گریس مبشر، نیو ایج اسلام
12 دسمبر 2022
ہر ملک کی اپنی اپنی مختلف
آراء ہیں، سب نے مختلف احادیث سنی ہیں اور ان میں سے ہر ایک نے اصحاب رسول اور ان
کی اولاد میں مختلف قسم کے قانونی نظریات کے مطابق زندگی گزاری ہے۔ ان کے خیالات
کو رد کرنا مناسب نہ ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ لوگ جیسے کام کرتے ہیں ویسے ہی کریں، اور
ہر ایک علاقے کو جو اصول ملے ہیں وہ اسی کے مطابق قانون بنائیں، اور انہیں ان کے
اپنے طریقے پر چھوڑ دیا جائے۔"
"عباسی خلیفہ ابو
جعفر المنصور سے وزیر اور ماہر ادیب ابن المقفہ نے انتظامی شفافیت کے لیے شرعی فقہ
میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے ایک سول لا کوڈ وضع کرنے کو کہا۔ خلیفہ منصور نے
انتظامیہ کی درستگی کے پیش نظر اس طرح کی رائے کو سنجیدگی سے لیا۔ اور ابن مالک کی
'موطا' کو ایک قانون کی کتاب میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا جو اس وقت کی سب سے
زیادہ درست طریقے سے بطور فقہی کتاب کے مرتب کی گئی تھی۔ خلیفہ منصور نے موطا کے
مصنف امام مالک سے حج کے دوران یہ درخواست کی کہ: میری خواہش ہے کہ آپ کی اس کتاب
کی نقل ہر بستی میں بھیجوں اور جو کچھ اس میں ہے اس کی وجہ سے ان کو حکم دوں کہ اس
کے احکام کو قبول کرو۔ آپ مدینہ سے ہیں اور مدینہ کا علم مستند ہے۔'' خلیفہ کے
مطالبے کو رد کرتے ہوئے امام مالک نے جواب دیا: ''امیر المؤمنین، آپ کو ایسا نہیں
کرنا چاہئے، ہر ملک کی اپنی اپنی مختلف آراء ہیں، سب نے مختلف احادیث سنی ہیں اور
ان میں سے ہر ایک نے اصحاب رسول اور ان کی اولاد میں مختلف قسم کے قانونی نظریات
کے مطابق زندگی گزاری ہے۔ ان کے خیالات کو رد کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ
لوگ جیسے کام کرتے ہیں ویسے ہی کریں، اور ہر ایک علاقے کو جو اصول ملے ہیں وہ اسی
کے مطابق قانون بنائیں، اور انہیں ان کے اپنے طریقے پر چھوڑ دیا جائے۔"
اسلامی شریعت اور سول سوسائٹی
امام مالک کا خلیفہ کے
مطالبے کو رد کرنے اور اسلامی شریعت میں یکسانیت پیدا کرنے اور ایک یکجہت اسلامی
شریعت کی تدوین سے روکنے کی وجہ حکومتی مفادات کو روکنا اور ہر معاملے میں متعلقہ
زمانے اور ملک کے علماء کو اپنے طریقے سے مسائل کو حل کرنے کی آزادی دینا تھا۔ اس
کے بعد، انیسویں صدی تک کسی نے 'اسلامی شریعت' کے نام سے متفقہ قانون کی کتاب یا
تعزیرات کو تیار کرنے کی ہمت نہیں کی۔ بلکہ، یہ متعدد متون، حالاتی تشریحات، سول
سوسائٹی، اور متعدد طریقوں کے ذریعے اسلامی فقہ کی تکثیریت اور عملیت کے ذریعے
وجود میں آیا۔
شریعت کی کثیر جدلیاتی نوعیت
انیسویں صدی کے استعماری طاقت کے مفادات سے ہم آہنگ نہیں تھی۔ شریعت کی لامرکزیت
نوآبادیاتی انتظامیہ کے لیے قابل قبول نہیں تھیں اور انہوں نے اسے اپنے اختیار میں
لانے کی کوشش کی۔ Joseph Shatt , Ignaz
Goldsier ,
اور Snook اس منصوبے کے سرخیل تھے۔
مستشرقین اور مختلف مسلم سرزمینوں کے دوسرے وائسرائیوں نے دعویٰ کیا کہ اسلامی
قانونی نظام غلط ہے اور انہوں نے اصلاح کا مطالبہ کیا۔ شریعت کی سب سے اہم خصوصیت
یہ تھی کہ یہ تاریخ کے کسی بھی موڑ پر ریاستی طاقت کے مفادات کے تابع نہیں رہی ہے۔
شریعت کے احکام ایسے علماء نے وضع کیے جو آزاد اداروں کے طور پر کام کرتے تھے۔
لیکن اس کے برعکس، یورپی اقوام میں، قوانین حکمران طبقے کی طاقت بنے ہوئے تھے۔ اس
لیے یورپی نظام حکومت میں قانون سازی کے نظام ریاست کے ہاتھوں میں رہا۔
شریعت کو سول سوسائٹی میں
ضم کر کے اور ان کی زندگی کے ہر حصے پر اثر انداز بنا کر عمل میں لایا گیا۔ اس لیے
یہ بہت سے معاملات میں ایک ایسا نظام تھا جس کا تعلق ریاست سے زیادہ سول سوسائٹی
سے تھا۔ وائل حلاق کہتے ہیں:
"شریعت کا مطلب مسئلہ
حل کرنے کا طریقہ کار نہیں تھا۔ اس نے معاشرے کے تمام پہلوؤں، معاشی، اخلاقی،
روحانی اور ثقافتی، کو کافی متاثر کیا تھا۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں شریعت جدید قانونی
نظام سے مختلف تھی۔ شریعت جس معاشرے کی خدمت کے لیے تشکیل دی جاتی تھی اسی سے اس
کی تشکیل اور ترقی ہوتی تھی۔ لہذا، عام شہری قانونی نظام سے ہمیشہ واقف ہوتے رہتے
تھی اور شریعت ان کی روزمرہ کی زندگی کا مستقل حصہ بن جاتی تھی۔ فقہاء/مفتی حضرات
معاشرے کو مسلسل قانونی معلومات فراہم کرتے رہتے تھے۔
نوآبادیاتی قوانین اور
کھلا قانونی نظام
فرانز کافکا کی مختصر
کہانی 'Before the Law' میں قانون کو عام لوگوں کے لیے ناقابل رسائی اور ان سے دور بتایا
گیا ہے۔ 'دی ٹرائل' کا مرکزی کردار، جسے نہیں معلوم کہ اسے کس غلطی کی سزا دی گئی
ہے، اور 'Before the Law' میں وہ کردار، جسے یہ جاننے کے لیے قانون کے دروازے پر مرنے تک
انتظار کرنا پڑتا ہے کہ قانون کیا ہے۔ ایک ہی مسئلہ ہے۔ تاہم، اس کی وجہ یہ حقیقت
ہے کہ جدید قانونی نظام معاشرے کی رسائی سے دوری ہوتا ہے۔ معاشرے سے الگ کھڑے
قانون کا بحران، جسے کافکا نے ظاہر کیا ہے، اس وجہ سے شریعت میں پیدا نہیں ہو
سکتا، کیونکہ یہ معاشرے کے ساتھ اس کے تمام پہلوؤں میں مسلسل تعامل کرتا رہتا ہے۔
شریعت کو لوگوں اور قانونی
نظام کے درمیان ایک سماجی اور ذاتی رابطے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا نہ کہ حکمرانی
اور تسلط کا آلہ کار۔ شریعت قانونی مثبتیت پسند ایچ ایل اے ہارٹ کے مشاہدے سے ہم
آہنگ تھی کہ 'قانون کو اس میں موجود سماجی عناصر کی وجہ سے قانونی حیثیت دی جاتی
ہے'۔ خالد ابوالفضل لکھتے ہیں:
"اسلامی فقہ کی بنیاد
یہ اصول تھی کہ قوانین کو انسانی بھلائی، انصاف کے انتظام اور اچھے اور برے کے
درمیان فرق کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔ شریعت ریاست کی طرف سے مقرر کردہ قوانین پر
مبنی جدید سیکولر نظام کے برخلاف، علماء کے ذریعہ نص کی (آزاد) تشریحات پر مبنی
تھی۔ علما کا خیال تھا کہ اس طرح کی تمام تشریحات ایک ہی وقت میں مختلف انداز میں
پیش کی جاتی ہیں، لہذا، وہ سب صحیح ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی قبول کیا جا سکتا
ہے"۔
یورپی قانونی نظام
'کوڈوں' کی شکل میں موجود تھا مثلاً دی ڈچ نیشنل کوڈ، دی بریٹش پینل کوڈ اور دی
نپولین کوڈ۔ لہٰذا ان سب کو مختلف کتابوں میں درج اور متعین کیا گیا اور ان کے نظم
و نسق کے لیے خصوصی عمارتیں بنا کر انہیں معاشرے سے ایک علیحدہ شعبے کی شکل میں
الگ کر دیا گیا۔ لیکن اسلامی تاریخ میں شریعت کے نفاذ، مسائل اور شکایات کا قانونی
حل تلاش کرنے کے لیے کوئی 'خصوصی جگہیں' نہیں تھیں۔ علماء کے گھروں، ضرورت مندوں،
مساجد، بازاروں اور شاہی مجالس میں شرعی احکام پر بحثیں ہوتی تھی۔ اس بات پر روشنی
ڈالنے کے لیے کوئی خاص نص نہیں تھی کہ 'یہ شرعی قانون ہے'۔ اس لیے کہ شریعت میں
کتاب کی اہمیت نہیں تھی، بلکہ اہمیت اس شخص اور ماحول کی دی جاتی تھی جو قانونی
تحفظ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس طرح کے کھلے قانونی نظام کے بارے میں جدید لبرل
اپروچ کو ایک امریکی جج کے الفاظ میں یوں دیکھا جا سکتا ہے: ’’ہم مسلمان قاضیان
نہیں ہیں جو درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے ہاتھ میں کتاب کی تشریح کرتے ہیں اور اسے
قرار دیتے ہیں۔‘‘
جدیدیت اور شریعت: عثمانی
مصر سے اینگلو-محمدی قانون تک کا سفر
مستشرقین اور استعماری
حکام یورپی نظام سے ماوراء اسلامی شریعت کی انفرادیت کو مسترد کرنے کی تجویز دے کر
اسلامی قوانین کو وضع کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے دوسرے مسلم
ممالک میں موجودہ شرعی نظام کو اپنے نظام کی بنیاد پر دوبارہ لکھنے کی کوشش کی۔ اس
طرح اسلامی شریعت کا پہلا باضابطہ ہندوستان میں برطانوی راج کے تحت عمل میں آیا۔
یہ گورنر وارن ہیسٹنگز کی سرپرستی میں ایک ہائبرڈ قانونی نظام تشکیل دے رہا تھا۔
برطانوی مستشرق سر ولیم جونز کے ذریعے وائسرائے کی ہدایت پر برطانوی کمپنی نے مسلم
اور ہندو قوانین کو ایک متفقہ ضابطہ کی شکل میں مرتب کرنے کی کوششیں شروع کیں۔
مسلم قانون کو وضع کرنے کے لیے، حنفی مذھب کی کتاب مرغنی کی ہدایہ جا 1791 میں
چارلس ہیملٹن نے کیا، 1792 میں سراجیہ اور 1865 میں فتاوی عالمگیریہ کا ترجمہ نیل
بیلی نے کیا، جس کی مدد سے 1860 میں 'اینگلو محمڈن لا' تشکیل دیا گیا ہے۔
لیکن اینگلو محمدن قانون
میں، 'اینگلو' کو 'محمدن' قانون پر غالب حاصل تھا۔ اس کے نتیجے میں 1937 کے
استعماری مسلم قانون، 'مسلم پرسنل لا ایپلیکیشن ایکٹ'، کا جنم ہوا، جس نے شریعت کو
خصوصی طور پر ذاتی/سول قانون بنایا۔
20ویں صدی تک نوآبادیاتی
طاقت نے مسلم دنیا میں مالیاتی اور مجرمانہ تعزیری قوانین میں یورپی قانونی نظام
کی بالادستی کو مکمل طور پر قائم کر دیا تھا۔ اس طرح استعماری طاقتوں نے شریعت کو
صرف ذاتی قوانین تک محدود کر دیا۔ 1880 کی دہائی تک، مصر میں شریعت کو وضع کرنے کی
تجویز سامنے آئی، اور قاضیان اسلام اور برطانوی حکام کے ایک گروپ نے حنفی مذہب کے
مروجہ نظریات کو شامل کرتے ہوئے مسلم پرسنل لا کا مسودہ تیار کیا۔ 1930 کی دہائی تک
فرانسیسی حکومت نے اسی طرح مراکش میں ایک شرعی ضابطہ قانون وضع کر دیا تھا۔ اسی
طرح، 1873 میں، جاوا میں ڈچ انتظامیہ کی طرف سے بنایا گیا ضابطہ، جس میں شریعت اور
مقامی رسم و رواج کو شامل کیا گیا تھا، تقریباً ڈچ قومی ضابطہ سے ملتا جلتا تھا۔
پھر، جب شریعت کو نوآبادیاتی
حکام نے مختلف جگہوں پر مرتب کیا تو وہ شریعت کی اہم ترین خصوصیات یعنی تکثیریت کا
رد تھا۔ 'ذاتی شرعی قوانین' نے بہت سی آراء میں سے ایک کو ضابطہ بنایا اور 'افتا'
(قانونی رائے دینے) کے محنت کش عمل کو ختم کر دیا، جو کہ کوئی بھی افسر صرف ایک
کتاب پڑھ کر کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ، نوآبادیاتی حکومتیں ایسے شرعی قانون کو وضع
کرنے میں کامیاب ہوئیں جن پر ریاست کا کنٹرول تھا۔ تاہم، اس عمل نے بہت سے قانونی،
سماجی اور مذہبی بحران پیدا کیے اور اصطلاح شریعت کے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا
لا اسکول کے سربراہ مارک فتحی مسعود کے مطابق مذہبی بنیاد پرستوں کا عروج اور
شریعت کا غلط استعمال نوآبادیاتی حکام کے بنائے ہوئے شرعی نظام سے ملتا ہے۔ ان کا
کہنا ہے کہ شریعت کو ریاست کے اختیار میں لانا بالکل وہی ہے جو ایران، سعودی عرب،
صومالیہ اور نائیجیریا جیسے ممالک میں بنیاد پرستوں نے کیا ہے، جو خود استعماری
مفادات کا نتیجہ ہے۔
امیرہ زہری سنبل نے موجودہ
سیاسی تناظر میں اس نکتے پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ عثمانی دور میں عورت
کے لیے طلاق حاصل کرنا بہت آسان تھا اور خود شریعت میں خواتین کی بھلائی کے لیے
بہت سے امکانات کو نافذ کرنے کی دفعات موجود تھیں۔ لیکن انھوں نے مشاہدہ کیا کہ
نوآبادیاتی دور کے بعد کے مصر میں عورت کے لیے طلاق حاصل کرنا ایک مشکل قانونی عمل
بن گیا ہے اور طلاق صرف اسی صورت میں دی جاتی ہے جب پختہ ثبوت کی بنیاد پر یا شوہر
کے اپنے اقرار سے ثابت کر دیا جائے کہ بیوی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اگرچہ جنسی زیادتی کا شکار خواتین کو ابتدائی جدید شرعی نظام کے تحت تحفظ اور
معاوضہ فراہم کیا جاتا تھا، لیکن نوآبادیاتی نظام کے بعد کے نظام میں انہیں اکثر
ان کے خاندان والے سزا دیتے یا بے رحمی سے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا کرتے تھے۔
اسی طرح صبا محمود نے کتاب 'ریلیجیس ڈیفرنس ان دی سیکولر ایج' میں کہا ہے کہ مصر
میں عثمانی شرعی نظام کے تحت اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا لیکن جدید سیکولر
مصری نظام اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہا ہے۔
فوکلڈین قوانین سے ماورا
شریعت کے امکانات
مشیل فوکو کے نزدیک
'قوانین طاقت کے آلات ہیں'۔ قانون اپنے تمام اداروں اور مواد کے ذریعے طاقت کے
رشتے کو تقویت دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قوانین صرف کچھ اصول یا ہدایات نہیں ہیں،
بلکہ طاقت کا ایک مستقل ارتقائی عمل ہے۔ فوکو کے دلائل پر مبنی نوآبادیاتی ضابطہ
بندی کے بارے میں ابراہیم موسیٰ کی تفہیم حسب ذیل ہے:
"نوآبادیاتی طاقتوں
نے نہ صرف فوجی-سیاسی-اقتصادی طاقت کے ذریعے اقتدار حاصل کیا بلکہ اپنی قانونی
حکمت کو نوآبادیات پر مسلط کر کے بھی حاصل کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد بھی
نوآبادیات انہی استعماری طاقتوں کے قانونی نظام میں پھنسے ہوئے ہیں جنہوں نے ان پر
ظلم کیا"۔
اس لیے شریعت کو یورپی
قانونی نظریات کے لحاظ سے وضع کرنا اور سمجھنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ اسلامی شریعت
مرکزی یورپی قانونی نظام کے برعکس ہے۔ جیسا کہ ڈیریڈا نے 'فورس آف لا: دی میسٹیکل
فاؤنڈیشن آف اتھارٹی' میں والٹر بنجمن کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا ہے، یورپی نظام
میں قانون ہمیشہ 'قانون/ریاست' کی بقا کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد
ہمیشہ 'اس کی اپنی ہی کفالت' ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا مشن 'بغیر کسی بحران کے قائم
شدہ اتھارٹی کو برقرار رکھنا' ہے۔ لہذا، جدید قوانین کی بنیاد ہمیشہ اتھارٹی ہے.
لیکن چونکہ شریعت، اس کے
برعکس، بنیادی طور پر 'سول سوسائٹی کی اخلاقی تشکیل اور حقوق کا تحفظ' کرتی ہے، اس
لیے اس کی بنیادی خصوصیت 'طاقت کی لامرکزیت' ہے۔ اس طرح یہ جدید قوانین کی طرح
اپنے آپ میں کبھی بھی 'مطلق' نہیں رہتا۔ بلکہ، اسلامی شریعت لامرکزی ہے، جو مسلسل
'بننے' کے عمل میں ہے، اپنے آپ کی تجدید کرتی ہے اور اس سے 'بیرونی' سماجی حالات
سے نمٹنے کر معاشرے کی تجدید کرتی ہے۔
English
Article: Legal Pluralism of Islamic Sharia and Colonial
Codification of Indian Muslim Personal Law
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism