جیلانی خان علیگ
9جنوری،2024
بدنام زمانہ بلقیس بانو
اجتماعی عصمت دری اور قتل عام کیس ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ آج عدالت عظمیٰ نے
ایک اہم فیصلہ میں گجرات حکومت کے اس انسانیت سوز اور اخلاقیات سے مبرامذموم فیصلہ
کو پلٹ دیاہے جس کے ذریعہ بی جے پی نے ان 11/ درندوں کو تمام گناہوں کے باوجود
سزائے عمر قید کو معاف کرتے ہوئے رہا کردیاتھا۔سپریم کورٹ کی دورکنی بنچ نے نہ
صرفر اس فیصلہ کو پلٹ کر ان تمام مجرموں کو دو ہفتے کے اندر خود سپردگی کرنے اور
سلاخوں کے پیچھے جانے کا حکم صادر کیاہے بلکہ گجرات حکومت کے خلاف سخت تبصرے بھی
کئے ہیں۔ جسٹس بی وی ناگا رتنا اورجسٹس اجل بھویان پر مشتمل بنچ نے سابق ممبر
پارلیمنٹ سبھا شنی علی، فائر برانڈ ٹی ایم سی لیڈر مہوا موئترا، لکھنؤ یونیورسٹی
کی سابق وائس چانسلر اور سرکردہ سماجی کارکن روپ ریکھا ورما اور صحافی ریوتی لال
کے مفاد عامہ کی عرضی پر یہ فیصلہ سنایاہے۔ عدالت عظمیٰ نے کئی تبصرے بھی کئے ہیں
جو گجرات حکومت کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ نے پورے
معاملہ میں گجرات کی بی جے پی حکومت کے امتیازی رویہ پر سخت پھٹکار لگائی ہے۔بنچ
کاکہناہے کہ مذکورہ حکومت اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے مجرمین سے بھی ملی
بھگت کی بات بھی کہی ہے۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ وہ کچھ مخصوص مجرموں کو
ہی اس پالیسی کا فائدہ کیوں دے رہی ہے۔عدالت کاصاف کہنا ہے کہ جب معاملہ بامبے
ہائی کورٹ کاتھا، جس نے سزائے عمر قید سنائی تھی تو یہ اختیار مہاراشٹر حکومت کو
حاحل تھا کہ وہ اس معاملہ میں کوئی فیصلہ کرتی، مگر گجرات حکومت نے ان مجرموں کو
معافی دے دی جو سنگین جرائم کے مرتکب قرار دیئے گئے تھے۔عدالت نے اپنی اس بنچ کے
فیصلہ پر بھی سوال اٹھایا ہے جس نے گجرات حکومت کے فیصلہ کے خلاف بلقیس بانو کی
عرضی کو مسترد کرتے ہوئے معافی کا فیصلہ کو گجرات حکومت کے دائرہ اختیار میں ہونا
قرار دیا تھا۔ البتہ عدالت نے اس کا جواز کچھ اس طرح پیش کیا کہ اس کی ایک رکنی
بنچ کو غلط اطلاعات کی بنیاد پر گمراہ کیا گیا تھا۔ دراصل سپریم کورٹ نے 11/ دن کی
سماعت کے بعد یہ فیصلہ دیا ہے جسے اکتوبر 2023 ء میں محفوظ کرلیاتھا۔
اس فیصلہ نے ملک میں پھر
گجرات فسادات میں بی جے پی حکومت کے رول اور مابعد اس کے اقدام کو سوالوں کے گھیرے
میں لادیاہے۔ اپوزیشن جماعتیں اور سول سوسائٹی عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کی ستائش کرتے
ہوئے بھاجپا حکومت پر لعن طعن بھیج رہی ہے۔ بی جے پی فی الحال بیک فٹ پر نظر آرہی
ہے مگر اس کی پالیسیوں او رطریقہ کار پر نظر ڈالیں تو یہ اس کے لئے کوئی جھٹکا
نہیں بلکہ اس کی وہ سیاسی فصل کاٹنے کے لئے کوئی نہ کوئی چال چلنے میں شاید کامیاب
بھی ہوجائے۔
یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ
اجتماعی عصمت دری اور قتل عام کے مجرموں کو بی جے پی حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی
مسبھیہ برہمن قرار دیتے ہوئے ان کی معافی کی وکالت کرتی ہے۔ اتناہی نہیں، معافی او
ررہائی کے بعد ان کا اس طرح استقبال کیا جاتاہے جیسے وہ ملک کیلئے کوئی جنگ فتح
کرکے لوٹے ہوں۔ان کی رہائی کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور ان کے
استقبالیہ پروگرام میں سینئر بی جے پی لیڈران مہمان خصوصی او رمہمان ذی وقار بنے
اسٹیج پر موجود ہوتے ہیں۔بی جے پی کی مرکزی قیادت ہو یا ریاستی کسی کے منہ سے
بلقیس بانو کے درد کااحساس تک نہیں ہوتا۔ ’بیٹی بچاؤ،بیٹی پڑھاؤ‘ او رسب کا ساتھ،
سب کا وکاس،سب کا وشواس‘ کا نعرہ دینے والے وزیر اعظم بھی اس معاملہ پر خاموش رہتے
ہیں جب کہ ان کی ریاست میں اقتدار پر قابض ان کی پارٹی اس طرح کا غیر اخلاقی او
رانسانیت سوز فیصلہ ببانگ دہل کرتی ہے۔
ویسے بی جے پی کی مسلم
مخالف پالیسی تو ہمیشہ ہی آئینہ کی طرح صاف رہی ہے۔بلقیس بانو معاملہ بھی اسی
منافرت اور ’ہندو تشٹی کرن‘ کا ایک حصہ ہے۔ یہ یاددلانا بے محل نہیں ہوگا کہ جب
جھارکھنڈ میں مسلم نوجوان کی ماب لنچنگ کے معاملہ میں گرفتار لوگوں کو وہا ں کی
عدالت نے ضمانت دی تھی تب اس وقت کے مرکزی وزیر جینت سنہا نے ان کا پھول مالاؤں کے
ساتھ استقبال کیا تھا۔ جب شور وغل ہوا تو پارٹی ان کی اس مذمو م حرکت کے لئے مذمت
کرنے یاپھٹکار لگانے کی بجائے ان کا دفاع کرتی ہوئی نظر آئی تھی۔
یہ صحیح ہے کہ 1992 ء کی
ایک پالیسی کے مطابق ریاستی حکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ طویل سزا یافتہ مجرمین کو
معافی دے سکتی ہے،مگر کیا اس طرح کے معاملوں میں کوئی سرکار اس قدر بے حسی ہوسکتی
ہے کہ دنیا بھر میں بدنامی کا باعث بنے مقدمے میں تمام اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ
دے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا گجرات حکومت اس سے بے خبر تھی کہ یہ فیصلہ بامبے
ہائیکورٹ کا ہے تو مہاراشٹر حکومت کو اختیار ہے کہ وہ اس پر کوئی حتمی فیصلہ کرتی۔
پورے معاملہ پر غور کیا
جائے توسپریم کورٹ کا یہ تبصرہ بالکل درست لگتا ہے کہ کچھ خاص لوگوں کے لئے مذکورہ
پالیسی کا’آؤٹ آف دے‘ جاکر استعمال کیا جانا حیران کن اور باعث تشویش ہے۔
بہرحال،سپریم کورٹ نے اس حساس معاملہ میں اپنے اہم فیصلہ سے عدلیہ میں شہریوں کے
متزلزل ہورہے اعتماد کو کچھ حد تک بحال رکھاہے۔حالیہ چند مہینوں او ربرسوں، کے
عدلیہ بشمول سپریم کورٹ کے فیصلوں کا جائزہ لیں تو یہ صاف عیاں ہے کہ وہ برسر
اقتدار حکومت کے دباؤ میں لئے گئے ہیں۔ عدالتوں نے سرکار کے حق میں کئی ایسے فیصلے
دئے ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہیں اور ان کا استعمال حکومتی مشینری نے کھلے عام غلط
استعمال کیاہے۔ حالیہ برسو ں میں جمہوریت کو مستحکم کرنے او رشہریوں کے حقوق کی
پامالی روکنے کے لئے عدلیہ سے جب بھی اپوزیشن یا سول سوسائٹی نے رجوع کیا اکثر
وبیشتر انہیں منہ کی ہی کھانی پڑی ہے۔ کبھی ان کے پیٹشن مسترد کردئے گئے تو کبھی
ان کے خلاف فیصلہ سنایا گیا۔
ایک عدلیہ ہی وہ شعبہ رہا
ہے جس پر کچھ حد تک ہی سہی شہریوں کا اعتماد رہاہے، مگر اس نے خود اپنے وقار کو
مجروح کرنے والے کئی فیصلے دئے ہیں۔ جس کی سب سے بہتر مثال بابری مسجد معاملہ ہے۔
کم وبیش یہی صورتحال وارانسی واقع گیان واپی مسجد او رمتھرا کی شاہی عید گاہ
معاملوں میں بھی دکھائی پڑرہی ہے او رملک کی سب سے بڑی اقلیت ہی نہیں دیگر مذاہب
کے ذی شعور لوگ جو ملک کے سیکولر اقدار کی قسمیں کھاتے ہیں، انہیں بھی مایوسی ہاتھ لگی ہے اقلیت مخالف
فیصلوں کے لئے عقیدت اور آستھا کا سہارا عدلیہ لے رہی ہے، جس کا قانون میں کوئی
جواز نہیں۔
اس فیصلہ پر عرضی گزار
روپ ریکھا ورما اپنی خوشی اور فکر کو ’انقلاب‘ سے ان لفظوں میں شیئر کرتی ہیں۔وہ
کہتی ہیں اس فیصلہ سے انصاف قائم ہوا ہے۔ جس طرح مجرم بار بار پیرول پر جیل سے
باہر موج اڑاتے رہے او ربلقیس بانو کو دھمکاتے رہے وہ قابل مذمت ہی نہیں قانون کا
مذاق بھی تھا۔ان مجرموں کے جرم جتنے سنگین اور شرمناک تھے، اتنی ہی شرمناک ان کو
مسلسل بچانے کی کوششیں تھیں۔ ان کی سزا کم کردینا ملک کی پیشانی پر ایک بدنما داغ
تھا۔ آج کایہ فیصلہ یقینا قانون میں یقین او راعتماد بڑھاتا ہے۔ میں اس فیصلہ سے
بہت خوش ہوں اور بلقیس کو اس جیت کے لئے تہہ دل سے مبارکباد دیتی ہوں، ان کی ہمت
کی داد دیتی ہوں۔
بہر حال اس فیصلہ کے بعد
ان تمام 11/مجرموں کو دو ہفتہ کے اندر پھر سے سلاخوں کے پیچھے جانا ہوگا۔ مگر بی
جے پی اور
اس کی حکومتوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہوناچاہئے کہ
مسلمانوں کی مخالفت میں انہیں اس حد تک گرجانادرست ہے؟۔کیا کسی غیر مسلم بالخصوص
ہندولڑکی یا عورت کے ساتھ اس طرح کا گھناؤنا جرم پیش آنے پر بھی وہ ایسی ہی اوچھی
حرکت اور فیصلہ کریں گی؟ یہ ملک کے ان شہریوں کے لئے سوچنے کامقام ہے کہ ایسے
مجرموں کو بھی وہ صرف مذہبی نقطہئ نظر سے دیکھیں گے یا ان کا سماجی بائیکاٹ کریں
گے؟
9 جنوری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism