکا لطف و کرم سے اپنے سب
کھانا پینا پہننا عیش و سرور / سب حلال ان پر ہوئے اے ذی شعور
بیویاں بھی چار رکھ سکتے ہیں وہ / مال و زر بسیار رکھ سکتے ہیں وہ
ہر طرح سے عیش و راحت ہے روا / شرعا ان کے واسطے اے خوش ادا
فرق لیکن کیا ہے اتنا فرق ہے / یعنی جو دنیا میں بالکل غرق ہے
وہ بظاہر گو کرے روزہ نماز / پر نہ ہو باطن میں کچھ سوز و گداز
بے دلی سے گر کر کرے طالب ذرا / پر نہیں ہے دل میں نور کبریا
اس کا دیں بھی محو دنیا وہ گیا / خواب غفلت میں وہ بالکل سو گیا
اہل دین کا کار دنیا بھی ہے دیں / وہ کریں گے کار دنیا بہر دیں
اس کی کیا ہے انتہائے آرزو / یعنی دنیا حاصل ہو دے زشت رد
ان کا کیا مقصود ہے کیا منتہا / یعنی حاصل ہو لقائے کبریا
مال ہوا اولاد ہوا اسباب ہو / سونے چاندی بی بی سے دل شاد ہو
پر ہو دل میں ہر گھڑی حب خدا / جام دل ہو نور وحدت سے بھرا ہوا
(ماخوذ از اسرار حقیقی ، اردو رترجمہ مکتوب حضرت سلطان الہند رحمۃ اللہ علیہ ، اکبر بک سیلرز ، ستمبر ۲۰۰۴ )
URL for Part-1: https://www.newageislam.com/urdu-section/letters-khawja-gharib-nawaz-hadrat-part-1/d/114894
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism